کیمیائی ’مائیکروموٹر‘ والی انسولین گولی میں اہم پیشرفت
کھائی جانے والی انسولین کو میگنیشیئم ذرات میں لپیٹا گیا ہے اور مائیکروموٹر بلبلے انہوں آنتوں میں جذب کراتے ہیں
دنیا بھر کےماہرین انسولین کی کھائی جانے والی گولی بنانے میں جستجو کررہے ہیں۔ لیکن پیٹ کے اندر تیزابی کیفیت اور دیگر تیزابی مائع اس عمل کو ناکام بناتی رہے ہیں۔ تاہم اب انسولین کو ایک خاص انداز میں بند کیا گیا ہے تاکہ اس کی افادیت برقرار رہے۔ اس کے ابتدائی تجربات انتہائی کامیاب رہے ہیں۔
وجہ یہ ہے کہ اس میں کیمیائی 'مائیکروموٹر' استعمال کی گئی ہیں۔ اس کی روداد اے سی ایس نینو میں شائع ہوئی ہے جس میں چوہوں کو منہ سے یہ دوا دی گئی ہے جو ان کی آنتوں میں پہنچ کر کامیابی سے انسولین کو آنتوں میں جذب کرسکتی ہے۔
چین میں سُن یاٹ سین یونیورسٹی اور دیگراداروں کے ماہرین نے یہ ایجاد کی ہے۔ اس کےلیے میگنیشیئم خردذرات پر انسولین کا محلول چڑھایا گیا اور اس پر لائپوسوم کی ایک اورپرت ڈالی گئی۔ اس کے بعد اان ذرات کو بیکنگ سوڈا میں ملایا گیا اور اس کی چھوٹی گولیاں بنائی گئیں اور ہر گولی 3 ملی میٹر جسامت کی تھی۔ اس میں سب سے اہم کام کیمیائی مائیکروموٹر کا ہے جو انسولین کو آنتوں تک پہنچا کر جذب کراتی ہے۔
تین ملی میٹر جسامت کی گولیاں چونکہ بیکنگ سوڈا میں لپیٹی گئی ہیں اور یوں ان میں انسولین کی تاثیر ختم نہیں ہوتی۔ معدے میں پہنچنے پر پیٹ کے مائعات سے بیکنگ سوڈا گھل جاتا ہے اور اندر سے میگنیشیئم کے ذرات باہرآجاتے ہیں۔ جسے ہی یہ پیٹ کے پانی سے ملتے ہیں تو ہائیڈروجن کے بلبلے خارج ہوتے ہیں اور یہ بلبلے مائیکروموٹر کا کام کرتے ہوئے اسے دھکیلتے ہیں۔ یوں انسولین والے ذرات معدے اورآنتوں کی دیواروں تک پہنچتے ہیں وہاں جذب ہوکر خون میں شامل ہوجاتے ہیں۔ اس طرح دوا کا کام مکمل ہوجاتا ہے۔
اسے کامیابی سے چوہوں پر آزمایا گیا ہے اور اگلے پانچ گھنٹے تک ان کے خون میں گلوکوز کی مقدار معمول پر رہی۔ تاہم انسانی آزمائش کی منزل ابھی بہت دور ہے۔
وجہ یہ ہے کہ اس میں کیمیائی 'مائیکروموٹر' استعمال کی گئی ہیں۔ اس کی روداد اے سی ایس نینو میں شائع ہوئی ہے جس میں چوہوں کو منہ سے یہ دوا دی گئی ہے جو ان کی آنتوں میں پہنچ کر کامیابی سے انسولین کو آنتوں میں جذب کرسکتی ہے۔
چین میں سُن یاٹ سین یونیورسٹی اور دیگراداروں کے ماہرین نے یہ ایجاد کی ہے۔ اس کےلیے میگنیشیئم خردذرات پر انسولین کا محلول چڑھایا گیا اور اس پر لائپوسوم کی ایک اورپرت ڈالی گئی۔ اس کے بعد اان ذرات کو بیکنگ سوڈا میں ملایا گیا اور اس کی چھوٹی گولیاں بنائی گئیں اور ہر گولی 3 ملی میٹر جسامت کی تھی۔ اس میں سب سے اہم کام کیمیائی مائیکروموٹر کا ہے جو انسولین کو آنتوں تک پہنچا کر جذب کراتی ہے۔
تین ملی میٹر جسامت کی گولیاں چونکہ بیکنگ سوڈا میں لپیٹی گئی ہیں اور یوں ان میں انسولین کی تاثیر ختم نہیں ہوتی۔ معدے میں پہنچنے پر پیٹ کے مائعات سے بیکنگ سوڈا گھل جاتا ہے اور اندر سے میگنیشیئم کے ذرات باہرآجاتے ہیں۔ جسے ہی یہ پیٹ کے پانی سے ملتے ہیں تو ہائیڈروجن کے بلبلے خارج ہوتے ہیں اور یہ بلبلے مائیکروموٹر کا کام کرتے ہوئے اسے دھکیلتے ہیں۔ یوں انسولین والے ذرات معدے اورآنتوں کی دیواروں تک پہنچتے ہیں وہاں جذب ہوکر خون میں شامل ہوجاتے ہیں۔ اس طرح دوا کا کام مکمل ہوجاتا ہے۔
اسے کامیابی سے چوہوں پر آزمایا گیا ہے اور اگلے پانچ گھنٹے تک ان کے خون میں گلوکوز کی مقدار معمول پر رہی۔ تاہم انسانی آزمائش کی منزل ابھی بہت دور ہے۔