تشویشناک صورت حال اور عالمی امداد
سرد موسم میں متاثرین کی مشکلات مسلسل بڑھ رہی ہیں اور متوقع بارشوں سے ان کے لیے جو پریشانیاں مزید پیدا ہوں گی
وزیر اعظم میاں شہباز شریف نے کہا ہے کہ پاکستان کے سیلاب متاثرین کے مسائل بڑھ رہے ہیں اور ان کے لیے عالمی امداد کم ہوتی جا رہی ہے۔سرد موسم میں متاثرین کی مشکلات مسلسل بڑھ رہی ہیں اور متوقع بارشوں سے ان کے لیے جو پریشانیاں مزید پیدا ہوں گی۔
ان سے نمٹنے کے لیے فوری طور پر عالمی امداد کی اشد ضرورت ہے کیونکہ اس قومی آفت کی ذمے داری پاکستان پر نہیں عالمی دنیا پر بھی عائد ہوتی ہے کہ وہ اپنی ذمے داری محسوس کرے اور متاثرین سیلاب کی فوری اور زیادہ سے زیادہ مدد کرے۔
وفاقی وزیر منصوبہ بندی احسن اقبال کا کہنا ہے کہ گزشتہ سال پاکستان میں سیلاب و بارشوں سے تیس ارب ڈالر سے زائد کا معاشی نقصان ہوا ہے۔
33 ملین افراد متاثر اور تقریباً دو ہزار افراد جاں بحق ہوئے۔ سیلاب سے یہ تباہی 2010 کے سیلاب کے مقابلے میں تین گنا زیادہ اور خطرناک ہے جس سے ہم تنہا نہیں نمٹ سکتے ، اس لیے ہمیں عالمی طور پر بھرپور معاونت کی اشد ضرورت ہے۔ سیلاب سے پاکستان کے 14 ارب ڈالر کے اثاثے مکمل تباہ اور 16 ارب ڈالر کا انفرا اسٹرکچر مکمل تباہ ہو چکا ہے۔
سیلاب کے بعد اتحادی حکومت نے ایک ماہ کے دوران ملک میں ریلوے، بجلی، سڑکوں اور مختلف انفرا اسٹرکچر کے ذرایع کو ترجیح دے کر بحال کرنے کا کام شروع کردیا تھا مگر نقصان اتنا زیادہ ہے کہ فوری عالمی امداد کے بغیر نقصانات کا ازالہ نہیں کیا جاسکتا اور اسی وجہ سے جنیوا میں عالمی ڈونرز کانفرنس کا انعقاد ہوا جس میں وزیر اعظم شہباز شریف اور ان کے وفد نے دنیا کو تباہی کی تفصیلات سے آگاہ کیا ہے۔
اقوام متحدہ کے ترقیاتی پروگرام (یو این ڈی پی) نے بھی کہا ہے کہ سیلاب سے نوے لاکھ پاکستانیوں کے غربت میں چلے جانے کا خدشہ ہے۔ 33 ملین افراد متاثر ہوئے ہیں ، اگلے سیزن کی فصلیں کاشت نہیں ہوسکیں جس سے زرعی اجناس کی قلت اور ان کی قیمتوں میں اضافہ ہوا ، پاکستان میں سیلاب کے کئی ماہ بعد بھی 80لاکھ افراد اب تک بے گھر ہیں۔
تباہ کاریوں سے نمٹنے، بحالی اور تعمیر نو کے لیے 16 ارب ڈالر سے زائد امداد کی اشد ضرورت ہے۔اقوام متحدہ کے مطابق غذائی اشیا کی قیمتوں میں مسلسل اضافے سے غذائی عدم تحفظ میں اضافہ ہوا بلکہ غربت سے نیچے زندگی گزارنے والے متاثرین کی تعداد ستر لاکھ سے بڑھ کر ایک کروڑ چالیس لاکھ تک پہنچ سکتی ہے اور یہ تعداد مسلسل بڑھ رہی ہے۔
پاکستان میں حالیہ سیلاب سے سندھ، بلوچستان سب سے زیادہ متاثر ہوئے اور اس وقت سخت سردی میں متاثرین سخت پریشان ہیں۔ بعض متاثرین کے مطابق وہ جن کھلے علاقوں میں رہ رہے ہیں وہاں محفوظ خیموں میں زندگی مشکل سے گزاری جا رہی ہے اور بڑی تعداد میں متاثرین رہ رہے ہیں وہاں بوسیدہ خیمے بھی نہیں ہیں بلکہ اپنی رہائش کی جگہ وہ پلاسٹک کی چھتوں اور کپڑوں، دریوں کی دیواریں بنا کر سردی سے بچنے کی کوشش کرتے ہیں۔
پرانے عارضی خیمے پھٹ چکے ہیں، درختوں سے لکڑیاں توڑ کر وہ چھت اور دیواریں بناتے ہیں جو ٹھنڈی ہواؤں میں بار بار ٹوٹ پھوٹ جاتی ہیں۔ پلاسٹک اور کپڑے کی چادریں تیز ٹھنڈی ہواؤں کے تھپیڑے برداشت نہیں کر سکتیں اور لمبی راتیں متاثرین سردی میں کانپتے ہوئے جاگ کر گزار رہے ہیں اور صبح ہونے اور دھوپ نکلنے کا انتظار کرتے ہیں۔
سخت سردی اور تیز ہواؤں میں کھلے آسمان تلے متاثرین لکڑیاں جلا کر کھانا بھی مشکل سے پکا پاتے ہیں اور اندرون ملک کے سماجی اداروں اور مخیر حضرات کی طرف خوراک کی فراہمی کم ہوگئی ہے۔ متاثرین کو خوراک سے زیادہ سردی سے بچانے والے کپڑوں کی ضرورت زیادہ ہے۔
وفاقی وزیر احسن اقبال کے مطابق حکومت کی ترجیح لوگوں کی روزمرہ کی ضروریات کو دوبارہ شروع کرانا ہے جس کے لیے حکومتی وسائل محدود اور مسائل لامحدود ہیں۔
اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل، غیر ملکی سفیر اور عالمی شخصیات خود متاثرہ علاقوں میں جا کر صورت حال دیکھ چکی ہیں مگر موسمیاتی تبدیلی سے پاکستان میں جو تباہی آئی ہے اس کے نقصانات کا مداوا تنہا حکومت نہیں کرسکتی بلکہ عالمی طور پر اتنا محسوس نہیں کیا گیا نہ اتنی غیر ملکی امداد ملی اس لیے عالمی طور پر پاکستان کو امداد اور سامان کی اشد ضرورت ہے۔
ان سے نمٹنے کے لیے فوری طور پر عالمی امداد کی اشد ضرورت ہے کیونکہ اس قومی آفت کی ذمے داری پاکستان پر نہیں عالمی دنیا پر بھی عائد ہوتی ہے کہ وہ اپنی ذمے داری محسوس کرے اور متاثرین سیلاب کی فوری اور زیادہ سے زیادہ مدد کرے۔
وفاقی وزیر منصوبہ بندی احسن اقبال کا کہنا ہے کہ گزشتہ سال پاکستان میں سیلاب و بارشوں سے تیس ارب ڈالر سے زائد کا معاشی نقصان ہوا ہے۔
33 ملین افراد متاثر اور تقریباً دو ہزار افراد جاں بحق ہوئے۔ سیلاب سے یہ تباہی 2010 کے سیلاب کے مقابلے میں تین گنا زیادہ اور خطرناک ہے جس سے ہم تنہا نہیں نمٹ سکتے ، اس لیے ہمیں عالمی طور پر بھرپور معاونت کی اشد ضرورت ہے۔ سیلاب سے پاکستان کے 14 ارب ڈالر کے اثاثے مکمل تباہ اور 16 ارب ڈالر کا انفرا اسٹرکچر مکمل تباہ ہو چکا ہے۔
سیلاب کے بعد اتحادی حکومت نے ایک ماہ کے دوران ملک میں ریلوے، بجلی، سڑکوں اور مختلف انفرا اسٹرکچر کے ذرایع کو ترجیح دے کر بحال کرنے کا کام شروع کردیا تھا مگر نقصان اتنا زیادہ ہے کہ فوری عالمی امداد کے بغیر نقصانات کا ازالہ نہیں کیا جاسکتا اور اسی وجہ سے جنیوا میں عالمی ڈونرز کانفرنس کا انعقاد ہوا جس میں وزیر اعظم شہباز شریف اور ان کے وفد نے دنیا کو تباہی کی تفصیلات سے آگاہ کیا ہے۔
اقوام متحدہ کے ترقیاتی پروگرام (یو این ڈی پی) نے بھی کہا ہے کہ سیلاب سے نوے لاکھ پاکستانیوں کے غربت میں چلے جانے کا خدشہ ہے۔ 33 ملین افراد متاثر ہوئے ہیں ، اگلے سیزن کی فصلیں کاشت نہیں ہوسکیں جس سے زرعی اجناس کی قلت اور ان کی قیمتوں میں اضافہ ہوا ، پاکستان میں سیلاب کے کئی ماہ بعد بھی 80لاکھ افراد اب تک بے گھر ہیں۔
تباہ کاریوں سے نمٹنے، بحالی اور تعمیر نو کے لیے 16 ارب ڈالر سے زائد امداد کی اشد ضرورت ہے۔اقوام متحدہ کے مطابق غذائی اشیا کی قیمتوں میں مسلسل اضافے سے غذائی عدم تحفظ میں اضافہ ہوا بلکہ غربت سے نیچے زندگی گزارنے والے متاثرین کی تعداد ستر لاکھ سے بڑھ کر ایک کروڑ چالیس لاکھ تک پہنچ سکتی ہے اور یہ تعداد مسلسل بڑھ رہی ہے۔
پاکستان میں حالیہ سیلاب سے سندھ، بلوچستان سب سے زیادہ متاثر ہوئے اور اس وقت سخت سردی میں متاثرین سخت پریشان ہیں۔ بعض متاثرین کے مطابق وہ جن کھلے علاقوں میں رہ رہے ہیں وہاں محفوظ خیموں میں زندگی مشکل سے گزاری جا رہی ہے اور بڑی تعداد میں متاثرین رہ رہے ہیں وہاں بوسیدہ خیمے بھی نہیں ہیں بلکہ اپنی رہائش کی جگہ وہ پلاسٹک کی چھتوں اور کپڑوں، دریوں کی دیواریں بنا کر سردی سے بچنے کی کوشش کرتے ہیں۔
پرانے عارضی خیمے پھٹ چکے ہیں، درختوں سے لکڑیاں توڑ کر وہ چھت اور دیواریں بناتے ہیں جو ٹھنڈی ہواؤں میں بار بار ٹوٹ پھوٹ جاتی ہیں۔ پلاسٹک اور کپڑے کی چادریں تیز ٹھنڈی ہواؤں کے تھپیڑے برداشت نہیں کر سکتیں اور لمبی راتیں متاثرین سردی میں کانپتے ہوئے جاگ کر گزار رہے ہیں اور صبح ہونے اور دھوپ نکلنے کا انتظار کرتے ہیں۔
سخت سردی اور تیز ہواؤں میں کھلے آسمان تلے متاثرین لکڑیاں جلا کر کھانا بھی مشکل سے پکا پاتے ہیں اور اندرون ملک کے سماجی اداروں اور مخیر حضرات کی طرف خوراک کی فراہمی کم ہوگئی ہے۔ متاثرین کو خوراک سے زیادہ سردی سے بچانے والے کپڑوں کی ضرورت زیادہ ہے۔
وفاقی وزیر احسن اقبال کے مطابق حکومت کی ترجیح لوگوں کی روزمرہ کی ضروریات کو دوبارہ شروع کرانا ہے جس کے لیے حکومتی وسائل محدود اور مسائل لامحدود ہیں۔
اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل، غیر ملکی سفیر اور عالمی شخصیات خود متاثرہ علاقوں میں جا کر صورت حال دیکھ چکی ہیں مگر موسمیاتی تبدیلی سے پاکستان میں جو تباہی آئی ہے اس کے نقصانات کا مداوا تنہا حکومت نہیں کرسکتی بلکہ عالمی طور پر اتنا محسوس نہیں کیا گیا نہ اتنی غیر ملکی امداد ملی اس لیے عالمی طور پر پاکستان کو امداد اور سامان کی اشد ضرورت ہے۔