سیاسی عدم استحکام مہنگائی اور فلسفہ خودی

ملک میں سیاسی عدم استحکام کے باعث حالات جلد ٹھیک ہوتے نظر نہیں آرہے


شہریار شوکت January 10, 2023
اپنے آپ پر یقین رکھیے اور آگے بڑھیے۔ (فوٹو: فائل)

ملک اس وقت شدید بحران کا شکار ہے۔ ملک میں ڈالر کی انتہائی قلت ہے، جس کے باعث دوسرے ممالک سے تجارت میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ نان بائی آئے دن روٹی کی قیمت میں اضافہ کررہے ہیں۔ ملک میں دیگر اشیائے خورونوش کے ساتھ آٹا بھی نایاب ہوتا جارہا ہے۔ سبزیوں کی قیمتیں آسمان سے باتیں کررہی ہیں اور مرغی عوام کی پہنچ سے دور ہوگئی ہے۔

اپنی پیدائش سے یہ سنتے آئے ہیں کہ پاکستان تاریخ کے نازک ترین موڑ سے گزر رہا ہے لیکن موجودہ صورتحال جیسا حال کسی نے اس سے قبل نہ دیکھا ہوگا۔ لوگ سستا آٹا حاصل کرنے کےلیے جان کی بازی لگا رہے ہیں۔ اچھے خاصے عزت دار لوگ بھیک مانگ رہے ہیں۔ خود سوزی کے واقعات میں بھی اضافہ ہوگا، لوگ بچوں کو پڑھانا چھوڑ دیں گے، ملک میں جہالت کا راج ہوگا، بدامنی ہوگی، کیوں کہ بھوک اور امن ساتھ نہیں رہ سکتے۔ دروازوں پر ماؤں کے سامنے ان کے بیٹے قتل کیے جارہے ہیں۔

اس تمام تر صورتحال میں سب سے اہم کردار سیاست دانوں کا ہونا چاہیے تھا۔ محمد علی جناح حیات ہوتے یا ان کا کوئی سچا جانشین اس قوم کے پاس ہوتا تو اول تو یہ حالات ہی نہ ہوتے اور اگر ہو بھی جاتے تو وہ عوام کو سنبھالتے، ان کا ساتھ دیتے۔ تمام سرکاری افسران، وزرا، سفیروں اور مشیروں کی سہولیات اور مراعات پر فوری پابندی عائد کردی جاتی۔ ملک کے اہم تاجر ان کا ساتھ دیتے، ملک کے امیر افراد ملک چلانے کےلیے ان پر مکمل بھروسہ کرتے اور اپنا سرمایہ پیش کرتے۔ لیکن افسوس نہ وہ رہے اور نہ ہی ان کے بعد ان جیسا کوئی ہمیں ملا۔ لہٰذا آج بس آڈیو ویڈیوز لیک ہورہی ہیں، ایک دوسرے کی کردار کشی ہورہی ہے۔ الزامات لگ رہے ہیں، عیاشیاں ہورہی ہیں، مراعات کا بے دریخ استعمال ہورہا ہے اور یہی ہوتا رہے گا جب تک عوام بیدار نہ ہوں گے اور ان کے بیدار ہونے کے امکانات خاصے کم ہیں۔

اس مشکل صورتحال میں عوام کو جو کرنا چاہیے اس کی امید نہیں لیکن اپنی آنے والی نسلوں کی بقا کی جدوجہد کےلیے ہمیں پرانے دور میں لوٹ کر جانا ہوگا۔ ملازمت پیشہ افراد کو ملازمت کے ساتھ کوئی چھوٹے پیمانے کا کاروبار لازمی کرنا ہوگا۔ اس دور میں سب سے آسان کام آن لائن کاروبار کا ہے۔ اگر آپ یا آپ کے گھر میں کوئی اچھا شیف ہے تو آپ جو اپنے گھر میں اپنے کھانے کےلیے پکائیں وہ ذرا زیادہ مقدار میں پکائیں اور اس کی آن لائن تشہیر کرکے اسے فروخت کرنے کی کوشش کریں۔ آج کل سوشل میڈیا سب کی دسترس میں ہے۔ اسی طرح وہ نوجوان جو پڑھے لکھے ہیں وہ گرافکس ڈیزائننگ، ویب ڈیولپمنٹ کا کورس یوٹیوب سے مفت میں کریں اور اپنے ہنر سے پیسہ کمائیں۔

گھر میں ایک بار پھر چھوٹے باغ یا کیاریاں بنائیں اور ان میں روزمرہ کے استعمال کی سبزیاں اگائیں۔ اس عمل سے جہاں ماحول میں آلودگی کم ہوگی، فضا خوشگوار ہوگی، وہیں آپ کو اپنے استعمال کےلیے سونے چاندی کی قیمت میں ملنے والی سبزیاں خریدنا نہیں پڑیں گی۔ اس کام کو مہارت کے ساتھ کرنے کےلیے اسے بھی یوٹیوب سے سیکھ لیں۔ گھر میں چھت پر ایک پنجرہ بنائیں جس میں تین سے چار مرغیاں پالیں۔ اس طرح آپ فارمی انڈوں کے استعمال سے بھی بچ جائیں گے اور گھر میں دیسی انڈوں کی پیداوار ہونے کے باعث آپ کے ناشتے کا خرچ بھی کم ہوجائے گا۔

ملک کا وہ طبقہ جو مڈل کلاس کہلاتا ہے، ان کے پاس عام طور پر گاڑیاں اور موٹر سائیکل ہوتے ہیں۔ مہنگائی کے باعث انہوں نے اس کے استعمال سے توبہ کر رکھی ہے لیکن اس کا بھی استعمال کریں۔ اسے کسی آن لائن سروس پر رجسٹر کرائیں اور دن میں تین سے چار گھنٹے چلاکر پیسے کمائیں۔ بڑی گاڑیوں والے احباب بھی اپنا پیسہ اس مشکل وقت میں بچائیں اور کم سی سی کی گاڑیاں استعمال کریں۔

اور جب یہ سب کچھ کر گزریں تو فارغ وقت میں اپنے ضمیر کو ضرور جگائیں۔ انتخابات کا انتظار کریں اور بلدیاتی انتخابات ہوں یا عام انتخاب، ان لوگوں کو منتخب کریں جو آپ کے جیسے ہوں، آپ کے اپنے ہوں، آپ کی پہنچ میں ہوں۔ جن سے آپ سوال کرسکیں، جن سے باآسانی مل سکیں۔

یاد رکھیے! ملک میں سیاسی عدم استحکام کے باعث حالات جلد ٹھیک ہوتے نظر نہیں آرہے۔ ایسے میں مایوس ہونے اور معمولات زندگی ختم کردینے، خود سوزی جیسے اقدامات کا سوچنے، بچوں کی تعلیم ختم کرا دینے جیسے اقدامات کے بجائے اب خود کچھ کرنے کا سوچیے۔ اقبال نے آج سے کئی سال پہلے آپ کو فلسفۂ خودی سے روشناس کرادیا تھا۔ اپنے آپ پر یقین رکھیے اور آگے بڑھیے۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 800 سے 1,200 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔