جرائم پیشہ افراد کی بریت ذمے دار کون
کرپشن اور مقدمات کی بھرمار ہے جس کی وجہ سے پراسیکیوشن برانچ ہر ایک مقدمہ کی مناسب طور پر اسکروٹنی نہیں کر سکتی
جرائم پیشہ افراد کی سنگین مقدمات میں بریت ایک سنجیدہ مسئلہ بنتا جا رہا ہے۔ پولیس ایک جانب تو بڑی محنت کے بعد کسی اصل جرائم پیشہ فرد کو گرفتار کرتی ہے، لیکن مقدمہ درج کرتے وقت بہت سی چھوٹی چھوٹی باتیں نظر انداز کر دینے سے ملزمان عدالتوں سے بری کر دیے جاتے ہیں، جس کی ذمے دار صرف اور صرف پولیس کو ہی قرار دیا جاتا ہے جو کسی حد تک تو درست ہے لیکن بریت کی تمام تر ذمے داری صرف پولیس پر ڈال دینا، انصاف پر مبنی نہیں ہے۔
زیادہ تر مقدمات تو عوام کی جانب سے درج کروائے جاتے ہیں ، لیکن کچھ مقدمات خود سرکار کی مدعیت بھی درج کیے جاتے ہیں جو عموما پولیس کے ہاتھوں گرفتار ملزموں کے خلاف ہوتے ہیں۔ عام طور پر دیکھا گیا ہے کہ سرکار کی مدعیت میں درج کیے جانے والے مقدمات میں گرفتار شدہ ملزمان کی اکثریت بعد ازاں عدالتوں سے بری کر دی جاتی ہے، جس کی دو بڑی وجوہات ہیں۔ کسی بھی واردات کے بعد جائے وقوعہ کا معائنہ اور وہاں سے ملنے والے تمام شواہد کو محفوظ کرنا اور پھر ان کا درست انداز میں اندراج کرنا کسی بھی مقدمہ کی کامیابی اور ملزمان کی سزا میں کلیدی کردار ادا کرتا ہے۔
مجھے یاد ہے کہ جب انویسٹی گیشن کو آپریشن سے علیحدہ کیا گیا تھا تو یہ اصول بنایا گیا تھا کہ کسی بھی واردات کے فوری بعد آپریشن یونٹ کے جو بھی افسران و ملازمان موقع واردات پر پہنچیں گے وہ وہاں کسی شے کو ہاتھ نہیں لگائیں گے اور اسے اس وقت تک محفوظ رکھیں گے جب تک انویسٹی گیشن یا فارنزک یونٹ کے افسران وہاں نہ پہنچ جائیں، لیکن ایسا نہیں ہو رہا۔
واردات پر پہنچنے والے آپریشن برانچ کے افسران وملازمان از خود ہی، نا تجربہ کاری کی وجہ سے ہر چیز کا معائنہ شروع کر دیتے ہیں۔ جائے وقوعہ پر کسی بھی شے کو چھو لینے سے نہ صرف اصل ملزمان کے فنگر پرنٹس ضایع ہوجاتے ہیں بلکہ جائے وقوعہ کی حالت یا ساخت میں تبدیلی بھی آسکتی ہے جس سے بعد ازاں تفتیشی افسران جرم کے اصل محرکات تک نہیں پہنچ پاتے۔
مجھے یاد ہے کہ جب میں کراچی میں جمشید کوارٹر تھانے میں انویسٹی گیشن انچارج تھا تو پٹیل پاڑے کے علاقے میں ایک گھر کے کمرے میں ماں اور اس کے دو بچے جھلس کر مرگئے۔ تقریبا ایک ہفتے تک ایف آئی آر درج نہیں ہوئی کیونکہ تھانہ پولیس اسے ابتدا میں حادثہ قرار دیتی رہی اور شاید اسی لیے انویسٹی گیشن یونٹ کو اطلاع تک نہ دی گئی۔
مدعیان کے دباؤ کے بعد ایف آئی آر زیر دفعہ 302 درج ہونے کے بعد ہمیں اطلاع دی گئی اور جب ہم جائے وقوعہ پر پہنچے تو جس کمرے میں آگ لگنے کی وجہ سے ماں اور دو بچے ہلاک ہوئے تھے اس کو دھویا جاچکا تھا اور کمرے میں کسی بھی قسم کے کوئی شواہد باقی نہیں بچے تھے۔ جس کی وجہ سے یہ تعین کرنا انتہائی مشکل ہوگیا تھا کہ آگ حادثاتی طور پر لگی یا لگائی گئی، گوکہ بعد ازاں ہم نے بہت محنت کے بعد ، اپنی کاوشوں سے ملزم کو گرفتار کر لیا، جو مرنے والی عورت کا شوہر اور بچوں کا سگا باپ تھا۔
دوران تفتیش دستیاب شہادتوں کی بنیاد پر کیس چالان تو کردیا گیا لیکن موقع واردات سے ہمیں کوئی ایسی شہادت نہ مل سکی جس سے اس ملزم کو قاتل ثابت کیا جاسکتا۔ یہ نا صرف آپریشن یونٹ کی نااہلی تھی بلکہ مجرمانہ غفلت بھی جس کی تفصیلی رپورٹ افسران بالا کو ارسال کی گئی ، لیکن وہ رپورٹ کہاں تک پہنچی اور اس کا نتیجہ کیا نکلا یہ آج تک دریافت طلب ہے۔ کسی بھی مقدمہ میں ملزمان کی بریت کی دوسری بڑی وجہ ناقص اندراج مقدمہ اور ناقص تفتیش او ر پراسیکیوشن دفتر میں اس کی اسکروٹنی کا عمل ہے۔
مقدمہ سچا بھی ہو لیکن اگر ایف آئی آر کا اندراج درست نہیں کیا گیا تو پھر ملزمان کا بری ہونا کوئی خارج از امکان بات نہیں ہے۔ مقدمہ درج کرتے وقت ارتکاب جرم کی درست تاریخ اور وقت، جائے وقوعہ کی درست نشاندہی ، جگہ کے معائنے کے موقع پر ہی کیس پراپرٹی کا سر بمہر کیا جانا ، فرد مقبوضگی اور گرفتاری کے وقت سے لے کر ایف آئی آر درج کیے جانے کے وقت تک تمام عوامل کی آپس میں مناسبت بہت اہمیت کا حامل ہے اور یہی عوامل آگے چل کر ملزم یا ملزمان کی سزا یا بریت کا سبب بنتے ہیں۔
عموماً ڈکیتی اور اسٹریٹ کرائمز کے مقدمات میں پرائیویٹ گواہ میسر نہیں ہوتے اس لیے پولیس افسران و ملزموں کو ہی گواہ رکھا جاتا ہے ، چونکہ پولیس افسران کی گواہی ضابطہ کے تحت دوران مقدمہ قابل قبول نہیں ہوتی اور زیادہ تر مقدمات میں گواہی کے وقت یہ افسران مکمل تیاری کرکے نہیں آتے، اس لیے صفائی کے وکلا ء کا ان پر جرح کرنے کے دوران مقدمے میں موجود خامیوں کو اجاگر کرنا آسان ہو جاتا ہے۔ اس سلسلے میں نہ تو آج تک مناسب قانون سازی کی گئی اور نہ اس جانب توجہ دی گئی۔
سب سے اہم بات جس پر ہم اکثر و بیشتر افسران بالا کو آگاہ بھی کرتے رہے ہیں کہ مقدمہ عدالت میں جمع کروانے سے قبل پراسیکیوشن برانچ کا کردار ہے ،کیونکہ کسی بھی مقدمہ کو عدالت میں جمع کروائے جانے سے قبل پراسیکیوشن افسر کی اولین ذمے داری ہے کہ وہ مقدمہ کا بغور معائنہ کرے اور ایسی تمام خامیوں کی نشاندہی کرے کہ جو بعد میں ملزم کی بریت کا سبب بن سکتی ہیں اور کیس فائل اس وقت تک جمع نہ کروانے دی جائے جب تک آئی، او ایسی تمام خامیاں دورکر کے نہ لے آئے ، لیکن بدقسمتی سے ایسا نہیں ہوتا۔
کرپشن اور مقدمات کی بھرمار ہے جس کی وجہ سے پراسیکیوشن برانچ ہر ایک مقدمہ کی مناسب طور پر اسکروٹنی نہیں کر سکتی اور جس کی وجہ سے ایک ناقص مقدمہ عدالت میں داخل کر دیا جاتاہے۔ ہر کیس فائل کو عدالت میں جمع کروانے کے لیے پراسیکیوٹر کے دستخط لازمی ہوتے ہیں جن کے لیے باقاعدہ '' چارجز'' مقرر ہیں۔
مقدمہ '' اے کلاس '' یعنی ملزمان کی عدم دستیابی کی وجہ سے مقررہ وقت پورا ہونے کے بعد عدالت میں جمع کروانا لازمی ہوتا ہے، ایسے مقدمے کو جمع کرنے کے لیے انویسٹی گیشن افسر کو پانچ سو روپے سے ایک ہزار روپے تک ادا کرنے پڑتے ہیں اور اگر کوئی مقدمہ تفتیش کے بعد جھوٹا ثابت ہو اور اس کے لیے ''B کلاس'' رپورٹ عدالت میں جمع کروانی ہو تو پراسیکیوشن کے افسران اسے عدالت میں پیش کرنے کے لیے اپنی مرضی کا ''ریٹ'' طے کرتے ہیں۔
یہی حال ''C کلاس'' مقدمات میں بھی ہوتا ہے ، یعنی بہت ہی کم ایسے مقدمات ہوتے ہیں جو اپنی خامیوں کی وجہ سے یا دیگر وجوہات کی بنا ء پر جمع نہیں ہو پاتے وگرنہ ہر فائل کا ایک ریٹ طے ہے جو ادا کر کے آئی۔اور مقدمہ عدالت میں جمع کروانے میں کامیاب ہو جاتا ہے۔ میں نیوٹائون میں انچارج انویسٹی گیشن تھا ، تو ایک اعلیٰ افسر سینئر افسران کے ساتھ کچھ ایس آئی اوز کو بھی ایک میٹنگ میں مدعو کیا۔
میٹنگ کا ایجنڈا تفتیش کو بہتر بنانا تھا۔ یہ افسر ایک انتہائی شریف النفس انسان ہیں اسی لیے انھوں نے دوران میٹنگ تفتیشی افسران سے سوال کیا کہ کھل کر بتائیں ایک مقدمہ کی فائل کو ایس آئی او کے دفتر سے لے کر عدالت میں جمع کروانے تک کتنا خرچہ ہو جاتا ہے۔ ایک اور سینئر افسر نے جواب دینے کے لیے میرا نام تجویزکیا۔ میں نے اوپر بیان کیا جانے والا تمام پراسیس ان کے سامنے پیش کردیا۔
وہ چاہتے تھے کہ تفتیشی افسران کو مقدمے کے آغاز پر ہی اتنے پیسے دے دیے جائیں کہ وہ ایسے اخراجات اپنی جیب سے ادا نہ کریں۔ میں نے ان سے اجازت طلب کرکے عرض کیا کہ '' کیا یہ زیادہ بہتر نہیں ہے کہ ہم جن جگہوں پر پیسے دیتے ہیں وہاں کچھ ایسا نظام بنا دیں کہ کسی بھی انویسٹی گیشن افسر کو پیسے دینے ہی نہ پڑیں؟ '' لیکن چونکہ وہ جان چکے تھے کہ بناء پیسے دیے کوئی فائل کو فارورڈ نہیں کرے گا اس لیے انھوں نے تجویز کیا کہ آئی او کو ایڈوانس میں ہی کچھ رقم فنڈز سے ادا کر دی جائے تاکہ مقدمہ داخل کرنے میں تاخیر سے بچا جا سکے۔
اس پر عمل درآمد تو نہیں ہو سکا لیکن یہ واقعہ بیان کرنے کا مقصد یہ ہے جونیئر سے لے کر سینئر افسران تک اب یہ جان اور مان چکے ہیں کہ ''پیسے خرچ کیے بناء معاملات طول ہی پاتے ہیں۔'' جب''سسٹم'' اس حد تک کرپٹ ہوچکا ہوکہ سب نے اس کے سامنے ہتھیار ڈال دیے ہوں تو پھر کسی بھی قسم کی بہتری کی امید رکھنا بے کار ہے۔ ملزمان گرفتار ہوتے رہیں گے اور بعد ازاں ضمانت پر رہا ہوتے رہیں گے۔