ہمارے عبداللہ حسین
عبداللہ حسین صاحب کی زندگی کا بیشتر حصہ انگلستان میں بسر ہوا، مگر اس شہر کی یادیں ان کے دل سے کبھی محو نہ ہو سکیں
گجرات شہر کے وسط میں شاہ دولہ گیٹ سے مسلم بازار میں داخل ہوں تو یہاں ایک قدیم محلہ ہے، یہ اردو کے شہرہ آفاق ناول نگار عبداللہ حسین صاحب کا آبائی محلہ ہے۔
ان کا بچپن یہاں گزرا، یہیں اسکول کی تعلیم مکمل کی ۔ زمیندارکالج بھمبر روڈ سے بی ایس سی کی، پھرعبداللہ حسین صاحب کو بھی روزگار کے سلسلے میں ایک روز اپنے اس محبوب شہرکو الوداع کہنا پڑا۔
عبداللہ حسین صاحب سے میرا پہلا 'تعارف' یوں ہوا کہ جب میں زمیندارکالج میں ایف ایس سی کا طالب علم تھا، ایک روز کالج لائبریرین سے ناول ' اداس نسلیں' اپنے نام جاری کرا رہا تھا، تو ہمارے اردو کے استاد عبدالواحد صاحب بھی وہیں کھڑے تھے۔
ان کی زبانی معلوم ہوا کہ عبداللہ حسین صاحب گجرات ہی کے رہنے والے ہیں، اور اسی کالج میںپڑھتے رہے ہیں، مگر اب انگلینڈ شفٹ ہو چکے ہیں۔ واحد صاحب ان دنوں خود بھی ان کے محلے کے پاس ہی رہ رہے تھے۔
جیسے ہی مجھ پر یہ منکشف ہوا، یوںمحسوس ہوا، جیسے میں عبداللہ حسین صاحب کو عرصہ سے جانتا ہوں، لیکن یہ صرف واحد صاحب کی گفتگو کا نفسیاتی اثر تھا، ورنہ عبداللہ حسین صاحب میری پیدایش سے بھی پہلے اس شہر کو چھوڑ کے جا چکے تھے ا ور اب ان کے اہل محلہ بھی انھیں فراموش کر چکے تھے۔
اس رات جب میں نے 'اداس نسلیں' پڑھنا شروع کیا،تو ابتدائی طو رپر بہت بوریت ہوئی،لیکن آہستہ آہستہ ناول نے اس طرح اپنے اندر جذب کر لیا کہ جس رات میں اس کی آخری سطور پڑھ رہا تھا، میری آنکھوں سے آنسو بہہ رہے تھے۔
عبداللہ حسین صاحب کی زندگی کا بیشتر حصہ انگلستان میں بسر ہوا، مگر اس شہر کی یادیں ان کے دل سے کبھی محو نہ ہو سکیں۔
زندگی کے آخری برسوں میں وہ لاہور میں مستقل سکونت اختیار کر چکے تھے اور کبھی کبھی اپنے آبائی شہر پہنچ جاتے تھے؛ مگر اس شہر میں ان کے لیے کچھ بھی پہلے جیسا نہیں تھا۔ ان کا آبائی گھر بِک چکا تھا۔
یہاں اب ان کاکوئی رشتے دار یا عزیز نہیں رہتا تھا۔ یگانگت اور بیگانگی کی اس ملی جلی کیفیت کو وہ ایک افسانے میں اس طرح بیان کرتے ہیں،'' اس شہر کی کوئی شے اب اُ س کی ملکیت نہ تھی، وہ اس شہر سے جا چکا تھا۔'' اب گجرات میں عبداللہ حسین صاحب کا قیام اپنے دوست فخر زمان کے گھر میں ہوتا،جو ان کے آبائی محلے سے کچھ ہی فاصلے پر آج بھی موجود ہے۔
بچپن میں، میں بھی اپنے والد صاحب کے ہمراہ فخر زمان صاحب کے گھر جاتا رہا ہوں۔ ان کے والد میجر زمان صاحب اور میرے والد صاحب کا آپس میں بڑا اچھا تعلق تھا اور ہفتے میں ایک دو بار ان کی ملاقات ضرور ہوتی تھی۔
مارچ 2006 ، یہ موسم ِ بہار تھا۔ معلوم ہوا عبداللہ حسین صاحب لاہور آئے ہوئے ہیں، اور کچھ دن پہلے پی ٹی وی کو انٹرویو ریکارڈ کرا چکے تھے۔ لیکن جب میں نے انٹرویو کے لیے کہا، تو انھوں نے یہ کہہ کے انکار کر دیا ،''میں تو نظامی صاحب کے نظریے کا آدمی نہیں ہوں۔'' میں ان دنوں نوائے وقت سے منسلک تھا۔
میں نے عرض کی، '' انھوں نے انٹرویو کے لیے کہا بھی نہیں، یہ تو صرف میری خواہش ہے۔'' پھر میں نے کہا کہ میرا تعلق بھی ان کے آبائی شہر سے ہے اور زمیندار کالج ہی میں پڑھتا رہا ہوںاور اتفاق سے ان کا ہم نام بھی ہوں۔ میرے یہ کہنے کی دیر تھی کہ ہمارے درمیان اجنیت کی دیوار گر گئی اور وہ انٹرویو دینے پر رضامند ہوگئے ۔
لیکن دوسرے روز بدقسمتی یہ ہوئی کہ راستے میں ٹریفک جام تھی۔جب ان کے گھر پہنچا تو بہت دیر ہو چکی تھی، جب کہ عبداللہ حسین صاحب وقت کے سخت پابند تھے۔
وہ لاؤنج میں خاموش بیٹھے تھے۔ انھیں اس طرح بیٹھے دیکھ کے لحظہ بھر کے لیے میں چونکا اور یوںمحسوس ہوا جیسے 'اداس نسلیں' کا لمبا تڑنگا نعیم،جو اب بوڑھا ہو چکا ہے، اچانک میرے سامنے آ گیا ہے۔
میں نے دیر سے پہنچنے پر معذرت کی،مگر ان کی خفگی پر اس کا کوئی اثر نہیں تھا۔ اس وقت میرے وہم وگمان میں بھی نہیں تھا کہ جوٹیپ ریکارڈر لے کر آیا ہوں، وہ عین وقت پر جواب دے جائے گا۔ میرے سامنے اب دو راستے تھے، ایک یہ کہ انٹرویو کے نوٹس لے لوں، اور دوسرا یہ کہ صاف بتا دوں کہ ٹیپ ریکارڈر کام نہیں کر رہا اور انٹرویو ملتوی کردوں۔
لیکن اس وقت، جب کہ وہ پہلے ہی ناراض بیٹھے تھے، ان کو ٹیپ ریکارڈر کی خرابی کی اطلاع دینا، ان کے سامنے بم پھوڑنے کے برابر تھی۔ بہرحال کچھ دیر ٹیپ ریکارڈر کو الٹ پلٹ کرنے کے بعد میں نے کہہ ہی دیا کہ'' سر، میں کل آ جاؤں گا، ٹیپ ریکارڈ کام نہیں کر رہا ۔'' وہ کچھ دیر تو خاموش رہے اور پھر قدرے سردمہری سے کہا'' ہاں ٹھیک ہے۔''
دوسرے روز اتوار کی چھٹی تھی اور بسنت بھی۔ سرکاری پابندیوں کے باوجود لاہور کی فضا رنگ برنگی پتنگوں سے رنگین ہو رہی تھیں۔ چھتوں سے 'بوکاٹا'کا شور بلند ہو رہا تھا،ا ور فریحہ پرویز کا گیت ''پتنگ باز سجنا'' ہر طرف گونج رہا تھا۔
میں ان کے گھر پہنچا توآج ان کے لاؤنج میںخاموشی تھی۔ ان کی طبیعت ٹھیک معلوم نہیں ہو رہی تھی۔کہنے لگے، 'رات فلو ہو گیا، مگر اب بہتر ہوں۔' میں نے کہا،' سر ،آج کی نشست بھی ملتوی کی جا سکتی ہے'۔
کہنے لگے، come on young man ، اس عمر میںیہ تو چلتا ہی رہتا ہے۔' پھر لاؤنج میں کھڑکی کے پاس ہی یہ کہتے ہوئے صوفے پر بیٹھ گئے، 'یہاں روشنی کچھ بہتر ہے، یہاں بات کرتے ہیں'۔ ان کا موڈ بہت خوشگوار تھا،اورکل کی خفگی کے کوئی آثار ان کے چہرے پر نہیں تھے۔ گھر آکے میں نے ریکارڈنگ سنی تو بعض مقامات پر تشنگی کا احساس ہوا۔ چنانچہ گزشتہ روز پھر ان کے گھر پہنچ گیا۔
تین روز میں یہ ہماری تیسری ملاقات تھی۔ میں لاؤنج میں داخل ہوا تو کمرے سے آواز آئی، ''عبداللہ ، یہیں آ جاؤ۔'' وہ اپنے بستر پر نیم دراز ہاتھ میں ریموٹ پکڑے ٹی وی دیکھ رہے تھے اور ہشاش بشاش نظر آ رہے تھے۔ ان کا کمرہ یوں لگتا تھا، جیسے یونیورسٹی کا طالب علم ہوسٹل میں کمرہ نہ ملنے کی وجہ سے اس پوش ایریا میں یہ انیکسی لے کر رہ رہا ہے۔
میز پر رکھے تھرماس کی طرف اشارہ کرکے انھوں نے کہا، ''چائے ابھی گرم ہوگی، لیکن میں پی چکا ہوں۔'' میں نے تھرماس سے چائے ڈالی اور پینے لگا۔ اس روز بہت ساری باتیں ہوئیں۔میںنے کہا، 'دھوپ' اور ' مہاجرین' کے کیریکٹر ان ہی کا سایہ معلوم ہوتے ہیں، تو کہنے لگے،'ہاں،اور بھی کچھ لوگوں نے کہا ہے۔
دراصل پہلا شہر، جس کو ہوش سنبھالنے کے بعد سب سے پہلے ہم دیکھتے ہیں، اور اس وقت یہ سوچا بھی نہیں ہوتا کہ کبھی یہ شہر، یہ گھر اور یہ لوگ ہم سے بچھڑ جائیں گے، تو یہ پہلا شہر پہلی محبت کی طرح ہماری سائیکی کا جزو بن جاتا ہے، اور بعد کی زندگی میں جب بھی ہم کسی شہرکا تصور کرتے ہیں تو یہی شہر ہمارے ذہن میں آتا ہے۔
میں نے جب ' باگھ' لکھا تو ملک سے باہر تھا، لیکن غیر شعوری طورپر ''اسدی'' گجرات کا ''اسدی'' بن جاتا ہے۔یہ میں نے خود سے نہیں کیا اور میں کیا،کوئی بھی یہ خود سے نہیں کرتا، یہ خود بخود ہو جاتا ہے۔' وہ بہت دیر تک گفتگو کرتے رہے ، اور گجرات میں بیتے اپنے بچپن کو یاد کرتے رہے۔
یہ مکالمہ شایع ہوا تو اسی روز ان کا فون آیا، وہ بڑے خوش تھے، انگریزی میںکہا،well done Asghar ، اس کے بعد اس گھر میں جب بھی ان سے ملاقات ہوئی،ہر بار یہی محسوس ہوا کہ وہ اپنے آپ میں مگن رہنے والے آدمی ہیں۔
زندگی کے آخری برسوں میں عبداللہ حسین صاحب فیس بک پر بھی نظر آئے۔ اُن کی ایک پوسٹ ہی سے معلوم ہوا کہ وہ خون کے سرطان میں مبتلا ہو چکے ہیں۔
ان کی پہلی اور دوسری کیمو تھراپی کا بھی فیس بک ہی سے پتا چلا۔وہ بہت معمر ہو چکے تھے اور تنہا ہی موت کی طرف بڑھ رہے تھے۔ ایک روز معلوم ہوا کہ کوما میں جا چکے ہیں، جو خون کے سرطان کی آخری اسٹیج ہے،اور چند روز بعد وہ اس دنیا کو ہمیشہ کے لیے الوداع کہہ کے اپنے آخری سفر پر روانہ ہوگئے۔
آج اس سمے ان کی قبر پر کھڑے ان کو یاد کرتے ہوئے میرے اندر بہت تیزی سے کچھ یادیں آپس میں گڈ مڈ ہو رہی تھیں، ابھی میں ان کو فون کر رہا ہوں۔
ابھی وہ اس کمرے میں نیم دراز ٹی وی پر میچ دیکھ رہے ہیں، تھرماس میں اُن کی چائے ابھی تک گرم ہے اور ہم چائے پیتے ہوئے گجرات کی باتیں کر رہے ہیں، پھر فون پر اُن کی بے تکلفانہ آواز ابھرتی ہے well done Asgharاور یہ منظر ، یہ سب آوازیں فیڈ اُوٹ ہوتی ہیں تو اسلام آباد لٹریچر فیسٹیول کا وہ منظرfade in ہوتا ہے، '' رات کو اسدی'' یاسمین نے کہا تھا، صبح کی روشنی میں اس کا چہرہ دمک رہا تھا۔ '' عبداللہ حسین صاحب اپنے محبوب ناول '' باگھ '' کی ابتدائی سطور پڑھ رہے ہیں، اور میں دور کھڑا اُن کو آخر ی بار دیکھ رہا تھا
باز آی کہ باز آید عمر شدۂ حافظؔ
ہر چند کہ ناید باز تیری کہ شد از شست