’’مشاعرہ کیا ہوتا ہے کلام کی تفصیل دو‘‘
مشاعرے اردو کی کہکشاں ہے، جن میں ایک الگ تہذیب جنم لیتی ہے۔ دنیا کے اکثر ممالک میں اردو مشاعرے اپنی جوت جگا رہے ہیں
لاہور:
سفر وسیلۂ ظفر ہوتا ہے، چناں چہ میں نے بھی اپنی اہلیہ سیما کے ساتھ سنگاپور کا عزم کیا۔ وہاں پر مقیم ہمارا ایک پیارا بھتیجا ذیشان مصطفی خاں ایک کمپنی سے وابستہ ہے۔ پھر نہ صرف بھتیجا بلکہ ''ساری خدائی ایک طرف'' اور بہن کے ماتھے کا جھومر شہاب مدنی تقریباً 12سال سے سنگاپور کی سدابہار معیشت کے فروغ کا میں اپنا حصہ بٹا رہا ہے، جس کا ایک بیٹا بلال سنگاپور کا شہری بھی ہوگیا ہے۔
سنگا پور بہت ہی پر فضا مقام تقریباً سارا سال رم جھم پڑے پھوار کا اصل نمونہ، جگہ جگہ بارش، لیکن نہ نالا بہہ رہا ہے نہ ندیاں اپنے جوبن پر، ہر شخص مدھر بانسری کی دھن پر معیشت کو خوب سے خوب تر کی طرف لے جارہا ہے، جس کے زر مبادلہ کے ذخیرے 79 ارب کو چھورہے ہیں۔ زندہ قوم چینی آبادی کا تقریباً 55 فی صد ہیں اور مسلمان 14 فی صد، ہندو 7فی صد اور بدھ مذہب کے زندہ دل بھی آبادی کا بڑا حصہ، پاکستانی بھی ہندوستانی بھلے چنگے اور ملائیشیا کے مسلمان کثیر تعداد میں۔ پھر ملک سر سبز و شاداب، صفائی وہاں کے تمام سکونت پذیر افراد کا پورا ایمان ہے۔ چھوٹی بڑی نالیاں، ہر وقت تر و تازہ فضا، صحت و صفائی، زندگی میں ہر نفس ایک مشن کا پیغامبر لگتا ہے۔
عدل و انصاف کے لیے معاشرے کا ایک ایک فرد دل جمعی سے اپنا اپنا حصہ ڈال رہا ہے، امن وامان کا شاہ کار، ٹریفک کا نظام دل لبھانے والا، آدمی نہیں بلکہ انسانی شکل کی روبوٹ کاریں، ٹیکسیاں، بسیں (صفائی اور خوب صورتی کا دل لبھانے والا مجموعہ) نظم و ضبط ایک اچھی اور توانا قوم کی عکاسی کرتا ہے۔ پوری قوم وقت کی پابند، اخلاقی بلندیوں کی حامل۔ بودوباش مشرق بھی اور مغرب کی بلندیوں پر بھی، لیکن غنڈا گردی، بے ہنگم رویے، بداخلاقی بالکل نظر نہیں آتی۔ مساجد بھی ایک بڑی تعداد میں، چرچ بھی، مندر بھی، بدھ مذہب کے آثار بھی اپنی بھرپور توانائیوں کے ساتھ۔ مقامی وغیرمقامی سب باہم شیروشکر۔ راستہ بھولنے کا سوال ہی نہیں اکثر و بیشتر ٹیکسی والا بس کنڈیکٹر جو ڈرائیور، راہ چلتا، پری چہرہ مؤنث اور اسی طرح صحت مند مذکر فرش راہ بچھا چاہتا ہے۔ ایک غیرملکی مسافر یہاں کی زندگی اور کشادہ راہ گزروں سے بڑا لطف اندوز ہوتا ہے۔ یہاں بڑے بڑے تاریخی تفریحی مقامات ہیں۔ مذہبی و انسانی ہم آہنگی نظر آتی ہے۔ نہ مسجدوں سے باہر اذان کی آواز، نہ چرچ کے گھنٹے اور نہ مندروں کی گھنٹیاں اور نہ بدھ مذہب کی عبادت گاہوں سے باہر شور۔ یہاں کا نباتیاتی گارڈن ایشیا میں بڑا باغ ہے، جہاں ہزاروں اقسام کے پودے ہیں، جن کو دیکھ کر واقعی زندگی سے پیار ہوجاتا ہے۔
سینتوسا (SENTOSA) بڑی پُرشکوہ تفریح گاہ، مختلف اقسام کے اسٹیچوزہال، بلند ہوتی لہریں، کشتی رانی، فوارے نما بت، شیر کی شبیہہ۔ سنگاپور کا چائنا ٹاؤن چینی نژاد لوگوں کا اکثریتی رہائشی علاقہ ہے۔ یہاں پر چینیوں نے نیا سال بڑی عمدہ طریقے سے منایا۔ پورے سنگاپور میں چینی شیر کی شبیہہ بناکر اور ڈھول تھاپ پر جھوم کر نئے سال کا تہوار مناتے ہیں۔ یہ بڑا ہی دل کش منظر ہوتا ہے۔ یہ تہوار مناتے ہوئے نظم وضبط کا پورا خیال رکھا جاتا ہے۔
سنگاپور میں دیگر تفریحات سمیت گلابی ڈولفن کے ساتھ تیرنے کا کھیل بھی بہت عمدہ ہے۔ سنگاپور میں قدیم و جدید ڈاک کے ٹکٹوں کو جمع کرنے اور ان کی خریدوفروخت کا عمل بھی بڑی دل چسپی سے ہوتا ہے۔ یہاں پر کھلونوں کا عجائب گھر بھی اپنی نوعیت کی بہت ہی اچھی تفریح گاہ ہے۔ یہاں پر قدیم ترین جانوروں کے ڈھانچے بھی موجود ہیں۔ یہاں کیبل کار بھی آنے والوں کو تفریح فراہم کرتی ہے۔
سنگاپور میں بس کے ذریعے سفر بہت لطف دیتا ہے۔ سنگا پور فلائر بہت دیدہ زیب ہے۔ اس کی خوف ناک بلندی پر بنے کیبن مضبوط اعصاب والے افراد کے لیے پُرلطف اور سنسنی خیز تفریح فراہم کرتے ہیں۔ سنگاپور میں ایشیائی تہذیب کے آثار کو سائنٹیفک طور پر عمدگی سے قائم رکھا گیا ہے، جن میں سیاح گہری دل چسپی لیتے ہیں۔ سنگاپور کے مسلمانوں نے مسجد و مدرسے کا خوب صورت امتزاج پیدا کیا ہے اور علم کی شمع قریہ قریہ روشن کیے ہوئے ہیں۔ یہاں کی مسلمان کمیونٹی کا زکوٰۃ کا بڑا عمدہ نظام ہے۔ مسلمان اقلیت میں ہونے کے باوجود بڑے منظم و مربوط نظر آتے ہیں۔ ٹریفک کا نظام بہت ہی اعلیٰ پیمانے پر استوار کیا گیا ہے۔ بسوں کی قطار علیحدہ، اسکوٹر کی قطار علیحدہ، ٹیکسی اور کار کی لائن علیحدہ۔ جابجا کیمرے لگے ہیں۔ 22دن کے سفر میں صرف ایک دن 3 پولیس والے نظر آئے۔ جا بجا کیمرے لگے ہوئے ہیں اور جزا و سزا کا بہت ہی مضبوط نظام ہے۔ پہلے جرم پر 200سنگاپوری ڈالر اور دوسری مرتبہ جرم پر 500 سنگاپوری ڈالر جرمانہ اور ایک ہفتے بلدیاتی صفائی کی ڈیوٹی دینی پڑے گی۔ سنگاپور کا بحری پورٹ پر روزانہ پانچ سو چھے سو جہاز لنگر انداز ہوتے ہیں، جو معیشت کے استحکام میں اہم ترین ستون ہے۔
ہم سنگاپور ہی میں مقیم تھے جب وہاں ایک یاد گار اور عظیم الشان ادبی ہنگامہ برپا ہوگیا۔ سنگا پور کے بابائے اردو شہاب مدنی نے ایک سہانی رات اردو مشاعرہ منعقد کیا۔ یوں دنیائے اردو میں ایک اہم سنگ میل کی عالمی مشاعروں کے لیے ایک نیا مرکز دریافت ہوا۔
..... ..... ..... ..... ..... ..... ..... ..... ..... ..... .....
سنگاپور کی تاریخ کا پہلا عالمی مشاعرہ
مشاعرے اردو دنیا کی کہکشاں ہے، جن میں ایک الگ تہذیب جنم لیتی ہے۔ دنیا کے اکثر اہم ممالک برطانیہ، کینیڈا، امریکا کے بڑے بڑے شہروں میں اردو مشاعرے اپنی جوت جگا رہے ہیں۔ شہاب مدنی جن کا تعلق کراچی سے ہے، بھارت سے تعلق رکھنے والے شرما صاحب اور بلال مدنی (شہاب مدنی کے برخوردار) نے مل کر پہلے عالمی مشاعرے کے انعقاد کا بیڑا اٹھایا۔ شہاب مدنی مجھ سے دو سال سے رابطے میں تھے۔ سنگاپور میں یہ تاریخ ساز مشاعرہ پہلی دفعہ منعقد ہو رہا تھا۔ سنگاپور کی وزارتِ ثقافت نے شہاب مدنی سے پوچھا مشاعرہ کیا ہوتا ہے؟ اور اس میں جو افراد اپنا کلام کیا پڑھیں گے اور اس میں اس ملک کی سیاسی و انتظامی اور مروجہ قوانین کا کیسے پاس کریں گے؟ اور ستم بالائے ستم مشاعرے میں پڑھنے والے کلام کی تفصیل مانگی۔ اور وہ بھی تمام کی تمام انگریزی میں۔ شہاب مدنی اور ان کی ٹیم نے شعرا کے کلام کا انگریزی میں ترجمہ کرکے حکومتِ سنگاپور کو فراہم کیا۔ ساتھ ہی متعلقہ وزارت نے اردو کی تاریخ اور مختلف ادوار سے بھی آگاہی چاہی۔ چناںچہ فورٹ ولیم کالج سے تاریخ کے اوراق پلٹتے ہوئے اس کے بین الاقوامی انعقادات کی تاریخ تفصیل سے کلچرل وزارت سنگاپور کو فراہم کی گئی۔ یوں تقریباً 4 ماہ کی محنت شاقہ کے بعد سنگاپور میں اردو کا پہلا عالمی مشاعرہ پاکستانی و ہندوستانی کمیونٹی کے تعاون سے منعقد کیا گیا۔
شہاب مدنی کو سنگاپور کا بابائے اردو کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا۔ عالمی مشاعرہ سنگاپور کے ایک نہایت خوب صورت مقام ''این ٹی یوسی آڈیٹوریم'' میرینا بلووارڈ لیول 7 نزد ریفلز پیلس ایم آر ٹی میں منعقد ہوا۔ مشاعرہ میں داخلہ بذریعہ ٹکٹ تھا، جس میں 300 سے زاید افراد نے شرکت کی۔ ذوق و شوق کا یہ عالم کہ کچھ چائنیز نے بھی مشاعرے میں شرکت کی۔ مشاعرہ تقریباً 4 گھنٹے جاری رہا۔
ہائی کمشنر پاکستان سید جاوید حسن نے مشاعرہ شروع سے آخر تک یکسوئی سے سماعت کیا۔ موصوف چینی زبان کے کہنہ مشق لکھنے والے ہیں اور دو کتابیں چینی زبان میں تحریر کرچکے ہیں۔ سخن نواز بھی ہیں۔ غالب و اقبال کا گہرا مطالعہ ہے۔ اسی طرح بھارتی سفارت خانہ کے فرسٹ سیکریٹری ڈاکٹر نیٹش برڈی نے مشاعرے میں بھرپور شرکت کی۔ پورے مشاعرے میں پاکستان سے ہم شیروانی اور ترکی ٹوپی میں الگ ہی نظر آرہے تھے، اور بھارت سے مظفر نگر کی ایک وضع دار شخصیت شیروانی، علی گڑھ کٹ ٹوپی اور پاجامہ میں ملبوس تھے۔ برما سے تعلق رکھنے والے دو تین افراد بھی مشاعرے میں شریک تھے۔ ان کی خواہش تھی کہ آئندہ سال برما میں مشاعرہ ہو۔
امجد اسلام امجد، انور مسعود اور پیرزادہ قاسم رضا (پاکستان سے) بھارت سے منظر بھوپالی، خوشبیر سنگھ شاد، پاپولر میرٹھی امریکا سے ذہین شاعرہ صدف فاروقی اور عرفان مرتضیٰ سنگاپور سے صابر علی جعفری کراچی و حیدر آباد کے بزرگ شاعر حال مقیم سنگاپور اور سنگاپور ہی سے ایک خاتون شاعرہ ببل حورہ نے مشاعرے میں شرکت۔ مشاعرے کی صدارت ''انور مسعود'' نے کی۔ ان کا یہ قطعہ حاصل مشاعرہ ہوگیا:
شعر سننے جو مشاہیر چلے آتے ہیں
اتنے خوش ہوتے ہیں خوشبیر چلے آتے ہیں
کوئی شاہانہ اگر بزم سخن سجتی ہے
داد دینے کو جہاں گیر چلے آتے ہیں
۔۔۔۔۔
دیگر شعراء کے کلام سے منتخب اشعار پیش ہیں:
امجد اسلام امجد
یہ جو رات دن کا ہے کھیل سا اسے دیکھ اس پہ یقیں نہ کر
نہیں عکس کوئی بھی مستقل، سر آئینہ اسے بھول جا
جو بساط جاں ہی الٹ گیا وہ جو راستے میں پلٹ گیا
اسے روکنے سے حصول کیا، اسے مت بلا اسے بھول جا
پیرزادہ قاسم رضا صدیقی
اگر یوں ہی لکھی گئیں عداوتوں کی سرخیاں
میرا لہو بھی رائیگاں تیرا لہو بھی رائیگاں
یہ آگ عشق کی ہے اس میں مہلتیں طلب نہ کر
کہ دیر ہوگئی تو پھر دھواں، دھواں، دھواں، دھواں
پاپولر میرٹھی (بھارت)
بے رخی کو بھی نوازش کی ادا کہنا پڑا
مصلحت سے زہر بھی پی کر دوا کہنا پڑا
بے وقوفی کے انوکھے کارنامے دیکھ کر
اچھے خاصے لیڈروں کو بھی گدھا کہنا پڑا
منظر بھوپالی (بھارت)
وطن نصیب کہاں اپنی قسمتیں ہوگی
جہاں بھی جائیں گے ہم ساتھ ہجرتیں ہوں گی
ابھی تو قید ہیں جذبوں کی آندھیاں دل میں
ہمارا صبر جو توڑا قیامتیں ہوں گی
۔۔۔۔۔
جہاں مختلف ممالک سے شعرا کی موجودگی نے اس مشاعرے کی شان کو دوبالا کیا وہیں پر سنگاپور میں مقیم سخن شناسوں نے محفل داد دے کر مشاعرے کو زندہ رکھا۔ تمام شرکائے محفل نے اس کوشش کو بہت سراہا اور خواہش کی کہ آیندہ یہ محفل ہر سال خوب سے خوب تر انداز میں سجائی جائے۔
ناظم مشاعرہ صدف فاروقی کا کراچی سے تعلق ہے لیکن اب اٹلانٹا (امریکا) میں رہائش رکھتی ہیں۔ بڑی پڑھی لکھی خاتون اور اچھی شاعرہ ہیں۔ خوب صورت انداز میں نظامت کرنے کے ساتھ انہوں نے بڑا عمدہ کلام بھی سنایا۔ چند اشعار پیش خدمت ہیں:
مری زندگی کا مقصد مری زندگی کا حاصل
تجھے پوجتی رہوں میں، کروں میں تری پرستش
کیا دل کی انجمن میں تری یاد سے چراغاں
کبھی لو جو کوئی بھڑکی، ہوئی آنسوؤں کی بارش
صابر بدر جعفری
موسم کے خدوخال رقم کرتے رہیں گے
سچ ہو کہ نہ ہو کام یہ ہم کرتے ہیں گے
کچھ اور تو ہونے سے رہا ہم سے عزیزو!
ہاں پرورش لوح و قلم کرتے رہیں گے
سفر وسیلۂ ظفر ہوتا ہے، چناں چہ میں نے بھی اپنی اہلیہ سیما کے ساتھ سنگاپور کا عزم کیا۔ وہاں پر مقیم ہمارا ایک پیارا بھتیجا ذیشان مصطفی خاں ایک کمپنی سے وابستہ ہے۔ پھر نہ صرف بھتیجا بلکہ ''ساری خدائی ایک طرف'' اور بہن کے ماتھے کا جھومر شہاب مدنی تقریباً 12سال سے سنگاپور کی سدابہار معیشت کے فروغ کا میں اپنا حصہ بٹا رہا ہے، جس کا ایک بیٹا بلال سنگاپور کا شہری بھی ہوگیا ہے۔
سنگا پور بہت ہی پر فضا مقام تقریباً سارا سال رم جھم پڑے پھوار کا اصل نمونہ، جگہ جگہ بارش، لیکن نہ نالا بہہ رہا ہے نہ ندیاں اپنے جوبن پر، ہر شخص مدھر بانسری کی دھن پر معیشت کو خوب سے خوب تر کی طرف لے جارہا ہے، جس کے زر مبادلہ کے ذخیرے 79 ارب کو چھورہے ہیں۔ زندہ قوم چینی آبادی کا تقریباً 55 فی صد ہیں اور مسلمان 14 فی صد، ہندو 7فی صد اور بدھ مذہب کے زندہ دل بھی آبادی کا بڑا حصہ، پاکستانی بھی ہندوستانی بھلے چنگے اور ملائیشیا کے مسلمان کثیر تعداد میں۔ پھر ملک سر سبز و شاداب، صفائی وہاں کے تمام سکونت پذیر افراد کا پورا ایمان ہے۔ چھوٹی بڑی نالیاں، ہر وقت تر و تازہ فضا، صحت و صفائی، زندگی میں ہر نفس ایک مشن کا پیغامبر لگتا ہے۔
عدل و انصاف کے لیے معاشرے کا ایک ایک فرد دل جمعی سے اپنا اپنا حصہ ڈال رہا ہے، امن وامان کا شاہ کار، ٹریفک کا نظام دل لبھانے والا، آدمی نہیں بلکہ انسانی شکل کی روبوٹ کاریں، ٹیکسیاں، بسیں (صفائی اور خوب صورتی کا دل لبھانے والا مجموعہ) نظم و ضبط ایک اچھی اور توانا قوم کی عکاسی کرتا ہے۔ پوری قوم وقت کی پابند، اخلاقی بلندیوں کی حامل۔ بودوباش مشرق بھی اور مغرب کی بلندیوں پر بھی، لیکن غنڈا گردی، بے ہنگم رویے، بداخلاقی بالکل نظر نہیں آتی۔ مساجد بھی ایک بڑی تعداد میں، چرچ بھی، مندر بھی، بدھ مذہب کے آثار بھی اپنی بھرپور توانائیوں کے ساتھ۔ مقامی وغیرمقامی سب باہم شیروشکر۔ راستہ بھولنے کا سوال ہی نہیں اکثر و بیشتر ٹیکسی والا بس کنڈیکٹر جو ڈرائیور، راہ چلتا، پری چہرہ مؤنث اور اسی طرح صحت مند مذکر فرش راہ بچھا چاہتا ہے۔ ایک غیرملکی مسافر یہاں کی زندگی اور کشادہ راہ گزروں سے بڑا لطف اندوز ہوتا ہے۔ یہاں بڑے بڑے تاریخی تفریحی مقامات ہیں۔ مذہبی و انسانی ہم آہنگی نظر آتی ہے۔ نہ مسجدوں سے باہر اذان کی آواز، نہ چرچ کے گھنٹے اور نہ مندروں کی گھنٹیاں اور نہ بدھ مذہب کی عبادت گاہوں سے باہر شور۔ یہاں کا نباتیاتی گارڈن ایشیا میں بڑا باغ ہے، جہاں ہزاروں اقسام کے پودے ہیں، جن کو دیکھ کر واقعی زندگی سے پیار ہوجاتا ہے۔
سینتوسا (SENTOSA) بڑی پُرشکوہ تفریح گاہ، مختلف اقسام کے اسٹیچوزہال، بلند ہوتی لہریں، کشتی رانی، فوارے نما بت، شیر کی شبیہہ۔ سنگاپور کا چائنا ٹاؤن چینی نژاد لوگوں کا اکثریتی رہائشی علاقہ ہے۔ یہاں پر چینیوں نے نیا سال بڑی عمدہ طریقے سے منایا۔ پورے سنگاپور میں چینی شیر کی شبیہہ بناکر اور ڈھول تھاپ پر جھوم کر نئے سال کا تہوار مناتے ہیں۔ یہ بڑا ہی دل کش منظر ہوتا ہے۔ یہ تہوار مناتے ہوئے نظم وضبط کا پورا خیال رکھا جاتا ہے۔
سنگاپور میں دیگر تفریحات سمیت گلابی ڈولفن کے ساتھ تیرنے کا کھیل بھی بہت عمدہ ہے۔ سنگاپور میں قدیم و جدید ڈاک کے ٹکٹوں کو جمع کرنے اور ان کی خریدوفروخت کا عمل بھی بڑی دل چسپی سے ہوتا ہے۔ یہاں پر کھلونوں کا عجائب گھر بھی اپنی نوعیت کی بہت ہی اچھی تفریح گاہ ہے۔ یہاں پر قدیم ترین جانوروں کے ڈھانچے بھی موجود ہیں۔ یہاں کیبل کار بھی آنے والوں کو تفریح فراہم کرتی ہے۔
سنگاپور میں بس کے ذریعے سفر بہت لطف دیتا ہے۔ سنگا پور فلائر بہت دیدہ زیب ہے۔ اس کی خوف ناک بلندی پر بنے کیبن مضبوط اعصاب والے افراد کے لیے پُرلطف اور سنسنی خیز تفریح فراہم کرتے ہیں۔ سنگاپور میں ایشیائی تہذیب کے آثار کو سائنٹیفک طور پر عمدگی سے قائم رکھا گیا ہے، جن میں سیاح گہری دل چسپی لیتے ہیں۔ سنگاپور کے مسلمانوں نے مسجد و مدرسے کا خوب صورت امتزاج پیدا کیا ہے اور علم کی شمع قریہ قریہ روشن کیے ہوئے ہیں۔ یہاں کی مسلمان کمیونٹی کا زکوٰۃ کا بڑا عمدہ نظام ہے۔ مسلمان اقلیت میں ہونے کے باوجود بڑے منظم و مربوط نظر آتے ہیں۔ ٹریفک کا نظام بہت ہی اعلیٰ پیمانے پر استوار کیا گیا ہے۔ بسوں کی قطار علیحدہ، اسکوٹر کی قطار علیحدہ، ٹیکسی اور کار کی لائن علیحدہ۔ جابجا کیمرے لگے ہیں۔ 22دن کے سفر میں صرف ایک دن 3 پولیس والے نظر آئے۔ جا بجا کیمرے لگے ہوئے ہیں اور جزا و سزا کا بہت ہی مضبوط نظام ہے۔ پہلے جرم پر 200سنگاپوری ڈالر اور دوسری مرتبہ جرم پر 500 سنگاپوری ڈالر جرمانہ اور ایک ہفتے بلدیاتی صفائی کی ڈیوٹی دینی پڑے گی۔ سنگاپور کا بحری پورٹ پر روزانہ پانچ سو چھے سو جہاز لنگر انداز ہوتے ہیں، جو معیشت کے استحکام میں اہم ترین ستون ہے۔
ہم سنگاپور ہی میں مقیم تھے جب وہاں ایک یاد گار اور عظیم الشان ادبی ہنگامہ برپا ہوگیا۔ سنگا پور کے بابائے اردو شہاب مدنی نے ایک سہانی رات اردو مشاعرہ منعقد کیا۔ یوں دنیائے اردو میں ایک اہم سنگ میل کی عالمی مشاعروں کے لیے ایک نیا مرکز دریافت ہوا۔
..... ..... ..... ..... ..... ..... ..... ..... ..... ..... .....
سنگاپور کی تاریخ کا پہلا عالمی مشاعرہ
مشاعرے اردو دنیا کی کہکشاں ہے، جن میں ایک الگ تہذیب جنم لیتی ہے۔ دنیا کے اکثر اہم ممالک برطانیہ، کینیڈا، امریکا کے بڑے بڑے شہروں میں اردو مشاعرے اپنی جوت جگا رہے ہیں۔ شہاب مدنی جن کا تعلق کراچی سے ہے، بھارت سے تعلق رکھنے والے شرما صاحب اور بلال مدنی (شہاب مدنی کے برخوردار) نے مل کر پہلے عالمی مشاعرے کے انعقاد کا بیڑا اٹھایا۔ شہاب مدنی مجھ سے دو سال سے رابطے میں تھے۔ سنگاپور میں یہ تاریخ ساز مشاعرہ پہلی دفعہ منعقد ہو رہا تھا۔ سنگاپور کی وزارتِ ثقافت نے شہاب مدنی سے پوچھا مشاعرہ کیا ہوتا ہے؟ اور اس میں جو افراد اپنا کلام کیا پڑھیں گے اور اس میں اس ملک کی سیاسی و انتظامی اور مروجہ قوانین کا کیسے پاس کریں گے؟ اور ستم بالائے ستم مشاعرے میں پڑھنے والے کلام کی تفصیل مانگی۔ اور وہ بھی تمام کی تمام انگریزی میں۔ شہاب مدنی اور ان کی ٹیم نے شعرا کے کلام کا انگریزی میں ترجمہ کرکے حکومتِ سنگاپور کو فراہم کیا۔ ساتھ ہی متعلقہ وزارت نے اردو کی تاریخ اور مختلف ادوار سے بھی آگاہی چاہی۔ چناںچہ فورٹ ولیم کالج سے تاریخ کے اوراق پلٹتے ہوئے اس کے بین الاقوامی انعقادات کی تاریخ تفصیل سے کلچرل وزارت سنگاپور کو فراہم کی گئی۔ یوں تقریباً 4 ماہ کی محنت شاقہ کے بعد سنگاپور میں اردو کا پہلا عالمی مشاعرہ پاکستانی و ہندوستانی کمیونٹی کے تعاون سے منعقد کیا گیا۔
شہاب مدنی کو سنگاپور کا بابائے اردو کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا۔ عالمی مشاعرہ سنگاپور کے ایک نہایت خوب صورت مقام ''این ٹی یوسی آڈیٹوریم'' میرینا بلووارڈ لیول 7 نزد ریفلز پیلس ایم آر ٹی میں منعقد ہوا۔ مشاعرہ میں داخلہ بذریعہ ٹکٹ تھا، جس میں 300 سے زاید افراد نے شرکت کی۔ ذوق و شوق کا یہ عالم کہ کچھ چائنیز نے بھی مشاعرے میں شرکت کی۔ مشاعرہ تقریباً 4 گھنٹے جاری رہا۔
ہائی کمشنر پاکستان سید جاوید حسن نے مشاعرہ شروع سے آخر تک یکسوئی سے سماعت کیا۔ موصوف چینی زبان کے کہنہ مشق لکھنے والے ہیں اور دو کتابیں چینی زبان میں تحریر کرچکے ہیں۔ سخن نواز بھی ہیں۔ غالب و اقبال کا گہرا مطالعہ ہے۔ اسی طرح بھارتی سفارت خانہ کے فرسٹ سیکریٹری ڈاکٹر نیٹش برڈی نے مشاعرے میں بھرپور شرکت کی۔ پورے مشاعرے میں پاکستان سے ہم شیروانی اور ترکی ٹوپی میں الگ ہی نظر آرہے تھے، اور بھارت سے مظفر نگر کی ایک وضع دار شخصیت شیروانی، علی گڑھ کٹ ٹوپی اور پاجامہ میں ملبوس تھے۔ برما سے تعلق رکھنے والے دو تین افراد بھی مشاعرے میں شریک تھے۔ ان کی خواہش تھی کہ آئندہ سال برما میں مشاعرہ ہو۔
امجد اسلام امجد، انور مسعود اور پیرزادہ قاسم رضا (پاکستان سے) بھارت سے منظر بھوپالی، خوشبیر سنگھ شاد، پاپولر میرٹھی امریکا سے ذہین شاعرہ صدف فاروقی اور عرفان مرتضیٰ سنگاپور سے صابر علی جعفری کراچی و حیدر آباد کے بزرگ شاعر حال مقیم سنگاپور اور سنگاپور ہی سے ایک خاتون شاعرہ ببل حورہ نے مشاعرے میں شرکت۔ مشاعرے کی صدارت ''انور مسعود'' نے کی۔ ان کا یہ قطعہ حاصل مشاعرہ ہوگیا:
شعر سننے جو مشاہیر چلے آتے ہیں
اتنے خوش ہوتے ہیں خوشبیر چلے آتے ہیں
کوئی شاہانہ اگر بزم سخن سجتی ہے
داد دینے کو جہاں گیر چلے آتے ہیں
۔۔۔۔۔
دیگر شعراء کے کلام سے منتخب اشعار پیش ہیں:
امجد اسلام امجد
یہ جو رات دن کا ہے کھیل سا اسے دیکھ اس پہ یقیں نہ کر
نہیں عکس کوئی بھی مستقل، سر آئینہ اسے بھول جا
جو بساط جاں ہی الٹ گیا وہ جو راستے میں پلٹ گیا
اسے روکنے سے حصول کیا، اسے مت بلا اسے بھول جا
پیرزادہ قاسم رضا صدیقی
اگر یوں ہی لکھی گئیں عداوتوں کی سرخیاں
میرا لہو بھی رائیگاں تیرا لہو بھی رائیگاں
یہ آگ عشق کی ہے اس میں مہلتیں طلب نہ کر
کہ دیر ہوگئی تو پھر دھواں، دھواں، دھواں، دھواں
پاپولر میرٹھی (بھارت)
بے رخی کو بھی نوازش کی ادا کہنا پڑا
مصلحت سے زہر بھی پی کر دوا کہنا پڑا
بے وقوفی کے انوکھے کارنامے دیکھ کر
اچھے خاصے لیڈروں کو بھی گدھا کہنا پڑا
منظر بھوپالی (بھارت)
وطن نصیب کہاں اپنی قسمتیں ہوگی
جہاں بھی جائیں گے ہم ساتھ ہجرتیں ہوں گی
ابھی تو قید ہیں جذبوں کی آندھیاں دل میں
ہمارا صبر جو توڑا قیامتیں ہوں گی
۔۔۔۔۔
جہاں مختلف ممالک سے شعرا کی موجودگی نے اس مشاعرے کی شان کو دوبالا کیا وہیں پر سنگاپور میں مقیم سخن شناسوں نے محفل داد دے کر مشاعرے کو زندہ رکھا۔ تمام شرکائے محفل نے اس کوشش کو بہت سراہا اور خواہش کی کہ آیندہ یہ محفل ہر سال خوب سے خوب تر انداز میں سجائی جائے۔
ناظم مشاعرہ صدف فاروقی کا کراچی سے تعلق ہے لیکن اب اٹلانٹا (امریکا) میں رہائش رکھتی ہیں۔ بڑی پڑھی لکھی خاتون اور اچھی شاعرہ ہیں۔ خوب صورت انداز میں نظامت کرنے کے ساتھ انہوں نے بڑا عمدہ کلام بھی سنایا۔ چند اشعار پیش خدمت ہیں:
مری زندگی کا مقصد مری زندگی کا حاصل
تجھے پوجتی رہوں میں، کروں میں تری پرستش
کیا دل کی انجمن میں تری یاد سے چراغاں
کبھی لو جو کوئی بھڑکی، ہوئی آنسوؤں کی بارش
صابر بدر جعفری
موسم کے خدوخال رقم کرتے رہیں گے
سچ ہو کہ نہ ہو کام یہ ہم کرتے ہیں گے
کچھ اور تو ہونے سے رہا ہم سے عزیزو!
ہاں پرورش لوح و قلم کرتے رہیں گے