جہانگیر ترین اور بیٹے پر الزامات ثابت نہیں ہوئے مقدمہ داخل دفتر کرنے کا فیصلہ
ملزمان کی کمپنیوں میں کوئی بھی غیر قانونی ٹرانزیکشن سامنے نہیں آئی، تفصیلات ریٹرنز میں بھی واضح ہیں، ایف آئی اے رپورٹ
ایف آئی اے کی جانب سے جہانگیر ترین اور ان کے بیٹے علی ترین کے خلاف مقدمہ داخل دفتر کرنے کی رپورٹ 173 سی آر پی سی تیار کر لی گئی ۔
وفاقی تحقیقاتی ادارے کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ جہانگیر ترین اور علی ترین کی کمپنیوں سےدوران تفتیش میں کوئی بھی غیر قانونی ٹرانزیکشن سامنے نہیں آئی جب کہ رقم کی ٹرانزیکشن جے ڈی ڈبلیو اور جے کے ایف ایس ایل کے درمیان ہوئی جو 2013 کے سالانہ ریٹرنز میں بھی واضح ہیں۔
رپورٹ کے مطابق جہانگیر خان فیملی پر اوپن مارکیٹ سے ڈالر خریدنے کا الزام تھا، جس کی دستاویزات ان کی جانب سے فراہم کی گئی تھیں۔ اوپن مارکیٹ سے خریدے گئے ڈالر بینک کے ذریعے اور قانونی طریقے سے لیے گئے، جس کا ریکارڈ سالانہ ریٹرنز میں موجود ہے۔ ایف آئی اے کی رپورٹ کے مطابق جہانگیر ترین اور علی ترین پر ایف آئی آر میں لگائی گئی دفعات میں دھوکا دہی یا جعلی سازی ثابت نہیں ہوتی ہیں ۔
وفاقی تحقیقاتی ادارے کے مطابق جہانگیر خان ترین اور علی ترین کی کمپنی کے درمیان ہونے والی 2013 کی ٹرانزیکشن کا ریکارڈ فنانشل رپورٹ میں موجود ہے۔ ایس ای سی پی کی جانب سے اس ٹرانزیکشن پر کسی بھی قسم کا کوئی اعتراض نہیں لگایا گیا۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ کمپنی رول سیکشن 213,216 کے آرڈیننس کے تحت کسی اسٹیک ہولڈر،شیئر ہولڈر اور نہ ہی کسی ڈائریکٹر نے جہانگیر ترین اور علی ترین کے خلاف کوئی شکایت ایس ای سی پی میں درج کروائی۔ اگر ایسا ہوتا تو ایس ای سی پی اثاثہ جات کی انکوئری کرنے کا مجاز تھا، تاہم ابھی تک جہانگیر ترین اور علی ترین کی کمپنیوں کے خلاف کسی بھی شحص نے کس قسم کی کوئی شکایت درج نہیں کروائی۔
رپورٹ کے مطابق 173 سی آر پی سی کے تحت جہانگیر ترین اور علی ترین سمیت 5 افراد پر ایف آئی اے کی جانب سے دائر ایف آئی آر داخل دفتر کی جائے۔
وفاقی تحقیقاتی ادارے کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ جہانگیر ترین اور علی ترین کی کمپنیوں سےدوران تفتیش میں کوئی بھی غیر قانونی ٹرانزیکشن سامنے نہیں آئی جب کہ رقم کی ٹرانزیکشن جے ڈی ڈبلیو اور جے کے ایف ایس ایل کے درمیان ہوئی جو 2013 کے سالانہ ریٹرنز میں بھی واضح ہیں۔
رپورٹ کے مطابق جہانگیر خان فیملی پر اوپن مارکیٹ سے ڈالر خریدنے کا الزام تھا، جس کی دستاویزات ان کی جانب سے فراہم کی گئی تھیں۔ اوپن مارکیٹ سے خریدے گئے ڈالر بینک کے ذریعے اور قانونی طریقے سے لیے گئے، جس کا ریکارڈ سالانہ ریٹرنز میں موجود ہے۔ ایف آئی اے کی رپورٹ کے مطابق جہانگیر ترین اور علی ترین پر ایف آئی آر میں لگائی گئی دفعات میں دھوکا دہی یا جعلی سازی ثابت نہیں ہوتی ہیں ۔
وفاقی تحقیقاتی ادارے کے مطابق جہانگیر خان ترین اور علی ترین کی کمپنی کے درمیان ہونے والی 2013 کی ٹرانزیکشن کا ریکارڈ فنانشل رپورٹ میں موجود ہے۔ ایس ای سی پی کی جانب سے اس ٹرانزیکشن پر کسی بھی قسم کا کوئی اعتراض نہیں لگایا گیا۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ کمپنی رول سیکشن 213,216 کے آرڈیننس کے تحت کسی اسٹیک ہولڈر،شیئر ہولڈر اور نہ ہی کسی ڈائریکٹر نے جہانگیر ترین اور علی ترین کے خلاف کوئی شکایت ایس ای سی پی میں درج کروائی۔ اگر ایسا ہوتا تو ایس ای سی پی اثاثہ جات کی انکوئری کرنے کا مجاز تھا، تاہم ابھی تک جہانگیر ترین اور علی ترین کی کمپنیوں کے خلاف کسی بھی شحص نے کس قسم کی کوئی شکایت درج نہیں کروائی۔
رپورٹ کے مطابق 173 سی آر پی سی کے تحت جہانگیر ترین اور علی ترین سمیت 5 افراد پر ایف آئی اے کی جانب سے دائر ایف آئی آر داخل دفتر کی جائے۔