ہم تو وہ ہیں جنھیں مسجد کے سامنے بھی کھڑا نہیں ہونے دیا جاتا

ہم سےکسی نے نہیں پوچھا کہ آپ نے بھی اسلامی تعلیمات سیکھی ہیں یا نہیں یا آپ کو اس کی ضرورت ہے؟، محمد مسنجفا کا دکھڑا

بے نظیر اسکیم ہو یا سستی روٹی اسکیمیں۔ ہمیں کس نے پوچھنا ہے۔ فوٹو : فائل

میں نے بائیک روکی تو وہ دونوں قریب بنی اپنی جھونپڑی میں چلے گئے۔جھونپڑی سے درد کے سفیر عطاء اﷲ عیسیٰ خیلوی کی آواز میں گانے کی آواز آرہی تھی،''کر کر منتاں یار دیاں۔۔۔۔ آخر آن جوانی ڈھلی۔'' میں نے آواز دی تو گانے کی آواز کو کم کر دیا گیا۔ دوبارہ آواز دے کر بلایا تو اندر سے ہی کہنے لگے کہ ہم نے،''پیسے دے دیے ہیں''

میں حیران ہوا کہ کون سے پیسے ؟ شاید یہ بھول گئے ہیں کسی قرض والے کی شکل مجھ سے ملتی ہوگی؟ اگر شکل ملتی ہے تو پھر پیسے تو دے چکے ہیں تو خوف کس بات کا؟

میں نے پھر کہا،''بھائی! آپ بھول رہے ہیں۔ میں اخبار والا ہوں۔''

''ہم نے ان کے خلاف خبر نہیں لگوانی۔'' انہوں نے کورا سا جواب دیا۔
میں آگے بڑھ کر ان کی اس جھونپڑی میں بیٹھ گیا، جو شاید ان کی ورکشاپ تھی یا مہمان خانہ۔ مجھے بیٹھتے دیکھا تو ان کی ایک بزرگ خاتون میرے پاس آگئی۔ میں نے انہیں بتایا تو اس نے ان کو باہر بھیجا۔ میں نے انہیں جب بتایا کہ میں آپ کے حالاتِ زندگی پر کچھ لکھنا چاہتا ہوں تو ان میں سے ایک نے کہا:
''رب سائیں جو لکھ ڈتا ہے ساکوں اوہو ہی کافی ہے'' (اﷲ پاک نے ہمارے مقدر میں جو لکھ دیا ہے ہمارے لیے وہی کافی ہے)
ہم بیٹھنے لگے تو انہوں نے مجھ سے چار پائی پر بیٹھنے کی ضد کی، مگر میں ان کے ساتھ ہی زمین پر بیٹھ گیا۔

آپ کا نام کیا ہے؟ میں نے نام پوچھا تو دونوں نے ایک دوسرے سے ملتا جلتا نام بتایا:
''میرا نام مسنجفا ہے اور یہ میرا والد ہے اس کا نام محمد مسنجف ہے۔'' میں نام سن کر پہلے تو سمجھا کہ شاید یہ ہندو قبیلے سے تعلق رکھتے ہیں، لیکن جوں ہی مسنجفا نے اپنے والد کا نام بتاتے ہوئے ساتھ ''محمد'' کا سابقہ لگایا تو میں نے حیرت سے اس کی طرف دیکھا۔ میں نے پوچھا کہ آپ مجھے رکتا دیکھ کر دوسری جھونپڑی میں کیو ں چھپ گئے تھے؟
''اصل میں کئی دنوں سے کچھ لوگ موٹر سائیکلوں پہ یہاں آ جاتے ہیں اور ہم سے ''لگان'' (ٹیکس) مانگتے ہیں۔ ہم نے ایک دو آدمیوں کو دے بھی دیا ہے۔ انہوں نے ہمیں رسید بھی دی ہے، مگر پھر دوسرے آجاتے ہیں۔ ہم غریب لوگ ہیں ان کو کہاں سے اتنے پیسے دیں۔ نہ گھر ہے نہ در، مگر سرکار ہم سے پھر بھی ٹیکس لیتی ہے۔''




میں نے ان سے رسید لے کر دیکھی۔ وہ تحصیل میونسپل ایڈمنسٹریشن کے پروفیشنل ٹیکس کی پرانی رسید تھی، جس پر بلدیہ نے ان چھاج (جس سے اناج صاف کیا جاتا ہے) بنانے والوں سے 500 روپے سرکار کے ٹیکس کے نام پر وصول کیا تھا۔ آپ کے نام مسنجفا کے کیا معنی ہیں؟ میں نے پوچھا تو وہ باپ بیٹا دونوں ایک دوسرے کا منہ دیکھنے لگے۔ باپ بولا کہ پتا نہیں سرکار ہمیں تو اس کے مطلب کا پتا نہیں ہے۔ بس ہمارے سب نام ایسے ہی ہیں۔ ہم راجپوت ہیں اور یہ نام صدیوں سے چلے آ رہے ہیں۔'' میں نے ان سے جب پوچھا کہ آپ کو اسلامی تعلیمات کا علم ہے اور آپ نے یہ تعلیمات خود سیکھیں یا اپنے بچوں کو سکھائی ہیں؟

مسنجفا نے چھاج کو ''وٹ'' (ڈوری باندھنا) لگاتے ہوئے کہا کہ نہیں بھائی جان ہمیں کس نے سکھانی ہیں یہ تعلیمات۔ ہمیں لوگ رب سائیں کے گھر (مسجد) کے سامنے نہیں کھڑا ہونے دیتے، اندر کیسے جانے دیں گے۔ تبلیغی جماعت والے ہوں یاسبز پگڑی والے سب ہم سے بہت معتبر ہیں۔ یہ ہمارے پاس سے گزر جاتے ہیں لیکن کبھی ہم سے نہی پوچھا کہ آپ نے بھی اسلامی تعلیمات سیکھی ہیں یا نہیں یا آپ کو اس کی ضرورت ہے؟ کیمرا مین کو تصویر بناتے دیکھا تو کپڑے کی گیند (جسے مقامی زبان میں کھدو) کہتے ہیں سے پٹھو گرم کھیلتے بچے بھی جھونپڑی میں میرے پاس جمع ہو گئے میں نے ایک بچے سے پوچھا کہ آپ کو کلمہ آتا ہے، تو اس نے معصومیت سے جواب دیا کہ ''پاکستان کا مطلب کیا۔۔۔۔لاالٰہ الااﷲ۔'' ساتھ بیٹھے بزرگ نے اسے ٹوکا اور اصل کلمہ سنانے کو کہا۔

میں نے ان سے ان کے روزگار کے بارے میں پوچھا کہ آپ یہ چھاج کیسے بناتے ہیں؟ اس کا میٹیریل کہاں سے لاتے ہیں اور اس کو فروخت کہاں کرتے ہیں؟
محمد مسنجف نے چھاج بناتے ہوئے بتایا کہ اس کی ''تیلی'' کوٹ سلطان (ضلع لیہ کا تاریخی قصبہ، جہاں سکندرِاعظم کے دور میں شپ یارڈ تھا) وہاں سے لیتے ہیں۔ 15روپے کلو کے حساب سے ملتی ہے۔ پھر اس کو کاٹتے ہیں۔ اس طرح یہ آدھا کلو بچ جاتی ہے۔ اس سے دو چھاج بنتے ہیں۔ اس کو باندھنے کے لیے چمڑے کے ''تندے'' کی ضرورت ہوتی ہے۔ وہ ملتان گھنٹہ گھر سے 700 روپے کلو میں ملتا ہے۔ اس تندے سے چھاج باندھنے کا کام لیتے ہیں۔ ایک آدمی دن میں تین چھاج بنا لیتا ہے۔ میں نے اس کا حساب لگایا تو یہ پتا چلا کہ ایک چھاج 117روپے کے خرچ میں بنتا ہے۔ جب ان سے پوچھا کہ یہ فروخت کتنے میں کرتے ہیں؟ تو انہوں نے کہا،''حساب کتاب کبھی نہیں کیا۔ اسے دکان والے ہم سے ایک سو روپے میں لیتے ہیں۔ ان (چھاج) کا رواج اب ختم ہوتا جا رہا ہے۔

جب سے مشینری دور شروع ہوا ہے ان کا کام ختم ہو کے رہ گیا ہے۔ اب تو ہم فصلوں کے موسم میں بھاگوندوں (کاشکاروں) کے پاس جاتے ہیں۔ ہم انہیں چھاج دیتے ہیں اور وہ ہمیں اس کے بدلے گندم یا چنوں کا ''پونا''دے دیتے ہیں اور ہم اسے گھر لاکر ڈنڈے سے کوٹ کر صاف کرتے ہیں۔ اس سے ان میں سے ایک یا ڈیڑھ کلو جنس نکل آتی ہے۔'' میں نے پھر حساب لگایا تو اندازہ ہوا کہ یہ جنس وزن کے اعتبار سے 30سے 40 روپے کی بنتی ہے۔ میں نے ان سے کہا اس سے تو بہتر ہے کہ آپ چھاجوں کو دکانوں پر فروخت کیا کریں۔ کہنے لگے،''آپ کی بات ٹھیک ہے، لیکن سب بھاگوند بھی ایک جیسے نہیں ہوتے۔ کچھ خداترس بھی ہوتے ہیں، جو ہمیں اپنے پرانے کپڑے، برتن وغیرہ یا پھر زیادہ جنس بھی دے دیتے ہیں، لیکن ہم نے رزق کی امید کبھی کسی انسان سے نہیں رکھی۔ وہ رازق ہے سب کا پالن ہار ہے اس کا یہ تھوڑا کرم ہے کہ اس نے ہمیں کسی کا مقروض نہیں کیا، رزقِ حرام سے بچایا ہوا ہے۔''

میں نے پوچھا، بچوں کو تعلیم کیوں نہیں دلواتے؟،''کیسے دلوائیں۔ پکھی واس ہیں کبھی کہیں، کبھی کہیں۔ بچوں تعلیم دلوانے کا شوق تو ہے لیکن معاشرہ ہمیں تیسرے درجے سے بھی کم کا شہری سمجھتا ہے۔ ہماری خواتین جب ان کے دروازوں پر مانگنے جاتی ہیں تو یہ اعلیٰ درجے کے معتبر شہری ہماری خواتین کو خیرات دینے سے پہلے چھیڑتے ہیں۔ ان پر فقرے کستے ہیں۔ اپنے ''اعلیٰ ظرف'' کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ دروازے پر آئے سائل کی بھی توہین کرتے ہیں۔ اس وقت ہماری جو کیفیت ہوتی ہے وہ ناقابل بیان ہے۔''

آج کل تو اقساط میں زمینیں ملتی ہیں۔ آپ زمین لے کر کیوں نہیں رہتے؟ میری بات پر مسنجفا زیرِلب مسکرایا اور کہنے لگا،''سائیں! آپ بھولے آدمی ہو۔ زخموں پر نمک چھڑک رہے ہو ہمارا۔ بھی دل کرتا ہے کہ ہمارا بھی اپنا گھر ہو۔ ایک عرصہ پہلے ہم چوٹی زیریں میں تھے، تو وہاں ایک کالونی میں اقساط پہ پلاٹ دیے جا رہے تھے۔ 500 روپے مرلہ ریٹ تھا۔ ہم نے خریدنا چاہا تو سردار ۔۔۔۔(ایک سیاست داں جو وفاقی وزیر بھی رہ چکا ہے) نے ہمیں زمین نہ خریدنے دی کہ اس کالونی میں اسٹیٹس کا مسئلہ ہے اس کے بعد ہم نے یہ کوشش ہی نہیں کی۔ اس زمین پر ہمارا کوئی حق نہیں ہے۔''

بھیک کیوں مانگتے ہو؟ مزدوری کیوں نہیں کرتے؟ میرے سوال پر وہ دکھ بھرے لہجے میں بولا،''ہمیں کوئی مزدوری بھی نہیں دیتا۔ میں ایک سبز منڈی میں گیا تھا۔ پلے داری کرنے۔ وہاں پر جتنے مزدور تھے انہوں نے اپنی ایک لابی بنا رکھی تھی۔ انہوں نے مجھ سے حقارت کا برتاؤ کرتے ہوئے لیبر ٹھیکے دار سے مجھے کام نہ دینے کا کہہ دیا۔ پھر میں لوٹ آیا۔ بھیک مانگنے کو جی نہیں کرتا، لیکن معاشی بدحالی کا سامنا نہیں کیا جا سکتا۔ اس کے سوا کوئی چارہ نہیں رہا۔ سرکار بھی ہمارے بارے میں نہیں سوچتی۔''

میں نے اس سے حکومت کی امدادی اسکیموں بارے پوچھا کہ آپ بھی اس سے استفادہ کرتے ہیں؟ اس نے ایک ٹھنڈی سانس لی اور کہا،''سوہنا سائیں! بے نظیر اسکیم ہو یا سستی روٹی اسکیمیں۔ ہمیں کس نے پوچھنا ہے۔ یہ ان لوگوں کے لیے ہیں جن کے گھر ہیں زمینیں ہیں۔ جن کے سروے کیے جاتے ہیں، ان میں بس ہم غریبوں کا نام استعمال کیا جاتا ہے، مگر ہمیں کچھ نہیں ملتا۔ ہم نے کوشش کی تھی لیکن ہمارے شناختی کارڈ نہیں بنے ہوئے، اس لیے ناکامی ہوئی۔'' آپ شناختی کارڈ کیوں نہیں بنواتے؟،''سرکار اس کے لیے پیدائش کا سرٹیفکیٹ مانگتی ہے، وہ ہم کہاں سے دیں۔ جب ہمارے نام ہی درج نہیں ہیں، تو سرٹیفکیٹ کیسے ملے گا۔ ہم نے کسی کے کہنے پر یونین کونسل سے رابطہ کیا ہے، ہم سے فی نام 5000روپے مانگے جارہے ہیں۔ وہ ہمارے پاس ہیں نہیں۔ ہماری دلی خواہش ہے کہ ہم اپنے بچوں کو پڑھائیں، روزگار ہو اور ہمارا بھی اچھے شہریوں میں شمار ہو۔''
Load Next Story