ڈیفالٹ سے بچنے کیلیے حکومتی اثاثہ جات کی جلد فروخت کا فیصلہ

پہلے مرحلے میں 2پاور پلانٹس قطر حکومت کو براہ راست فروخت کیے جائیں گے


Shahbaz Rana January 07, 2023
نجکاری بورڈ نے کابینہ کمیٹی کو ان پاور پلانٹس کو فہرست سے نکالنے کی سفارش کردی ۔ فوٹو:فائل

وفاقی حکومت نے ڈیفالٹ کے خطرے سے نمٹنے کیلیے حکومتی اثاثہ جات کو تیزی سے فروخت کرنے کا فیصلہ کیا ہے.

وفاقی حکومت نے جمعے کے روز فیصلہ کیا ہے کہ ممکنہ ڈیفالٹ سے بچنے کے لیے 2پاور پلانٹس کو قطر کی حکومت کو براہ راست فروخت کردیے جائیں، یہ پلانٹ 4سال قبل حکومت کی نجکاری فہرست میں شامل تھے اور حکومت کو امید تھی اس کی فروخت سے اسے 1 ارب 50 کروڑ ڈالر حاصل ہوں گے تاہم اب موجودہ حکومت نے اسے نجکاری کے بجائے براہ راست قطر کو فروخت کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔

اس سے دو قبل حکومت کی جانب سے کابینہ کی ایک نئی کمیٹی تشکیل دی گئی تھی جس کا مقصد حکومتی اثاثہ جات کو تیزی سے فروخت کرنے کے عمل کا جائزہ لینا تھا۔ اسی سلسلے میں 2460 میگاواٹ بجلی پیدا کرنے کی صلاحیت کا حامل یہ پاور پلانٹ اب کسی بیرونی ملک کو براہ راست فروخت کیا جائے گا۔

ذرائع نے ایکسپریس کو بتایا کہ جمعرات کے اس سلسلے میں نج کاری کمیشن کا اجلاس بلایا گیا تھا جس میں ان دونوں پلانٹس کو نج کاری کی فہرست سے نکالنے کا کہا گیا جبکہ نج کاری کی وزیر عابد حسین بھیو جو کہ نج کاری کمیشن بورڈ کے چیئرمین بھی ہیں انھوں نے اس اجلاس کی صدارت وڈیو لنک کے ذریعے کی تھی۔

نج کاری کمیشن بورڈ کے اجلاس کے بعد عام طور پر پریس بیان جاری کیا جاتا ہے تاہم جمعرات کو ہونے والے بورڈ اجلاس کے حوالے سے کوئی مراسلہ جاری نہیں کیا گیا جس سے لگتا ہے کہ وفاقی حکومت اس معاملے کو خفیہ رکھنا چاہتی ہے۔

اس حوالے سے جب ایکسپریس نے نج کاری کے وزیر اور سیکریٹری نج کاری سے رابطہ کیا گیا تو کوئی جواب موصول نہیں ہوا تاہم ذرائع کا کہنا ہے کہ بورڈ نے کابینہ کی کمیٹی برائے نج کاری کو سفارش ارسال کی ہے کہ وہ ان دونوں پاور پلانٹس کو نج کاری فہرست سے خارج کردے۔

ذرائع کا یہ بھی کہنا ہے کہ میٹنگ کے دوران بتایا گیا کہ وزیر اعظم آفس کی خواہش ہے کہ ان پلانٹس کو بین الحکومتی تجارتی فروخت ایکٹ 2022 کے تحت فروخت کیا جائے۔ اس ایکٹ کے تحت حکومت کو یہ اختیار ہوتا ہے کہ وہ نج کاری کے طویل عمل کے بجائے کسی بھی اثاثے یا ادارے کو براہ راست کسی بھی حکومت کو فروخت کرسکتی ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں