خانہ پری اتحاد ویگانگت ایک دوسرے کو تسلیم کرنے میں پنہاں ہے
ہر سال کی طرح اس سال بھی 24 دسمبر کو مہاجر ثقافت کا دن منایا گیا
'یوم مہاجر ثقافت' کے سلسلے میں 'عائشہ منزل' کراچی میں ایک مشاعرے کا انعقاد کیا گیا۔ 'نوجوانانِ مہاجر' کے اس مشاعرے میں راقم السطور کو بھی شرکت کا موقع ملا، جس کی صدارت ممتاز شاعر انور شعور صاحب نے کی، جب کہ خواجہ رضی حیدر، عتیق جیلانی، اجمل سراج، خالد معین، اقبال خاور، کامران نفیس، عنبرین حسیب عنبر اور دیگر شعرا نے اِس مشاعرے میں شرکت کر کے کراچی کی ثقافتی سرگرمیوں کے احیا کے لیے پرعزم اِن نوجوانوں کا حوصلہ بڑھایا۔
اگر اِن بچوں کی نوآموزی کو سامنے رکھیے، تو یہ ایک بہت اچھا مشاعرہ تھا، مشاعرے کے آغاز سے پہلے باقاعدہ مشاعرے کے آداب بتائے گئے، کہ تالیاں نہیں بجانی اور داد کیسے دینی ہے وغیرہ۔ جس پر نوجوان کی اکثریت نے کافی حد تک عمل بھی کیا، تاہم کچھ جذباتی نوجوان منع کرنے کے باوجود نعرے بازی کرتے رہے۔
مشاعرے کے اختتام پر تمام شعرا کو 'مہاجر سرپوش' پہنانے کی خوب صورت روایت دُہرائی گئی۔ ناکافی وسائل اور پھر 'یوم مہاجر' کے نام پر سخن ورانِ شہر کو شرکت کے لیے راضی کرنا ایک امرِ محال رہا۔ ہمیں یہ بھی معلوم ہوا کہ عین وقت پر ایک شاعر نے اِس مشاعرے میں شرکت سے یہ کہہ کر بھی معذرت کی کہ وہ تو خود کو مہاجر ہی تسلیم نہیں کرتے، اس لیے نہیں آئیں گے۔ ایسے میں اگر مندرجہ بالا سینئر شعرا کی بڑائی اور وسعت نظری کو نہ سراہا جائے، تو یہ زیادتی ہوگی۔ صداﺅں کے اِ س قحط میں اس ملک میں اپنے قومی تشخص کو پھر سے منوانا اور 1970ءکی دہائی میں نمٹ جانے والے سوالات کے بار بار جواب دینا یقیناً کوئی آسان امر نہیں۔
'نوجوانانِ مہاجر' کی یہ کاوش اس بار زیادہ وسیع پیمانے پر منائی گئی، دنیا کے مختلف ممالک کے ساتھ ساتھ 'کراچی بار کونسل' میں بھی پہلی بار 'یوم مہاجر ثقافت' کا ایک پروگرام ہوا، یہ سب دیکھ کر جیسے کچھ برس پہلے ہمارے ذہن میں سوال آیا تھا کہ ان کے پسِ پشت کون ہے؟ اس بار تو یہ سوال زیادہ شدومد سے اٹھا۔ اس مشاعرے میں ایک شاعر نے کیا جامع بات کہی کہ ہم ان بچوں کی مخالفت کر کے وہی غلطی کر رہے ہیں، جو برسوں پہلے ہمارے ساتھ ہمارے بڑوں نے ہم سے فاصلے پیدا کر کے کی تھی۔ یہ بات بالکل درست ہے کہ ایک نسل کا دوسری نسل سے تعلق نہ صرف تہذیبی کڑی کو دوام بخشتا ہے، بلکہ اگلی نسل کی سمت کو زیادہ مرکوز اور درست رکھنے میں بھی مدد دیتا ہے۔ عقب سے بیٹھ کر صرف تنقید کرنے اور شکوک ظاہر کرنے کے بہ جائے بہتر راستہ یہی ہوتاہے کہ اِن کا حوصلہ بھی بڑھایا جائے۔
خیر، مشاعرے کے انعقاد کے بعد اچانک گرما گرمی اس وقت پیدا ہوئی کہ جب 'ایم کیو ایم' (بہادر آباد) نے بھی 24 دسمبر کو 'یوم مہاجر ثقافت' پر مزارِ قائد پر اپنی ریلی کا اعلان کر دیا۔ ایک طرف 'بہادرآباد گروپ' کی جانب سے اِس دن کی تائید جہاں مثبت عمل تھا، وہیں نوجوانوں کی 'کریم آباد تا مزارِ قائد' ریلی کو اپنے کھاتے میں ڈالنے کی ایک نہایت غیر مناسب کوشش بھی لگتی تھی، جس پرانھیں شدید تنقید کا سامنا بھی کرنا پڑا۔ کہاں یہی گروپ کبھی ستمبر میں اور کبھی فروری میں 'یوم مہاجر ثقافت' کے پروگرام کرتا تھا، لیکن انھیں 24 دسمبر ماننا قبول نہ تھا۔
اب اگر انھیں اپنے پروگرام کرنے تھے، تو اِسے الگ رکھنا تو تہذیب کی ایک بہت بنیادی سی بات تھی، جسے بری طرح پائمال کیا گیا۔ ابھی اس کی گرد بھی نہ تھمی تھی کہ ایم کیو ایم (لندن) کی رابطہ کمیٹی نے بھی عام انتخابات کی طرح 'یوم مہاجر ثقافت' کے بھی بائیکاٹ کا اعلان کرکے رنگ میں بھنگ ڈالنے کی کوئی کسر باقی نہ چھوڑی۔ انھوں نے اِسے مکمل طور پر سیاسی نظر سے دیکھا اور کسی 'سازش' کی بو سونگھ کر پوری سماجی اور تہذیبی سرگرمی کو 'مائنس ون' کے کھاتے میں ڈالنے کی ایک عاجلانہ اور ناعاقبت اندیشانہ کوشش کی۔ 'لندن' گروپ کی جانب سے گذشتہ چھے برسوں سے جاری بے تُکی اور بے سروپا حرکتوں میں وہاں کی 'رابطہ کمیٹی' کا بھی ایک عجیب وغریب کردار سامنے آیا ہے اور 'یوم مہاجر ثقافت' کا بائیکاٹ کرنا اسی کا تسلسل تھا۔
آخر جب انھیں اپنے ووٹر اور حامیوں پر بھروسا ہے، تو کیوں کسی بھی غیر سیاسی سرگرمی سے بھی خوامخواہ ڈرے جاتے ہیں، اگر انھوں نے اِسے 'بہادر آباد گروپ' کا کوئی پروگرام سمجھا، تو انھیں چاہیے تھا کہ اپنی توپوں کا رخ انھی کی جانب رکھتے۔ ان کی اپنی قوم کے نوجوانوں نے اِن کا کیا بگاڑا تھا جو ان پر ناحق چڑھائی کر ڈالی۔ وہ نوجوان جو جبر وگھٹن کے ماحول میں تہذیبی اور سماجی سطح پر ایک اعلانیہ غیر سیاسی جدوجہد کر رہے ہیں، اور نتیجتاً جگہ جگہ 'مشکوک' نظروں سے بھی دیکھے جا رہے ہیں، ان پر ہر وقت نظر رکھی جا رہی ہے، ہر لمحے چھان پھٹک، سوال جواب ہو رہے ہیں۔ وہ ہر سال بہ مشکل ہی یہ دن منا پا رہے ہیں، ایسے میں ان کی سرگرمیوں پر ایسی بے رحمانہ تنقید سمجھ سے بالاتر ہے۔
اگر وہ 'نوجوانانِ مہاجر' کے مشاعرے میں گورنر سندھ کامران ٹیسوری کو مدعو کرنے پر برہم تھے، تو یہ امر فقط ان پروگراموں کو قابل قبول اور علمی طور پر ممکن بنانے کے لیے کیا گیا تھا، ورنہ لندن کے ٹھنڈے موسم میں بیٹھ کر خالی خولی باتیں کرنا اور تنقید کے نشتر چلانا تو بہت آسان ہے، کیوں کہ یہاں 'اندھے اعتماد' کے سہارے ایسے 'مدافعین' اب بھی کم نہیں، جو بنا سوچے سمجھے ہر صحیح غلط پر ایمان لائے بیٹھے ہیں، البتہ اس بار چند ایک ایسے 'وفادار' بھی سامنے آئے، جنھوں نے یہ سوال اٹھایا کہ یہ 'بائیکاٹ' رابطہ کمیٹی نے کیا، جس پر وہ اختلاف کا حق رکھتے ہیں۔ بات بالکل درست تھی، یہ وہی نام نہاد "وفادار" رابطہ کمیٹی ہے جو کبھی ٹوٹ کر امریکا پہنچ جاتی ہے، تو کبھی دبئی میں پناہ گزین ہو جاتی ہے۔ قصہ مختصر، اس دھما چوکڑی کے باوجود 'نوجوانانِ مہاجر' کی 24 دسمبر کی روایتی ریلی کام یاب رہی اور اس ریلی کو لیاقت آباد تک محدود کرنے کا درست فیصلہ کرکے اِسے کسی بھی سیاسی جماعت کے اثر سے بھی بچا لیا گیا۔
اس ریلی میں مختلف اقوام کے لوگ بھی اظہار یک جہتی کے لیے موجود تھے۔ بحریہ یونیورسٹی، کراچی کے ایک طالب علم نے ہمیں بتایا کہ انھوں نے بطور اسائمنٹ اس ریلی میں شرکت کی، ان کے وفد میں موجود دیگر قوموں سے تعلق رکھنے والی ساتھی طالبات نے نوجوانوں کے ایک بڑے مجمع کے باوجود مکمل احساسِ تحفظ پایا، وہ کہتی ہیں کہ پوری ریلی میں انھیں کسی بھی جانب سے کوئی پریشانی نہیں ہوئی اور وہ اس اخلاق، نظم وضبط اور تربیت سے حد درجہ متاثر ہوئی ہیں۔ یقیناً ایسی ہی فکر مختلف ثقافتوں کی حامل ریاست کو امن وآشتی کا مسکن بناتی ہے۔ جب ہم ایک دوسرے کا وجود کھلے دل سے اور بغیر کسی تعصب کے کریں۔ دوسری قوم کا صرف وہی حق تسلیم کرلیں، جو آپ خود اپنی قوم کے لیے طلب کرتے ہیں، تو ملک کے بہت سارے مسئلے حل ہو سکتے ہیں۔
اس موقع پر ہم سینئر صحافی محمد عامر خاکوانی کو خصوصی طور پر سراہنا چاہیں گے، جنھوں نے پچھلے برس کی طرح اس برس بھی کھلے دل کے ساتھ 'یوم مہاجر ثقافت' کی نہ صرف مبارک باد دی، بلکہ ایک مفصل تحریر لکھ کر 'مہاجر قوم' پر مختلف اقوام کی جانب سے پوچھے جانے والے سوالات کے مدلل جواب بھی دیے۔ ہمیں بہت افسوس ہوا کہ بہت سے "دوست" اس لسانی اور ثقافتی حقیقت کو ماننے میں آج بھی تامل کا شکار رہے، کچھ براہ راست تمسخر اڑانے پر بھی آمادہ تھے، تو بہت سی علمی شخصیات اشاروں کنایوں میں اِس وجود اور اس دن پر بھی بھپتی کس رہی تھیں، یہ اِس نام کو اختیار کرنے پر وہی سوالات کر رہے تھے، جن کے جواب چار دہائیوں پہلے دیے جا چکے ہیں، یقیناً یہ بات افسوس ناک ہے، اِس ذہنیت کو اب بدلنا چاہیے۔
اگر اِن بچوں کی نوآموزی کو سامنے رکھیے، تو یہ ایک بہت اچھا مشاعرہ تھا، مشاعرے کے آغاز سے پہلے باقاعدہ مشاعرے کے آداب بتائے گئے، کہ تالیاں نہیں بجانی اور داد کیسے دینی ہے وغیرہ۔ جس پر نوجوان کی اکثریت نے کافی حد تک عمل بھی کیا، تاہم کچھ جذباتی نوجوان منع کرنے کے باوجود نعرے بازی کرتے رہے۔
مشاعرے کے اختتام پر تمام شعرا کو 'مہاجر سرپوش' پہنانے کی خوب صورت روایت دُہرائی گئی۔ ناکافی وسائل اور پھر 'یوم مہاجر' کے نام پر سخن ورانِ شہر کو شرکت کے لیے راضی کرنا ایک امرِ محال رہا۔ ہمیں یہ بھی معلوم ہوا کہ عین وقت پر ایک شاعر نے اِس مشاعرے میں شرکت سے یہ کہہ کر بھی معذرت کی کہ وہ تو خود کو مہاجر ہی تسلیم نہیں کرتے، اس لیے نہیں آئیں گے۔ ایسے میں اگر مندرجہ بالا سینئر شعرا کی بڑائی اور وسعت نظری کو نہ سراہا جائے، تو یہ زیادتی ہوگی۔ صداﺅں کے اِ س قحط میں اس ملک میں اپنے قومی تشخص کو پھر سے منوانا اور 1970ءکی دہائی میں نمٹ جانے والے سوالات کے بار بار جواب دینا یقیناً کوئی آسان امر نہیں۔
'نوجوانانِ مہاجر' کی یہ کاوش اس بار زیادہ وسیع پیمانے پر منائی گئی، دنیا کے مختلف ممالک کے ساتھ ساتھ 'کراچی بار کونسل' میں بھی پہلی بار 'یوم مہاجر ثقافت' کا ایک پروگرام ہوا، یہ سب دیکھ کر جیسے کچھ برس پہلے ہمارے ذہن میں سوال آیا تھا کہ ان کے پسِ پشت کون ہے؟ اس بار تو یہ سوال زیادہ شدومد سے اٹھا۔ اس مشاعرے میں ایک شاعر نے کیا جامع بات کہی کہ ہم ان بچوں کی مخالفت کر کے وہی غلطی کر رہے ہیں، جو برسوں پہلے ہمارے ساتھ ہمارے بڑوں نے ہم سے فاصلے پیدا کر کے کی تھی۔ یہ بات بالکل درست ہے کہ ایک نسل کا دوسری نسل سے تعلق نہ صرف تہذیبی کڑی کو دوام بخشتا ہے، بلکہ اگلی نسل کی سمت کو زیادہ مرکوز اور درست رکھنے میں بھی مدد دیتا ہے۔ عقب سے بیٹھ کر صرف تنقید کرنے اور شکوک ظاہر کرنے کے بہ جائے بہتر راستہ یہی ہوتاہے کہ اِن کا حوصلہ بھی بڑھایا جائے۔
خیر، مشاعرے کے انعقاد کے بعد اچانک گرما گرمی اس وقت پیدا ہوئی کہ جب 'ایم کیو ایم' (بہادر آباد) نے بھی 24 دسمبر کو 'یوم مہاجر ثقافت' پر مزارِ قائد پر اپنی ریلی کا اعلان کر دیا۔ ایک طرف 'بہادرآباد گروپ' کی جانب سے اِس دن کی تائید جہاں مثبت عمل تھا، وہیں نوجوانوں کی 'کریم آباد تا مزارِ قائد' ریلی کو اپنے کھاتے میں ڈالنے کی ایک نہایت غیر مناسب کوشش بھی لگتی تھی، جس پرانھیں شدید تنقید کا سامنا بھی کرنا پڑا۔ کہاں یہی گروپ کبھی ستمبر میں اور کبھی فروری میں 'یوم مہاجر ثقافت' کے پروگرام کرتا تھا، لیکن انھیں 24 دسمبر ماننا قبول نہ تھا۔
اب اگر انھیں اپنے پروگرام کرنے تھے، تو اِسے الگ رکھنا تو تہذیب کی ایک بہت بنیادی سی بات تھی، جسے بری طرح پائمال کیا گیا۔ ابھی اس کی گرد بھی نہ تھمی تھی کہ ایم کیو ایم (لندن) کی رابطہ کمیٹی نے بھی عام انتخابات کی طرح 'یوم مہاجر ثقافت' کے بھی بائیکاٹ کا اعلان کرکے رنگ میں بھنگ ڈالنے کی کوئی کسر باقی نہ چھوڑی۔ انھوں نے اِسے مکمل طور پر سیاسی نظر سے دیکھا اور کسی 'سازش' کی بو سونگھ کر پوری سماجی اور تہذیبی سرگرمی کو 'مائنس ون' کے کھاتے میں ڈالنے کی ایک عاجلانہ اور ناعاقبت اندیشانہ کوشش کی۔ 'لندن' گروپ کی جانب سے گذشتہ چھے برسوں سے جاری بے تُکی اور بے سروپا حرکتوں میں وہاں کی 'رابطہ کمیٹی' کا بھی ایک عجیب وغریب کردار سامنے آیا ہے اور 'یوم مہاجر ثقافت' کا بائیکاٹ کرنا اسی کا تسلسل تھا۔
آخر جب انھیں اپنے ووٹر اور حامیوں پر بھروسا ہے، تو کیوں کسی بھی غیر سیاسی سرگرمی سے بھی خوامخواہ ڈرے جاتے ہیں، اگر انھوں نے اِسے 'بہادر آباد گروپ' کا کوئی پروگرام سمجھا، تو انھیں چاہیے تھا کہ اپنی توپوں کا رخ انھی کی جانب رکھتے۔ ان کی اپنی قوم کے نوجوانوں نے اِن کا کیا بگاڑا تھا جو ان پر ناحق چڑھائی کر ڈالی۔ وہ نوجوان جو جبر وگھٹن کے ماحول میں تہذیبی اور سماجی سطح پر ایک اعلانیہ غیر سیاسی جدوجہد کر رہے ہیں، اور نتیجتاً جگہ جگہ 'مشکوک' نظروں سے بھی دیکھے جا رہے ہیں، ان پر ہر وقت نظر رکھی جا رہی ہے، ہر لمحے چھان پھٹک، سوال جواب ہو رہے ہیں۔ وہ ہر سال بہ مشکل ہی یہ دن منا پا رہے ہیں، ایسے میں ان کی سرگرمیوں پر ایسی بے رحمانہ تنقید سمجھ سے بالاتر ہے۔
اگر وہ 'نوجوانانِ مہاجر' کے مشاعرے میں گورنر سندھ کامران ٹیسوری کو مدعو کرنے پر برہم تھے، تو یہ امر فقط ان پروگراموں کو قابل قبول اور علمی طور پر ممکن بنانے کے لیے کیا گیا تھا، ورنہ لندن کے ٹھنڈے موسم میں بیٹھ کر خالی خولی باتیں کرنا اور تنقید کے نشتر چلانا تو بہت آسان ہے، کیوں کہ یہاں 'اندھے اعتماد' کے سہارے ایسے 'مدافعین' اب بھی کم نہیں، جو بنا سوچے سمجھے ہر صحیح غلط پر ایمان لائے بیٹھے ہیں، البتہ اس بار چند ایک ایسے 'وفادار' بھی سامنے آئے، جنھوں نے یہ سوال اٹھایا کہ یہ 'بائیکاٹ' رابطہ کمیٹی نے کیا، جس پر وہ اختلاف کا حق رکھتے ہیں۔ بات بالکل درست تھی، یہ وہی نام نہاد "وفادار" رابطہ کمیٹی ہے جو کبھی ٹوٹ کر امریکا پہنچ جاتی ہے، تو کبھی دبئی میں پناہ گزین ہو جاتی ہے۔ قصہ مختصر، اس دھما چوکڑی کے باوجود 'نوجوانانِ مہاجر' کی 24 دسمبر کی روایتی ریلی کام یاب رہی اور اس ریلی کو لیاقت آباد تک محدود کرنے کا درست فیصلہ کرکے اِسے کسی بھی سیاسی جماعت کے اثر سے بھی بچا لیا گیا۔
اس ریلی میں مختلف اقوام کے لوگ بھی اظہار یک جہتی کے لیے موجود تھے۔ بحریہ یونیورسٹی، کراچی کے ایک طالب علم نے ہمیں بتایا کہ انھوں نے بطور اسائمنٹ اس ریلی میں شرکت کی، ان کے وفد میں موجود دیگر قوموں سے تعلق رکھنے والی ساتھی طالبات نے نوجوانوں کے ایک بڑے مجمع کے باوجود مکمل احساسِ تحفظ پایا، وہ کہتی ہیں کہ پوری ریلی میں انھیں کسی بھی جانب سے کوئی پریشانی نہیں ہوئی اور وہ اس اخلاق، نظم وضبط اور تربیت سے حد درجہ متاثر ہوئی ہیں۔ یقیناً ایسی ہی فکر مختلف ثقافتوں کی حامل ریاست کو امن وآشتی کا مسکن بناتی ہے۔ جب ہم ایک دوسرے کا وجود کھلے دل سے اور بغیر کسی تعصب کے کریں۔ دوسری قوم کا صرف وہی حق تسلیم کرلیں، جو آپ خود اپنی قوم کے لیے طلب کرتے ہیں، تو ملک کے بہت سارے مسئلے حل ہو سکتے ہیں۔
اس موقع پر ہم سینئر صحافی محمد عامر خاکوانی کو خصوصی طور پر سراہنا چاہیں گے، جنھوں نے پچھلے برس کی طرح اس برس بھی کھلے دل کے ساتھ 'یوم مہاجر ثقافت' کی نہ صرف مبارک باد دی، بلکہ ایک مفصل تحریر لکھ کر 'مہاجر قوم' پر مختلف اقوام کی جانب سے پوچھے جانے والے سوالات کے مدلل جواب بھی دیے۔ ہمیں بہت افسوس ہوا کہ بہت سے "دوست" اس لسانی اور ثقافتی حقیقت کو ماننے میں آج بھی تامل کا شکار رہے، کچھ براہ راست تمسخر اڑانے پر بھی آمادہ تھے، تو بہت سی علمی شخصیات اشاروں کنایوں میں اِس وجود اور اس دن پر بھی بھپتی کس رہی تھیں، یہ اِس نام کو اختیار کرنے پر وہی سوالات کر رہے تھے، جن کے جواب چار دہائیوں پہلے دیے جا چکے ہیں، یقیناً یہ بات افسوس ناک ہے، اِس ذہنیت کو اب بدلنا چاہیے۔