آئین شکن
یہ کیسا ملک ہے جہاں، قانون صرف غریبوں کے لیے ہے، امیروں کے لیے شرفا کے لیے، آئین شکنوں کے لیے نہیں
ہماری سیاست کس ڈگر آن پہنچی ہے ، کچھ بھی خبرنہیں، کس طرح آئین ٹوٹا، بار بار ٹوٹا، ہم سمجھتے رہے ،یہ سب معمول کی بات ہے ، جنرل باجوہ صاحب ہدایت دیتے رہے اور جناب ثاقب نثار صاحب کرتے گئے اور چلتے گئے۔ یہ نہ ہوتا، اگر جسٹس منیر نے پہل نہ کی ہوتی ، نظریہ ضرورت کی راہ نہ دکھائی ہوتی، یہ راستہ دکھانے والے تو جنرل ایوب تھے۔ جب انھوں نے پہلی بار ملک میں مارشل لاء لگایا تھا۔
جسٹس منیر نے صحیح کہا تھا کہ ہر انقلاب اپنی راہ خود بناتا ہے، ہر کامیاب شب خون درست ہے اور ہر ناکام شب خون غلط۔ 1947 کا پاکستان،پانچ کروڑ عوام سے ہم اب بائیس کروڑ بن چکے ہیں، اگر مغربی پاکستان کی بات کی جائے تو جو چلا گیا، وہ اب بنگلہ دیش ہے اورجو بچ گیا وہ اب پاکستان ہے۔جو چلا گیا اس نے آئین تشکیل دیا، اس کے ایک سال بعد ہماراآئین بنا،وہ بھی ہمارے ہی جیسے تھے ، شب خون مارا گیا۔
قانون یا آئین کی کس کتاب میں لکھا ہے کہ وہ آپ کو ہدایت دینگے اور آپ ان کی ہدایت مانیں گے۔ ہم نے کہا آپ ڈیم بنانا چاہتے ہیں کیونکہ آپکے سینے میں پاکستان کے لیے ایک درد ہے۔ چلیں جی! کر لیجیے شوق پورا ، وہ آپ کا آئین کے خلاف کام نہ تھا۔،ہوگا وہ بھی ظلم بڑا۔ یہ جو ہدایت آتی تھی اس کا مطلب ہے کہ آئین ٹوٹا او ر بار بار ٹوٹا۔ آئین میں لکھا کچھ اور تھا مگر ہوتا کچھ اور تھا، یہ ملک بنا کس کے لیے تھا اور ملا کس کو تھا؟
مگر میں سائنس کا شاگرد ہوں، اخلاقیات بعد میں آتی ہے، اس لیے یہ جو ہوا وہ تھا تو غیر اخلاقی اور جرم تھا مگر ہوتا تھا جس طرح جرم ہوتا ہے، بالکل اسی طرح۔ ایک نایاب تجربہ تھا ، ارتقاء کرتے کرتے، آمریتوں نے جو کیااور جو ''شرفا'' کی نسل بنائی، بیانیہ بنایا، تاریخ کو مسخ کرتے جو حلیہ تاریخ کا بنایا اس بار تو نہ ''عزیز ہم وطنو'' کی تقریر ضروری ٹھہری، نہ ٹرپل ون بریگیڈ کو وزیراعظم ہائوس میں گھسنے کی ضرورت پڑی۔
اس دفعہ تو فقط ایک اقامہ ہی کافی تھا، ایک وزیر اعظم کو اس کے منصب سے ہٹانے کے لیے، جب جنرل مشرف آئے تو ان کو مارشل لاء لگانے کی بھی ضرورت نہیں پڑی، ان کے سارے کام ہوتے رہے۔ اس دفعہ تو سب کچھ ہوا ،انتخابات بھی ہوئے مگر اندر ہی اندر کچھ اور ہوا۔ عمران خان صادق و امین اور جہانگیر ترین نہیں، یہ سب اپنا حق سمجھ کر کیا گیا۔
پاکستان کے مفاد میں بہتر سمجھ کے کیا گیا، پارلیمینٹ کو ربڑ اسٹیمپ بنایا گیا۔اس وقت کے وزیر اعظم خوش تھے، ان کو ہیلی کاپٹر میں گھومنے کا بہت شوق تھا۔ ان کے لیے جنرل فیض حمید سب کچھ کرتے رہے۔ اسمبلی میں نمبر بھی پورے کرتے ، بل بھی پاس کرادیتے، میڈیا کو بھی دیکھتے اور بھی بہت کچھ کرتے۔ مگر جو شرفاء تھے ان کا ایک ہی کام تھا ، وہ یہ تھا کہ اس ملک کو دیمک کی طرح چاٹتے رہو۔
کتنے اسکینڈل آئے خان صاحب کے زمانے میں۔ آٹا، چینی،ادویات ، توشہ خانہ توبہت ہی چھوٹی سی بات تھی۔ اوپر اوپر سے کرپشن کے خلاف جنگ جاری تھی اندر سے کرپشن جاری تھی اور محب وطن ہونے کا راگ آلاپ ہوئے تھے۔
صحیح کہتے ہیں کہ فوج آتی نہیں ،ان کو سیاستدان دعوت دیتے ہیں۔ مارشل لاء لگتا نہیں لگوایا جاتا ہے۔ اینکرز بھی سیاستدان بن گئے ہیں،ان میں سے چند ایسے ملک بچانے کے لیے نگران حکومت طویل مدت کے لیے لانے کا مشورہ دے رہے ہیں، سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آئین کے کس ورق میں لکھا ہے یہ نسخہ ؟ اب تو چند اینکر دولت مند بن گئے ہیں۔
بات کچھ یوں ہے کہ ہماری اسٹیبلشمنٹ بھلے توبہ کر لے کہ اب کبھی بھی سیاست میں وہ مداخلت نہیں کرے گی، مگر جو ان پچھتر سالوں میں اسٹیبلشمنٹ کے زیر سایہ جن سول حضرات نے مزے میں دن گذارے وہ تو ابھی یتیم نہیں ہونا چاہتے اوراب ایک نیابیانیہ دیا جارہا ہے جن پتوں پر تکیہ تھا، وہی ہوادینے لگے، کابل پر طالبان قابض ہوئے تو چائے کا کپ مشہور ہوا۔ پاکستانیوں کو نوید دی گئی کہ سب ٹھیک ہوجائے گا، سب ٹھیک تو نہیں ہوا بلکہ وہاں تو ہمارے دشمن اور بھی مضبوط ہو چکے ہیں۔
جب تک امریکی فوجیں تھیں، غنی تھا، یا کرزئی تھے تو ہمارے مخالف لیکن ان سے تو بہتر تھے جن سے ہمارے دیرینہ تعلقات اور ہمارا ایک مخصوص اور بااثر گروپ انھیں بھائی قرار دیتا تھا۔ بے شک آئین توڑا نہیں جاسکتا لیکن آپ کہہ دیں تو آئین ہے۔ اگر کہہ دیں کہ نہیں ہے تو پھر نہیں ہے۔ آپ چاہیںگے تو آپ سیاست میں ملوث نہیں ہوں گے اور اگر چاہیں گے تو ہو جائیں گے، عوام تو کچھ بھی نہیں کرسکتے کیونکہ آپ کی ہر بات پر آئین وقانون کا ٹھپہ لگانے کے لیے اشراف میں سے کوئی نہ کوئی ہوگا۔
اتنا بڑا اعتراف ہوا، دوستو وسکی کے ناول ''جرم اور سزا'' کے اہم کردار روسکو لنکوف کی طرح کے ''جی ہاں یہ قتل میں نے کیا ہے'' لیکن آپ کو روسکو لنکوف کی طرح سائیبریا کی جیل میں عمر قید کی سزا بھی نہیں ہوئی۔ یہ اعتراف کرتے وقت شاید احساس بھی نہ ہو کہ یہ اعتراف ہے کہ آپ کے لاشعور میں تھا ہی نہیں کہ یہ اعتراف ہے! یہ تو آپ کا حق تھا۔ تیتر کھائیں یا بٹیر، جنرل ضیاء الحق کہتے تھے، آئین تو چند کاغذوں کا پلندہ ہے جسے پھاڑ کے کسی بھی وقت ردی کی ٹوکری میں پھینکا جاسکتا ہے۔ صحیح کہتے تھے جسٹس منیر کہ ہر انقلاب اپنی راہ کاخود تعین کرتا تھا۔
ہمیشہ پاکستان کو خطرہ رہا بیرونی طاقتوں سے ، ان کی سازشوں سے ،ہماری جغر افیائی حقیقت بڑی مختلف تھی اور انگریز سامراج نے بٹوارہ بھی صحیح طرح نہیں کیا تھا۔ کشمیر کو ادھورا چھوڑ گیا نتیجہ یہ نکلا جو دوست تھے وہ دشمن ہوئے جو دشمن تھے وہ دوست۔ مگر غریب کا اور مجبور کا کوئی دوست نہیں ہوتا۔ بس اسے استعمال کیا جاتا ہے اور اگر غریب کے گھر کی اپنی ترتیب ہی بگڑی ہوئی ہو اور چور گھس آئے تو سب تماشہ ہی دیکھتے ہیں ، کوئی چور کو باہر نکلنے کے لیے نہیں کہتا۔
آج پاکستان اور اس کے عوام کو خطرہ کسی بیرونی طاقت سے نہیں ہے، پاکستان اور اس کے عوام کو حقیقی خطرہ ملک کے اندر بیٹھے طاقتور اور بااثر گروہوں سے ہے، ایوب خان، یحیٰ خان، ضیاالحق اور پرویز مشرف کے زیر سایہ ریاستی وسائل پر پلنے والی اشرافیہ سے ہے ، اب تو چند اینکرز بھی اس کا حصہ اور آلہ کار ہیں ۔
بنایا اس ملک کو سیاستدانوں نے تھا ، آئین اس ملک کو سیاست دانوں نے دیا تھا۔ کارگل کا ایڈونچر بھی کیا گیا اور سیاستدانوں نے بیچ کا راستہ بھی نکالا۔ ہائبرڈ کا تجربہ بھی ناکام ہوا۔جاتے جاتے، اس نے اکیس ہزار ارب کا نیا قرضہ چھوڑا، تباہ حال معیشت چھوڑ ی ، اسے ٹھیک کرنے کے لیے اب بھی سیاستدان آئے ہیں جو آئین نہیں توڑتے، آئین کے حدود میں رہ کے کام کرتے ہیں، میں ان سیاستدانوں کی بات نہیں کررہا جو کل رات کسی صحافی کو انٹرویو دیتے ہوئے کہہ رہے تھے کہ اس حکومت سے بہتر ہے مارشل لاء لگ جائے۔
اب احتساب ہونا ضروری ہے،جو حمود الرحمان کمیشن نہ کرسکا، جو بھٹو جیسا طاقتور وزیر اعظم نہیں کرسکا، یہ کیسے کرسکیں گے؟ کتنے مارے گئے ، کتنے جیلوں میں سٹرتے رہے گیا ، کتنی بار یہ کٹہرے میں کھڑے ہوئے ہیں۔ کیا نظریہ ضرورت کے بینفشریز کی باری نہیں آئے گی؟خان صاحب کو لایا ہی اس لیے گیا تھا کہ وہ پلے بوائے تھا اور انھوں نے بھی اعتراف کرلیا کہ وہ پلے بوائے رہے تھے۔ پلے بوائے اور اس کی منڈلی نے پاکستان کے ساتھ جو کچھ کیا، کیا اس کی باز پرس نہیں کی جائے گی؟
یہ کیسا ملک ہے جہاں، قانون صرف غریبوں کے لیے ہے، امیروں کے لیے شرفا کے لیے، آئین شکنوں کے لیے نہیں،یہ سب ٹھیک نہیں ہے، یہ سب ٹھیک ہوگا بھی نہیں، جب تک آئین کو اس طرح سمجھا جائے گا اور آئین کو اس طرح سمجھا یا جائے گا۔ جب تک ادارے مضبوط نہیں ہونگے ، قوم یک زبان جمہوریت یکجا نہیں ہوگی اور اگر کوئی شب خون مارا جائے گا یا پھر ہائبرڈ نظام لائیگا، اس کا تعاقب وہیں سے شروع کیا جائے گا ۔ اب تو پاکستان کی دو بڑی سیاسی پارٹیاں ، جمہوریت کا دعویٰ کرنے والی پارٹیاں لوگوں سے کم اور اسٹیبلشمنٹ سے زیادہ قریب رہنا چاہتی ہیں۔
جسٹس منیر نے صحیح کہا تھا کہ ہر انقلاب اپنی راہ خود بناتا ہے، ہر کامیاب شب خون درست ہے اور ہر ناکام شب خون غلط۔ 1947 کا پاکستان،پانچ کروڑ عوام سے ہم اب بائیس کروڑ بن چکے ہیں، اگر مغربی پاکستان کی بات کی جائے تو جو چلا گیا، وہ اب بنگلہ دیش ہے اورجو بچ گیا وہ اب پاکستان ہے۔جو چلا گیا اس نے آئین تشکیل دیا، اس کے ایک سال بعد ہماراآئین بنا،وہ بھی ہمارے ہی جیسے تھے ، شب خون مارا گیا۔
قانون یا آئین کی کس کتاب میں لکھا ہے کہ وہ آپ کو ہدایت دینگے اور آپ ان کی ہدایت مانیں گے۔ ہم نے کہا آپ ڈیم بنانا چاہتے ہیں کیونکہ آپکے سینے میں پاکستان کے لیے ایک درد ہے۔ چلیں جی! کر لیجیے شوق پورا ، وہ آپ کا آئین کے خلاف کام نہ تھا۔،ہوگا وہ بھی ظلم بڑا۔ یہ جو ہدایت آتی تھی اس کا مطلب ہے کہ آئین ٹوٹا او ر بار بار ٹوٹا۔ آئین میں لکھا کچھ اور تھا مگر ہوتا کچھ اور تھا، یہ ملک بنا کس کے لیے تھا اور ملا کس کو تھا؟
مگر میں سائنس کا شاگرد ہوں، اخلاقیات بعد میں آتی ہے، اس لیے یہ جو ہوا وہ تھا تو غیر اخلاقی اور جرم تھا مگر ہوتا تھا جس طرح جرم ہوتا ہے، بالکل اسی طرح۔ ایک نایاب تجربہ تھا ، ارتقاء کرتے کرتے، آمریتوں نے جو کیااور جو ''شرفا'' کی نسل بنائی، بیانیہ بنایا، تاریخ کو مسخ کرتے جو حلیہ تاریخ کا بنایا اس بار تو نہ ''عزیز ہم وطنو'' کی تقریر ضروری ٹھہری، نہ ٹرپل ون بریگیڈ کو وزیراعظم ہائوس میں گھسنے کی ضرورت پڑی۔
اس دفعہ تو فقط ایک اقامہ ہی کافی تھا، ایک وزیر اعظم کو اس کے منصب سے ہٹانے کے لیے، جب جنرل مشرف آئے تو ان کو مارشل لاء لگانے کی بھی ضرورت نہیں پڑی، ان کے سارے کام ہوتے رہے۔ اس دفعہ تو سب کچھ ہوا ،انتخابات بھی ہوئے مگر اندر ہی اندر کچھ اور ہوا۔ عمران خان صادق و امین اور جہانگیر ترین نہیں، یہ سب اپنا حق سمجھ کر کیا گیا۔
پاکستان کے مفاد میں بہتر سمجھ کے کیا گیا، پارلیمینٹ کو ربڑ اسٹیمپ بنایا گیا۔اس وقت کے وزیر اعظم خوش تھے، ان کو ہیلی کاپٹر میں گھومنے کا بہت شوق تھا۔ ان کے لیے جنرل فیض حمید سب کچھ کرتے رہے۔ اسمبلی میں نمبر بھی پورے کرتے ، بل بھی پاس کرادیتے، میڈیا کو بھی دیکھتے اور بھی بہت کچھ کرتے۔ مگر جو شرفاء تھے ان کا ایک ہی کام تھا ، وہ یہ تھا کہ اس ملک کو دیمک کی طرح چاٹتے رہو۔
کتنے اسکینڈل آئے خان صاحب کے زمانے میں۔ آٹا، چینی،ادویات ، توشہ خانہ توبہت ہی چھوٹی سی بات تھی۔ اوپر اوپر سے کرپشن کے خلاف جنگ جاری تھی اندر سے کرپشن جاری تھی اور محب وطن ہونے کا راگ آلاپ ہوئے تھے۔
صحیح کہتے ہیں کہ فوج آتی نہیں ،ان کو سیاستدان دعوت دیتے ہیں۔ مارشل لاء لگتا نہیں لگوایا جاتا ہے۔ اینکرز بھی سیاستدان بن گئے ہیں،ان میں سے چند ایسے ملک بچانے کے لیے نگران حکومت طویل مدت کے لیے لانے کا مشورہ دے رہے ہیں، سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آئین کے کس ورق میں لکھا ہے یہ نسخہ ؟ اب تو چند اینکر دولت مند بن گئے ہیں۔
بات کچھ یوں ہے کہ ہماری اسٹیبلشمنٹ بھلے توبہ کر لے کہ اب کبھی بھی سیاست میں وہ مداخلت نہیں کرے گی، مگر جو ان پچھتر سالوں میں اسٹیبلشمنٹ کے زیر سایہ جن سول حضرات نے مزے میں دن گذارے وہ تو ابھی یتیم نہیں ہونا چاہتے اوراب ایک نیابیانیہ دیا جارہا ہے جن پتوں پر تکیہ تھا، وہی ہوادینے لگے، کابل پر طالبان قابض ہوئے تو چائے کا کپ مشہور ہوا۔ پاکستانیوں کو نوید دی گئی کہ سب ٹھیک ہوجائے گا، سب ٹھیک تو نہیں ہوا بلکہ وہاں تو ہمارے دشمن اور بھی مضبوط ہو چکے ہیں۔
جب تک امریکی فوجیں تھیں، غنی تھا، یا کرزئی تھے تو ہمارے مخالف لیکن ان سے تو بہتر تھے جن سے ہمارے دیرینہ تعلقات اور ہمارا ایک مخصوص اور بااثر گروپ انھیں بھائی قرار دیتا تھا۔ بے شک آئین توڑا نہیں جاسکتا لیکن آپ کہہ دیں تو آئین ہے۔ اگر کہہ دیں کہ نہیں ہے تو پھر نہیں ہے۔ آپ چاہیںگے تو آپ سیاست میں ملوث نہیں ہوں گے اور اگر چاہیں گے تو ہو جائیں گے، عوام تو کچھ بھی نہیں کرسکتے کیونکہ آپ کی ہر بات پر آئین وقانون کا ٹھپہ لگانے کے لیے اشراف میں سے کوئی نہ کوئی ہوگا۔
اتنا بڑا اعتراف ہوا، دوستو وسکی کے ناول ''جرم اور سزا'' کے اہم کردار روسکو لنکوف کی طرح کے ''جی ہاں یہ قتل میں نے کیا ہے'' لیکن آپ کو روسکو لنکوف کی طرح سائیبریا کی جیل میں عمر قید کی سزا بھی نہیں ہوئی۔ یہ اعتراف کرتے وقت شاید احساس بھی نہ ہو کہ یہ اعتراف ہے کہ آپ کے لاشعور میں تھا ہی نہیں کہ یہ اعتراف ہے! یہ تو آپ کا حق تھا۔ تیتر کھائیں یا بٹیر، جنرل ضیاء الحق کہتے تھے، آئین تو چند کاغذوں کا پلندہ ہے جسے پھاڑ کے کسی بھی وقت ردی کی ٹوکری میں پھینکا جاسکتا ہے۔ صحیح کہتے تھے جسٹس منیر کہ ہر انقلاب اپنی راہ کاخود تعین کرتا تھا۔
ہمیشہ پاکستان کو خطرہ رہا بیرونی طاقتوں سے ، ان کی سازشوں سے ،ہماری جغر افیائی حقیقت بڑی مختلف تھی اور انگریز سامراج نے بٹوارہ بھی صحیح طرح نہیں کیا تھا۔ کشمیر کو ادھورا چھوڑ گیا نتیجہ یہ نکلا جو دوست تھے وہ دشمن ہوئے جو دشمن تھے وہ دوست۔ مگر غریب کا اور مجبور کا کوئی دوست نہیں ہوتا۔ بس اسے استعمال کیا جاتا ہے اور اگر غریب کے گھر کی اپنی ترتیب ہی بگڑی ہوئی ہو اور چور گھس آئے تو سب تماشہ ہی دیکھتے ہیں ، کوئی چور کو باہر نکلنے کے لیے نہیں کہتا۔
آج پاکستان اور اس کے عوام کو خطرہ کسی بیرونی طاقت سے نہیں ہے، پاکستان اور اس کے عوام کو حقیقی خطرہ ملک کے اندر بیٹھے طاقتور اور بااثر گروہوں سے ہے، ایوب خان، یحیٰ خان، ضیاالحق اور پرویز مشرف کے زیر سایہ ریاستی وسائل پر پلنے والی اشرافیہ سے ہے ، اب تو چند اینکرز بھی اس کا حصہ اور آلہ کار ہیں ۔
بنایا اس ملک کو سیاستدانوں نے تھا ، آئین اس ملک کو سیاست دانوں نے دیا تھا۔ کارگل کا ایڈونچر بھی کیا گیا اور سیاستدانوں نے بیچ کا راستہ بھی نکالا۔ ہائبرڈ کا تجربہ بھی ناکام ہوا۔جاتے جاتے، اس نے اکیس ہزار ارب کا نیا قرضہ چھوڑا، تباہ حال معیشت چھوڑ ی ، اسے ٹھیک کرنے کے لیے اب بھی سیاستدان آئے ہیں جو آئین نہیں توڑتے، آئین کے حدود میں رہ کے کام کرتے ہیں، میں ان سیاستدانوں کی بات نہیں کررہا جو کل رات کسی صحافی کو انٹرویو دیتے ہوئے کہہ رہے تھے کہ اس حکومت سے بہتر ہے مارشل لاء لگ جائے۔
اب احتساب ہونا ضروری ہے،جو حمود الرحمان کمیشن نہ کرسکا، جو بھٹو جیسا طاقتور وزیر اعظم نہیں کرسکا، یہ کیسے کرسکیں گے؟ کتنے مارے گئے ، کتنے جیلوں میں سٹرتے رہے گیا ، کتنی بار یہ کٹہرے میں کھڑے ہوئے ہیں۔ کیا نظریہ ضرورت کے بینفشریز کی باری نہیں آئے گی؟خان صاحب کو لایا ہی اس لیے گیا تھا کہ وہ پلے بوائے تھا اور انھوں نے بھی اعتراف کرلیا کہ وہ پلے بوائے رہے تھے۔ پلے بوائے اور اس کی منڈلی نے پاکستان کے ساتھ جو کچھ کیا، کیا اس کی باز پرس نہیں کی جائے گی؟
یہ کیسا ملک ہے جہاں، قانون صرف غریبوں کے لیے ہے، امیروں کے لیے شرفا کے لیے، آئین شکنوں کے لیے نہیں،یہ سب ٹھیک نہیں ہے، یہ سب ٹھیک ہوگا بھی نہیں، جب تک آئین کو اس طرح سمجھا جائے گا اور آئین کو اس طرح سمجھا یا جائے گا۔ جب تک ادارے مضبوط نہیں ہونگے ، قوم یک زبان جمہوریت یکجا نہیں ہوگی اور اگر کوئی شب خون مارا جائے گا یا پھر ہائبرڈ نظام لائیگا، اس کا تعاقب وہیں سے شروع کیا جائے گا ۔ اب تو پاکستان کی دو بڑی سیاسی پارٹیاں ، جمہوریت کا دعویٰ کرنے والی پارٹیاں لوگوں سے کم اور اسٹیبلشمنٹ سے زیادہ قریب رہنا چاہتی ہیں۔