بس عورت ہونا جرم تھا اُس کا
کب تک ہمارا سماج صنفی تفریق کو بنیاد بنا کر عورتوں سے زندہ رہنے کا حق چھینتا رہے گا؟
اس کی روح آج بھی سرسوں کے پیلے کھیتوں میں بھٹک رہی ہے۔ اس کی روتی، سسکتی، تڑپتی اور ہاتھ جوڑ کر زندگی کی بھیک مانگتی صورت آنکھوں میں تیرنے لگتی ہے۔ بچاؤ بچاؤ کی صدائیں تیز سے تیز تر ہوتی جاتی ہیں۔ موت کو نزدیک سے دیکھ کر اب وہ بے بسی کے عالم میں آخری ہچکیاں لے رہی ہے اور بالآخر اس کا وجود دم توڑ دیتا ہے۔ ہائے وحشیوں نے اس نہتی عورت کو کس بے دردی سے ذبح کر ڈالا۔
گزشتہ دنوں ضلع سانگھڑ، شہر سنجھورو کے قریب ڈپٹی گاؤں کی پچاس سالہ دیا بھیل کو موت کے گھاٹ اتار دیا گیا۔ وحشی درندوں نے اسے عورت ہونے کے جرم کی پاداش میں صفحۂ ہستی سے مٹادیا اور ایک بار پھر پدرسرانہ سماج کی جھوٹی انا سرخرو ٹھہری۔
ہمارا عورت دشمن سماج آج بھی صدیوں پرانی فرسودہ رسومات کے شکنجے میں قید ہے، جس کا شکار کبھی نہ کبھی اور کہیں نہ کہیں عورت ضرور ہوتی ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ کسی دور میں عظیم صوفیائے کرام کی سرزمین سندھ مہمان نوازی، رحم دلی، انسان دوستی اور امن و آشتی کا گہوارہ تھی۔ اس کے برعکس اب یہاں وحشیوں کا راج ہے اور ایسے دل خراش واقعات میں بتدریج اضافہ ہورہا ہے جو ناصرف دھرتی ماں کی پیشانی پر کالک پَوت رہے ہیں، بلکہ ہر ذی شعور روح کو بھی گھائل کرجاتے ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق سندھ میں ہر روز عورتوں پر تشدد کے 15 واقعات رپورٹ ہوتے ہیں۔
اسی تناظر میں 27 دسمبر 2022 کو ادھیڑ عمر عورت کے قتل کا لرزہ خیز واقعہ پیش آیا۔ دیا چھ بچوں کی ماں تھی۔ اس کا تعلق سندھ کی ''بھیل'' برادری سے تھا، جو یہاں صدیوں سے آباد ہیں۔
میڈیا رپورٹس کے مطابق دیا بھیل دوپہر میں اپنے گھر کے قریب کھیت سے گھاس کاٹنے گئی۔ اپنی بچی کے ساتھ گھاس کی ایک گٹھڑی گھر چھوڑی اور دوسری بار گھاس لینے خود گئی۔ اسی دوران یہ واقعہ پیش آیا۔ قاتلوں نے دیا کا سفاکانہ قتل کرکے لاش کی حد درجہ بے حرمتی کی۔ اس حوالے سے سوشل میڈیا پر وائرل ہونے والی ویڈیوز کو دیکھ کر مضبوط اعصاب لوگوں کے دل بھی دہل گئے اور دنیا میں انسانیت کا سر یقیناً شرم سے جھک گیا۔
ورثا نے لاعلمی کا اظہار کیا کہ جب شام کو وہ گھر واپس پہنچے تو پتہ چلا کہ دیا گھر پر نہیں ہے۔ تلاش کرنے پر انہیں دیا کی لاش سرسوں کے کھیت سے ملی۔ اس خبر کے بعد ہر طرف خوف و ہراس پھیل گیا۔ گھر والوں نے انصاف مانگنے کےلیے دھرنا دیا۔ سینیٹر کرشنا کولہی نے انصاف ملنے کی یقین دہانی کروا کر دھرنا ختم کرایا۔
ابتدا میں یہ اطلاعات آئیں کہ سنجھورو پولیس نے کھوجی کتے چھوڑے تو کتے مقتولہ کے والد کے گھر بیٹھ گئے تھے۔
مختلف سماجی و سیاسی حلقوں اور عورتوں و انسانی حقوق کی تنظیموں نے اس واقعے پر شدید مذمت کی اور حکومت سے دیا بھیل کے قاتلوں کی گرفتاری اور عبرت ناک سزا دینے کا مطالبہ کیا۔ میڈیا کی جانب سے دباؤ کے بعد پولیس متحرک ہوئی۔ دیا بھیل اور عامل روپی کے روابط کے شکوک و شبہات پر موبائل فونز کا ڈیٹا بھی نکالا گیا۔ مگر الزام کی تصدیق نہ ہوسکی۔ سانگھڑ پولیس کے مطابق دیا بھیل کا قاتل اس گاؤں کے اندر یا پھر دیا کے رشتے داروں میں سے ہوسکتا ہے۔
دیا کا باپ بڈھو بینائی سے محروم بتایا جاتا ہے، جبکہ دمے کے مرض میں مبتلا دیا کا شوہر ایک دو سال پہلے مر گیا تھا۔ اس کا الزام بھی رشتے داروں اور دیا کے پڑوس میں رہنے والے عامل روپی پر لگا تھا۔ علاقے میں روپی اور دیا کے تعلقات، رشتے داروں سے اَن بن، دیا کی بیٹی کے کسی سے روابط، عامل روپی کا بلوچستان چلے جانا اور دیا کے قتل سے کچھ عرصہ پہلے یہاں دوبارہ نظر آنا وغیرہ جیسی چہ میگوئیاں ہوتی رہیں۔
سانگھڑ کے سینئر لکھاری نواز کمبھر رقم طراز ہیں کہ ''پرسے کےلیے آنے والے لوگوں سے یہ پتہ چلا کہ دیا کا بھائی اور کزن عامل روپی سے کالا جادو سیکھتے تھے۔ اس لیے ممکن ہے کہ بَلٌی چڑھانے کےلیے کسی عورت کی ضرورت پڑگئی ہو یا پھر عامل روپی دیا سے انتقام لینا چاہتا ہو۔ ڈاکٹروں کے مطابق دیا کے سر پر چوٹیں ماری گئی تھیں۔ بھائی اپنی بہن کی اس قدر بے حرمتی نہیں کرسکتا۔ چہرے و سر کی کھال اتارنے اور بال و سینہ کاٹنے جیسی درندگی کو دیکھتے ہوئے روح کانپ جاتی ہے۔ ساتھ ہی عامل روپی اور دیا کے کزن کے ملوث ہونے کا امکان بھی بڑھ جاتا ہے۔ دیا کے پیروں اور گلے میں پہنے زیورات کی کڑیاں بہت پھنسی ہوئی تھیں، جنہیں نکالنا ایک آدمی کے بس کی بات نہیں۔ اب تک سامنے آنے والی معلومات کے پیش نظرِ یہ قتل نہ تو دہشت گردی کے زمرے میں آتا ہے نہ ہی کاروکاری کا کوئی واقعہ لگتا ہے۔ مزید تحقیقات کے نتیجے میں ہوسکتا ہے کہ یہ قتل کیس کوئی نیا رخ اختیار کرجائے۔''
سوال یہ ہے کہ کب تک ہمارا سماج صنفی تفریق کو بنیاد بنا کر عورتوں سے زندہ رہنے کا حق چھینتا رہے گا؟ کب تک عورت مردوں کے کھوکھلے جاہ و جلال کی بھینٹ چڑھتی رہے گی؟ اور کب تک عورت مال مویشیوں کی طرح ذبح کی جاتی رہے گی؟
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
گزشتہ دنوں ضلع سانگھڑ، شہر سنجھورو کے قریب ڈپٹی گاؤں کی پچاس سالہ دیا بھیل کو موت کے گھاٹ اتار دیا گیا۔ وحشی درندوں نے اسے عورت ہونے کے جرم کی پاداش میں صفحۂ ہستی سے مٹادیا اور ایک بار پھر پدرسرانہ سماج کی جھوٹی انا سرخرو ٹھہری۔
ہمارا عورت دشمن سماج آج بھی صدیوں پرانی فرسودہ رسومات کے شکنجے میں قید ہے، جس کا شکار کبھی نہ کبھی اور کہیں نہ کہیں عورت ضرور ہوتی ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ کسی دور میں عظیم صوفیائے کرام کی سرزمین سندھ مہمان نوازی، رحم دلی، انسان دوستی اور امن و آشتی کا گہوارہ تھی۔ اس کے برعکس اب یہاں وحشیوں کا راج ہے اور ایسے دل خراش واقعات میں بتدریج اضافہ ہورہا ہے جو ناصرف دھرتی ماں کی پیشانی پر کالک پَوت رہے ہیں، بلکہ ہر ذی شعور روح کو بھی گھائل کرجاتے ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق سندھ میں ہر روز عورتوں پر تشدد کے 15 واقعات رپورٹ ہوتے ہیں۔
اسی تناظر میں 27 دسمبر 2022 کو ادھیڑ عمر عورت کے قتل کا لرزہ خیز واقعہ پیش آیا۔ دیا چھ بچوں کی ماں تھی۔ اس کا تعلق سندھ کی ''بھیل'' برادری سے تھا، جو یہاں صدیوں سے آباد ہیں۔
میڈیا رپورٹس کے مطابق دیا بھیل دوپہر میں اپنے گھر کے قریب کھیت سے گھاس کاٹنے گئی۔ اپنی بچی کے ساتھ گھاس کی ایک گٹھڑی گھر چھوڑی اور دوسری بار گھاس لینے خود گئی۔ اسی دوران یہ واقعہ پیش آیا۔ قاتلوں نے دیا کا سفاکانہ قتل کرکے لاش کی حد درجہ بے حرمتی کی۔ اس حوالے سے سوشل میڈیا پر وائرل ہونے والی ویڈیوز کو دیکھ کر مضبوط اعصاب لوگوں کے دل بھی دہل گئے اور دنیا میں انسانیت کا سر یقیناً شرم سے جھک گیا۔
ورثا نے لاعلمی کا اظہار کیا کہ جب شام کو وہ گھر واپس پہنچے تو پتہ چلا کہ دیا گھر پر نہیں ہے۔ تلاش کرنے پر انہیں دیا کی لاش سرسوں کے کھیت سے ملی۔ اس خبر کے بعد ہر طرف خوف و ہراس پھیل گیا۔ گھر والوں نے انصاف مانگنے کےلیے دھرنا دیا۔ سینیٹر کرشنا کولہی نے انصاف ملنے کی یقین دہانی کروا کر دھرنا ختم کرایا۔
ابتدا میں یہ اطلاعات آئیں کہ سنجھورو پولیس نے کھوجی کتے چھوڑے تو کتے مقتولہ کے والد کے گھر بیٹھ گئے تھے۔
مختلف سماجی و سیاسی حلقوں اور عورتوں و انسانی حقوق کی تنظیموں نے اس واقعے پر شدید مذمت کی اور حکومت سے دیا بھیل کے قاتلوں کی گرفتاری اور عبرت ناک سزا دینے کا مطالبہ کیا۔ میڈیا کی جانب سے دباؤ کے بعد پولیس متحرک ہوئی۔ دیا بھیل اور عامل روپی کے روابط کے شکوک و شبہات پر موبائل فونز کا ڈیٹا بھی نکالا گیا۔ مگر الزام کی تصدیق نہ ہوسکی۔ سانگھڑ پولیس کے مطابق دیا بھیل کا قاتل اس گاؤں کے اندر یا پھر دیا کے رشتے داروں میں سے ہوسکتا ہے۔
دیا کا باپ بڈھو بینائی سے محروم بتایا جاتا ہے، جبکہ دمے کے مرض میں مبتلا دیا کا شوہر ایک دو سال پہلے مر گیا تھا۔ اس کا الزام بھی رشتے داروں اور دیا کے پڑوس میں رہنے والے عامل روپی پر لگا تھا۔ علاقے میں روپی اور دیا کے تعلقات، رشتے داروں سے اَن بن، دیا کی بیٹی کے کسی سے روابط، عامل روپی کا بلوچستان چلے جانا اور دیا کے قتل سے کچھ عرصہ پہلے یہاں دوبارہ نظر آنا وغیرہ جیسی چہ میگوئیاں ہوتی رہیں۔
سانگھڑ کے سینئر لکھاری نواز کمبھر رقم طراز ہیں کہ ''پرسے کےلیے آنے والے لوگوں سے یہ پتہ چلا کہ دیا کا بھائی اور کزن عامل روپی سے کالا جادو سیکھتے تھے۔ اس لیے ممکن ہے کہ بَلٌی چڑھانے کےلیے کسی عورت کی ضرورت پڑگئی ہو یا پھر عامل روپی دیا سے انتقام لینا چاہتا ہو۔ ڈاکٹروں کے مطابق دیا کے سر پر چوٹیں ماری گئی تھیں۔ بھائی اپنی بہن کی اس قدر بے حرمتی نہیں کرسکتا۔ چہرے و سر کی کھال اتارنے اور بال و سینہ کاٹنے جیسی درندگی کو دیکھتے ہوئے روح کانپ جاتی ہے۔ ساتھ ہی عامل روپی اور دیا کے کزن کے ملوث ہونے کا امکان بھی بڑھ جاتا ہے۔ دیا کے پیروں اور گلے میں پہنے زیورات کی کڑیاں بہت پھنسی ہوئی تھیں، جنہیں نکالنا ایک آدمی کے بس کی بات نہیں۔ اب تک سامنے آنے والی معلومات کے پیش نظرِ یہ قتل نہ تو دہشت گردی کے زمرے میں آتا ہے نہ ہی کاروکاری کا کوئی واقعہ لگتا ہے۔ مزید تحقیقات کے نتیجے میں ہوسکتا ہے کہ یہ قتل کیس کوئی نیا رخ اختیار کرجائے۔''
سوال یہ ہے کہ کب تک ہمارا سماج صنفی تفریق کو بنیاد بنا کر عورتوں سے زندہ رہنے کا حق چھینتا رہے گا؟ کب تک عورت مردوں کے کھوکھلے جاہ و جلال کی بھینٹ چڑھتی رہے گی؟ اور کب تک عورت مال مویشیوں کی طرح ذبح کی جاتی رہے گی؟
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 800 سے 1,200 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔