وطن عزیز کی تعمیر و ترقی کا راز
وطن عزیز کی ترقی اور خوشحالی کا راز اِسکے جوہرِ قابلِ کی قدر شناسی میں مضمر ہے
وطن عزیز پاکستان کا شمار دنیا کے اْن چند ممالک میں ہے جو اپنے جوہر قابل(ٹیلنٹ) کو بیرون ملک برآمد کردیتے ہیں۔
یہ سلسلہ پاکستان کے معرض وجود میں آجانے کے بعد سے مسلسل جاری ہے لیکن 2022 میں اِس تعداد میں جتنا اضافہ ہوا ہے وہ پاکستان کی 75 سالہ تاریخ میں سب سے زیادہ ہے۔
ایک اندازے کے مطابق تقریباً 765000 جواہر قابل 2022ء میں وطن عزیز کو چھوڑ کر بیرونی ممالک میں جا بسے۔ترکِ وطن کرنے والے اِن لوگوں میں ڈاکٹرز، انجینئرز، کمپیوٹر سائنسدان، بزنس کی ڈگری حاصل کرنے والے اور سائنس، ٹیکنالوجی، انجینئرنگ اور میتھی میٹکس کی سند حاصل کرنے والے نوجوان شامل ہیں۔
اندازہ ہے کہ 2023 میں 10 لاکھ سے بھی زائد لائقِ و فائق پاکستانی نوجوان ترکِ وطن کرکے بیرونی ممالک کا رخ کریں گے۔پاکستان انسٹیٹیوٹ آف ڈیولپمنٹ اکونومکس کے ایک سروے کے مطابق 40فیصد پاکستانی ملک چھوڑ کر جانے کے خواہشمند ہیں جس کا بنیادی سبب ناموافق حالات ہیں۔
حالت یہ ہے کہ:
پھِرتے ہیں میرخوار کوئی پوچھتا نہیں
بڑے بڑے قابل لوگ جوتیاں چٹخاتے ہوئے مارے مارے پھِرتے ہیں اور اْن کا کوئی پرسانِ حال نہیں ہے۔ سفارش کلچر ، اقرباء پروری اور رشوت خوری نے جوہر ِ قابل پر عرصہ حیات تنگ کر رکھا ہے۔ میرٹ کا قتل عام ہورہا ہے اور کوٹہ سسٹم نے رہی سہی کسر باقی نہیں چھوڑی۔ناقدری نے قصہ تمام کردیا ہے۔
باہر جاکر ترکِ وطن کرکے بیرونِ ملک خدمات انجام دینے پر مجبور کردیا ہے جہاں اِن لوگوں کی بڑی آؤ بھگت اور قدر شناسی ہوتی ہے۔بقولِ شاعر:
سَر پھول وہ چڑھا جو چمن سے نکل گیا
عزت اْسے ملی جو وطن سے نکل گیا
وطن ِ عزیز سے محبت اور لگاؤ ایک فطری امَر ہے اور اپنے پیارے گھر اور اپنے گھر والوں کو چھوڑنا کوئی آسان کام نہیں لیکن مجبوری انسان کو ایسا کرنے پر آمادہ کر دیتی ہے۔حامد اللہ افسر نے حب الوطنی کے حوالہ سے خوب کہا ہے:
پھولوں سے بھی سوا ہے کانٹا مِرے وطن کا
ہے آفتاب مجھ کو ذرہ مِرے وطن کا
اربابِ اختیار کی دلیل یہ ہے کہ ترکِ وطن کرکے جانے والے یہ لوگ ملک کے لیے بیرونی زرِمبادلہ کما کر اْس کے خزانہ کو بھرنے کا ایک بہت بڑا ذریعہ ہیں جس کا سیدھا سادہ مطلب یہ ہے کہ یہ ملک کے کماؤ پْوت ہیں لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اِس کی قیمت کیا ادا کرنا پڑتی ہے؟ کسی کو یہ احساس نہیں ہے کہ اِن اعلیٰ دماغوں کے وطن چھوڑنے سے کیا خلاء پیدا ہوتا ہے۔
پاکستان کی بہترین جامعات سے فارغ التحصیل ہونے والے نوجوان ملک چھوڑنے پر مجبور ہیں۔یہی وہ لوگ ہیں جو دراصل وطن عزیز کا اصل سرمایہ اور اثاثہ ہیں جن کی ملک کی تعمیر و ترقی کے لیے اشد ضرورت ہے لیکن اِس کا کیا کیا جائے کہ ہمارا نظامِ حکومت اتنا ناقص ہے کہ اِس جوہرِ قابل کو ترک وطن کرنے پر مجبور ہونا پڑتا ہے۔
پاکستان کی ہر حکومت بڑے فخریہ انداز میں کہتی ہے کہ ترکِ وطن کرکے جانے والے یہ لوگ ملک کی فلاح و بہبود کے لیے خیراتی اداروں اور کاموں کو سرانجام دینے کے لیے ایک بہت بڑا ذریعہ ہیں۔
ریاست اِس نقطہ کو سمجھنے سے قاصر ہے کہ اگر اِن قابل لوگوں کی اندرونِ ملک موجودگی کو صحیح انداز میں بروئے کار لایا جائے تو اِس ملک کی تقدیر بدل سکتی ہے۔سوچنے کی بات یہ ہے کہ آخر غیر ممالک اِن لوگوں کو اتنی اہمیت اور ترجیح کیوں دیتے ہیں اور اِنہیں اپنے سر آنکھوں پر کیوں بٹھاتے ہیں؟
سب سے بڑا سوال یہ ہے کہ اتنی بڑی تعداد میں وطن ِ عزیز کو چھوڑنے پر مجبور ہونے والے اِن ماہرین، اعلیٰ اور غیر معمولی صلاحیتوں کے حامل اہلِ وطن کو اِس ترکِ وطن کا کیا صلہ ملتا ہے اور اِنہیں جو قربانی دینا پڑتی ہے۔
اْس کا مداوا کون کرسکتا ہے؟ ہر باغ کا مالی یہ چاہتا ہے کہ وہ اپنے لگائے ہوئے پودوں اور بوئے ہوئے بیجوں کو پھلتے پھولتے ہوئے دیکھے۔ ہر باپ کی یہ خواہش ہوتی ہے کہ وہ اپنے بال بچوں کے قریب رہے اور اْن کو پروان چڑھائے۔
ہر بیٹے کی خواہش ہوتی ہے کہ وہ اپنے والدین کی خدمت کرے اور بڑھاپے میں اْن کا دست و بازو بنے۔ہر ماں باپ کی یہ خواہش ہوتی ہے کہ اْن کا لخت جگر اور نورِ نظر اْن کی آنکھوں کے سامنے رہے۔
ہر بیوی کی یہی چاہت ہوتی ہے کہ اْس کا شریکِ حیات دکھ سکھ میں اْس کے پاس رہے۔ہر بہن کی تڑپ یہ ہوتی ہے کہ اْس کا بھائی اْس سے جدا نہ ہو اور ترکِ وطن کرنے پر مجبور ہونے والے ہر انسان کو اپنے پیاروں سے جدائی کی بھاری قیمت ادا کرنا پڑتی ہے جو عموماً مہینوں، سالوں اور مدتِ دراز پر محیط ہوتی ہے۔
اپنا گھر بار چھوڑنے پر مجبور ہونے والے ترکِ وطن کرنے والے فرد کی اِس سے بڑی اور کیا قربانی ہوسکتی ہے؟ ترکِ وطن کرنے والے انسان کو سب سے بھاری قیمت اپنے جذبات اور احساسات کو مارنے کی صورت میں ادا کرنا پڑتی ہے۔
وہ نہ اپنے پیاروں کی خوشی اور غمی میں بروقت شریک ہونے سے محروم رہ جاتا ہے۔ایک اور المیہ یہ ہے کہ تارکینِ وطن کی زمینوں اور جائیدادوں پر قبضہ مافیہ اپنے پنجہ گاڑ لیتا ہے جس سے خلاصی کے لیے مقدمہ بازی کرنا پڑتی ہے اور عدالتوں کے دھکے کھانا پڑتے ہیں اور وکلاء کی بھاری فیسیں ادا کرنے اور راشی افسران کی مْٹھیاں بھرنا پڑتی ہیں۔
افسوس یہ ہے کہ حکومت کی جانب سے تارکین وطن کو کوئی حوصلہ افزائی اور رعایت نہیں دی جاتی۔ اْنہیں کسی قسم کا کوئی ریلیف نہیں ملتا۔ اِس کے علاوہ اِنکم ٹیکس وکیلوں کو بھاری فیسیں دینے اور ایف بی آر کے پیچیدہ قوانین اور ضوابط کی بھول بھلیوں سے گزرنا پڑتا ہے۔
اِس کے علاوہ اور بھی مشکلات اور جھمیلے ہیں۔سب سے بڑی زیادتی یہ ہے کہ بیچارے تارکینِ وطن عام انتخابات میں حصہ لے کر ووٹنگ کے حق سے بھی محروم رہ جاتے ہیں۔
پاکستان کی اصل امیدیں اِس کے جوہرِ قابل سے وابستہ ہیں۔دنیا کا کوئی بھی ترقی یافتہ ملک محض غیر ملکی زرِ مبادلہ کمانے کے لیے اپنے جوہرِ قابل کو ترکِ وطن کرنے پر مجبور نہیں کرتا۔ہم ایسے ملک کے شہری ہیں۔
جہاں آدھے سے زیادہ اسکول جانے کے مستحق بچے کلاس روم کی شکل بھی دیکھنے سے محروم ہیں۔تقریباً 95 فیصد خوش نصیب بچے ایسے ہیں جو سرکاری اور نیم سرکاری اسکولوں تک پہنچ پاتے ہیں لیکن وہ بھی انڈرگریجویٹ لیول تک پہنچنے سے پہلے تعلیم حاصل کرنے سے قاصر رہ جاتے ہیں۔
غور طلب بات یہ ہے کہ جب اعلیٰ تعلیمی اداروں سے فارغ التحصیل ہونے والے طالبعلم ڈگریاں حاصل کرنے کے بعد ناقدری کا شکار ہوکر ہمیشہ کے لیے ملک چھوڑ جانے پر مجبور ہوجاتے ہیں۔وطن عزیز کی ترقی اور خوشحالی کا راز اِسکے جوہرِ قابلِ کی قدر شناسی میں مضمر ہے۔