ہم سب ایک جیسے ہیں
نفرت‘ بدتمیزی‘ بہتان تراشی، عدم برداشت اور انتہا پسندی عوام ہی نہیں خواص اور حکمرانوں میں بھی سرایت کرگئی ہے
موسم سرما عروج پر ہے' لاہور میں شدید دھند اور سموگ نے مت مار دی ہے۔ ویسے تو سردی اور دھند کا ملاپ بڑا رومان پرور منظر تخلیق کرتا ہے' ایسے موسم میں لانگ کوٹ، وول کیپ اوردستانے پہن کر لاہور کے تاریخی لارنس گارڈن یا ریس کورس پارک میں سیر کرنے کا اپنا ہی مزہ ہے، اگر گلیوں اور بازاروں میں مچھلی کی دکانوں پر رش ہے' کڑاہی گوشت' تکے کباب چل رہے ہیں۔
رات کوکڑاہی میں ابلتا دودھ ، اس پر ملائی کی موٹی تہہ اور گرما گرما جیلیبیاں' ایک پیالا دودھ میں جیلیاں ڈال کر پئیں اور پھر سرد موسم کا مزہ لیں۔
میں جب دوستوں کے ساتھ بیٹھ کر یہ منظر کشی کر رہا تھا تو ایک منچلے کی حس ظرافت پھڑکی اور وہ بولا، یار! بس کرو کیوں ساڈی جان کڈنی اؤں۔( یار یہ منظر کشی بند کردو، ورنہ اشتہا سے ہماری جان نکل جائے گی) لیکن آج کل زہریلی سموگ نے سرد موسم کی رعنائیوں کو گھنا دیا ہے۔ اس کے ساتھ سیاسی جنگ اور معاشی زوال نے خوشیوں میں زہرگھول دیا ہے۔
ہر شخص اداس، بیمار، پریشان اور اکتایا ہوا لگتا ہے، جو غریب ہے، وہ بھی پریشان اور جو امیر ہے وہ ناخوش۔ اوپر سے ٹی وی ٹاک شوزکے شرکائ، اینکرزاور اینکرنیوںکی بونگیاں سن کر پریشانیاں خوف میں تبدیل ہوجاتی ہیں۔ ہائے مہنگائی، وائے مہنگائی، پاکستان میں بجلی ہے نہ گیس ہے اور نہ پانی ہے، ملک دلوالیہ ہونے والا ہے، جو خود کو ذرا سیانا سمجھتا ہے، وہ ارسطو بن کر فرماتا ہے، ویسے ہم ٹیکنیکلی دیوالیہ ہوچکے ہیں، حرام ہے جو کوئی امید افزاء بات کریں۔
ادھر ریاست و سیاست میں گھڑمس مچا ہوا ہے، حکمران کون اور اپوزیشن کون ہے، کچھ پتہ نہیں چل رہا۔ مسلم لیگ ن، جے یوآئی، پیپلز پارٹی، ایم کیو ایم وفاق میں برسراقتدار ہیں لیکن پنجاب اور خیبر پختونخوا میں اپوزیشن ہے۔ پنجاب میں تحریک انصاف اور ق لیگ کی حکومت ہے، یہاں مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی اپوزیشن ہے۔
سندھ میں پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم پاور میں ہیں، یہاں پی ٹی آئی اپوزیشن ہے۔ بلوچستان میں باپ پارٹی، اقتدار کا مزہ لے رہی ہے۔آزادکشمیر اور بلتستان میں تحریک انصاف کی حکمرانی ہے، دوستو! دل پر ہاتھ کر بتائیں، کیا آپ کو سمجھ آئی ہے کہ حزب اقتدار کون ہے اور حزب اختلاف کون ہے؟ مجھے تو لگتا ہے سب ہی حزب اقتدار ہیں، کوئی وفاق کا حاکم ہے تو کوئی صوبوں کا ،یہی سیاسی جماعتیں ایک دوسرے کی اپوزیشن بھی ہیں۔
یہی وجہ ہے کہ پاکستان پانچ برس سے ایک ہی مقام پر کھڑا ہے، ایک قدم آگے بڑھا ہے نہ پیچھے ہٹا ہے۔ میں اور آپ یعنی نگوڑے عوام کسی غیبی مدد اور خیراتی مال کا انتظار کر رہے ہیں، ہمارے حکمران اور اپوزیشن ایک دوسرے کے ساتھ سینگ پھنسا کر بیٹھے ، چور، ڈاکو، غدار، کرپٹ، جھوٹا، عیار اور مکار کا راگ بھیروی الاپ رہے ہیں۔ ایسا لگتا ہے یہی لوگ پاکستان پر نحوست اور آسیب بن کر چھائے ہوئے ہیں۔ منیر نیازی کا شعر ہے۔
منیر اس ملک پر آسب کا سایہ ہے یا کیا ہے
کہ حرکت تیزتر ہے اور سفر آہستہ آہستہ
آپسی محبتیں' دید لحاظ اور رواداری کہیں کھو گئی ہے، نفرت' بدتمیزی' بہتان تراشی، عدم برداشت اور انتہا پسندی عوام ہی نہیں خواص اور حکمرانوں میں بھی سرایت کرگئی ہے۔ سیاست اور کاروبار کسی اصول' ضابطے کے پابند نہیں رہے' ذرا توانائی کی بچت کے ایشو پر وفاقی اور صوبائی حکومت کے مابین جو تم پیزار دیکھ لیں۔
وفاق نے توانائی بچت پلان نافذ کر دیا ہے اور کاروباری مراکز رات ساڑھے آٹھ بجے جب کہ ریستوران اور میرج ہالز رات 10بجے بند کرنے کاحکم ہے لیکن پنجاب اور خیبرپختواخوا کی حکومتوں نے ایسا کرنے سے انکار کر دیا ہے۔
تاجر طبقہ رات گئے تک کاروبار کرنا چاہتا ہے۔ یعنی ہماری دکان ہماری مرضی، جب چاہیں کاروبار شروع کریں، جب چاہیں بند کریں، حکومت کو ہمارے '' نجی معاملات'' میں مداخلت کرنے کا حق نہیں ہے۔
چلیں! تاجروں کے تو مالی مفاد کا معاملہ ہے' ان کا وفاقی حکومت کے فیصلے کی مخالفت کرنا سمجھ میں آنے والی بات، پنجاب اور خیبرپختونخوا کی حکومتوں کی مخالفت بھی سمجھ میں آتی ہے کیونکہ وہ ایسا کرکے سیاسی پوائنٹ اسکورنگ کررہی ہیں، لیکن آفرین ہے، ٹی وی اینکرز' تجزیہ کاروں اور رپورٹرزحضرات پر، وہ سینہ ٹھونک کر میدان کارزار میں اترے ہیں، یہ کاروبار رات گئے تک کھلا رکھنے کی ایسی وکالت کررہے ہیں کہ تاجر، پی ٹی آئی اور ق لیگ والوں نے بھی دانتوں میں انگلیاں دبالی ہیں۔
یہ کلی بھی اس گلستان خزاں منظر میں تھی
ایسی چنگاری بھی یا رب، اپنی خاکستر میں تھی
ذرا ان بابغوں کی دلیل تو سنیں۔ دیکھیں جی! آج کل تو لوگ شاپنگ اور ڈنر کے لیے نکلتے ہی رات 9بجے کے بعد ہیں، اگر دکانیں، رستوران اور کیفے جلد بن ہوجائیں گے تو عوام کو کتنی پریشانی ہوگی، وفاقی حکومت اور اس کے فیصلے کے حامیوں کو اس کا اندازہ ہی نہیں ہے۔
لوگ دن کے گیارہ بجے سے پہلے اٹھتے ہی نہیں ہیں، صبح سات یا آٹھ بجے خریداری کرنے کون جائے گا؟ ملازم پیشہ طبقہ دفتروں سے چھٹی کرنے کے بعد گروسری خریدتے اور شاپنگ کرتے ہیں، اگر شام کو بازار بند ہوں گے تو یہ طبقہ کیسے خریداری کرے گا۔ مزے کی بات یہ ہے کہ عوام کی اکثریت بھی ایسے ہی سوچتی ہے۔
یوں سمجھیں، ایک نہیں، آوے کا آوا بگڑا ہوا ہے۔ عربی کا محاورہ ہے کہ رعایا اپنے حاکموںکی پیروی کرتی ہے لہٰذا جیسے ہمارے حکمران ویسے ہی ہم ہیں۔ جیسے حکمران خود کو قانون، ضابطے اور اخلاقیات کا پابند نہیں سمجھتے، ویسے ہی ہم بھی ڈسپلن اور سسٹم میں رہنا پسند نہیں کرتے۔ آپ کسی بھی سنجیدہ ایشو کو لے لیں، خیر سے حکمران اور عوام ایک ہی پیج پر نظر آئیں گے۔
اگر میں غلط نہیں ہوں تو میاں نواز شریف جب پہلی یا دوسری بار وزیراعظم بنے تھے، تو ایک بار انھوں نے کہا تھا، پاکستان میں طالبان کا نظام لائیں گے، یہ الگ بات ہے کہ اب ان کی سوچ بدل گئی ہے۔ پنجاب میں طالبان نے خود کش حملے شروع کیے تو اس وقت شہباز شریف نے بطور وزیراعلیٰ کہا تھا، ہمارے اور آپ کے نظریات ایک جیسے ہیں، تو پھر پنجاب میں حملے کیوں کررہے ہیں۔
عمران خان نے تو ساری حدیں ہی پار کرلی ہیں، انھوں نے پشاور میں طالبان کا دفتر کھولنے کا مطالبہ کیا، طالبان کی جتنی وکالت انھوں نے کی ہے، طالبان بھی اس پر حیران ہوتے ہوں گے۔ یہ ہمارے حکمرانوں کی سوچ اور فکر یا حکمت عملی ہے، مذہبی قیادت تو ان کے دست وبازو بنی رہی، عوام کی اکثریت بھی اسی سوچ اور فکر کو فالو کرتی ہے۔
مجھے یاد ہے ،کراچی کے ایک پولیس افسر نے ٹی وی انٹرویو میں بتایا تھاکہ جس علاقے میںان کی رہائش ہے، وہاں کے مکینوں نے مطالبہ کیا ہے کہ چونکہ یہ پولیس افسر دہشت گردوں کے نشانے پر ہے اور اس پرکسی بھی وقت حملہ ہو سکتا ہے، اس کی وجہ سے ہماری اور ہمارے بچوں کی زندگیوں کو خطرہ ہے لہٰذا اس پولیس افسر کی رہائش گاہ ہمارے علاقے سے کہیں اور منتقل کر دی جائے۔
یہ سوچ اور فکر ہی قاتلوں کو ہیرو بناتی ہے، یہ سوچ ہمیں سمجھاتی ہے کہ ہمارے مقتول بھائی، بہن اور بچے شاید غلط تھے یا پھر یہ تاثر دیتی ہے کہ جنھیں قاتل قرار دیا جا رہا ہے، وہ ایسا نہیں کرسکتے ، یہی سوچ ہمیںباور کراتی ہے ، ہمیں تو اپنے دشمن کے بچوں کو بھی تعلیم دینی ہے تاکہ قاتلوں کا دل نرم ہوجائے اور ہم انھیں یقین دلا سکیں ، دیکھو! تم نے ہمارے بھائیوں، بہنوں اوربچوں کو قتل کیا لیکن ہم نے تمھارے بچوں کو اعلیٰ تعلیم دلوائی اور انھیں اپنے سر پر بٹھالیا ہے، آؤ ہم پر حکومت کرو، بس ہمیں قتل نہ کرؤ۔
خود فریبی سی خود فریبی ہے
پاس کے ڈھول بھی سہانے لگے
رات کوکڑاہی میں ابلتا دودھ ، اس پر ملائی کی موٹی تہہ اور گرما گرما جیلیبیاں' ایک پیالا دودھ میں جیلیاں ڈال کر پئیں اور پھر سرد موسم کا مزہ لیں۔
میں جب دوستوں کے ساتھ بیٹھ کر یہ منظر کشی کر رہا تھا تو ایک منچلے کی حس ظرافت پھڑکی اور وہ بولا، یار! بس کرو کیوں ساڈی جان کڈنی اؤں۔( یار یہ منظر کشی بند کردو، ورنہ اشتہا سے ہماری جان نکل جائے گی) لیکن آج کل زہریلی سموگ نے سرد موسم کی رعنائیوں کو گھنا دیا ہے۔ اس کے ساتھ سیاسی جنگ اور معاشی زوال نے خوشیوں میں زہرگھول دیا ہے۔
ہر شخص اداس، بیمار، پریشان اور اکتایا ہوا لگتا ہے، جو غریب ہے، وہ بھی پریشان اور جو امیر ہے وہ ناخوش۔ اوپر سے ٹی وی ٹاک شوزکے شرکائ، اینکرزاور اینکرنیوںکی بونگیاں سن کر پریشانیاں خوف میں تبدیل ہوجاتی ہیں۔ ہائے مہنگائی، وائے مہنگائی، پاکستان میں بجلی ہے نہ گیس ہے اور نہ پانی ہے، ملک دلوالیہ ہونے والا ہے، جو خود کو ذرا سیانا سمجھتا ہے، وہ ارسطو بن کر فرماتا ہے، ویسے ہم ٹیکنیکلی دیوالیہ ہوچکے ہیں، حرام ہے جو کوئی امید افزاء بات کریں۔
ادھر ریاست و سیاست میں گھڑمس مچا ہوا ہے، حکمران کون اور اپوزیشن کون ہے، کچھ پتہ نہیں چل رہا۔ مسلم لیگ ن، جے یوآئی، پیپلز پارٹی، ایم کیو ایم وفاق میں برسراقتدار ہیں لیکن پنجاب اور خیبر پختونخوا میں اپوزیشن ہے۔ پنجاب میں تحریک انصاف اور ق لیگ کی حکومت ہے، یہاں مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی اپوزیشن ہے۔
سندھ میں پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم پاور میں ہیں، یہاں پی ٹی آئی اپوزیشن ہے۔ بلوچستان میں باپ پارٹی، اقتدار کا مزہ لے رہی ہے۔آزادکشمیر اور بلتستان میں تحریک انصاف کی حکمرانی ہے، دوستو! دل پر ہاتھ کر بتائیں، کیا آپ کو سمجھ آئی ہے کہ حزب اقتدار کون ہے اور حزب اختلاف کون ہے؟ مجھے تو لگتا ہے سب ہی حزب اقتدار ہیں، کوئی وفاق کا حاکم ہے تو کوئی صوبوں کا ،یہی سیاسی جماعتیں ایک دوسرے کی اپوزیشن بھی ہیں۔
یہی وجہ ہے کہ پاکستان پانچ برس سے ایک ہی مقام پر کھڑا ہے، ایک قدم آگے بڑھا ہے نہ پیچھے ہٹا ہے۔ میں اور آپ یعنی نگوڑے عوام کسی غیبی مدد اور خیراتی مال کا انتظار کر رہے ہیں، ہمارے حکمران اور اپوزیشن ایک دوسرے کے ساتھ سینگ پھنسا کر بیٹھے ، چور، ڈاکو، غدار، کرپٹ، جھوٹا، عیار اور مکار کا راگ بھیروی الاپ رہے ہیں۔ ایسا لگتا ہے یہی لوگ پاکستان پر نحوست اور آسیب بن کر چھائے ہوئے ہیں۔ منیر نیازی کا شعر ہے۔
منیر اس ملک پر آسب کا سایہ ہے یا کیا ہے
کہ حرکت تیزتر ہے اور سفر آہستہ آہستہ
آپسی محبتیں' دید لحاظ اور رواداری کہیں کھو گئی ہے، نفرت' بدتمیزی' بہتان تراشی، عدم برداشت اور انتہا پسندی عوام ہی نہیں خواص اور حکمرانوں میں بھی سرایت کرگئی ہے۔ سیاست اور کاروبار کسی اصول' ضابطے کے پابند نہیں رہے' ذرا توانائی کی بچت کے ایشو پر وفاقی اور صوبائی حکومت کے مابین جو تم پیزار دیکھ لیں۔
وفاق نے توانائی بچت پلان نافذ کر دیا ہے اور کاروباری مراکز رات ساڑھے آٹھ بجے جب کہ ریستوران اور میرج ہالز رات 10بجے بند کرنے کاحکم ہے لیکن پنجاب اور خیبرپختواخوا کی حکومتوں نے ایسا کرنے سے انکار کر دیا ہے۔
تاجر طبقہ رات گئے تک کاروبار کرنا چاہتا ہے۔ یعنی ہماری دکان ہماری مرضی، جب چاہیں کاروبار شروع کریں، جب چاہیں بند کریں، حکومت کو ہمارے '' نجی معاملات'' میں مداخلت کرنے کا حق نہیں ہے۔
چلیں! تاجروں کے تو مالی مفاد کا معاملہ ہے' ان کا وفاقی حکومت کے فیصلے کی مخالفت کرنا سمجھ میں آنے والی بات، پنجاب اور خیبرپختونخوا کی حکومتوں کی مخالفت بھی سمجھ میں آتی ہے کیونکہ وہ ایسا کرکے سیاسی پوائنٹ اسکورنگ کررہی ہیں، لیکن آفرین ہے، ٹی وی اینکرز' تجزیہ کاروں اور رپورٹرزحضرات پر، وہ سینہ ٹھونک کر میدان کارزار میں اترے ہیں، یہ کاروبار رات گئے تک کھلا رکھنے کی ایسی وکالت کررہے ہیں کہ تاجر، پی ٹی آئی اور ق لیگ والوں نے بھی دانتوں میں انگلیاں دبالی ہیں۔
یہ کلی بھی اس گلستان خزاں منظر میں تھی
ایسی چنگاری بھی یا رب، اپنی خاکستر میں تھی
ذرا ان بابغوں کی دلیل تو سنیں۔ دیکھیں جی! آج کل تو لوگ شاپنگ اور ڈنر کے لیے نکلتے ہی رات 9بجے کے بعد ہیں، اگر دکانیں، رستوران اور کیفے جلد بن ہوجائیں گے تو عوام کو کتنی پریشانی ہوگی، وفاقی حکومت اور اس کے فیصلے کے حامیوں کو اس کا اندازہ ہی نہیں ہے۔
لوگ دن کے گیارہ بجے سے پہلے اٹھتے ہی نہیں ہیں، صبح سات یا آٹھ بجے خریداری کرنے کون جائے گا؟ ملازم پیشہ طبقہ دفتروں سے چھٹی کرنے کے بعد گروسری خریدتے اور شاپنگ کرتے ہیں، اگر شام کو بازار بند ہوں گے تو یہ طبقہ کیسے خریداری کرے گا۔ مزے کی بات یہ ہے کہ عوام کی اکثریت بھی ایسے ہی سوچتی ہے۔
یوں سمجھیں، ایک نہیں، آوے کا آوا بگڑا ہوا ہے۔ عربی کا محاورہ ہے کہ رعایا اپنے حاکموںکی پیروی کرتی ہے لہٰذا جیسے ہمارے حکمران ویسے ہی ہم ہیں۔ جیسے حکمران خود کو قانون، ضابطے اور اخلاقیات کا پابند نہیں سمجھتے، ویسے ہی ہم بھی ڈسپلن اور سسٹم میں رہنا پسند نہیں کرتے۔ آپ کسی بھی سنجیدہ ایشو کو لے لیں، خیر سے حکمران اور عوام ایک ہی پیج پر نظر آئیں گے۔
اگر میں غلط نہیں ہوں تو میاں نواز شریف جب پہلی یا دوسری بار وزیراعظم بنے تھے، تو ایک بار انھوں نے کہا تھا، پاکستان میں طالبان کا نظام لائیں گے، یہ الگ بات ہے کہ اب ان کی سوچ بدل گئی ہے۔ پنجاب میں طالبان نے خود کش حملے شروع کیے تو اس وقت شہباز شریف نے بطور وزیراعلیٰ کہا تھا، ہمارے اور آپ کے نظریات ایک جیسے ہیں، تو پھر پنجاب میں حملے کیوں کررہے ہیں۔
عمران خان نے تو ساری حدیں ہی پار کرلی ہیں، انھوں نے پشاور میں طالبان کا دفتر کھولنے کا مطالبہ کیا، طالبان کی جتنی وکالت انھوں نے کی ہے، طالبان بھی اس پر حیران ہوتے ہوں گے۔ یہ ہمارے حکمرانوں کی سوچ اور فکر یا حکمت عملی ہے، مذہبی قیادت تو ان کے دست وبازو بنی رہی، عوام کی اکثریت بھی اسی سوچ اور فکر کو فالو کرتی ہے۔
مجھے یاد ہے ،کراچی کے ایک پولیس افسر نے ٹی وی انٹرویو میں بتایا تھاکہ جس علاقے میںان کی رہائش ہے، وہاں کے مکینوں نے مطالبہ کیا ہے کہ چونکہ یہ پولیس افسر دہشت گردوں کے نشانے پر ہے اور اس پرکسی بھی وقت حملہ ہو سکتا ہے، اس کی وجہ سے ہماری اور ہمارے بچوں کی زندگیوں کو خطرہ ہے لہٰذا اس پولیس افسر کی رہائش گاہ ہمارے علاقے سے کہیں اور منتقل کر دی جائے۔
یہ سوچ اور فکر ہی قاتلوں کو ہیرو بناتی ہے، یہ سوچ ہمیں سمجھاتی ہے کہ ہمارے مقتول بھائی، بہن اور بچے شاید غلط تھے یا پھر یہ تاثر دیتی ہے کہ جنھیں قاتل قرار دیا جا رہا ہے، وہ ایسا نہیں کرسکتے ، یہی سوچ ہمیںباور کراتی ہے ، ہمیں تو اپنے دشمن کے بچوں کو بھی تعلیم دینی ہے تاکہ قاتلوں کا دل نرم ہوجائے اور ہم انھیں یقین دلا سکیں ، دیکھو! تم نے ہمارے بھائیوں، بہنوں اوربچوں کو قتل کیا لیکن ہم نے تمھارے بچوں کو اعلیٰ تعلیم دلوائی اور انھیں اپنے سر پر بٹھالیا ہے، آؤ ہم پر حکومت کرو، بس ہمیں قتل نہ کرؤ۔
خود فریبی سی خود فریبی ہے
پاس کے ڈھول بھی سہانے لگے