معاشی مشکلات اور مثبت اشارے
مرکز اور دو صوبوں کی حکومتیں ایک دوسرے کو نیچا دکھانے میں مصروف ہیں
اقوام متحدہ کے ترقیاتی پروگرام (یو این ڈی پی) نے کہا ہے کہ پاکستان میں گزشتہ سال سیلاب کی تباہ کاریوں سے 3 کروڑ 30 لاکھ افراد متاثر ہوئے ہیں۔
پاکستان میں اقوام متحدہ کے ترقیاتی پروگرام کے ریزیڈنٹ ریپریزنٹیٹو کیوٹ سٹبی نے کہا کہ ہمارا اندازہ ہے کہ سیلاب سے متاثرہ تقریباً 90 لاکھ مزید افراد غربت کا شکار ہو سکتے ہیں، انھوں نے کہا کہ سیلاب کے باعث فصلوں کو شدید نقصان پہنچا اور اگلے سیزن کے لیے فصلیں کاشت نہیں ہو سکیں، جس کے باعث زرعی اجناس اور غذائی اشیا کی قیمتوں میں اضافہ ہونے سے نہ صرف غذائی عدم تحفظ میں اضافہ ہوا بلکہ غربت سے نیچے زندگی گزارنے والے افراد کی تعداد 70 لاکھ سے بڑھ کر ایک کروڑ 46لاکھ تک پہنچ سکتی ہے۔
جنیوا میں اقوام متحدہ کے لیے پاکستان کے مستقل نمایندہ خلیل ہاشمی نے کہا کہ سیلاب کے باعث 3کروڑ 30لاکھ افراد متاثر ہوئے جن میں سے تقریباً80 لاکھ افراد اب تک بے گھر ہیں، پاکستان کی وزارت خارجہ میں اقوام متحدہ کے ڈویژن کے سربراہ سید حیدر شاہ نے اسلام آباد سے زوم کے ذریعے بات کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان کو ماحولیاتی تبدیلیوں کے اثرات اور سیلاب کی تباہ کاریوں سے نمٹنے، بحالی اور تعمیر نو میں مدد کے لیے 16ارب ڈالر سے زائد امداد کی ضرورت ہوگی۔
ایسے وقت میں جب بیرونی ادائیگیوں کی وجہ سے پاکستان کے زرمبادلہ ذخائرخطرناک حد تک کم ہوگئے ہیں، اقوام متحدہ کے ترقیاتی پروگرام کے عہدیداروں کے بیان کردہ اعداد وشمار پریشان کن ہیں، پاکستان پہلے ہی معاشی بحران کا شکار ہے اور سیلاب کی تباہ کاریوں نے پاکستان کے معاشی بحران کو مزید گہرا کیا ہے۔ عالمی برادری نے اس حوالے سے پاکستان کی مدد بھی کی ہے تاہم پاکستان کو کہیں زیادہ مالی سپورٹ کی ضرورت ہے۔
پاکستان کی حکومت اس حوالے سے اپنی کوششیں جاری رکھے ہوئے ہے تاکہ آئی ایم ایف کے ساتھ معاملات حتمی طور پر طے ہو جائیں اور پاکستان دیگر ملکوں اور مالیاتی اداروں سے لین دین کر سکے۔ اس دوران ایک اچھی خبر یہ بھی ہے کہ وزیراعظم شہبازشریف نے آئی ایم ایف کی منیجنگ ڈائریکٹر کرسٹالینا جارجیوا سے گفتگو کے دوران درخواست کی ہے کہ وہ اپنا وفد جلد پاکستان بھیجیں۔
اخباری اطلاعات کے مطابق جمعے کو خیبرپختونخوا میں ہندکو علاقے ہزارہ میں تقریب سے خطاب کرتے ہوئے وزیراعظم نے کہا کہ میں نے آئی ایم ایف سربراہ سے کہا ہے وہ 9 ویں جائزے کے لیے جلد ٹیم پاکستان بھیجیں تاکہ پاکستان کوقرضے کی اگلی قسط جاری کی جاسکے۔ آئی ایم ایف کی منیجنگ ڈائریکٹر نے انھیں یقین دلایا ہے کہ وہ اگلے دو تین دنوں تک مشن روانہ کردیں گی۔
تاہم وزارت خزانہ کے ذرایع کا کہنا ہے کہ ابھی تک آئی ایم ایف کے جائزہ مشن کی پاکستان آمد کی کوئی حتمی تاریخ طے نہیں ہوئی۔ البتہ وزیرخزانہ اسحاق ڈارجنیوا میں منعقدہ کانفرنس میں شرکت کے لیے وزیراعظم کے ہمراہ جارہے ہیں جہاں وہ سائیڈلائن پر عالمی ادارے کے حکام سے اس معاملے پر بات چیت کریں گے۔ جنیوا میں ہونے والی موسمیاتی لچکدار کانفرنس کا درجہ کم کرکے اب اسے ڈونر کانفرنس قراردے دیا گیا ہے۔
پاکستان چاہتا ہے کہ آئی ایم ایف کا 9واں جائزہ جلد مکمل ہو تاکہ ورلڈ بینک اور ایشین انفرااسٹرکچر انوسٹمنٹ بینک (AIIB) سے بھی اسے قرضہ مل سکے۔ وزیرخزانہ اسحاق ڈار نے گزشتہ روز AIIB کے صدر جن لی کن سے ورچو ئل میٹنگ کی تھی اور ان سے قرضہ جاری کرنے کی درخواست کی تھی۔
وزیراعظم شہبازشریف نے آئی ایم ایف سربراہ کے ساتھ گفتگو کے دوران انھیں پاکستان کی طرف سے 1.02 ارب ڈالر کے دو کمرشل قرضوں کی ادائیگی سے بھی آگاہ کیا ہے۔ پاکستان نے جمعے کو ایمریٹس بینک کو 60 کروڑ ڈالر جب کہ دبئی بینک کو42 کروڑ ڈالر ادا کیے ہیں۔سرکاری حکام کے مطابق ان ادائیگیوں کے بعد پاکستان کے سرکاری زرمبادلہ کے ذخائر مزیدکم ہوکر 4.5 ارب ڈالر رہ گئے ہیں۔
پاکستان کو اب چینی ڈویلپمنٹ بینک سے 70 کروڑ ڈالر اور سعودی عرب سے 3 ارب ڈالر ملنے کی امید ہے جو وزیرخزانہ اسحاق ڈار کے بقول چند دنوں میں مل جائیں گے۔وزیراعظم نے یہ بھی انکشاف کیا ہے کہ آئی ایم ایف سربراہ نے ان سے پوچھا ہے کہ کیا چین اور سعودی عرب پاکستان کی مدد کر رہے ہیں۔
اے پی پی کے مطابق جمعے کو ہزارہ الیکٹرک سپلائی کمپنی کے قیام کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے وزیراعظم نے کہا تمام پراپیگنڈا کے باوجود پاکستان دیوالیہ نہیں ہو گا۔
پاکستان کے معاشی بحران کے بارے میں غیرمحتاط گفتگو کرنے والوں کی کمی نہیں ہے۔ المیہ یہ ہے کہ پاکستان کے اندر سے ہی سیاسی پوائنٹ اسکورنگ کے لیے کہا جا رہا ہے کہ پاکستان دیوالیہ ہونے والا ہے۔ دنیا میں شاید ہی کوئی ایسا ملک ہو جس کے سیاست دان اپنے ملک کے معاشی بحران کو مزید گہرا کرنے کے لیے سیاست کرتے ہوں۔
بہرحال پاکستان معاشی مسائل کا شکار ضرور ہے تاہم اس کے دیوالیہ ہونے کے امکانات نہ ہونے کے برابر ہیں۔ اس کا ایک اشارہ یہ ہے کہ وزیراعظم میاں شہباز شریف کی جانب سے اگلے چند دنوں میں آئی ایم ایف ٹیم کی پاکستان آمد کے بیان اور آرمی چیف کی سعودی عرب و امارات کے دورے سے وابستہ امیدوں کے باعث پاکستان اسٹاک ایکس میں جمعے کو بھی تیزی کا رجحان دیکھنے میں آیا ہے۔ انٹربینک مارکیٹ میں ڈالر بھی مستحکم ہوا ہے۔ یہ اشارے بتاتے ہیں کہ سرمایہ کار اور کاروباری طبقہ پاکستان کی معیشت کے حوالے سے حکومتی اقدامات اور اعلانات پر مطمئن ہے۔
ایک خبر کے مطابق وفاقی حکومت نے جمعے کو فیصلہ کیا ہے کہ 2پاور پلانٹس کو قطر کی حکومت کو براہ راست فروخت کر دیے جائیں، یہ پلانٹ 4سال قبل حکومت کی نجکاری فہرست میں شامل تھے اور حکومت کو امید تھی اس کی فروخت سے اسے 1 ارب 50 کروڑ ڈالر حاصل ہوں گے تاہم اب موجودہ حکومت نے اسے نجکاری کے بجائے براہ راست قطر کو فروخت کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔
ادھر وزیر مملکت پٹرولیم مصدق ملک نے ایک ٹی وی سے گفتگو کرتے ہوئے پاک روس سستے تیل خریداری معاہدے کے حوالے سے امید ظاہر کی ہے کہ روس کے وزیر توانائی سمیت پورا وفد پاکستان آرہا ہے، روس کے ساتھ سنجیدہ بات چیت جاری ہے اور وفد اسی وقت آتے ہیں جب تیاریاں مکمل ہوں۔ روس خام تیل میں دنیا کے برابر یا اس بھی زیادہ ڈسکاونٹ دے گا۔
ہم پوری کوشش کرینگے ملکی مفاد میں معاملہ طے ہوجائے گا، ریفائنریز سے میٹنگ کرنے کے بعد روس کے ساتھ بات کی تھی،معاہدے کی تیاری مکمل ہے لیکن قبل از وقت غیر ذمے دار بات نہیں کر سکتا، ریفائنریز پالیسی میں ڈیم ڈیوٹی کو سرمایہ کاری سے لنک کر رہے ہیں، ریفائنریز کو جو ڈیوٹی کی مد میں بچت ہوگی وہ سرمایہ کاری کرے گے اور حکومت اس کا باقاعدہ آڈٹ کرے گی۔
ہمارے ملکی مفاد میں ہے جدت اور ریفائنریز اپ گریڈیشن میں پیسے لگے، ہماری ریفائنریز فرنس آئل زیادہ تیار کرتی ہیں جس کی کہیں مارکیٹ ہی نہیں ہے، بلیک آئل کی وجہ سے ریفائنریز کو نقصان ہورہا ہے، ہماری ریفائنریز تیس فیصد سے زائد فرنس آئل بنا رہی ہیں ، جب ریفائنریز کو اپ گریڈ کرینگے تو پٹرول اور ڈیزل کی فینش پراڈکٹس زیادہ بنائے گئے، انھوں نے کہا کہ پرمیم نہ دینے سے پٹرول ڈیزل کی قیمت کم ہوگی۔
یہ سب اشارے بتا رہے ہیں کہ پاکستان کی معیشت کو مشکلات کا سامنا ضرور ہے تاہم ایسا نہیں ہے کہ ملک اس صورت حال سے نکل نہیں سکتا۔ ملک میں مہنگائی کی شرح بھی مسلسل بڑھ رہی ہے اور لوگوں کی مالی مشکلات میں بھی اضافہ ہو رہا ہے۔ اس کے باوجود عالمی سطح پر پاکستان اپنا امیج بہتر بنانے میں کامیاب رہا ہے۔ ملک کے لیے اس وقت سب سے بڑی مشکل سیاسی عدم استحکام ہے۔
مرکز اور دو صوبوں کی حکومتیں ایک دوسرے کو نیچا دکھانے میں مصروف ہیں اور اس وجہ سے ملک کا انتظامی ڈھانچہ مفلوج نظر آتا ہے۔ ان حالات کو دیکھ کر یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں ہے کہ اس وقت پاکستان کے لیے بڑا مسئلہ معاشی بحران نہیں ہے بلکہ خودساختہ سیاسی عدم استحکام ہے۔ ملک کے اندر چند بااثر قوتیں سیاست کی آڑ میں عدم استحکام پیدا کرنے کے لیے ایڑھی چوٹی کا زور لگا رہی ہیں۔ ان کا یہ کام اس ملک کے مفاد میں نہیں بلکہ اس ملک کے مفاد کے خلاف ہے۔
بہرحال امید یہی کی جا سکتی ہے کہ بہت جلد ملک میں جاری سیاسی عدم استحکام کا خاتمہ بھی ہو جائے گا اور اس کے ساتھ ساتھ ملکی معیشت میں بھی استحکام آنا شروع ہو جائے گا۔
پاکستان میں اقوام متحدہ کے ترقیاتی پروگرام کے ریزیڈنٹ ریپریزنٹیٹو کیوٹ سٹبی نے کہا کہ ہمارا اندازہ ہے کہ سیلاب سے متاثرہ تقریباً 90 لاکھ مزید افراد غربت کا شکار ہو سکتے ہیں، انھوں نے کہا کہ سیلاب کے باعث فصلوں کو شدید نقصان پہنچا اور اگلے سیزن کے لیے فصلیں کاشت نہیں ہو سکیں، جس کے باعث زرعی اجناس اور غذائی اشیا کی قیمتوں میں اضافہ ہونے سے نہ صرف غذائی عدم تحفظ میں اضافہ ہوا بلکہ غربت سے نیچے زندگی گزارنے والے افراد کی تعداد 70 لاکھ سے بڑھ کر ایک کروڑ 46لاکھ تک پہنچ سکتی ہے۔
جنیوا میں اقوام متحدہ کے لیے پاکستان کے مستقل نمایندہ خلیل ہاشمی نے کہا کہ سیلاب کے باعث 3کروڑ 30لاکھ افراد متاثر ہوئے جن میں سے تقریباً80 لاکھ افراد اب تک بے گھر ہیں، پاکستان کی وزارت خارجہ میں اقوام متحدہ کے ڈویژن کے سربراہ سید حیدر شاہ نے اسلام آباد سے زوم کے ذریعے بات کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان کو ماحولیاتی تبدیلیوں کے اثرات اور سیلاب کی تباہ کاریوں سے نمٹنے، بحالی اور تعمیر نو میں مدد کے لیے 16ارب ڈالر سے زائد امداد کی ضرورت ہوگی۔
ایسے وقت میں جب بیرونی ادائیگیوں کی وجہ سے پاکستان کے زرمبادلہ ذخائرخطرناک حد تک کم ہوگئے ہیں، اقوام متحدہ کے ترقیاتی پروگرام کے عہدیداروں کے بیان کردہ اعداد وشمار پریشان کن ہیں، پاکستان پہلے ہی معاشی بحران کا شکار ہے اور سیلاب کی تباہ کاریوں نے پاکستان کے معاشی بحران کو مزید گہرا کیا ہے۔ عالمی برادری نے اس حوالے سے پاکستان کی مدد بھی کی ہے تاہم پاکستان کو کہیں زیادہ مالی سپورٹ کی ضرورت ہے۔
پاکستان کی حکومت اس حوالے سے اپنی کوششیں جاری رکھے ہوئے ہے تاکہ آئی ایم ایف کے ساتھ معاملات حتمی طور پر طے ہو جائیں اور پاکستان دیگر ملکوں اور مالیاتی اداروں سے لین دین کر سکے۔ اس دوران ایک اچھی خبر یہ بھی ہے کہ وزیراعظم شہبازشریف نے آئی ایم ایف کی منیجنگ ڈائریکٹر کرسٹالینا جارجیوا سے گفتگو کے دوران درخواست کی ہے کہ وہ اپنا وفد جلد پاکستان بھیجیں۔
اخباری اطلاعات کے مطابق جمعے کو خیبرپختونخوا میں ہندکو علاقے ہزارہ میں تقریب سے خطاب کرتے ہوئے وزیراعظم نے کہا کہ میں نے آئی ایم ایف سربراہ سے کہا ہے وہ 9 ویں جائزے کے لیے جلد ٹیم پاکستان بھیجیں تاکہ پاکستان کوقرضے کی اگلی قسط جاری کی جاسکے۔ آئی ایم ایف کی منیجنگ ڈائریکٹر نے انھیں یقین دلایا ہے کہ وہ اگلے دو تین دنوں تک مشن روانہ کردیں گی۔
تاہم وزارت خزانہ کے ذرایع کا کہنا ہے کہ ابھی تک آئی ایم ایف کے جائزہ مشن کی پاکستان آمد کی کوئی حتمی تاریخ طے نہیں ہوئی۔ البتہ وزیرخزانہ اسحاق ڈارجنیوا میں منعقدہ کانفرنس میں شرکت کے لیے وزیراعظم کے ہمراہ جارہے ہیں جہاں وہ سائیڈلائن پر عالمی ادارے کے حکام سے اس معاملے پر بات چیت کریں گے۔ جنیوا میں ہونے والی موسمیاتی لچکدار کانفرنس کا درجہ کم کرکے اب اسے ڈونر کانفرنس قراردے دیا گیا ہے۔
پاکستان چاہتا ہے کہ آئی ایم ایف کا 9واں جائزہ جلد مکمل ہو تاکہ ورلڈ بینک اور ایشین انفرااسٹرکچر انوسٹمنٹ بینک (AIIB) سے بھی اسے قرضہ مل سکے۔ وزیرخزانہ اسحاق ڈار نے گزشتہ روز AIIB کے صدر جن لی کن سے ورچو ئل میٹنگ کی تھی اور ان سے قرضہ جاری کرنے کی درخواست کی تھی۔
وزیراعظم شہبازشریف نے آئی ایم ایف سربراہ کے ساتھ گفتگو کے دوران انھیں پاکستان کی طرف سے 1.02 ارب ڈالر کے دو کمرشل قرضوں کی ادائیگی سے بھی آگاہ کیا ہے۔ پاکستان نے جمعے کو ایمریٹس بینک کو 60 کروڑ ڈالر جب کہ دبئی بینک کو42 کروڑ ڈالر ادا کیے ہیں۔سرکاری حکام کے مطابق ان ادائیگیوں کے بعد پاکستان کے سرکاری زرمبادلہ کے ذخائر مزیدکم ہوکر 4.5 ارب ڈالر رہ گئے ہیں۔
پاکستان کو اب چینی ڈویلپمنٹ بینک سے 70 کروڑ ڈالر اور سعودی عرب سے 3 ارب ڈالر ملنے کی امید ہے جو وزیرخزانہ اسحاق ڈار کے بقول چند دنوں میں مل جائیں گے۔وزیراعظم نے یہ بھی انکشاف کیا ہے کہ آئی ایم ایف سربراہ نے ان سے پوچھا ہے کہ کیا چین اور سعودی عرب پاکستان کی مدد کر رہے ہیں۔
اے پی پی کے مطابق جمعے کو ہزارہ الیکٹرک سپلائی کمپنی کے قیام کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے وزیراعظم نے کہا تمام پراپیگنڈا کے باوجود پاکستان دیوالیہ نہیں ہو گا۔
پاکستان کے معاشی بحران کے بارے میں غیرمحتاط گفتگو کرنے والوں کی کمی نہیں ہے۔ المیہ یہ ہے کہ پاکستان کے اندر سے ہی سیاسی پوائنٹ اسکورنگ کے لیے کہا جا رہا ہے کہ پاکستان دیوالیہ ہونے والا ہے۔ دنیا میں شاید ہی کوئی ایسا ملک ہو جس کے سیاست دان اپنے ملک کے معاشی بحران کو مزید گہرا کرنے کے لیے سیاست کرتے ہوں۔
بہرحال پاکستان معاشی مسائل کا شکار ضرور ہے تاہم اس کے دیوالیہ ہونے کے امکانات نہ ہونے کے برابر ہیں۔ اس کا ایک اشارہ یہ ہے کہ وزیراعظم میاں شہباز شریف کی جانب سے اگلے چند دنوں میں آئی ایم ایف ٹیم کی پاکستان آمد کے بیان اور آرمی چیف کی سعودی عرب و امارات کے دورے سے وابستہ امیدوں کے باعث پاکستان اسٹاک ایکس میں جمعے کو بھی تیزی کا رجحان دیکھنے میں آیا ہے۔ انٹربینک مارکیٹ میں ڈالر بھی مستحکم ہوا ہے۔ یہ اشارے بتاتے ہیں کہ سرمایہ کار اور کاروباری طبقہ پاکستان کی معیشت کے حوالے سے حکومتی اقدامات اور اعلانات پر مطمئن ہے۔
ایک خبر کے مطابق وفاقی حکومت نے جمعے کو فیصلہ کیا ہے کہ 2پاور پلانٹس کو قطر کی حکومت کو براہ راست فروخت کر دیے جائیں، یہ پلانٹ 4سال قبل حکومت کی نجکاری فہرست میں شامل تھے اور حکومت کو امید تھی اس کی فروخت سے اسے 1 ارب 50 کروڑ ڈالر حاصل ہوں گے تاہم اب موجودہ حکومت نے اسے نجکاری کے بجائے براہ راست قطر کو فروخت کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔
ادھر وزیر مملکت پٹرولیم مصدق ملک نے ایک ٹی وی سے گفتگو کرتے ہوئے پاک روس سستے تیل خریداری معاہدے کے حوالے سے امید ظاہر کی ہے کہ روس کے وزیر توانائی سمیت پورا وفد پاکستان آرہا ہے، روس کے ساتھ سنجیدہ بات چیت جاری ہے اور وفد اسی وقت آتے ہیں جب تیاریاں مکمل ہوں۔ روس خام تیل میں دنیا کے برابر یا اس بھی زیادہ ڈسکاونٹ دے گا۔
ہم پوری کوشش کرینگے ملکی مفاد میں معاملہ طے ہوجائے گا، ریفائنریز سے میٹنگ کرنے کے بعد روس کے ساتھ بات کی تھی،معاہدے کی تیاری مکمل ہے لیکن قبل از وقت غیر ذمے دار بات نہیں کر سکتا، ریفائنریز پالیسی میں ڈیم ڈیوٹی کو سرمایہ کاری سے لنک کر رہے ہیں، ریفائنریز کو جو ڈیوٹی کی مد میں بچت ہوگی وہ سرمایہ کاری کرے گے اور حکومت اس کا باقاعدہ آڈٹ کرے گی۔
ہمارے ملکی مفاد میں ہے جدت اور ریفائنریز اپ گریڈیشن میں پیسے لگے، ہماری ریفائنریز فرنس آئل زیادہ تیار کرتی ہیں جس کی کہیں مارکیٹ ہی نہیں ہے، بلیک آئل کی وجہ سے ریفائنریز کو نقصان ہورہا ہے، ہماری ریفائنریز تیس فیصد سے زائد فرنس آئل بنا رہی ہیں ، جب ریفائنریز کو اپ گریڈ کرینگے تو پٹرول اور ڈیزل کی فینش پراڈکٹس زیادہ بنائے گئے، انھوں نے کہا کہ پرمیم نہ دینے سے پٹرول ڈیزل کی قیمت کم ہوگی۔
یہ سب اشارے بتا رہے ہیں کہ پاکستان کی معیشت کو مشکلات کا سامنا ضرور ہے تاہم ایسا نہیں ہے کہ ملک اس صورت حال سے نکل نہیں سکتا۔ ملک میں مہنگائی کی شرح بھی مسلسل بڑھ رہی ہے اور لوگوں کی مالی مشکلات میں بھی اضافہ ہو رہا ہے۔ اس کے باوجود عالمی سطح پر پاکستان اپنا امیج بہتر بنانے میں کامیاب رہا ہے۔ ملک کے لیے اس وقت سب سے بڑی مشکل سیاسی عدم استحکام ہے۔
مرکز اور دو صوبوں کی حکومتیں ایک دوسرے کو نیچا دکھانے میں مصروف ہیں اور اس وجہ سے ملک کا انتظامی ڈھانچہ مفلوج نظر آتا ہے۔ ان حالات کو دیکھ کر یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں ہے کہ اس وقت پاکستان کے لیے بڑا مسئلہ معاشی بحران نہیں ہے بلکہ خودساختہ سیاسی عدم استحکام ہے۔ ملک کے اندر چند بااثر قوتیں سیاست کی آڑ میں عدم استحکام پیدا کرنے کے لیے ایڑھی چوٹی کا زور لگا رہی ہیں۔ ان کا یہ کام اس ملک کے مفاد میں نہیں بلکہ اس ملک کے مفاد کے خلاف ہے۔
بہرحال امید یہی کی جا سکتی ہے کہ بہت جلد ملک میں جاری سیاسی عدم استحکام کا خاتمہ بھی ہو جائے گا اور اس کے ساتھ ساتھ ملکی معیشت میں بھی استحکام آنا شروع ہو جائے گا۔