ان حلقہ بندیوں پر بلدیاتی الیکشن کے نتائج تسلیم نہیں کریں گے ایم کیو ایم
خالد مقبول صدیقی کی سربراہی میں ایم کیو ایم وفد سے فاروق ستار کی ملاقات، ریلی کی حمایت اور شرکت کا اعلان کردیا
متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) پاکستان کے کنونیئر ڈاکٹر خالد مقبول صدیقی نے کہا ہے کہ اگر ان حلقہ بندیوں پر بلدیاتی الیکشن ہوئے تو نتائج تسلیم نہیں کریں گے جبکہ ڈاکٹر فاروق ستار نے کہا ہے کہ اگر ان حالات میں انتخابات ہوئے تو پھر ہوئے نا ہوئے برابر ہے۔
ایم کیو ایم پاکستان کا وفد ڈاکٹر خالد مقبول صدیقی کی سربراہی میں ڈاکٹر فاروق ستار کی رہائش گاہ پہنچا اور کراچی کی حلقہ بندیوں کے حوالے سے گیارہ مارچ کو نکلنے والی ریلی میں شرکت کی دعوت دی جسے فاروق ستار نے قبول کرلیا۔
ملاقات کے بعد میڈیا سے مشترکہ گفتگو کرتے ہوئے خالد مقبول صدیقی نے کہا کہ 40 سالہ جدوجہد میں اہم وقت ہے، قومی اتفاق رائے سے مہاجروں کے ساتھ زیادتی ہورہی ہے، پہلے کم گنا گیا پھر ووٹر لسٹوں بے ضابطگیاں کی گئی ہے، مہاجروں کے علاقے میں یوسی 90 ہزار سے ایک لاکھ پر بنائی گئی دوسری جانب سے 25 سے 30 ہزار پر ہوسی بنائی گئی ہے۔
انہوں نے واضح کیا کہ ان حلقہ بندیوں پر الیکشن ہوئے تو ان کو تسلیم نہیں کریں گے، الیکشن سے قبل پری پول رکنگ ہوچکی ہے، ایوانوں الیکشن کمیشن اور عدلیہ میں گیا لیکن کہیں شنوائی نہیں ہوئی، 11 جنوری کو الیکشن کمیشن کو باور کرانا ہے شفاف الیکشن کرانا آپ کی ذمہ داری ہے، مشترکہ آواز کے لئے سب کے پاس جارہے ہیں، اسی لئے فاروق ستار بھائی کے پاس آئے ہے۔
ڈاکٹر فاروق ستار نے کہا کہ خالد مقبول صدیقی سے اہم ملاقات ہوئی ہے، ہم نے خالد مقبول صدیقی اور ایم کیو ایم کے رفقاء کو خیرمقدم کیا، ایم کیو ایم نے حلقہ بندیوں کے حوالے سے درست فیصلہ کیا کیونکہ کراچی کے ساتھ بہت بڑا ظلم اور ناانصافی ہوئی ہے، مردم شماری میں کراچی کے شہریوں کی تعداد کو کم دکھایا گیا، 70 کی دہائی سے ہماری آبادی میں اضافہ ہی نہیں ہورہا ہے۔
انہوں نے کہا کہ کراچی والوں کی آبادی کو نہیں گنا جاتا تو ہم کہاں جائیں، سندھ ۔کے شہری علاقوں میں اچھا پیغام نہیں جارہا ہے، حلقہ بندیاں اس طرح سے ہوئی کے کہ اس کو جیری مینڈرنگ کی گئی ہے۔
ڈاکٹر فاروق ستار نے ایم کیو ایم کے احتجاج کی کال کی حمایت اور ریلی مٰں شرکت کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ ہمارے لئے خوشی کا موقع ہے کہ اہم نقطے پرایم کیوایم پاکستان تحریک چلانے جارہی ہے، ہم ماضی میں بھی مہاجروں کی آواز بنتے رہے، یہ جو بڑا ظلم ہوا ہے اس پر احتجاج بنتا ہے، برمی بنگالی ویتنامی روزگار کے لئے کراچی کا رخ کرتا ہے، پاکستان کی صوبائی حکومت ہو یا الیکشن کمیشن حلقہ بندیوں کا نوٹس لیں۔
اُن کا کہنا تھا کہ ہمارے پاس بلدیاتی دور گذرا لیکن بلدیاتی ادارے ہمارے پاس نہیں تھے، ہم ایک سندھ رکھنا چاہتے تھے اپکی زیادتیوں نے اس پرپانی پھیر دیا، حلقہ بندیاں اسطرح ہوئی ہیں کہ ووٹ دینے والے کو حق نہیں مل رہا، میں مکمل طور پر اس کاز کی حمایت کا اعلان کرتا ہوں۔
ڈاکٹر فاروق ستار نے دعویٰ کیا کہ 'جماعت اسلامی کی نظر صرف مئیر شپ پر ہے، مجھے یہ بو آگئی ہے کہ پیپلز پارٹی اور جماعت اسلامی میں معاہدہ ہوگیا ہے، یہ معاہدہ مہاجروں کے خلاف اور مہاجروں کو دیوار سے لگانے کا ہوا ہے، جماعت اسلامی اور پیپلز پارٹی اس ناانصافی میں برابر کی شریک ہے، کراچی اور حیدرآباد سے سب کا تعلق ہے'۔
انہوں نے کہا کہ کراچی اور حیدرآباد میں بسنے والے پنجابی ، سندھیوں ، بلوچوں سمیت دیگر کو بھی سوچنا پڑے گا، ہم ایک ہی فیکٹری کا پروڈکٹ ہیں، کراچی اور حیدرآباد کی مئیر شپ کس کو دینی ہے یہ پہلے سے طے کرلی گئی ہے، اس شہر کو آگ میں ڈالنے کی کوشش کی جارہی ہے، ہم نے ہر معاملہ پر صبر کیا پر پر اب نہیں ہوسکے گا، ایسا نہ ہو کہ ہم اپنے بچوں کو روک نہیں سکے گا۔
ڈاکٹر فاروق ستار 'میرے لہجہ کو صرف دھمکی نہیں سمجھی جائے میں جو میں دیکھ رہا ہوں وہ بتا رہا ہوں، اگر ان حالات میں انتخابات ہوئے تو پھر ہوئے نا ہوئے برابر ہے'۔
ایم کیو ایم پاکستان کا وفد ڈاکٹر خالد مقبول صدیقی کی سربراہی میں ڈاکٹر فاروق ستار کی رہائش گاہ پہنچا اور کراچی کی حلقہ بندیوں کے حوالے سے گیارہ مارچ کو نکلنے والی ریلی میں شرکت کی دعوت دی جسے فاروق ستار نے قبول کرلیا۔
ملاقات کے بعد میڈیا سے مشترکہ گفتگو کرتے ہوئے خالد مقبول صدیقی نے کہا کہ 40 سالہ جدوجہد میں اہم وقت ہے، قومی اتفاق رائے سے مہاجروں کے ساتھ زیادتی ہورہی ہے، پہلے کم گنا گیا پھر ووٹر لسٹوں بے ضابطگیاں کی گئی ہے، مہاجروں کے علاقے میں یوسی 90 ہزار سے ایک لاکھ پر بنائی گئی دوسری جانب سے 25 سے 30 ہزار پر ہوسی بنائی گئی ہے۔
انہوں نے واضح کیا کہ ان حلقہ بندیوں پر الیکشن ہوئے تو ان کو تسلیم نہیں کریں گے، الیکشن سے قبل پری پول رکنگ ہوچکی ہے، ایوانوں الیکشن کمیشن اور عدلیہ میں گیا لیکن کہیں شنوائی نہیں ہوئی، 11 جنوری کو الیکشن کمیشن کو باور کرانا ہے شفاف الیکشن کرانا آپ کی ذمہ داری ہے، مشترکہ آواز کے لئے سب کے پاس جارہے ہیں، اسی لئے فاروق ستار بھائی کے پاس آئے ہے۔
ڈاکٹر فاروق ستار نے کہا کہ خالد مقبول صدیقی سے اہم ملاقات ہوئی ہے، ہم نے خالد مقبول صدیقی اور ایم کیو ایم کے رفقاء کو خیرمقدم کیا، ایم کیو ایم نے حلقہ بندیوں کے حوالے سے درست فیصلہ کیا کیونکہ کراچی کے ساتھ بہت بڑا ظلم اور ناانصافی ہوئی ہے، مردم شماری میں کراچی کے شہریوں کی تعداد کو کم دکھایا گیا، 70 کی دہائی سے ہماری آبادی میں اضافہ ہی نہیں ہورہا ہے۔
انہوں نے کہا کہ کراچی والوں کی آبادی کو نہیں گنا جاتا تو ہم کہاں جائیں، سندھ ۔کے شہری علاقوں میں اچھا پیغام نہیں جارہا ہے، حلقہ بندیاں اس طرح سے ہوئی کے کہ اس کو جیری مینڈرنگ کی گئی ہے۔
ڈاکٹر فاروق ستار نے ایم کیو ایم کے احتجاج کی کال کی حمایت اور ریلی مٰں شرکت کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ ہمارے لئے خوشی کا موقع ہے کہ اہم نقطے پرایم کیوایم پاکستان تحریک چلانے جارہی ہے، ہم ماضی میں بھی مہاجروں کی آواز بنتے رہے، یہ جو بڑا ظلم ہوا ہے اس پر احتجاج بنتا ہے، برمی بنگالی ویتنامی روزگار کے لئے کراچی کا رخ کرتا ہے، پاکستان کی صوبائی حکومت ہو یا الیکشن کمیشن حلقہ بندیوں کا نوٹس لیں۔
اُن کا کہنا تھا کہ ہمارے پاس بلدیاتی دور گذرا لیکن بلدیاتی ادارے ہمارے پاس نہیں تھے، ہم ایک سندھ رکھنا چاہتے تھے اپکی زیادتیوں نے اس پرپانی پھیر دیا، حلقہ بندیاں اسطرح ہوئی ہیں کہ ووٹ دینے والے کو حق نہیں مل رہا، میں مکمل طور پر اس کاز کی حمایت کا اعلان کرتا ہوں۔
ڈاکٹر فاروق ستار نے دعویٰ کیا کہ 'جماعت اسلامی کی نظر صرف مئیر شپ پر ہے، مجھے یہ بو آگئی ہے کہ پیپلز پارٹی اور جماعت اسلامی میں معاہدہ ہوگیا ہے، یہ معاہدہ مہاجروں کے خلاف اور مہاجروں کو دیوار سے لگانے کا ہوا ہے، جماعت اسلامی اور پیپلز پارٹی اس ناانصافی میں برابر کی شریک ہے، کراچی اور حیدرآباد سے سب کا تعلق ہے'۔
انہوں نے کہا کہ کراچی اور حیدرآباد میں بسنے والے پنجابی ، سندھیوں ، بلوچوں سمیت دیگر کو بھی سوچنا پڑے گا، ہم ایک ہی فیکٹری کا پروڈکٹ ہیں، کراچی اور حیدرآباد کی مئیر شپ کس کو دینی ہے یہ پہلے سے طے کرلی گئی ہے، اس شہر کو آگ میں ڈالنے کی کوشش کی جارہی ہے، ہم نے ہر معاملہ پر صبر کیا پر پر اب نہیں ہوسکے گا، ایسا نہ ہو کہ ہم اپنے بچوں کو روک نہیں سکے گا۔
ڈاکٹر فاروق ستار 'میرے لہجہ کو صرف دھمکی نہیں سمجھی جائے میں جو میں دیکھ رہا ہوں وہ بتا رہا ہوں، اگر ان حالات میں انتخابات ہوئے تو پھر ہوئے نا ہوئے برابر ہے'۔