کیا یہ ذاتی اور نجی معاملہ ہے

مسلم تاریخ گواہ ہے کہ کوئی بداخلاق شخص نہ کوئی بڑا کارنامہ سرانجام دے سکتا ہے اور نہ کسی ملک کی تقدیر بدل سکتا ہے


[email protected]

قومیں، ڈیفالٹ یا مالی دیوالیہ پن سے بھی بڑے بحرانوں کا شکار رہی ہیں۔ انسانوں کی سب سے بڑی جنگ میں جرمنی اور جاپان کو برباد کردیا گیا تھا، کیا وہ بربادی ان دونوں قوموں کو فناء کرنے میں کامیاب ہوسکی؟ ہر گز نہیں۔

دونوں قوموں کو اعلیٰ پائے کی قیادت میسر آئی جس کے پیشِ نظر ذاتی یا خاندانی دولت اور طاقت میں اضافہ نہیں بلکہ ملک کو پاؤں پر کھڑا کرنا اور قوم کی عزت اور عظمت کی بحالی تھا۔ چند سالوں میں ہی صحیح قیادت نے معجزے برپا کردیے۔

جرمنی پورے یورپ کو پچھاڑ کر آگے نکل گیا اور جاپان دنیا کی اقتصادی سپرپاور بن گیا۔ قومیں غربت اور مالی کمزوری سے نمٹ سکتی ہیں،دیوالیہ پن پر قابو پاسکتی ہیں۔ اِن بحرانوں سے قومیں فناء کے گھاٹ نہیں اترتیں،مشرق کے بے مثل شاعر اور دانائے راز نے برسوں پہلے کہہ دیا تھا کہ مسلمانوں کے زوال کی وجہ وسائل یا دولت کی کمی نہیں ہے۔

سبب کچھ اور ہے تو جس کو خود سمجھتا ہے

زوال بندۂ مومن کا بے زری سے نہیں

قومیں مالی بحرانوں سے اٹھ سکتی ہیں مگر جو مرض انتہائی خطرناک اور مہلک ہے ، وہ ہے اخلاقی زوال۔ پاکستانی معاشرے کا اخلاقی زوال ملاحظہ ہو کہ ایک سیاسی پارٹی کے سربراہ کی آڈیوز اور وڈیوز گردش میں ہیں جن میں غیر اخلاقی گفتگواور حرکات پوری قوم نے دیکھی اور سنی ہیں اور یہ اُسکی جوانی کے دور کی نہیں، یہ اس دور کی ہے جب موصوف کی عمر پینسٹھ سال ہے اور ایک بڑی پارٹی کے سربراہ ہیں۔

اُس نے ان وڈیوز کو جعلی یا فیک قرار نہیں دیا، صرف یہ اعتراض ہے کہ ''اس سے نوجوانوں کے اخلاق پر برا اثر پڑے گا'' یعنی ایسی ایسی آڈیوز اور وڈیوز سے نوجوان نسل کا اخلاق خراب ہوگا مگر ہمارے معاشرے کے اخلاقی دیوالیہ پن کا حال یہ ہے کہ میڈیا پر قابض ''مبصرین'' گندی حرکات اور گفتگو کرنے والے سیاستدانوں پر کوئی تنقید نہیں کررہے۔

تنقید کا نشانہ بنایا جارہا ہے تو صرف وڈیوز بنانے والوں کو۔ اگر ہم اخلاقی طور پر مضبوط ہوتے اور ہماری عقل ودانش پر یورپی اور بھارتی کلچر کا فسوںغالب نہ ہوتا اور ہم احساسِ کمتری کے مارے ہوئے نہ ہوتے تو یہاں ایک طوفان برپاہوجاتا، متعلقہ سیاستدانوں کے خلاف آئین اور قانون کی دفعات کے تحت کارروائی کا پُرزور مطالبہ شروع ہوجاتا اور عوامی دباؤ اتنا بڑھتا کہ متعلقہ اشخاص خود قوم سے معافی مانگتے اور سیاسی کیریئر چھوڑ کر گُمنامی کی زندگی اختیار کرلیتے۔

دنیا کے وہ ترقی یافتہ ملک جن کی کوئی مذہبی شناخت نہیں، وہاں بھی اگر ایسا ہوتا، توغیر اخلاقی حرکات اور نازیبا گفتگو کرنے والے سیاستدانوں کے خلاف غصے اور نفرت کا ایک سونامی اُٹھ کھڑا ہوتااور وہ قوم سے معافیاں مانگ رہے ہوتے۔

ہمارے ہاں امریکا اور مغرب کے ذہنی غلام ایسی غلاظت اور گندگی کو کسی فردکا ذاتی اور نجی معاملہ قرار دے کر اس کا دفاع کررہے ہیں، انھیں یاد ہونا چاہیے کہ امریکا میں ہی چند سال پہلے جب صدارتی الیکشن کا معرکہ برپا تھا اور تمام سروے ڈیموکریٹک پارٹی کے امیدوار گیری ہارٹ کی کامیابی کا اعلان کررہے تھے کہ 1987کے الیکشن سے چند روز قبل ایک رسالے ''میامی ہیرالڈ'' نے اس کی ڈونارائس نامی ایک خاتون کے ساتھ (کپڑوں سمیت) ایک قابلِ اعتراض تصویر شایع کردی۔

اس پر میڈیا میں مباحثے شروع ہوگئے کہ کیا ایسے کردار کے حامل شخص کو امریکا کا صدر ہونا چاہیے؟ امریکی قوم کو اپنے مذہبی ہونے کا کوئی دعویٰ نہیں ہے، مگر اخلاقی اقدار کا احترام اس قدر ہے کہ عوام نے واضح فیصلہ سنادیا کہ ''ہم خود جیسے بھی ہوں، ہمارا لیڈر ایسی غلاظتوں سے پاک ہونا چاہیے'' لہٰذا مستقبل کا امریکی صدر گیری ہارٹ قوم سے معافی مانگ کر انتخابی دوڑ سے ہی نہیں، سیاست سے بھی الگ ہوگیا۔

کئی اور امریکی سیاستدانوں کے جنسی اسکینڈل نکلے، جو ان کے انتہائی کامیاب سیاسی کیریئر کے خاتمے کا باعث بن گئے۔

اخلاقی اقدار کمزور ہوجانے کے باوجود آج بھی امریکی اور یورپی اقوام اپنی باگ ڈور صرف ایسے رہنماؤں کے ہاتھ میں دینا پسند کرتی ہے جو Neat and clean اور Above board ہوں، وہ خود جیسے بھی ہوں مگر وہ مالی اور اخلاقی طور پر داغدار شخص کی قیادت قبول نہیں کرتے۔ مگر اسلامی جمہوریۂ پاکستان میں اسلام سے بغض رکھنے والے اور احساسِ کمتری کے مارے ہوئے مبصرین کہتے ہیں کہ 'یہ تو سیاستدانوں کا نجی معاملہ ہے'' اس سے عوام کا کوئی لینا دینا نہیں ہے۔

قوم کو کسی سیاستدان کے اخلاقی پہلو سے کوئی غرض نہیں ہونی چاہیے۔ ارے بھائی، اگر وہ ریتی بجری کا کاروبار کرنے والا کوئی ٹھیکیدار ہوتا یا لاہور 'کراچی کی کسی مارکیٹ میں کپڑے کا دکاندار ہوتا تو میڈیا پر اس کی نجی زندگی کے بارے میں تبصرے مناسب نہ ہوتے، مگر جو شخص کسی Public Office کا امیدوار ہے، جو ملک کا وزیراعظم رہا ہو اور دوبارہ وزیراعظم بننے کا شدید خواہشمند ہے۔

اس کی شخصیت کے اخلاقی پہلو کے بارے میں زیادہ سے زیادہ معلومات حاصل کرنا، عوام کا حق بھی ہے اور فرض بھی۔ کسی بھی اہم سیاسی عہدے کے امیدواروں کی شخصیتکے ہر پہلو کے بارے میں زیادہ سے زیادہ معلومات حاصل کرنے کے بعد ہی وہ اس عہدے کے لیے موزوں یا غیر موزوں امیدوار کا بہتر فیصلہ کرسکتے ہیں۔

میں اسلامی جمہوریۂ پاکستان کا شہری ہوں اور مسلمان بھی ہوں۔ مسلمان ہونے کا مطلب اپنے آپ کو رضائے الٰہی کے سپرد کردینا (Complete Submission)ہے۔ یعنی اپنی سوچ اور عمل کی آزادی ختم کرکے اپنے آپ کو اپنے خالق اور مالک کی ہدایات اور احکامات کا پابند بنالینا۔ میں نے جو مطالعہ کیا ہے اس کی روشنی میں یہ بھی جانتا ہوں کہ اﷲ اور رسول اﷲ کے نزدیک شرک کے بعد ناپسندیدہ فعل بدکاری ہے، اسی لیے اس کی سزا (رجم) بھی سخت ترین مقرر کی گئی ہے۔

اگر میں اﷲ اور رسول اللہؐ پر ایمان نہیں رکھتا تو پھر میں جو چاہوں کروں، مجھے حق ہے کہ میں بدکاری کو جرم نہ سمجھوں اور کہوں کہ یہ دو افراد کا ذاتی معاملہ ہے، مجھے اس سے کوئی غرض نہیں۔ لیکن اگر میں ہر فارم پر مسلمان ہونے کا دعویٰ درج کرتا ہوں تو پھر میں کسی ایسے شخص کے لیے پسندیدگی کے جذبات کیسے رکھ سکتا ہوں جو اس اسلامی اخلاقیات کے معیار پر پورا نہیں اترتا ہے جس سے میرا خالق اور مالک سب سے زیادہ نفرت کرتا ہے ۔

پھر میں یہ بھی دیکھوں گا کہ کیا رسولِ مقبولؐ نے کبھی اخلاقی کمزوریوں کے حامل شخص کو کوئی اہم ذمے داری سونپی؟ کیا حضرت ابوبکرؓ اور حضرت عمرؓ نے کسی ایسے شخص کو قیادت کا کوئی منصب دیا ہو؟ ہر گز نہیں دیا۔ چلیں چاروں خلفائے راشدین تو بے مثل اور تاریخ کے اعلیٰ ترین انسان تھے، کیا بانی پاکستان کسی غلط کار کردار والے شخص کو اپنی ٹیم میں شامل کرتے؟ ہرگز نہ کرتے۔

فرض کیا کہ میں مسلمان نہیں، مگر پھر بھی پاکستان کا شہری ہونے کے ناتے میں اس کے آئین کو ماننے اور اس پر عمل کرنے کا پابند ہوں۔ پاکستان کے آئین کا آرٹیکل 62 بڑے واضح اور غیر مبہم انداز میں کہتا ہے کہ

A person shall not be qualified to be elected or chosen as member of the parliament unless..... (d) he is of good character and is not commonly known as one who violates islamic injunctions.

یعنی کوئی ایسا شخص پارلیمنٹ کارکن بننے کا اہل نہیں ہوگا جو اچھے کردار کاحامل نہ ہو اور جس کی عمومی شہرت یہ ہو کہ وہ اسلامی احکامات کی خلاف ورزی کرتا ہے۔

اب اپنے ذہنوں سے ہر قسم کے تعصّب کا گردو غبار جھاڑ کر بتائیں کہ ملکی آئین کی اس تحریر کے مطابق مبینہ آڈیوز اور وڈیوز کے کردار (چاہے ان کا تعلق تحریکِ انصاف، ن لیگ، پیپلزپارٹی یا کسی اور پارٹی سے ہو) پارلیمنٹ کے رکن بننے کے اہل ہیں؟ ایک سیاستدان کے کچھ انتہائی بے خبر اور سادہ لوح پیروکار کہتے ہیں کہ اس کی اخلاقی کمزوریاں اپنی جگہ مگر پھر بھی دیانتدار ہے، یہ سوچ بچگانہ اور بے خبری پر مبنی ہے۔

پاکستان کی سیاست یا افسر شاہی میں کوئی ایسا شخص نہیں ہے جو extramarital تعلقات رکھتا ہو مگر حرام خور نہ ہو۔ یہ ممکن ہی نہیں ہے کیونکہ ایسی ''خدمات'' فراہم کرنے والے بھاری فیس لیتے ہیں اور پارٹنرز بھی معاوضہ وصول کرتی ہیں جو کیش بھی ہوسکتا ہے اور پارٹی کا ٹکٹ ، کوئی اہم عہدہ یا فائل کا غیرقانونی اجازت نامہ بھی ہوسکتا ہے۔

ہر صورت میں ایسے افسر یا سیاستدان کو پارٹنر کی خوشنودی کے لیے اس اخلاقی کے بعد ایک اور مالی بددیانتی کا ارتکاب بھی کرنا پڑتا ہے اور ایسی خدمات کا معاوضہ غریب عوام کے ٹیکسوں کے پیسوں سے ہی ادا کیا جاتا ہے، جو کرپشن کی بدترین قسم ہے۔

مسلم تاریخ گواہ ہے کہ کوئی بداخلاق شخص نہ کوئی بڑا کارنامہ سرانجام دے سکتا ہے اور نہ کسی ملک کی تقدیر بدل سکتا ہے۔ ملک کو بدترین حالات سے نکالا جاسکتا ہے مگر یہ کام اُجلے کردار کے قابل اور جرأت مند افراد ہی کرسکتے ہیں، اس کے لیے اخلاقی معیار پر پرا نہ اترنے والے اور حرام خور سیاستدانوں پر قیادت کے دروازے بند کرنا ہوںگے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں