سب کا اپنا اپنا وائٹ
پی ٹی آئی کے وائٹ پیپر اور اسحاق ڈار کی جواب آں غزل میں اپنا اپنا کوا بدستور وائٹ ہے
اب آگے کیا ہوگا؟ اس کی پریشانی واضح تھی لیکن ہم نے انجان بنتے ہوئے پوچھا؛ کیا مطلب؟ کس کا کیا ہوگا؟
اس نے سوال کی مزید وضاحت کی؛ روز ٹی وی پر باتیں ہوتی ہیں کہ ملک ڈیفالٹ کرنے والا ہے۔ مجھے تو ڈیفالٹ کے معنی بھی ابھی پتہ چلے ہیں۔ بچت ہو جائے گی؟ ہم اس کے سوال کی گہرائی پر چونکے۔ جواب دیا؛ حالات مشکل ضرور ہیں لیکن امید ہے کہ ڈیفالٹ سے بچت ہو جائے گی۔
عباس ہمارے سینئر ساتھی کا ڈرائیور ہے۔ سچ پوچھیے تو ہمیں عباس سے اس سوال کی توقع نہیں تھی لیکن اس کی دلچسپی اور پریشانی نے ہمیں مزید حیران کر دیا۔
ہمارے جواب سے اس کی تشفی نہیں ہوئی، سر یہ بتائیں کہ اگر ڈیفالٹ ہو جاتا ہے تو بینکوں میں رکھا ہوا پیسہ تو واپس مل جاتا ہے ناں؟ ہمارا کلیجہ دھک سے رہ گیا۔
ہم نے ڈیفالٹ کے بہت سے پہلوؤں پر پڑھا، لکھا اور بات چیت بھی کی لیکن یہ نکتہ ذہن میں نہ آیا ، یا شاید رجائیت پسندی کہ اس طرف ذہن جانے سے کترایا لیکن عباس ڈرائیور کے اس سوال نے یہ حقیقت مزید آشکار کر دی کہ اکونومی کی سوجھ بوجھ کے لیے سیکریٹیریٹ کا بابو یا نامی گرامی اکاؤنٹنٹ ہونا ضروری نہیں۔
اور کیوں نہ ہو؟ ڈیجیٹل اور سوشل میڈیا پر سیاسی مخالفین ایک دوسرے پر پوائنٹ اسکورنگ کا کھیل ہر روز کھیلتے ہیں۔ اکونومی میڈیا کا پسندیدہ موضوع نہیں ہے لیکن مخالفین کے ایک دوسرے کو رگڑنے کے لیے اس کا سادہ بیانیہ جادو دکھا رہا ہے۔ ڈیفالٹ لفظ میں اتنی دہشت ہے کہ بھلے چنگے آدمی کو بھی ایک بار تو جھٹکا ضرور لگتا ہے۔
اس لفظ سے جو سنسنی پیدا ہوتی ہے وہ آجکل جاری دوسرے موضوعات میں کہاں، دوسری طرف ہر علم میں طاق اینکرز سرِ شام اربوں ڈالرز کا زائچہ بنا بنا کر بتاتے ہیں کہ اب اکونومی کا کہاں کہاں لگن ہوگا؟ گرہن کس گھر میں پاؤں پسارے گا؟ اور کس گھر کو ساڑھ ستّی کا سامنا ہے۔ یوں پولیٹیکل اکونومی جیسا خشک موضوع سیاسی ضرورت کے سبب دسویں جماعت کے گائیڈ پیپر کی طرح ایزی بن گیا ہے۔
رواں ہفتے پی ٹی آئی نے ایک وائٹ پیپر جاری کیا ، خلاصہ جس کا یہ تھا کہ جس طرف آنکھ اٹھتی تھی بہاراں ہی بہاراں تھا ، اونٹ تک کی ہر کَل سیدھی چل رہی تھی۔ جی ڈی پی گروتھ تاریخ کی بلند ترین سطح پر تھی، برآمدات پہلی بار 30 ارب ڈالرز سے زائد رہیں۔
بیرونی ترسیلات زر میں مسلسل اضافہ ہوا، مہنگائی میں اضافہ ہوا مگر مقابلتاً بہت کم۔ بیرونی ذخائر میں اضافہ ہوا۔ ڈالرز کے بھی یوں لالے نہ پڑے تھے لیکن جانے کیوں بیٹھے بٹھائے ایسی مضبوط حکومت کو رجیم چینج کے ذریعے چلتا کر دیا گیا۔ آخر کیوں؟حکومتی ترجمان نے اگلے ہی لمحے پی ٹی آئی کا وائٹ پیپر بالکل بلیک ثابت کیا ، دوسرے دن ن لیگ کے چار پانچ ٹاپ وزراء نے وزیر خزانہ کی سربراہی میں جوابی پریس کانفرنس کی۔
لب لباب یہ تھا کہ جھوٹ تھا جو کہا گیا ، خواب تھا جو سنایا گیا۔ اسحاق ڈار کو یقین ہے کہ جون 2023تک اکونومی کے بے چین دل کو قرار آ جائے گا۔ دوست ممالک کی دوستی میں ابھی اتنی گنجائش ہے کہ اپنے خزانے کا منہ کھولیں۔
چین اور سعودی عرب کی طرف سے جنوری کے آخر تک مالی کمک پہنچنے کا امکان ہے۔ آئی ایم ایف کے ساتھ بھی معاملات اسحاق ڈار کی شرائط پر نہ سہی لیکن طے پاجائیں گے۔ رہی بات پی ٹی آئی کے وائٹ پیپر کی تو وہ سراسر سلیکٹڈ اعدادوشمار کا کھیل ہے۔ آپ ہمارا کھیل دیکھیں ، جون تک راوی کو سکھ چین لکھتا ہوا پائیں گے۔
سیاست میں صرف اپنا کوا ہی سفید ہوتا ہے، باقی سب کالا ہی کالا۔ اعدادوشمار کی بھی کیا کہیں، اعدادوشمار کا چناؤ، تقابل اور اس سے بُنی کہانی اپنی اپنی ضرورت کے مطابق الگ الگ ہو سکتی ہے۔
پی ڈی ایم مصر ہے کہ اپریل میں ملک ڈیفالٹ کرنے والا تھا ، وہ اگر چلتے ہوئے حکومتی بیلن میں ہاتھ نہ دیتے تو ملک ڈیفالٹ کر جاتا۔ اب پی ڈی ایم حکومت کے اپنے اعدادوشمار دہائی دے رہے ہیں کہ اکسٹرنل انڈیکیٹرز کی سوئی ڈیفالٹ کی سرخ لائن پر ہے لیکن پی ڈی ایم کا اصرار ہے کہ اس نے اپریل میں بالکل صحیح اقدام اٹھایا تھا۔
جولائی دسمبر کے افراطِ زر کے اعدادوشمار قصہ کچھ یوں بیان کرتے ہیں کہ گزشتہ سال اسی عرصے کے مقابلے پر اوسط افراطِ زر 25% رہا ۔ اوسط کا چھلکا چھیل کر دیکھیں تو دیہی علاقوں میں یہ اوسط 28% جب کہ شہری علاقوں میں21.6% رہی۔ سب سے زیادہ اضافہ فوڈ آئٹمز میں ہوا۔
وزیر خزانہ کا خیال ہے کہ پونے چھ ارب ڈالرز کے فارن ریزرو کے ساتھ بھی وہ ' مینیج'( Manage) کر لیں گے۔ ان کے وائٹ پیپر سی گفتگو کا خلاصہ یہ تھا کہ پی ٹی آئی کے ہونے سے ہی یہ سب کچھ ہوا ہے، نہ ہوتی پی ٹی آئی تو یہ نوبت ہی نہ آتی۔
بھارت میں بھی سیاسی تشریحات کا کچھ ملتا جلتا منظرنامہ ہے۔ بھارت کے ایک معروف ایڈیٹر ونود مہتہ اپنی کتا ب Editor Unpluggedمیں لکھتے ہیں کہ ٹاک شوز اور سیاسی پریس کانفرنسوں کا مسئلہ یہ ہے کہ سب فریق کسی بھی مسئلے کو فقط بلیک اینڈ وائٹ دکھانے پر کمر بستہ رہتے ہیں۔
ان کے خیال میں گورننس اور حکومت کے بیشتر مسائل کی جڑیں بلیک اینڈ وائٹ میں کم اور درمیانی شیڈ یعنی Shade Grey میں زیادہ ہوتی ہیں۔ مسئلہ وقتی پوائنٹ اسکورنگ، اپنی غلطی نہ ماننے اور مخالفین پر ہر الزام بالالتزام تھوپنے کی عادت ہے۔
یہی وجہ ہے کہ پی ٹی آئی کے وائٹ پیپر اور اسحاق ڈار کی جواب آں غزل میں اپنا اپنا کوا بدستور وائٹ ہے مگر عباس کی پریشانی اپنی جگہ پر ہے کہ ڈیفالٹ کی صورت میں عوام کو بینک میں جمع شدہ اپنا پیسہ واپس مل جاتا ہے یا نہیں!
اس نے سوال کی مزید وضاحت کی؛ روز ٹی وی پر باتیں ہوتی ہیں کہ ملک ڈیفالٹ کرنے والا ہے۔ مجھے تو ڈیفالٹ کے معنی بھی ابھی پتہ چلے ہیں۔ بچت ہو جائے گی؟ ہم اس کے سوال کی گہرائی پر چونکے۔ جواب دیا؛ حالات مشکل ضرور ہیں لیکن امید ہے کہ ڈیفالٹ سے بچت ہو جائے گی۔
عباس ہمارے سینئر ساتھی کا ڈرائیور ہے۔ سچ پوچھیے تو ہمیں عباس سے اس سوال کی توقع نہیں تھی لیکن اس کی دلچسپی اور پریشانی نے ہمیں مزید حیران کر دیا۔
ہمارے جواب سے اس کی تشفی نہیں ہوئی، سر یہ بتائیں کہ اگر ڈیفالٹ ہو جاتا ہے تو بینکوں میں رکھا ہوا پیسہ تو واپس مل جاتا ہے ناں؟ ہمارا کلیجہ دھک سے رہ گیا۔
ہم نے ڈیفالٹ کے بہت سے پہلوؤں پر پڑھا، لکھا اور بات چیت بھی کی لیکن یہ نکتہ ذہن میں نہ آیا ، یا شاید رجائیت پسندی کہ اس طرف ذہن جانے سے کترایا لیکن عباس ڈرائیور کے اس سوال نے یہ حقیقت مزید آشکار کر دی کہ اکونومی کی سوجھ بوجھ کے لیے سیکریٹیریٹ کا بابو یا نامی گرامی اکاؤنٹنٹ ہونا ضروری نہیں۔
اور کیوں نہ ہو؟ ڈیجیٹل اور سوشل میڈیا پر سیاسی مخالفین ایک دوسرے پر پوائنٹ اسکورنگ کا کھیل ہر روز کھیلتے ہیں۔ اکونومی میڈیا کا پسندیدہ موضوع نہیں ہے لیکن مخالفین کے ایک دوسرے کو رگڑنے کے لیے اس کا سادہ بیانیہ جادو دکھا رہا ہے۔ ڈیفالٹ لفظ میں اتنی دہشت ہے کہ بھلے چنگے آدمی کو بھی ایک بار تو جھٹکا ضرور لگتا ہے۔
اس لفظ سے جو سنسنی پیدا ہوتی ہے وہ آجکل جاری دوسرے موضوعات میں کہاں، دوسری طرف ہر علم میں طاق اینکرز سرِ شام اربوں ڈالرز کا زائچہ بنا بنا کر بتاتے ہیں کہ اب اکونومی کا کہاں کہاں لگن ہوگا؟ گرہن کس گھر میں پاؤں پسارے گا؟ اور کس گھر کو ساڑھ ستّی کا سامنا ہے۔ یوں پولیٹیکل اکونومی جیسا خشک موضوع سیاسی ضرورت کے سبب دسویں جماعت کے گائیڈ پیپر کی طرح ایزی بن گیا ہے۔
رواں ہفتے پی ٹی آئی نے ایک وائٹ پیپر جاری کیا ، خلاصہ جس کا یہ تھا کہ جس طرف آنکھ اٹھتی تھی بہاراں ہی بہاراں تھا ، اونٹ تک کی ہر کَل سیدھی چل رہی تھی۔ جی ڈی پی گروتھ تاریخ کی بلند ترین سطح پر تھی، برآمدات پہلی بار 30 ارب ڈالرز سے زائد رہیں۔
بیرونی ترسیلات زر میں مسلسل اضافہ ہوا، مہنگائی میں اضافہ ہوا مگر مقابلتاً بہت کم۔ بیرونی ذخائر میں اضافہ ہوا۔ ڈالرز کے بھی یوں لالے نہ پڑے تھے لیکن جانے کیوں بیٹھے بٹھائے ایسی مضبوط حکومت کو رجیم چینج کے ذریعے چلتا کر دیا گیا۔ آخر کیوں؟حکومتی ترجمان نے اگلے ہی لمحے پی ٹی آئی کا وائٹ پیپر بالکل بلیک ثابت کیا ، دوسرے دن ن لیگ کے چار پانچ ٹاپ وزراء نے وزیر خزانہ کی سربراہی میں جوابی پریس کانفرنس کی۔
لب لباب یہ تھا کہ جھوٹ تھا جو کہا گیا ، خواب تھا جو سنایا گیا۔ اسحاق ڈار کو یقین ہے کہ جون 2023تک اکونومی کے بے چین دل کو قرار آ جائے گا۔ دوست ممالک کی دوستی میں ابھی اتنی گنجائش ہے کہ اپنے خزانے کا منہ کھولیں۔
چین اور سعودی عرب کی طرف سے جنوری کے آخر تک مالی کمک پہنچنے کا امکان ہے۔ آئی ایم ایف کے ساتھ بھی معاملات اسحاق ڈار کی شرائط پر نہ سہی لیکن طے پاجائیں گے۔ رہی بات پی ٹی آئی کے وائٹ پیپر کی تو وہ سراسر سلیکٹڈ اعدادوشمار کا کھیل ہے۔ آپ ہمارا کھیل دیکھیں ، جون تک راوی کو سکھ چین لکھتا ہوا پائیں گے۔
سیاست میں صرف اپنا کوا ہی سفید ہوتا ہے، باقی سب کالا ہی کالا۔ اعدادوشمار کی بھی کیا کہیں، اعدادوشمار کا چناؤ، تقابل اور اس سے بُنی کہانی اپنی اپنی ضرورت کے مطابق الگ الگ ہو سکتی ہے۔
پی ڈی ایم مصر ہے کہ اپریل میں ملک ڈیفالٹ کرنے والا تھا ، وہ اگر چلتے ہوئے حکومتی بیلن میں ہاتھ نہ دیتے تو ملک ڈیفالٹ کر جاتا۔ اب پی ڈی ایم حکومت کے اپنے اعدادوشمار دہائی دے رہے ہیں کہ اکسٹرنل انڈیکیٹرز کی سوئی ڈیفالٹ کی سرخ لائن پر ہے لیکن پی ڈی ایم کا اصرار ہے کہ اس نے اپریل میں بالکل صحیح اقدام اٹھایا تھا۔
جولائی دسمبر کے افراطِ زر کے اعدادوشمار قصہ کچھ یوں بیان کرتے ہیں کہ گزشتہ سال اسی عرصے کے مقابلے پر اوسط افراطِ زر 25% رہا ۔ اوسط کا چھلکا چھیل کر دیکھیں تو دیہی علاقوں میں یہ اوسط 28% جب کہ شہری علاقوں میں21.6% رہی۔ سب سے زیادہ اضافہ فوڈ آئٹمز میں ہوا۔
وزیر خزانہ کا خیال ہے کہ پونے چھ ارب ڈالرز کے فارن ریزرو کے ساتھ بھی وہ ' مینیج'( Manage) کر لیں گے۔ ان کے وائٹ پیپر سی گفتگو کا خلاصہ یہ تھا کہ پی ٹی آئی کے ہونے سے ہی یہ سب کچھ ہوا ہے، نہ ہوتی پی ٹی آئی تو یہ نوبت ہی نہ آتی۔
بھارت میں بھی سیاسی تشریحات کا کچھ ملتا جلتا منظرنامہ ہے۔ بھارت کے ایک معروف ایڈیٹر ونود مہتہ اپنی کتا ب Editor Unpluggedمیں لکھتے ہیں کہ ٹاک شوز اور سیاسی پریس کانفرنسوں کا مسئلہ یہ ہے کہ سب فریق کسی بھی مسئلے کو فقط بلیک اینڈ وائٹ دکھانے پر کمر بستہ رہتے ہیں۔
ان کے خیال میں گورننس اور حکومت کے بیشتر مسائل کی جڑیں بلیک اینڈ وائٹ میں کم اور درمیانی شیڈ یعنی Shade Grey میں زیادہ ہوتی ہیں۔ مسئلہ وقتی پوائنٹ اسکورنگ، اپنی غلطی نہ ماننے اور مخالفین پر ہر الزام بالالتزام تھوپنے کی عادت ہے۔
یہی وجہ ہے کہ پی ٹی آئی کے وائٹ پیپر اور اسحاق ڈار کی جواب آں غزل میں اپنا اپنا کوا بدستور وائٹ ہے مگر عباس کی پریشانی اپنی جگہ پر ہے کہ ڈیفالٹ کی صورت میں عوام کو بینک میں جمع شدہ اپنا پیسہ واپس مل جاتا ہے یا نہیں!