مصدقہ ہیرا پھیری
عمران خان سیاسی عمل اور حکمت عملی سے محض اس وجہ سے کوسوں دور ہیں کہ وہ سیاسی ذہن و تربیت کے فرد نہ تھے
شنید ہے کہ مسلم لیگ ن کی نئی آرگنائزر محترمہ مریم نواز جینوا میں اپنی طبی تفتیش کے بعد پارٹی کو متحرک و منظم کرنے کی نیت سے ملک میں جنوری کے آخری ہفتے میں آئیں گی.
ذرایع کے مطابق مریم نواز کے استقبال کی تیاریاں مکمل کر لی گئی ہیں،گمان ہے کہ نیا سال ملکی سیاست میں خاصے نشیب و فراز کی زد میں رہے گا، سیاسی حرارت میں تیزی و تندی کے ساتھ وعدے کے مطابق مقتدر قوتوں کو سیاست سے الگ کرنے کے عملی اقدامات کرنے ہوں گے۔
سیاست میں ساٹھ کی دہائی میں نظریاتی اور کمیونسٹ سیاست کو تہہ تیغ کیا گیا،جب کہ اشرافیہ کی تراشی ہوئی سیاسی جماعتوں میں اسٹبلشمنٹ کے طاقتور کردار سے بھی سب واقف ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ سیاسی معاملات میں دہائیوں سے بے جا مداخلت نے ان کا اعتبار سیاسی کارکنان اور عوام میں صرف شکستہ ہی کیا ہے اور اب تو نا موافق سیاسی حالات کے نمودار ہونے میں عام فرد بھی ان حالات کے پس پردہ مقتدر قوتوں کی جانب دیکھتا ہے۔
عمومی طور سے عوام کے شک و شبہ کا یہ عمل جہاں بہت خطرناک ہے، وہیں عوام کے اس شک یا رائے کو ختم کرنا ، بہت آسان بھی ہے کہ اب بتدریج سیاسی ابتری سے بالاتر ہوکر خود کو آئین و قانون کے تابع کیا جائے اور سیاسی اختلافات و ابتری کو سیاسی جماعتوں کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا جائے،تاکہ سیاسی ابتری میں سیاسی جماعتیں شدید اختلاف کے بعد کسی نہ کسی سیاسی حل کی طرف بڑھیں اور بات چیت سے اپنے سیاسی اختلافات کو کم کریں یا ان کا ممکنہ حل دریافت کریں۔
چار برس سے جاری سیاسی صورتحال میں سیاسی مداخلت اور کردار کو سب سے زیادہ زبان زد عام کرنے میں غیر سول قوتوں کی جانب سے لائی گئی تحریک انصاف کی سیاسی اور معاشی پالیسیوں نے کیا بلکہ ان کی چیرہ دستیوں کا مزید پردہ چاک کیا ہے،تحریک انصاف کے پروجیکٹ کو لانے کا اعادہ اکثر و بیشتر پی ٹی آئی کے عمران خان سمیت ان کی پارٹی کے رہنما کرتے رہے ہیں بلکہ پی ٹی آئی کے ترجمان تو یہاں تک کہہ چکے ہیں کہ ''تحریک انصاف کی حکومت چار برس تک مقتدر قوتوں کو آن سورس کردیا گیا تھا اور وہی معاشی،سیاسی اور خارجی امور طے کیا کرتی تھیں۔
یاد رہے کہ پی ٹی آئی کے رہنما عمران خان اور دیگر رہنماؤں کے مقتدر قوتوں کے مذکورہ بیانات عدم اعتماد کے بعد آئینی راستہ اپنانے اور اس کے نتیجے میں تحریک انصاف کی حکومت کے چلے جانے کے بعد منظر عام پر شدت سے آئے جب کہ اس سے قبل حکومت میں رہتے ہوئے ''ایک پیج'' اور ہم آہنگی کی گردان گاتے گاتے پی ٹی آئی کے عمران خان سمیت تمام رہنماؤں کے گلے خشک ہوتے جاتے تھے۔
پاکستان کے سیاسی منظر نامے میں یہ بھی دیکھا گیا کہ مقتدر قوتوں پر عمران خان کی جانب سے رکیک حملے بھی کیے گئے جب کہ بعض من پسند افراد کی طالبان دہشت گردوں کو کھلی چھٹی دینے پر پی ٹی آئی کی خیبر پختونخوا حکومت آنکھیں بند کیے رہی،اور جب دہشت گرد طالبان کا غلبہ خیبر پختونخوا کی حکومت کی سرکردگی میں ہوگیا تو نہایت صفائی سے ان افراد کو پس منظر میں دھکیل دیا گیا اور عمران خان نے اپنی خواہش کو بروئے کار لانے کے لیے معاشی طور سے غیر مستحکم ملک کو ''ڈیفالٹ'' کی طرف لے جانے کی کوشش میں لانگ مارچ کی کال دی اور ملک میں سیاسی طور سے ہیجانی کی ایک ایسی کوشش کی جس سے سیاست میں مذاکرات کی کوششوں کو دھچکا لگا اور سیاسی ماحول میں یہی تناؤ کی کیفیت ہنوز جاری و ساری ہے جو کہ کسی طور سنجیدہ سیاسی ماحول پیدا کرنے کا تا دیر لا علاج مسئلہ دکھائی دیتا ہے۔
سیاسی افراتفری کے ماحول میں یہ بات زبان زد عام ہے کہ پی ٹی آئی نے اپنی لانگ مارچ کی ناکامی کو چھپانے کی کوشش کے طور پر وزیر اعلیٰ پنجاب کے حلقے وزیر آباد کو چنا اور بقول ملزم نوید کے وکیل میاں داؤد کے ''عمران خان کے قافلے پر ایک پلانٹیڈ حملے کا منصوبہ پی ٹی آئی کے سہولت کاروں نے تیار کیا'' ۔
عمران خان کی حکومت کے خاتمے کے بعد لانگ مارچ میں ناکامی اور مبینہ حملے میں بھی عوام کی جانب سے ممکنہ ہمدردی کی مطلوبہ حمایت نہ حاصل ہونے والی الجھن نے عمران خان اور پی ٹی آئی کے مصنوعی طور سے بنائے جانے والے شہرت کے بلبلے کو ایسا بٹھایا ہے کہ عمران خان پنجاب کی حکومت تحلیل نہیں کر پارہے ہیں۔
عمران خان کے اسٹبلشمنٹ مخالف بیانیہ کو غیر سیاسی انداز سے برتنے کے بعد اور آئین سے ماورا اسٹبلشمنٹ کو بار بار پی ٹی آئی کی جانب سے سیاسی نظام میں مداخلت کا مطالبہ رکھنے کی حکمت عملی دراصل شطرنج کی بساط پر ایک اناڑی کی شکست کے سوا کچھ نہیں جو گھوڑے کی ڈھائی چال سے مکمل لا علم ہے،جب کہ عمران خان سیاسی عمل اور حکمت عملی سے محض اس وجہ سے کوسوں دور ہیں کہ وہ سیاسی ذہن و تربیت کے فرد نہ تھے اور نہ ہی اب تک بن سکے ہیں،کہ سیاست میں طعنے اور دھمکیوں سے زیادہ وقت پر سیاسی حربہ استعمال کرنے کا ہنر ہی کسی کی فتح کا ضامن ہوتا ہے وگرنہ سیاست کے دائرے میں پھنس جانے والے الجھن اور سیاسی شکست کا وہ نشان بن جاتے ہیں جنھیں ہیرا پھیری اور پینترے بازی بھی نہیں بچا سکتی،پھر وہ ناکام پروجیکٹ کی طرح یا تو مسمار کیے جاتے ہیں یا ان کے ختم ہونے کی میعاد کا انتظار کیا جاتا ہے،سو عمران خان کے لیے سیاست میں اس وقت انتظار ہی سب سے بہتر راستہ ہے وگرنہ نہ بانس رہے گا اور نہ بانسری...
ذرایع کے مطابق مریم نواز کے استقبال کی تیاریاں مکمل کر لی گئی ہیں،گمان ہے کہ نیا سال ملکی سیاست میں خاصے نشیب و فراز کی زد میں رہے گا، سیاسی حرارت میں تیزی و تندی کے ساتھ وعدے کے مطابق مقتدر قوتوں کو سیاست سے الگ کرنے کے عملی اقدامات کرنے ہوں گے۔
سیاست میں ساٹھ کی دہائی میں نظریاتی اور کمیونسٹ سیاست کو تہہ تیغ کیا گیا،جب کہ اشرافیہ کی تراشی ہوئی سیاسی جماعتوں میں اسٹبلشمنٹ کے طاقتور کردار سے بھی سب واقف ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ سیاسی معاملات میں دہائیوں سے بے جا مداخلت نے ان کا اعتبار سیاسی کارکنان اور عوام میں صرف شکستہ ہی کیا ہے اور اب تو نا موافق سیاسی حالات کے نمودار ہونے میں عام فرد بھی ان حالات کے پس پردہ مقتدر قوتوں کی جانب دیکھتا ہے۔
عمومی طور سے عوام کے شک و شبہ کا یہ عمل جہاں بہت خطرناک ہے، وہیں عوام کے اس شک یا رائے کو ختم کرنا ، بہت آسان بھی ہے کہ اب بتدریج سیاسی ابتری سے بالاتر ہوکر خود کو آئین و قانون کے تابع کیا جائے اور سیاسی اختلافات و ابتری کو سیاسی جماعتوں کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا جائے،تاکہ سیاسی ابتری میں سیاسی جماعتیں شدید اختلاف کے بعد کسی نہ کسی سیاسی حل کی طرف بڑھیں اور بات چیت سے اپنے سیاسی اختلافات کو کم کریں یا ان کا ممکنہ حل دریافت کریں۔
چار برس سے جاری سیاسی صورتحال میں سیاسی مداخلت اور کردار کو سب سے زیادہ زبان زد عام کرنے میں غیر سول قوتوں کی جانب سے لائی گئی تحریک انصاف کی سیاسی اور معاشی پالیسیوں نے کیا بلکہ ان کی چیرہ دستیوں کا مزید پردہ چاک کیا ہے،تحریک انصاف کے پروجیکٹ کو لانے کا اعادہ اکثر و بیشتر پی ٹی آئی کے عمران خان سمیت ان کی پارٹی کے رہنما کرتے رہے ہیں بلکہ پی ٹی آئی کے ترجمان تو یہاں تک کہہ چکے ہیں کہ ''تحریک انصاف کی حکومت چار برس تک مقتدر قوتوں کو آن سورس کردیا گیا تھا اور وہی معاشی،سیاسی اور خارجی امور طے کیا کرتی تھیں۔
یاد رہے کہ پی ٹی آئی کے رہنما عمران خان اور دیگر رہنماؤں کے مقتدر قوتوں کے مذکورہ بیانات عدم اعتماد کے بعد آئینی راستہ اپنانے اور اس کے نتیجے میں تحریک انصاف کی حکومت کے چلے جانے کے بعد منظر عام پر شدت سے آئے جب کہ اس سے قبل حکومت میں رہتے ہوئے ''ایک پیج'' اور ہم آہنگی کی گردان گاتے گاتے پی ٹی آئی کے عمران خان سمیت تمام رہنماؤں کے گلے خشک ہوتے جاتے تھے۔
پاکستان کے سیاسی منظر نامے میں یہ بھی دیکھا گیا کہ مقتدر قوتوں پر عمران خان کی جانب سے رکیک حملے بھی کیے گئے جب کہ بعض من پسند افراد کی طالبان دہشت گردوں کو کھلی چھٹی دینے پر پی ٹی آئی کی خیبر پختونخوا حکومت آنکھیں بند کیے رہی،اور جب دہشت گرد طالبان کا غلبہ خیبر پختونخوا کی حکومت کی سرکردگی میں ہوگیا تو نہایت صفائی سے ان افراد کو پس منظر میں دھکیل دیا گیا اور عمران خان نے اپنی خواہش کو بروئے کار لانے کے لیے معاشی طور سے غیر مستحکم ملک کو ''ڈیفالٹ'' کی طرف لے جانے کی کوشش میں لانگ مارچ کی کال دی اور ملک میں سیاسی طور سے ہیجانی کی ایک ایسی کوشش کی جس سے سیاست میں مذاکرات کی کوششوں کو دھچکا لگا اور سیاسی ماحول میں یہی تناؤ کی کیفیت ہنوز جاری و ساری ہے جو کہ کسی طور سنجیدہ سیاسی ماحول پیدا کرنے کا تا دیر لا علاج مسئلہ دکھائی دیتا ہے۔
سیاسی افراتفری کے ماحول میں یہ بات زبان زد عام ہے کہ پی ٹی آئی نے اپنی لانگ مارچ کی ناکامی کو چھپانے کی کوشش کے طور پر وزیر اعلیٰ پنجاب کے حلقے وزیر آباد کو چنا اور بقول ملزم نوید کے وکیل میاں داؤد کے ''عمران خان کے قافلے پر ایک پلانٹیڈ حملے کا منصوبہ پی ٹی آئی کے سہولت کاروں نے تیار کیا'' ۔
عمران خان کی حکومت کے خاتمے کے بعد لانگ مارچ میں ناکامی اور مبینہ حملے میں بھی عوام کی جانب سے ممکنہ ہمدردی کی مطلوبہ حمایت نہ حاصل ہونے والی الجھن نے عمران خان اور پی ٹی آئی کے مصنوعی طور سے بنائے جانے والے شہرت کے بلبلے کو ایسا بٹھایا ہے کہ عمران خان پنجاب کی حکومت تحلیل نہیں کر پارہے ہیں۔
عمران خان کے اسٹبلشمنٹ مخالف بیانیہ کو غیر سیاسی انداز سے برتنے کے بعد اور آئین سے ماورا اسٹبلشمنٹ کو بار بار پی ٹی آئی کی جانب سے سیاسی نظام میں مداخلت کا مطالبہ رکھنے کی حکمت عملی دراصل شطرنج کی بساط پر ایک اناڑی کی شکست کے سوا کچھ نہیں جو گھوڑے کی ڈھائی چال سے مکمل لا علم ہے،جب کہ عمران خان سیاسی عمل اور حکمت عملی سے محض اس وجہ سے کوسوں دور ہیں کہ وہ سیاسی ذہن و تربیت کے فرد نہ تھے اور نہ ہی اب تک بن سکے ہیں،کہ سیاست میں طعنے اور دھمکیوں سے زیادہ وقت پر سیاسی حربہ استعمال کرنے کا ہنر ہی کسی کی فتح کا ضامن ہوتا ہے وگرنہ سیاست کے دائرے میں پھنس جانے والے الجھن اور سیاسی شکست کا وہ نشان بن جاتے ہیں جنھیں ہیرا پھیری اور پینترے بازی بھی نہیں بچا سکتی،پھر وہ ناکام پروجیکٹ کی طرح یا تو مسمار کیے جاتے ہیں یا ان کے ختم ہونے کی میعاد کا انتظار کیا جاتا ہے،سو عمران خان کے لیے سیاست میں اس وقت انتظار ہی سب سے بہتر راستہ ہے وگرنہ نہ بانس رہے گا اور نہ بانسری...