روس یو کرین تنازعہ کوئی حل نکالیں
نیٹو اور یورپی یونین کے شہریوں کو اپنی قیادت سے یوکرین کی جنگ میں ’’ملوث‘‘ ہونے کے بارے میں پوچھنا چاہیے
روس نے دعویٰ کیا ہے کہ اس نے ایک جوابی کارروائی میں یو کرینی فوج کی دو عمارتوں پر راکٹ حملہ کیا ، جس میں اُن کے 600 سے زیادہ اہلکار ہلاک ہوگئے۔
یو کرین کی جانب سے بھی روسی دعوے پر فوری طور پر کوئی تبصرہ نہیں کیا گیا ، تاہم مشرقی یوکرین کے قصبے کریما تو رسک کے میئر نے فیس بک پوسٹ کے ذریعے بتایا کہ روسی فوج نے شہر کی مختلف عمارتوں پر حملہ کیا ہے لیکن ان میں کوئی ہلاکت نہیں ہوئی۔
روس ، یوکرین تنازعہ نے دنیا بھر میں بسنے والے لوگوں کو دکھ وتکلیف میں مبتلا کر کے سماجی ترقی کی گھڑی کو سست کردیا ہے اور تقریباً تمام ملکوں میں بحرانوں کا ایک نہ ختم ہونے والا سلسلہ شروع ہے ، خوف کی ایک فضا قائم ہوچکی ہے۔
اس تنازعہ کے فوری اثرات مہنگائی میں تیزی سے اضافہ ، شرح نمو میں کمی اور سپلائی چین میں رکاوٹوں کی صورت میں سامنے آئے ہیں۔
یہ تنازعہ توانائی اور اشیائے خورونوش کی قیمتوں میں اضافے کا باعث بنا ہے ، جس سے مہنگائی کی شرح میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے اور معاشی ترقی دباؤ کا شکار ہے۔ گندم کی عالمی برآمدات میں روس اور یوکرین کا حصہ تقریباً ایک تہائی ہے۔
اس لیے اس جنگ کی وجہ سے غذائی قلت پیدا ہوئی ہے ، جس نے خوراک کی بڑھتی ہوئی قیمتوں کی وجہ سے غذائی عدم تحفظ میں اضافہ کیا ہے۔ اس کا سب سے زیادہ اثر غریب ممالک پر ہوا ہے، جو پہلے ہی ماحولیاتی تبدیلی جیسے دیگر مسائل سے دوچار ہیں۔
اقوام متحدہ کا ادارہ برائے اطفال (یونیسیف) نے کہا تھا کہ روس کے یوکرین پر حملے کے بعد معاشی بحران کی وجہ سے مشرقی یورپ اور وسطی ایشیا کے 40 لاکھ بچے غربت کی زندگی کا شکار ہوگئے جب کہ اس تعداد میں سال بہ سال 20 فیصد اضافہ ہوا ہے۔
دراصل روس اور یوکرین عالمی خوراک پیدا کرنے والے اور برآمد کرنے والے بڑے ممالک ہیں اور دونوں کے درمیان تصادم کی وجہ سے عالمی سطح پر خوراک کی قیمتوں میں تیزی سے اضافہ ہوا ہے ، جس کے نتیجے میں وبا اور موسمیاتی تبدیلی کے اثرات کے ساتھ مل کر، 2008 کے بعد سے بدترین عالمی خوراک کا بحران پیدا ہوا ہے جس سے 345 ملین افراد کی زندگیوں اور معاش کو خطرہ لاحق ہے۔
جنگ اب بھی جاری ہے اور خوراک کا بحران مزید شدت اختیار کر رہا ہے اور اس کے اثرات خطے اور مغرب کو اپنی لپیٹ میں لے چکے ہیں۔ یہاں تک کہ امیر یورپی ریاستیں بھی توانائی اور خوراک کے بحران کا شکار ہیں، مہنگائی روز بروز بڑھ رہی ہے۔
ضروری اشیاء اب مغرب میں بھی تیزی سے عام لوگوں کی پہنچ سے باہر ہوتی جارہی ہیں۔ ان کے میڈیا اور معیشت کے نگران اونچی آواز میں چیخ رہے ہیں جب کہ لوگ احتجاج کے لیے سڑکوں پر ہیں۔ قدرتی گیس کی فراہمی کی کمی سے متاثر، کچھ یورپی ممالک میں بجلی کی قیمتوں میں سال کے دوران 10 گنا تک اضافہ ہوا۔
توانائی کی بڑھتی ہوئی قیمتوں کی وجہ سے پیداواری لاگت میں نمایاں اضافہ ہوا ہے جس کے نتیجے میں ملکی اور غیر ملکی سرمایہ کاری گھٹ رہی ہے۔ فرانس کے صدر ایمانوئل میکرون کا ماننا ہے کہ یورپ میں خوشحالی کا دور ختم ہو رہا ہے۔
روس، دنیا میں امریکا کے بعد سب سے بڑا توانائی پیدا کرنے والا ملک ہے، روس 60 فیصد ایندھن یورپی ملکوں کو اور 20 سے 30 فیصد ایندھن چین کو فروخت کرتا ہے۔
اسی طرح روس اور یوکرین دنیا میں گندم کی پیداوار اور فروخت کرنے والے 2 بڑے ملک ہیں، سوویت یونین کے لیڈر ویلا دیمیر لینن کا کہنا تھا کہ گندم کرنسیوں کی کرنسی ہے۔
یوکرین بحیرہ اسود سے گندم برآمد کرتا ہے، بندرگاہ پر رکاوٹ کی وجہ سے یوکرین گندم بڑے پیمانے پر برآمد کرنے سے قاصر رہا، جس کی وجہ سے اس کی عالمی مارکیٹ میں قیمتیں بلند ترین سطح پر پہنچ گئیں۔
روس اپنی گندم بندرگاہوں اور زمینی راستے سے برآمد کرسکتا ہے، تاہم روس پر عائد پابندیوں کی وجہ سے برآمدات متاثر ہوئیں۔
چونکہ پابندی کی وجہ سے روس زیادہ پٹرول عالمی مارکیٹ میں برآمد نہیں کرسکا جس کی وجہ سے عالمی سطح پر پٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں بڑھ گئیں اور پہلے سے ہی اشیائے خورونوش کی قیمتوں میں اضافے کی وجہ سے عالمی سطح پر مہنگائی بہت زیادہ بڑھ گئی اور امریکا، یورپ سمیت دنیا کا تقریباً ہر ملک اس سے متاثر ہوا اور مختلف عالمی اداروں کی جانب سے توقع سے کم عالمی شرح نمو میں کمی کے اندازے لگائے گئے۔
ایک رپورٹ کے مطابق اسٹیلن بوش یونیورسٹی اور جے پی مورگن میں زرعی معاشیات کے سینئر محقق وانڈائل سہلوبو نے بتایا تھا کہ روس اور یوکرین عالمی گندم کا 14 فیصد پیدا کرتے ہیں اور عالمی برآمدات میں ان کا 29 فیصد حصہ ہے، دونوں ممالک بڑے پیمانے پر مکئی اور سورج مکھی کے تیل کی پیداوار بھی کرتے ہیں۔
دنیا کی بڑی فرٹیلائزر کمپنیوں میں سے ایک 'یارا' کے سربراہ سیون ٹور ہولیستھر نے بتایا تھا کہ فرٹیلائزر یعنی کھاد کی قیمتیں گیس کی قیمتوں کے باعث آسمان پر ہیں، روس کھاد برآمد کرنے والے بڑے ممالک میں سے ایک ہے۔
دنیا کی آدھی سے زیادہ آبادی کو کھانا صرف کھاد کے استعمال کے نتیجے میں ملتا ہے اور اگر کھیتوں میں اس کا استعمال بند کردیا جائے تو چند ایک فصلوں کی پیداوار 50 فیصد تک کم ہو جائے گی۔ اقتصادی تعاون و ترقی کی تنظیم (او ای سی ڈی) نے کہا کہ عالمی معاشی نمو کی رفتار میں توقع سے زیادہ کمی ہو سکتی ہے، روس اور یوکرین جنگ کے بعد توانائی اور مہنگائی بحران کے سبب اہم معیشتوں کے کساد بازاری کا شکار ہونے کے خطرات ہیں۔ رواں برس عالمی معاشی شرح نمو 2.2 فیصد رہنے کی توقع ہے۔
روس یوکرین جنگ کے پاکستان کی کمزور معیشت پر منفی اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔ اس کے فوری مضمرات بلند افراط زر، کم شرح نمو، سپلائی چین میں رکاوٹ، خام مال و اشیائ، توانائی، خوراک اور عالمی نقل و حمل کی بڑھتی ہوئی قیمتوں کی صورت میں ظاہر ہو رہے ہیں۔
سپلائی چین میں رکاوٹیں بہت زیادہ ہیں۔ افراط زر میں اضافہ جاری رہے گا اور یہ ایک طویل مدتی مسئلہ ثابت ہو گا، غیر یقینی اقتصادی ماحول اور بڑھتے ہوئے آپریٹنگ اخراجات کی وجہ سے آپریٹنگ مارجن میں تیزی سے کمی آ سکتی ہے کیونکہ اسٹیل اور تعمیرات سمیت تمام شعبوں میں نمایاں گراؤٹ دیکھنے میں آئی ہے۔
افراط زر کی شرح میں اضافہ جاری رہے گا کیونکہ روس یوکرین تنازعہ مہنگائی میں اضافے کا سبب بنا ہے اور افراط زر کو ہی مستقبل کے سب سے بڑے خطرے کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔ غیر یقینی صورتحال بلند ترین سطح پر ہے کیونکہ مالی اور معاشی غیر یقینی کی سطح اب بلند ترین سطح پر پہنچ گئی ہے جو کہ کورونا کے دوران ریکارڈ کی گئی سطح سے بھی زیادہ ہے۔
سپلائی چین کے اہم مسائل خام مال، درمیانی اشیاء اور نقل و حمل کی بڑھتی ہوئی لاگت سے پیدا ہوتے ہیں۔ موجودہ معاشی منظر نامے میں نجی شعبے کی حالت زار حکومت کی فوری توجہ کی متقاضی ہے اور اس کے اثرات کو کم کرنے اور صنعت کو تباہی سے بچانے کے لیے ریلیف پیکیج کی اشد ضرورت ہے۔
گھروں کو گرم کرنے کے لیے گیس کی بڑھتی ہوئی طلب، خوراک کا بحران اور زندگی گزارنے کی لاگت 19 یورپی یونین کے ممالک اور برطانیہ کو تباہ کر سکتی ہے۔
اگر یورپی قیادت توانائی کے بحران کا کوئی حل تلاش کرنے میں ناکام رہتی ہے تو وہ اس سخت سردی میں گیس کی سپلائی میں غیر متوقع طور پر خلل ڈالے گی۔ شاید یہ وقت ہے کہ نیٹو اور یورپی یونین کے شہریوں کو اپنی قیادت سے یوکرین کی جنگ میں ''ملوث'' ہونے کے بارے میں پوچھنا چاہیے۔
اس ضمن میں سب سے پہلے، امریکا اور مغرب کو یوکرین کے لیے فوجی کھیپ کو روکنا ہوگا اور تکنیکی مدد بھی ختم کرنا ہوگی۔ ایک بنیادی اعتماد سازی کے قدم کے طور پر، وہ روس کے خلاف یوکرین کو خوراک کی سپلائی روکنے اور جنگی جرائم کے غیر ضروری دعوؤں سے متعلق اپنے الزامات کو واپس لے لیں، لہٰذا، امریکا، مغربی اور یوکرین میڈیا میں جاری بدنیتی پر مبنی مہم جس کا مقصد بنیادی طور پر روسی قیادت اور روسی مسلح افواج کو بدنام کرنا ہے۔
ہم روس کی یوکرین کے صدر کو امن عمل کے بارے میں بات کرنے کی پیشکش کو کیسے نظر انداز کر سکتے ہیں؟ یوکرین کے کھانے پینے کے اناج کے جہازوں کو یورپ اور دنیا کے دیگر حصوں میں محفوظ طریقے سے منتقل کرنے کی ضمانت دی جانی چاہیے۔
امریکا اور یورپی یونین کو یورپ کو بنیادی خوراک اور گیس کی ہموار فراہمی کے لیے روس پر اقتصادی پابندیاں ہٹانا ہوں گی اور اس کے فنڈز اور ادائیگیوں کو غیر منجمد کرنا ہوگا۔ یہ سمجھنا چاہیے کہ اقتصادی پابندیاں مقصد کو پورا نہیں کر سکتیں کیونکہ یورپ کا حالیہ بحران روس پر اقتصادی پابندیوں اور یوکرین کی جنگ کا نتیجہ ہے۔
عالمی طاقتیں خلوص نیت اور اعتماد سازی کے ساتھ فوری اقدامات اٹھا کر تنازعہ کا ایک دیرپا حل نکال سکتی ہیں۔
یو کرین کی جانب سے بھی روسی دعوے پر فوری طور پر کوئی تبصرہ نہیں کیا گیا ، تاہم مشرقی یوکرین کے قصبے کریما تو رسک کے میئر نے فیس بک پوسٹ کے ذریعے بتایا کہ روسی فوج نے شہر کی مختلف عمارتوں پر حملہ کیا ہے لیکن ان میں کوئی ہلاکت نہیں ہوئی۔
روس ، یوکرین تنازعہ نے دنیا بھر میں بسنے والے لوگوں کو دکھ وتکلیف میں مبتلا کر کے سماجی ترقی کی گھڑی کو سست کردیا ہے اور تقریباً تمام ملکوں میں بحرانوں کا ایک نہ ختم ہونے والا سلسلہ شروع ہے ، خوف کی ایک فضا قائم ہوچکی ہے۔
اس تنازعہ کے فوری اثرات مہنگائی میں تیزی سے اضافہ ، شرح نمو میں کمی اور سپلائی چین میں رکاوٹوں کی صورت میں سامنے آئے ہیں۔
یہ تنازعہ توانائی اور اشیائے خورونوش کی قیمتوں میں اضافے کا باعث بنا ہے ، جس سے مہنگائی کی شرح میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے اور معاشی ترقی دباؤ کا شکار ہے۔ گندم کی عالمی برآمدات میں روس اور یوکرین کا حصہ تقریباً ایک تہائی ہے۔
اس لیے اس جنگ کی وجہ سے غذائی قلت پیدا ہوئی ہے ، جس نے خوراک کی بڑھتی ہوئی قیمتوں کی وجہ سے غذائی عدم تحفظ میں اضافہ کیا ہے۔ اس کا سب سے زیادہ اثر غریب ممالک پر ہوا ہے، جو پہلے ہی ماحولیاتی تبدیلی جیسے دیگر مسائل سے دوچار ہیں۔
اقوام متحدہ کا ادارہ برائے اطفال (یونیسیف) نے کہا تھا کہ روس کے یوکرین پر حملے کے بعد معاشی بحران کی وجہ سے مشرقی یورپ اور وسطی ایشیا کے 40 لاکھ بچے غربت کی زندگی کا شکار ہوگئے جب کہ اس تعداد میں سال بہ سال 20 فیصد اضافہ ہوا ہے۔
دراصل روس اور یوکرین عالمی خوراک پیدا کرنے والے اور برآمد کرنے والے بڑے ممالک ہیں اور دونوں کے درمیان تصادم کی وجہ سے عالمی سطح پر خوراک کی قیمتوں میں تیزی سے اضافہ ہوا ہے ، جس کے نتیجے میں وبا اور موسمیاتی تبدیلی کے اثرات کے ساتھ مل کر، 2008 کے بعد سے بدترین عالمی خوراک کا بحران پیدا ہوا ہے جس سے 345 ملین افراد کی زندگیوں اور معاش کو خطرہ لاحق ہے۔
جنگ اب بھی جاری ہے اور خوراک کا بحران مزید شدت اختیار کر رہا ہے اور اس کے اثرات خطے اور مغرب کو اپنی لپیٹ میں لے چکے ہیں۔ یہاں تک کہ امیر یورپی ریاستیں بھی توانائی اور خوراک کے بحران کا شکار ہیں، مہنگائی روز بروز بڑھ رہی ہے۔
ضروری اشیاء اب مغرب میں بھی تیزی سے عام لوگوں کی پہنچ سے باہر ہوتی جارہی ہیں۔ ان کے میڈیا اور معیشت کے نگران اونچی آواز میں چیخ رہے ہیں جب کہ لوگ احتجاج کے لیے سڑکوں پر ہیں۔ قدرتی گیس کی فراہمی کی کمی سے متاثر، کچھ یورپی ممالک میں بجلی کی قیمتوں میں سال کے دوران 10 گنا تک اضافہ ہوا۔
توانائی کی بڑھتی ہوئی قیمتوں کی وجہ سے پیداواری لاگت میں نمایاں اضافہ ہوا ہے جس کے نتیجے میں ملکی اور غیر ملکی سرمایہ کاری گھٹ رہی ہے۔ فرانس کے صدر ایمانوئل میکرون کا ماننا ہے کہ یورپ میں خوشحالی کا دور ختم ہو رہا ہے۔
روس، دنیا میں امریکا کے بعد سب سے بڑا توانائی پیدا کرنے والا ملک ہے، روس 60 فیصد ایندھن یورپی ملکوں کو اور 20 سے 30 فیصد ایندھن چین کو فروخت کرتا ہے۔
اسی طرح روس اور یوکرین دنیا میں گندم کی پیداوار اور فروخت کرنے والے 2 بڑے ملک ہیں، سوویت یونین کے لیڈر ویلا دیمیر لینن کا کہنا تھا کہ گندم کرنسیوں کی کرنسی ہے۔
یوکرین بحیرہ اسود سے گندم برآمد کرتا ہے، بندرگاہ پر رکاوٹ کی وجہ سے یوکرین گندم بڑے پیمانے پر برآمد کرنے سے قاصر رہا، جس کی وجہ سے اس کی عالمی مارکیٹ میں قیمتیں بلند ترین سطح پر پہنچ گئیں۔
روس اپنی گندم بندرگاہوں اور زمینی راستے سے برآمد کرسکتا ہے، تاہم روس پر عائد پابندیوں کی وجہ سے برآمدات متاثر ہوئیں۔
چونکہ پابندی کی وجہ سے روس زیادہ پٹرول عالمی مارکیٹ میں برآمد نہیں کرسکا جس کی وجہ سے عالمی سطح پر پٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں بڑھ گئیں اور پہلے سے ہی اشیائے خورونوش کی قیمتوں میں اضافے کی وجہ سے عالمی سطح پر مہنگائی بہت زیادہ بڑھ گئی اور امریکا، یورپ سمیت دنیا کا تقریباً ہر ملک اس سے متاثر ہوا اور مختلف عالمی اداروں کی جانب سے توقع سے کم عالمی شرح نمو میں کمی کے اندازے لگائے گئے۔
ایک رپورٹ کے مطابق اسٹیلن بوش یونیورسٹی اور جے پی مورگن میں زرعی معاشیات کے سینئر محقق وانڈائل سہلوبو نے بتایا تھا کہ روس اور یوکرین عالمی گندم کا 14 فیصد پیدا کرتے ہیں اور عالمی برآمدات میں ان کا 29 فیصد حصہ ہے، دونوں ممالک بڑے پیمانے پر مکئی اور سورج مکھی کے تیل کی پیداوار بھی کرتے ہیں۔
دنیا کی بڑی فرٹیلائزر کمپنیوں میں سے ایک 'یارا' کے سربراہ سیون ٹور ہولیستھر نے بتایا تھا کہ فرٹیلائزر یعنی کھاد کی قیمتیں گیس کی قیمتوں کے باعث آسمان پر ہیں، روس کھاد برآمد کرنے والے بڑے ممالک میں سے ایک ہے۔
دنیا کی آدھی سے زیادہ آبادی کو کھانا صرف کھاد کے استعمال کے نتیجے میں ملتا ہے اور اگر کھیتوں میں اس کا استعمال بند کردیا جائے تو چند ایک فصلوں کی پیداوار 50 فیصد تک کم ہو جائے گی۔ اقتصادی تعاون و ترقی کی تنظیم (او ای سی ڈی) نے کہا کہ عالمی معاشی نمو کی رفتار میں توقع سے زیادہ کمی ہو سکتی ہے، روس اور یوکرین جنگ کے بعد توانائی اور مہنگائی بحران کے سبب اہم معیشتوں کے کساد بازاری کا شکار ہونے کے خطرات ہیں۔ رواں برس عالمی معاشی شرح نمو 2.2 فیصد رہنے کی توقع ہے۔
روس یوکرین جنگ کے پاکستان کی کمزور معیشت پر منفی اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔ اس کے فوری مضمرات بلند افراط زر، کم شرح نمو، سپلائی چین میں رکاوٹ، خام مال و اشیائ، توانائی، خوراک اور عالمی نقل و حمل کی بڑھتی ہوئی قیمتوں کی صورت میں ظاہر ہو رہے ہیں۔
سپلائی چین میں رکاوٹیں بہت زیادہ ہیں۔ افراط زر میں اضافہ جاری رہے گا اور یہ ایک طویل مدتی مسئلہ ثابت ہو گا، غیر یقینی اقتصادی ماحول اور بڑھتے ہوئے آپریٹنگ اخراجات کی وجہ سے آپریٹنگ مارجن میں تیزی سے کمی آ سکتی ہے کیونکہ اسٹیل اور تعمیرات سمیت تمام شعبوں میں نمایاں گراؤٹ دیکھنے میں آئی ہے۔
افراط زر کی شرح میں اضافہ جاری رہے گا کیونکہ روس یوکرین تنازعہ مہنگائی میں اضافے کا سبب بنا ہے اور افراط زر کو ہی مستقبل کے سب سے بڑے خطرے کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔ غیر یقینی صورتحال بلند ترین سطح پر ہے کیونکہ مالی اور معاشی غیر یقینی کی سطح اب بلند ترین سطح پر پہنچ گئی ہے جو کہ کورونا کے دوران ریکارڈ کی گئی سطح سے بھی زیادہ ہے۔
سپلائی چین کے اہم مسائل خام مال، درمیانی اشیاء اور نقل و حمل کی بڑھتی ہوئی لاگت سے پیدا ہوتے ہیں۔ موجودہ معاشی منظر نامے میں نجی شعبے کی حالت زار حکومت کی فوری توجہ کی متقاضی ہے اور اس کے اثرات کو کم کرنے اور صنعت کو تباہی سے بچانے کے لیے ریلیف پیکیج کی اشد ضرورت ہے۔
گھروں کو گرم کرنے کے لیے گیس کی بڑھتی ہوئی طلب، خوراک کا بحران اور زندگی گزارنے کی لاگت 19 یورپی یونین کے ممالک اور برطانیہ کو تباہ کر سکتی ہے۔
اگر یورپی قیادت توانائی کے بحران کا کوئی حل تلاش کرنے میں ناکام رہتی ہے تو وہ اس سخت سردی میں گیس کی سپلائی میں غیر متوقع طور پر خلل ڈالے گی۔ شاید یہ وقت ہے کہ نیٹو اور یورپی یونین کے شہریوں کو اپنی قیادت سے یوکرین کی جنگ میں ''ملوث'' ہونے کے بارے میں پوچھنا چاہیے۔
اس ضمن میں سب سے پہلے، امریکا اور مغرب کو یوکرین کے لیے فوجی کھیپ کو روکنا ہوگا اور تکنیکی مدد بھی ختم کرنا ہوگی۔ ایک بنیادی اعتماد سازی کے قدم کے طور پر، وہ روس کے خلاف یوکرین کو خوراک کی سپلائی روکنے اور جنگی جرائم کے غیر ضروری دعوؤں سے متعلق اپنے الزامات کو واپس لے لیں، لہٰذا، امریکا، مغربی اور یوکرین میڈیا میں جاری بدنیتی پر مبنی مہم جس کا مقصد بنیادی طور پر روسی قیادت اور روسی مسلح افواج کو بدنام کرنا ہے۔
ہم روس کی یوکرین کے صدر کو امن عمل کے بارے میں بات کرنے کی پیشکش کو کیسے نظر انداز کر سکتے ہیں؟ یوکرین کے کھانے پینے کے اناج کے جہازوں کو یورپ اور دنیا کے دیگر حصوں میں محفوظ طریقے سے منتقل کرنے کی ضمانت دی جانی چاہیے۔
امریکا اور یورپی یونین کو یورپ کو بنیادی خوراک اور گیس کی ہموار فراہمی کے لیے روس پر اقتصادی پابندیاں ہٹانا ہوں گی اور اس کے فنڈز اور ادائیگیوں کو غیر منجمد کرنا ہوگا۔ یہ سمجھنا چاہیے کہ اقتصادی پابندیاں مقصد کو پورا نہیں کر سکتیں کیونکہ یورپ کا حالیہ بحران روس پر اقتصادی پابندیوں اور یوکرین کی جنگ کا نتیجہ ہے۔
عالمی طاقتیں خلوص نیت اور اعتماد سازی کے ساتھ فوری اقدامات اٹھا کر تنازعہ کا ایک دیرپا حل نکال سکتی ہیں۔