ہم منتظر ہیں

یہ وہی دنیا ہے کہ جس میں کبھی صلاح الدین ایوبی نے اپنے بدترین دشمنوں کے ساتھ بھلائی کی تھی

صلاح الدین ایوبی کا نام سنتے ہی بیت المقدس کی فتح یاد آجاتی ہے ، جنھوں نے یروشلم کی جانب رخ کیا تو لڑائی شروع کرنے سے پہلے مخالفین کے سامنے اپنی شرائط رکھیں، یعنی اگر وہ ان شرائط کو مان لیتے ہیں تو جنگ کا ارادہ ترک ، لیکن انھوں نے ان کی باتوں کو نہ مانا۔ سلطان نے بیت المقدس کا محاصرہ کر لیا۔

چند ہی دنوں میں محصورین کو احساس ہوگیا کہ وہ بڑی مصیبت میں گرفتار ہو چکے ہیں۔ انھوں نے سلطان سے رحم کی درخواست کی۔ سلطان نے عیسائیوں کو شہری کے حقوق دے کر انھیں اپنی سلطنت میں رہنے کی اجازت دے دی۔ عیسائیوں کو حکم دیا کہ وہ چالیس دن کے اندر اپنے بال بچوں سمیت بیت المقدس سے نکل کر طرابلس چلے جائیں۔

ان جنگی سپاہیوں پر سلطان نے معمولی سا جرمانہ بھی عائد کیا لیکن دس ہزار سپاہیوں اور ان کے بال بچوں کا جرمانہ خود اپنے پاس سے ادا کرکے انھیں اجازت دی کہ وہ جاسکتے ہیں اور ہزاروں کا جرمانہ (فدیہ) معاف کر دیا۔ اس جنگ میں بغیر لڑائی کے فتح بھی نصیب ہوئی ، نہ قتل عام ہوا اور نہ ہی لوٹ مار ہوئی بلکہ دشمنوں کے ساتھ ہمدردی کا سلوک کیا گیا۔

سلطان صلاح الدین ایوبی نے بیت المقدس پر قابض ہونے کے بعد تیسری صلیبی جنگ کا تنہا سامنا کیا۔ ان کے مخالف فرانس، انگلستان اور یورپ کی فوجیں تھیں ، ان سے نمٹنے کے لیے سلطان نے کئی مسلمان ممالک کے حکمرانوں سے درخواست کی تھی لیکن انھیں ہر جانب سے ناکامی ملی تھی۔ 1189-1196 تک عکہ اور سلان کے نزدیک خون ریز جنگیں ہوئیں۔

سلطان ایک بڑے دل کا عظیم انسان تھا جو اپنے دشمنوں سے بھی اچھا سلوک کرتا تھا۔ انھیں خبر ملی کہ جرمنی کا بادشاہ فریڈرک باربروسا ایک دریا کو عبور کرتے ڈوب کر مر گیا۔ فوج میں ابتری پھیل گئی بہت سے سپاہی اپنے گھروں کو لوٹ گئے۔ شاہ فرانس اور شاہ انگلستان بھی بیمار پڑ گئے۔ جب سلطان کو اپنے دشمنوں کی اس ابتری کا علم ہوا تو انھیں برف، تازہ پھل اور مفرح شربت بھیجے اور جب تک وہ بیمار رہے اس وقت تک ان کو ہر قسم کی ضرورت کی چیزیں بھجواتے رہے تھے۔

سلطان صلاح الدین ایوبی کے اس عمل نے آپ کو کیا سوچنے پر مجبور کیا، یہ کہ وہ شخص اسلامی اصولوں پر کاربند تھا۔ اسے علم تھا کہ یہ جنگ وہ ایک مقدس عمل کے تحت کر رہا ہے لیکن اس کے ساتھ اخلاقی برتاؤ بھی کھل کر کیا کہ جس سے پتا چلتا ہے کہ وہ بخوبی واقف تھا کہ اچھے اخلاق ہی اسے رب العزت کی بارگاہ میں کس مقام پر لے جائیں گے۔

اسلامی تاریخ میں دشمنوں سے بھی اچھے سلوک کی کئی مثالیں نظر آتی ہیں، سردست سلطان صلاح الدین ایوبی پر نگاہ پڑی تھی۔ابھی ایک خبر پر بھی نظر پڑی۔ فٹ بال کی دنیا کے معروف کھلاڑی کرسٹیانو رونالڈو نے سعودی عرب کے فٹ بال کلب النصر کے ساتھ معاہدے پر دستخط کیے ہیں۔ اس معاہدے کی مدت 2025 تک ہے۔


ایک رپورٹ کیمطابق رونالڈو فٹ بال کی تاریخ کی سب سے بڑی تنخواہ یعنی پاکستانی روپے میں 48 ارب 46 کروڑ سے بھی زیادہ کی رقم وصول کریں گے۔ سالانہ دو سو ملین یورو۔ اگر اس کو روزانہ کی بنیاد پر تقسیم کریں تو یہ 13 کروڑ46 لاکھ 33 ہزار سے زائد کی رقم بنتی ہے جب کہ گھنٹوں کے حساب سے 23 ہزار 140 یورو، ہر منٹ کے 386 یورو، سیکنڈ کے حساب سے 6 یورو ملیں گے، فی یورو 238 روپے ہے۔

اس تگڑی تنخواہ کی تفصیلات کے ساتھ رونالڈو کے بڑے بڑے بیانات بھی تھے جس میں وہ اپنے تجربے کو ایشیائی ملک کے ساتھ پیش کرنے کے لیے بے چین تھے۔ سعودی عرب میں سات نمبر کی چھپی شرٹ کی فروخت میں بھی بے پناہ اضافہ ہوا ہے۔النصر کلب جو سعودی عرب کا ایک کلب ہے ریاض میں اس کا مرکز ہے۔ یہ 1955 میں قائم ہوا تھا اور پہلے پہل یہ ایک چھوٹے فٹ بال میدان اور چھوٹے سے کمرے پر محیط تھا جہاں شرٹس اور فٹ بال وغیرہ رکھی جاتی تھیں۔

1960 تک اس کا یہی حال تھا۔ اس کے بعد اسے سرکاری طور پر یوتھ ویلفیئر کے تحت رجسٹرڈ کیا گیا اور عبدالرحمان بن سعود ال سعود النصر کے صدر مقرر ہوئے۔ جس کے بعد اس کے تحت 1963 سے 80 کی دہائی تک کئی لیگز منعقد ہوئیں اور یہ کلب جیتتا گیا۔ اس طرح دیکھا جائے تو النصر کو سعودی عرب میں ایک سرکاری کلب کی حیثیت بھی حاصل ہے۔

یقیناً رونالڈو جیسے بڑے فٹ بال کے کھلاڑی کو النصر کلب کا حصہ بنانا جہاں فٹ بال کے شایقین کے لیے خوشی کی بات ہے وہیں ہم جیسے عام سے انسانوں کے لیے حیرانگی کا مقام بھی ہے۔ ہم وہ لوگ جنھوں نے چلتے پھرتے فٹ بال کے آخری فائنل میچ کو دیکھا، لوگوں کی چیخوں اور جوش و خروش نے متوجہ کیا تو ذرا غور کیا۔ کون جیتا، کس نے گول کیا، اچھا۔۔۔۔اور پھر سے کام کی مصروفیات۔آج ہم بحیثیت پاکستانی قوم کے شش و پنج کا شکار ہیں۔

یہاں دس کلو آٹے کا تھیلا چودہ سو روپے میں بہ مشکل دستیاب ہے۔ پیاز کے دام سونے جیسے ہیں، مرغی کی قیمتیں آسمان سے باتیں کر رہی ہیں، یہاں ہفتے بھر میں ہی قیمتیں اچھل اچھل کر گویا آسمان تک پہنچنے کی تیاری کر رہی ہیں۔ پورٹ پر مال پڑا ہے اور ادائیگی کے لیے ڈالرز کا قحط۔کون آ رہا ہے؟ کیوں آ رہا ہے، یا کیوں لایا جا رہا ہے؟

یہ ایک الگ کھچڑی ہے۔ گیس اور پانی کی آنکھ مچولی جاری ہے۔ یہ ملک تو قدرتی ذخائر سے زرخیز ہے پھر اندر اور باہر کی کشمکش نے عوام کو نچوڑ کر رکھ دیا ہے۔ سیاست دانوں کے کھیل، کھلونے سب کی کہانی الگ۔ حکومتی اداروں کی طاقت کی جوڑ توڑ کے الگ فسانے۔ ہم آج کہاں کھڑے ہیں؟ اب تو سرکار کی جانب سے آٹے کے ٹرک بھی نظر آنا بند ہوگئے ہیں۔ لوگ قطار لگا کر انتظار میں سوکھتے رہتے ہیں۔

یہ بھی درست ہے کہ جن لوگوں کے پاس امانتیں رکھوائی تھیں انھوں نے اس میں اتنے سوراخ کردیے کہ اب تو جیسے سانس بھی ادھار ہے۔ ہم اس ادھار کے سانس سے کب تک اپنا وجود برقرار رکھ سکتے ہیں۔ دنیا کے سارے کھیل تماشے ایک طرف اور انسانی جانیں ایک طرف۔ انسان جو بیش بہا قیمتی ہے۔

ہم آج کس دنیا میں سانس لے رہے ہیں، یہ وہی دنیا ہے کہ جس میں کبھی صلاح الدین ایوبی نے اپنے بدترین دشمنوں کے ساتھ بھلائی کی تھی اور ہم تو ایک رونالڈو کو بھی نہ ہرا سکے۔ کرسٹیانو رونالڈو جیت گیا ، ہم ہار گئے۔ آج اگر صلاح الدین ایوبی جیسا کوئی ہوتا تو ہماری مدد کو آتا اور ہمیں کچھ دیے بنا ہی خود بیرونی قرضے تو نمٹا دیتا۔ ہماری سانس تو آزاد کروا دیتا۔
Load Next Story