جاپان اور نوری آباد
جاپانی مصنوعات مشینریاں اپنی پائیداری، مضبوطی اور طویل المدت تک چلتے رہنے کے اعتبار سے دنیا میں اپنا ثانی نہیں رکھتیں
جاپان کے پالیسی ساز جانتے ہیں کہ عوام کو چھوٹے شہروں میں رہائش کی ترغیب دی جائے تاکہ دارالحکومت ٹوکیو سے آبادی کا بوجھ کم ہو۔ باہر رہائش رکھنے کی صورت میں فی بچہ 10 لاکھ ین کی پیش کش کردی گئی ہے۔
اسلامی تعلیمات بھی اسی طرف اشارہ کرتی ہیں کہ بڑے شہروں سے آبادی کا بوجھ کم کرنے کی خاطر چھوٹے چھوٹے شہر آباد کیے جائیں۔
جاپان پاکستان کا مخلص دوست ملک ہے۔ دونوں ممالک کے تعلقات اس عالمی کنسورشیم کا اہم ترین رکن ہے جوکہ مختلف ترقی یافتہ ملکوں اور مالیاتی اداروں نے ترقی پذیر ملکوں کے ترقیاتی پروگراموں کی امداد کی خاطر قائم کر رکھا ہے۔
اس میں 16 ممالک اور ادارے شامل ہیں۔ پاکستان کو امداد ، قرض فراہم کرنے کے سلسلے میں جاپان کا رویہ ہمیشہ دوستانہ اور ہمدردی پر مبنی رہا ہے اور اس سلسلے میں پاکستان کی ضروریات کا خیال رکھا جاتا ہے اور ترقیاتی منصوبوں اور ملکی ترقی کی خاطر قرض و امداد کی فراہمی میں جاپان ہمیشہ پیش پیش رہا ہے۔
اس کے علاوہ اپنے طور پر بھی وقتاً فوقتاً امداد مہیا کرتا رہتا ہے۔ حالیہ دنوں میں سیلاب سے تباہی پر جاپان نے فوری طور پر 7 ملین ڈالر کی ہنگامی امداد فراہم کی۔ اس کے علاوہ قرض کی وصولی کے التوا سے پاکستان کو بڑی ڈھارس ملی کہ اسے سیلاب کے بعد مالی حالت کی ابتری میں تھوڑی سہولت مل گئی۔
پاک جاپان تجارتی تعلقات سے قبل بھی جاپانی مال، جاپانی کپڑے اور مصنوعات کے یہاں کے عوام دل دادہ تھے۔ قیام پاکستان سے قبل جاپانی کپڑے ہر خاص و عام کے لیے انتہائی پسندیدہ ، جاپانی کھلونے لینے کی خواہش ہر بچے کے دل میں مچلتی تھی۔
میڈ ان جاپان کی مصنوعات لوگ آنکھ بند کر کے خریدنے کو ترجیح دیتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ ہم جاپان سے اربوں نہیں کھربوں روپے کی درآمدات کر رہے ہیں۔ جاپان سے ہم بڑی مقدار اور مالیت میں آٹو موبائل اور اس سے متعلقہ مصنوعات، مختلف اقسام کی چھوٹی بڑی مشینریاں، اسٹیل اور اس سے متعلقہ مصنوعات اور بہت سی ایسی مصنوعات و مشینریاں جوکہ ہمیں اپنی ترقی کے لیے مطلوب ہوتی ہیں درآمد کرتے ہیں۔
جاپان بھی ہم سے کاٹن پروڈکٹ، ٹیکسٹائل گڈز اور دیگر کئی اشیا و مصنوعات درآمد کرتا ہے۔ ہماری کل امپورٹ کی مالیت میں جاپان کا حصہ کبھی 4 فی صد اور اب 3 فی صد تک ہے۔ پی بی ایس کی ٹریڈ رپورٹ کے مطابق جولائی تا جون 2022 تک پاکستان نے 4 کھرب 6ارب 41 کروڑ 31 لاکھ روپے کا سامان، مشینریاں، مصنوعات اور دیگر اشیا درآمد کی تھیں۔
جو ہماری کل امپورٹ کا 2.85 فی صد حصہ بنتی ہیں۔ اس طرح جاپان اب پاکستان کے ٹاپ 20 وہ ممالک جن سے زیادہ مالیت کی گڈز امپورٹ کی جاتی ہیں میں جاپان کا نمبر آٹھواں ہے۔ چند سال قبل 2016 اور 2017 میں یہ حصہ تقریباً 4 فی صد کے برابر بھی رہا ہے۔
جاپانی مصنوعات مشینریاں اپنی پائیداری، مضبوطی اور طویل المدت تک چلتے رہنے کے اعتبار سے دنیا میں اپنا ثانی نہیں رکھتیں۔ چند سال قبل تک جاپان چھٹا بڑا ملک تھا جس سے ہم بڑی مالیت کی امپورٹ کرتے تھے۔
جاپان کی ترقی کا ایک راز کاٹیج انڈسٹری پر بھی منحصر ہے۔ گھریلو صنعتیں جاپان کی شان رہی ہیں۔ پاکستان نے بھی جب تک گھریلو صنعتوں کی ترقی و ترویج پر توجہ مرکوز رکھی ملک کی شرح ترقی اور عام آدمی کی آمدن میں اضافے کے علاوہ بڑے پیمانے پر بے روزگاری میں بھی کمی آگئی تھی۔
جاپان کے پالیسی ساز چاہتے ہیں کہ بڑے شہروں پر سے آبادی کا بوجھ کم کرنے کے لیے چھوٹے شہر آباد کیے جائیں اس کے علاوہ گھریلو صنعتوں کو فروغ دیا جائے تو اس سلسلے میں نوری آباد سے سندھ میں صنعتی انقلاب کا آغاز کیا جا رہا ہے تو اس منصوبے پر نظر پڑتی ہے۔
اچھی بات یہ ہے کہ بنیادی سہولتیں یہاں پہلے سے ہی موجود ہیں، کئی عشرے قبل یہ صنعتی زون قائم کیا گیا تھا۔
سندھ حکومت کے جمعرات کو شایع کردہ اشتہار کے مطابق سائٹ نوری آباد فیز III جو 1150 ایکڑ پر پھیلی ہوئی انڈسٹریل اسٹیٹ ہے، اس انڈسٹریل اسٹیٹ سے لاکھوں بے روزگار اور ہنرمند نوجوانوں کو نہ صرف اچھا روزگار مہیا ہوگا بلکہ برآمدات کے ذریعے زرمبادلہ بھی حاصل کیا جاسکے گا۔
اس اقدام سے لوکل صنعت کو بھی فروغ ملے گا۔ملک بھر میں جتنے بھی صنعتی زونز قائم کیے جاتے ہیں ان میں توانائی کا بحران، گیس کی فراہمی اور پانی کی فراہمی ، سڑکوں کی حالت زار اور دیگر بہت سے مسائل کے باعث ناکام ہی ہوتے رہے ہیں۔
صنعت کار جب یہاں پر اپنی انوسٹمنٹ کے لیے پہنچتا ہے تو اس کا شکار سرخ فیتہ، کچھ عجیب رویہ، اپنا حصہ بقدر جثہ اور کرپشن، فائل کی جمودی رفتار اور بے شمار مسائل کے علاوہ انتہائی تکلیف دہ باتوں کے باعث کئی صنعتکار واپس چلے جاتے ہیں۔ اس طرح صنعتی زونز ناکام ہو رہے ہیں جس سے ملکی برآمدات پر نہایت منفی اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔
اسلامی تعلیمات بھی اسی طرف اشارہ کرتی ہیں کہ بڑے شہروں سے آبادی کا بوجھ کم کرنے کی خاطر چھوٹے چھوٹے شہر آباد کیے جائیں۔
جاپان پاکستان کا مخلص دوست ملک ہے۔ دونوں ممالک کے تعلقات اس عالمی کنسورشیم کا اہم ترین رکن ہے جوکہ مختلف ترقی یافتہ ملکوں اور مالیاتی اداروں نے ترقی پذیر ملکوں کے ترقیاتی پروگراموں کی امداد کی خاطر قائم کر رکھا ہے۔
اس میں 16 ممالک اور ادارے شامل ہیں۔ پاکستان کو امداد ، قرض فراہم کرنے کے سلسلے میں جاپان کا رویہ ہمیشہ دوستانہ اور ہمدردی پر مبنی رہا ہے اور اس سلسلے میں پاکستان کی ضروریات کا خیال رکھا جاتا ہے اور ترقیاتی منصوبوں اور ملکی ترقی کی خاطر قرض و امداد کی فراہمی میں جاپان ہمیشہ پیش پیش رہا ہے۔
اس کے علاوہ اپنے طور پر بھی وقتاً فوقتاً امداد مہیا کرتا رہتا ہے۔ حالیہ دنوں میں سیلاب سے تباہی پر جاپان نے فوری طور پر 7 ملین ڈالر کی ہنگامی امداد فراہم کی۔ اس کے علاوہ قرض کی وصولی کے التوا سے پاکستان کو بڑی ڈھارس ملی کہ اسے سیلاب کے بعد مالی حالت کی ابتری میں تھوڑی سہولت مل گئی۔
پاک جاپان تجارتی تعلقات سے قبل بھی جاپانی مال، جاپانی کپڑے اور مصنوعات کے یہاں کے عوام دل دادہ تھے۔ قیام پاکستان سے قبل جاپانی کپڑے ہر خاص و عام کے لیے انتہائی پسندیدہ ، جاپانی کھلونے لینے کی خواہش ہر بچے کے دل میں مچلتی تھی۔
میڈ ان جاپان کی مصنوعات لوگ آنکھ بند کر کے خریدنے کو ترجیح دیتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ ہم جاپان سے اربوں نہیں کھربوں روپے کی درآمدات کر رہے ہیں۔ جاپان سے ہم بڑی مقدار اور مالیت میں آٹو موبائل اور اس سے متعلقہ مصنوعات، مختلف اقسام کی چھوٹی بڑی مشینریاں، اسٹیل اور اس سے متعلقہ مصنوعات اور بہت سی ایسی مصنوعات و مشینریاں جوکہ ہمیں اپنی ترقی کے لیے مطلوب ہوتی ہیں درآمد کرتے ہیں۔
جاپان بھی ہم سے کاٹن پروڈکٹ، ٹیکسٹائل گڈز اور دیگر کئی اشیا و مصنوعات درآمد کرتا ہے۔ ہماری کل امپورٹ کی مالیت میں جاپان کا حصہ کبھی 4 فی صد اور اب 3 فی صد تک ہے۔ پی بی ایس کی ٹریڈ رپورٹ کے مطابق جولائی تا جون 2022 تک پاکستان نے 4 کھرب 6ارب 41 کروڑ 31 لاکھ روپے کا سامان، مشینریاں، مصنوعات اور دیگر اشیا درآمد کی تھیں۔
جو ہماری کل امپورٹ کا 2.85 فی صد حصہ بنتی ہیں۔ اس طرح جاپان اب پاکستان کے ٹاپ 20 وہ ممالک جن سے زیادہ مالیت کی گڈز امپورٹ کی جاتی ہیں میں جاپان کا نمبر آٹھواں ہے۔ چند سال قبل 2016 اور 2017 میں یہ حصہ تقریباً 4 فی صد کے برابر بھی رہا ہے۔
جاپانی مصنوعات مشینریاں اپنی پائیداری، مضبوطی اور طویل المدت تک چلتے رہنے کے اعتبار سے دنیا میں اپنا ثانی نہیں رکھتیں۔ چند سال قبل تک جاپان چھٹا بڑا ملک تھا جس سے ہم بڑی مالیت کی امپورٹ کرتے تھے۔
جاپان کی ترقی کا ایک راز کاٹیج انڈسٹری پر بھی منحصر ہے۔ گھریلو صنعتیں جاپان کی شان رہی ہیں۔ پاکستان نے بھی جب تک گھریلو صنعتوں کی ترقی و ترویج پر توجہ مرکوز رکھی ملک کی شرح ترقی اور عام آدمی کی آمدن میں اضافے کے علاوہ بڑے پیمانے پر بے روزگاری میں بھی کمی آگئی تھی۔
جاپان کے پالیسی ساز چاہتے ہیں کہ بڑے شہروں پر سے آبادی کا بوجھ کم کرنے کے لیے چھوٹے شہر آباد کیے جائیں اس کے علاوہ گھریلو صنعتوں کو فروغ دیا جائے تو اس سلسلے میں نوری آباد سے سندھ میں صنعتی انقلاب کا آغاز کیا جا رہا ہے تو اس منصوبے پر نظر پڑتی ہے۔
اچھی بات یہ ہے کہ بنیادی سہولتیں یہاں پہلے سے ہی موجود ہیں، کئی عشرے قبل یہ صنعتی زون قائم کیا گیا تھا۔
سندھ حکومت کے جمعرات کو شایع کردہ اشتہار کے مطابق سائٹ نوری آباد فیز III جو 1150 ایکڑ پر پھیلی ہوئی انڈسٹریل اسٹیٹ ہے، اس انڈسٹریل اسٹیٹ سے لاکھوں بے روزگار اور ہنرمند نوجوانوں کو نہ صرف اچھا روزگار مہیا ہوگا بلکہ برآمدات کے ذریعے زرمبادلہ بھی حاصل کیا جاسکے گا۔
اس اقدام سے لوکل صنعت کو بھی فروغ ملے گا۔ملک بھر میں جتنے بھی صنعتی زونز قائم کیے جاتے ہیں ان میں توانائی کا بحران، گیس کی فراہمی اور پانی کی فراہمی ، سڑکوں کی حالت زار اور دیگر بہت سے مسائل کے باعث ناکام ہی ہوتے رہے ہیں۔
صنعت کار جب یہاں پر اپنی انوسٹمنٹ کے لیے پہنچتا ہے تو اس کا شکار سرخ فیتہ، کچھ عجیب رویہ، اپنا حصہ بقدر جثہ اور کرپشن، فائل کی جمودی رفتار اور بے شمار مسائل کے علاوہ انتہائی تکلیف دہ باتوں کے باعث کئی صنعتکار واپس چلے جاتے ہیں۔ اس طرح صنعتی زونز ناکام ہو رہے ہیں جس سے ملکی برآمدات پر نہایت منفی اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔