کیا معاشی مشکلات کا حل الیکشن ہے

اسمبلیاں تحلیل کرنے کا دعویٰ اور وعدہ بھی جوں کا توں اپنی تکمیل کے انتظار میں راہیں تک رہا ہے

mnoorani08@hotmail.com

ہمارے یہاں کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ ملک کو در پیش موجودہ معاشی کساد بازاری اور مالی دیوالیہ پن سے نجات کا حل صرف اور صرف نئے انتخابات کروانے میں ہے۔

خاص کر ہمارے پی ٹی آئی سے تعلق رکھنے والے تمام افراد اسی ایک حل کو موجودہ معاشی عدم استحکام سے چھٹکارے کے لیے نہایت ضروری سمجھتے ہیں ، جب کہ دوسری جانب حکمراں طبقہ الیکشن کو اس کا حل ہرگز نہیں سمجھتاہے۔

وہ چاہتا ہے کہ گزشتہ چار پانچ سالوں میں جو معاشی بگاڑ پیدا ہوگیا ہے پہلے اسے بہتر کیا جائے اور پھر نئے الیکشن کروائے جائیں۔ موجودہ دگرگوں صورتحال میں اگر نئے الیکشن کروائے جائیں گے تو معاشی صورتحال اور بھی بگڑسکتی ہے ، جب کہ ابھی یہ بھی واضح نہیں ہے کہ خان صاحب نئے الیکشن کے نتائج کو من و عن تسلیم کریں گے بھی یا نہیں۔

اُن کی سیاست اور طرز عمل کو دیکھتے ہوئے کوئی بھی یہ گارنٹی دینے کو تیار نہیں کہ وہ الیکشن کے اُن نتائج کو قبول کر لیں گے جن میں انھیں دوتہائی اکثریت یا سادہ اکثریت بھی نہ ملے ۔ وہ سڑکوں کی سیاست کے بہت بڑے گرو ہیں اور حکومت سے زیادہ وہ اپوزیشن کا کردار بڑی خوبی کے ساتھ نبھاتے رہے ہیں۔

اُن کے انداز فکر میں مفاہمت اور سمجھوتے کا نام ہی نہیں ہے ، وہ صرف اپنی بات منوانے پر زور دیا کرتے ہیں ، اگر الیکشن کے نتائج اُن کے توقع کے مطابق نہ آئے تو پھر کیا ہوگا۔

وہ پہلے سے زیادہ سرگرم ہوکر میدان میں اتر جائیں گے اور اپنا سارا پرانا بیانیہ چھوڑ کر ایک نئے بیانیے کے ساتھ احتجاجی سیاست کرکے ملک میں ایک نیا بحران پیدا کر دیں گے ، پھر اس ملک کو دیوالیہ ہونے سے کوئی بھی بچا نہیں پائے گا۔ ابھی تو کچھ اُمیدیں باقی ہیں کہ کوئی نہ کوئی تدبیر کارگر ثابت ہوجائے گی اور شاید ہمارا ملک ڈیفالٹ ہونے سے بچ جائے گا ، مگر نئے الیکشن کے بعد اگر خان صاحب احتجاج اور ہنگامہ آرائی کی سیاست پر اتر آئے تو پھر ہمارے پاس کوئی بھی آپشن باقی نہیں رہے گا۔

الیکشن کروانے میں اربوں روپے ضایع کرنے کے بعد بھی ملک اگر معاشی طور پر عدم استحکام کا شکار رہتا ہے تو پھر ایسے الیکشنوں سے کیا فائدہ۔ خان صاحب تو اپوزیشن میں رہتے ہوئے تمام الزامات سے خود کو بری الذمہ قرار دیکر اور الیکشن میں مبینہ دھاندلی کو اپنی احتجاجی سیاست کا محور بنا کر سیاسی کھیل کھیلتے رہیں گے اور عوام بے چارے اُن کی سیاست کی بھینٹ چڑھ جائیں گے۔

کچھ دیر کے لیے اگر یہ فرض بھی کر لیا جائے کہ نئے الیکشن سے معاشی استحکام کی کوئی راہ نکل سکتی ہے ، لیکن کیا کوئی یہ بتانے کو تیار ہے کہ نئی حکومت کے پاس ایسا کون سا الہ دین کا چراغ ہوگا جسے رگڑتے ہی ملک کے مسائل فوری طور پر حل ہوجائیںگے اور الیکشن میں اگر موجودہ حکمران ہی کامیاب ہوگئے تو پھر کیا فرق پڑے گا یا پھر اگر پی ٹی آئی کامیاب ہو کر ایک بار پھر برسر اقتدار آجاتی ہے تو کیا وہ موجودہ معاشی بحران سے نکلنے میں سرخرو ہو پائے گی۔


اُس نے تو اپنے آخری مہینوں میں IMFسے کیے ہوئے معاہدے کی بھی خلاف ورزی کرکے ملک اور قوم کو مزید مشکلات میں غرق کردیا تھا ، وہ اگر معاہدے کی خلاف ورزی نہ کرتی تو شاید IMF ہم پر اتنی کڑی شرطیں نہیںلگاتا۔ پٹرول کی مصنوعات پرجو لیوی 30 روپے فی لٹر تجویزکی گئی تھی معاہدے کی خلاف ورزی کی وجہ سے وہ بعد ازاں 50 روپے فی لٹر کردی گئی۔

مفتاح اسماعیل چھ مہینوں تک سخت فیصلے کر کے عوام کو یہی دلاسہ دیتے رہے کہ کچھ ماہ بعد ریلیف مل جائے گا ، لیکن ایسا ممکن نہ ہوسکا ، پھر اسحق ڈار تشریف لائے اوراُن کے آنے سے یہ خیال کیا جانے لگا کہ اب شاید حالات میں کچھ بہتری آجائے گی لیکن عوام کی یہ توقعات بھی پوری نہ ہوسکیں۔

حالات مزید خراب ہوتے چلے گئے ۔ ڈالر مہنگا ہونے کو وہ جعلی قرار دیتے رہے اور اُس کی اصل قیمت 200 سے کم کرنے کی خوش خبریاں بھی سناتے رہے ، وہ نجی بینکوں کو ڈالر مہنگا کرنے کا ذمے دار سمجھتے رہے اور اُن کے خلاف کارروائی کا عندیہ بھی دیتے رہے ، لیکن اب خاموش ہیں۔

مفتاح اسمعیل اپنی جگہ درست ہوسکتے ہیں لیکن انھیں ہٹائے جانے کی وجہ اسحق ڈار ہرگز نہیں تھے۔ یہ آئینی اور دستوری تقاضا تھا کہ وہ چھ ماہ سے زائد وفاقی وزیر کے طور پر نہیں رہ سکتے تھے ، وہ منتخب رکن پارلیمنٹ نہیں تھے ، اس لیے وہ اس حیثیت میں مزید کام کرنے کے اہل نہیں رہے تھے۔

انھیں بہرحال ہٹنا ہی تھا اور ایسی صور ت میں حکومت کے پاس اسحق ڈار کے سوا کوئی دوسرا آپشن بھی نہیں تھا۔ ملک کو درپیش معاشی صورتحال اتنی گھمبیر ہے کہ کوئی بھی اُسے فوری طور پر حل نہیں کرسکتا۔ یہ ہم سب اچھی طرح جانتے ہیں۔

اس کے لیے کچھ وقت درکار ہے اور ساتھ ہی ساتھ سیاسی استحکام بھی۔ خان صاحب کی پوری کوشش ہے کہ اس ملک میں سیاسی استحکام ہرگز پروان نہ چڑھ پائے اور وہ اپنے اس مقصد میں کسی حد تک کامیاب بھی رہے ہیں ، وہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ اگر سیاسی استحکام قائم ہو گیا تو پھر اس حکومت کو زیر نہیں کر پائیں گے اور پھر اُن کے لیے اگلا الیکشن بھی جیتنا ناممکن ہوجائے گا۔ اس لیے وہ یہی چاہتے ہیں کہ موجودہ حکمرانوں کوایک لمحہ کے لیے بھی سکھ کا سانس نصیب نہ ہو اور اسی طرح پریشانی میں مبتلا رہیں۔

اپنی معزولی کے بعد سے اب تک اور ایک دن کے لیے بھی چین سے نہیں بیٹھے ہیں۔ جلسے جلوس ، ریلیاں اور لانگ مارچ سمیت سارے طریقے انھیں نے ان آٹھ نو ماہ میں آزما لیے ہیں ، لیکن پس پردہ طاقتور حلقوں کی مدد شامل حال نہ ہونے کی وجہ سے وہ ڈی چوک پر دھرنا دینے میں ہنوز کامیاب نہیں ہو پائے ہیں۔

اسمبلیاں تحلیل کرنے کا دعویٰ اور وعدہ بھی جوں کا توں اپنی تکمیل کے انتظار میں راہیں تک رہا ہے اور کوئی نہ کوئی بہانہ خان صاحب کو اس سے راہ ِفرار حاصل کرنے کے لیے مل جاتا ہے۔

الیکشن اب وقت پر ہی ہونگے لہٰذا ملک اور قوم کی بہتری اسی میں ہے کہ اکتوبر 2023 ء تک سیاسی استحکام پیدا کیا جائے تاکہ ملکی معیشت کو سدھرنے کا موقع فراہم کیا جائے۔
Load Next Story