معاشی منظر نامہ پر چھائی دھند صاف
اس وقت پاکستان نازک سیکیورٹی صورتحال کا سامنا کر رہا ہے۔ معیشت اور سیکیورٹی کے شعبوں پر یکساں دباؤ ہے
سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان نے پاکستان میں سرمایہ کاری دس ارب ڈالر جب کہ سعودی ڈیولپمنٹ فنڈ کو اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے پاس ڈپازٹس بڑھا کر پانچ ارب ڈالر تک لے جانے کا جائزہ لینے کا حکم دے دیا ہے۔
سعودی عرب گزشتہ ماہ بھی پاکستان کے ذمے تین ارب ڈالرکی ادائیگی کو رول اوورکرچکا ہے، اب دو ارب ڈالر کی اضافی امداد سے پاکستان کے گرتے ہوئے زر مبادلہ ذخائرکو سہارا ملے گا۔
دوسری جانب وزیراعظم شہباز شریف نے کہا ہے کہ سیلاب متاثرین پاکستان کی بحالی کے لیے نو ارب ڈالر سے زائد کی رقم غیبی مدد سے کم نہیں، اتنی بڑی رقم کا پاکستان کو ملنا موجودہ اتحادی حکومت پر دنیا کے اعتماد کا مظہر ہے۔
بلاشبہ سعودی عرب نے ہر مشکل کی گھڑی میں پاکستان کی بھر پور مالی مدد کی ہے، اس وقت ملکی معیشت کو جو چیلنجز اور مشکلات درپیش ہیں، ان سے نکلنے میں سعودی سرمایہ کاری بنیادی کردار ادا کرے گی۔
درحقیقت کسی بھی ملک میں براہ راست غیر ملکی سرمایہ کاری، اس بات کی علامت ہے کہ بیرونی دنیا اس ملک کی معیشت کو سرمایہ کاری کے لیے ایک قابل قدر جگہ سمجھتی ہے اور یہ اس ملک کی معیشت کے لیے ایک مثبت اشارہ ہے۔ سرمائے کے استعمال سے حاصل ہونے والے منافع کو انفرااسٹرکچر کی تعمیر، صحت کی دیکھ بھال اور تعلیم کو بہتر بنانے، پیداواری صلاحیت بہتر بنانے اور صنعتوں کو جدید بنانے کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے۔
اس بات کو یقینی بنایا جانا ضروری ہے کہ براہ راست غیرملکی سرمایہ کاری طویل مدت میں سب سے زیادہ لوگوں کی زندگیوں کو بہتر بنائے گی۔ ہم بہترین کاروباری ماحول پیدا کرکے براہ راست غیر ملکی سرمایہ کاری کو بڑھا سکتے ہیں، جس سے غیر ملکی سرمایہ کاروں کو یہ محسوس ہوتا ہے کہ گویا ان کا سرمایہ محفوظ ہے۔
کم ٹیکس کی شرح یا دیگر ٹیکس مراعات، نجی املاک کے حقوق کا تحفظ، قرضوں اور فنڈنگ تک رسائی اور بنیادی ڈھانچہ جو سرمایہ کاری کے ثمرات کو مارکیٹ تک پہنچنے کی اجازت دیتا ہے، یہ وہ چند مراعات ہیں جو سرمایہ کاری کے لیے پُرکشش اور بنیادی حیثیت رکھتی ہیں۔
اندرونی اور بیرونی قرضے یوں تو دنیا بھر کی معیشتوں کا معمول ہیں، لیکن جب ان قرضوں کی شرح ایک حد سے تجاوز کر جائے تو معیشت غیرمعمولی دباؤ کا شکار ہو جاتی ہے۔ پاکستان کیا، دنیا کی ہر معیشت میں اندرونی اور بیرونی قرضوں کا تھوڑا یا زیادہ عمل دخل ضرور ہوتا ہے۔
مالیاتی ماہرین نے اس دباؤ کے تعین کے لیے کئی پیمانے بھی طے کر رکھے ہیں کہ معیشت کے لیے کتنا قرض مالیاتی معمول اور اس کے بعد غیر معمولی حیثیت اختیار کر لیتا ہے۔
زرمبادلہ کے ذخائر میں مسلسل کمی کی وجہ سے شرح مبادلہ پر دباؤ روپے کی قدر میں مزید کمی کا باعث بنتا ہے، جس معیشت میں درآمدات برآمدات سے دگنا سے بھی زائد ہوں اور کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ بھی زیادہ ہو تو اس کا لامحالہ نتیجہ روپے کی قدر پر مسلسل دباؤ ہے اور مزید کمی کی تلوار پھر بھی لٹکتی رہتی ہے۔ روپے کی قدر میں کمی سے مہنگائی میں اضافہ اور کاروباری لاگت میں اضافہ ایک نئے مشکل اقتصادی سلسلے کا باعث بنتا ہے۔
بیرونی قرضوں اور سود کی ادائیگیوں کے لیے روپے کی صورت میں درکار وسائل میں بیٹھے بٹھائے مزید اضافہ ہو جاتا ہے۔ روپے کی قدر میں کمی، تجارتی و کرنٹ اکاؤنٹ خسارے میں اضافے کا لامحالہ اثر مارک اپ کی شرح پر پڑتا ہے۔
ماہرین کے مطابق پاکستان کو مستحکم اقتصادی ترقی اور بار بار کے بوم اینڈ برسٹ سائیکل سے چھٹکارہ پانے کے لیے تسلسل کے ساتھ چھ فی صد سے زائد سالانہ شرح نمو کی ضرورت ہے، تاکہ سرمایہ کاری میں تسلسل کے ساتھ اضافہ ہو سکے، انفرااسٹرکچر میں جدت اور مزید بہتری لائی جا سکے، روزگار کے مزید مواقعے پیدا کیے جا سکیں۔
عوام کی فلاح کے لیے ترقیاتی اخراجات اور دیگر حکومتی ترجیحات کے لیے مناسب وسائل فراہم ہو سکیں، معیشت میں یہ گنجائش پیدا کی جاسکے تاکہ نئے بیرونی قرضے اضافی پیداوار کا باعث بنیں اور ادائیگیوں کے لیے خود کفالت کا سبب بنیں۔
پاکستان میں گزشتہ کئی بوم اینڈ برسٹ سائیکل گواہ ہیں کہ زیادہ تر معاشی نمو consumption led یعنی تصرف پر مبنی رہی۔ کچھ سالوں کی ترقی نے درآمدات کو بڑھاوا دیا جب کہ دوسری طرف برآمدات میں خاطر خواہ اضافہ نہ ہونے کے سبب تجارتی خسارہ اور کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ بڑھا اور یوں بیرونی قرضوں میں اضافے کی نئی مجبوری اور مشکل بار بار سامنے آن کھڑی ہوئی۔
اگر ہم معاشی بحران کا تجزیہ کریں تو مسئلہ صرف بیرونی ادائیگیوں کا تھا جس کے لیے ہمیں ڈالر درکار تھے۔ ملک میں ڈالر کی کوئی کمی نہیں۔ دراصل ڈالر کے بڑھنے کو بنیاد بنا کر لوگوں نے اپنی بچت روپے کے بجائے ڈالر میں کرنا شروع کردی ہے۔
آج ملک میں اربوں ڈالر اس طرح خرید کر گھروں اور لاکروں میں رکھے گئے ہیں اگر عوام کو پتا چل جائے کہ ڈالرگرنے والا ہے تو یہ تمام ڈالر مارکیٹ میں آجائیں گے، حکومت اگر ڈالر کا ریٹ فکس کردیتی تو بہت بہتر ہوتا تاکہ کوئی شخص مارکیٹ سے ڈالر خرید نہیں سکتا تو گھروں میں رکھے ہوئے اربوں ڈالر مارکیٹ میں آجاتے جن کو حکومت خرید سکتی تھی۔ عام آدمی کو ڈالر کی کوئی ضرورت نہیں ہوتی۔ چند امیر لوگ ڈالر مارکیٹ سے خرید کر بیرون ملک جائیدادیں خریدتے ہیں جس کا خمیازہ پوری قوم بھگتتی ہے۔
صرف اس طبقے کو بچانے کے لیے ڈالر کو مارکیٹ کے رحم و کرم پر چھوڑنا درست عمل نہیں ہے۔ اب تو یہ بھی کہا جاتا ہے کہ فری ڈالر مارکیٹ دراصل منی لانڈرنگ کا ذریعہ بھی ہے۔ غیر ضروری درآمدات کو بند کر کے اور ڈالر کو فکس کرکے حکومت معاشی بحران پر اب بھی قابو پا سکتی ہے، اگر ہم نے آئی ایم ایف سے قرضہ لے کر ان کی شرائط پر عمل کیا تو اس کا منفی نتیجہ نکلے گا کیونکہ اس سے ملک کی جی ڈی پی مزید گر سکتی ہے۔
سرمایہ کاری ختم ہو جائے گی، قیمتیں بہت بڑھ جائیں گی، اس طرح لوگوں میں بھی بے چینی بڑھے گی۔ ڈالر کی قیمت بڑھنے سے ہمارے بیرونی قرضوں میں کئی گنا اضافہ ہو چکا ہے۔ اب ہمیں ہر سال بجٹ میں بیرونی قرضوں کی ادائیگی کے لیے بہت زیادہ رقم رکھنی پڑتی ہے، اس طرح بجٹ خسارہ مزید بڑھ جائے گا۔ اس کے لیے ہمیں مزید ٹیکس لگانے پڑیں گے۔ یہ ایک Vicious Circle ہے جو کہ ملک کے لیے انتہائی نقصان دہ ہے۔
کرنسی میں کمی سے برآمدات میں اضافہ ضروری نہیں، ملکی کرنسی کی قدر کم کرنے کے باوجود ہماری برآمدات صرف دو فیصد بڑھ سکیں ، اگر درآمدات میں کمی درکار ہے تو ان پر ویسے ہی پابندی لگا دی جائے یا اس پر بہت زیادہ درآمدی ڈیوٹی لگا دی جائے۔ اس طرح ہمارے ٹیکس میں بھی اضافہ ہوتا ہے۔ بنگلہ دیش اور بھارت کی کرنسی ہم سے زیادہ مضبوط ہے لیکن ان کی برآمدات میں ہر سال 10سے 15 فیصد اضافہ ہو رہا ہے۔
دراصل برآمدات بڑھانے کے لیے ضروری ہے کہ آپ پیداوار بڑھائیں اور پیداواری لاگت میں کمی کریں تاکہ یہ بیرون ملک مقابلہ کرسکیں۔ اسی طرح آپ کی مارکیٹنگ صلاحیتیں بھی بہتر ہونی چاہئیں۔ بیرون ملک سفارت کاروں کو برآمدی ٹارگٹ دیے جائیں۔ آج کے دور میں سفارت کاری کاروبار سے منسلک ہے۔
ملک کے اندر صنعتوں کو فروغ دیا جائے اور بہتر حالات پیدا کیے جائیں۔ اسی طرح ملک سست رفتاری سے باہر آسکے گا۔ حالیہ دنوں دہشت گردی کی وارداتوں میں اضافے کی ایک وجہ افغان سر زمین کا پاکستان کی سلامتی کے خلاف استعمال ہونا ہے۔
اس وقت پاکستان نازک سیکیورٹی صورتحال کا سامنا کر رہا ہے۔ معیشت اور سیکیورٹی کے شعبوں پر یکساں دباؤ ہے۔ پہلے مرحلے میں سیاسی غیر یقینی پن کا خاتمہ ہی سرمایہ کاروں کے لیے استحکام کی ضمانت ہو گا۔
موجودہ اتحادی حکومت کے لیے لازم ہے کہ ان مسائل کے طویل مدت حل کے لیے بنیادی اصلاحات اور پیداواری ڈھانچے میں بنیادی تبدیلیاں لا کر معیشت کو کم ویلیو پیداواری ڈھانچے سے نکال کر بہتر ویلیو اور ٹیکنالوجی کے پیداواری سانچے میں ڈھالنے کا بیڑہ اٹھائے تو یقیناً ایک نئے مستحکم معاشی مستقبل کا تصورکیا جا سکتا ہے، ورنہ معیشت کے موجودہ پیداواری ڈھانچے کے ساتھ کسی غیر معمولی تبدیلی کی گنجائش کم ہے۔
وصولی کے اہداف کے حصول کے لیے ٹیکس دہندگان پر مزید بوجھ لادنے کے بجائے مالی شفافیت کو بہتر بنانے اور قومی و صوبائی سطح پر ٹیکسوں کی وصولی میں ربط کو مضبوط بنانا ہوگا۔ یہ اقدامات ملک میں کمزور حکومتوں کے سبب پیدا ہونے والے ان گنت مالی و خسارے کے مسائل پر لمبے عرصے کے لیے قابو پانے میں مدد دیں گے۔
پاکستان کا معاشی بحران ایک رات میں حل نہیں ہوسکتا ہے۔ سرمایہ کاری کے لیے سازگار ماحول، ٹیکس اساس میں وسعت ، جدت کی حوصلہ افزائی اور برآمدات کرنے والی صنعتوں کو جدید بنانا، یہ ان ہنگامی اقدامات میں سے چند ایک ہیں حکومت جنھیں بڑھتے ہوئے مالی اور کرنٹ اکاؤنٹ خسارے کے معاملے سے نمٹنے کے لیے اٹھا سکتی ہے۔ پاکستان کو اس بمشکل ملنے والی مہلت سے فائدہ اٹھاتے ہوئے صحیح معنوں میں مستحکم اور پائیدار معیشت کی تعمیر کرنا ہوگی۔
سعودی عرب گزشتہ ماہ بھی پاکستان کے ذمے تین ارب ڈالرکی ادائیگی کو رول اوورکرچکا ہے، اب دو ارب ڈالر کی اضافی امداد سے پاکستان کے گرتے ہوئے زر مبادلہ ذخائرکو سہارا ملے گا۔
دوسری جانب وزیراعظم شہباز شریف نے کہا ہے کہ سیلاب متاثرین پاکستان کی بحالی کے لیے نو ارب ڈالر سے زائد کی رقم غیبی مدد سے کم نہیں، اتنی بڑی رقم کا پاکستان کو ملنا موجودہ اتحادی حکومت پر دنیا کے اعتماد کا مظہر ہے۔
بلاشبہ سعودی عرب نے ہر مشکل کی گھڑی میں پاکستان کی بھر پور مالی مدد کی ہے، اس وقت ملکی معیشت کو جو چیلنجز اور مشکلات درپیش ہیں، ان سے نکلنے میں سعودی سرمایہ کاری بنیادی کردار ادا کرے گی۔
درحقیقت کسی بھی ملک میں براہ راست غیر ملکی سرمایہ کاری، اس بات کی علامت ہے کہ بیرونی دنیا اس ملک کی معیشت کو سرمایہ کاری کے لیے ایک قابل قدر جگہ سمجھتی ہے اور یہ اس ملک کی معیشت کے لیے ایک مثبت اشارہ ہے۔ سرمائے کے استعمال سے حاصل ہونے والے منافع کو انفرااسٹرکچر کی تعمیر، صحت کی دیکھ بھال اور تعلیم کو بہتر بنانے، پیداواری صلاحیت بہتر بنانے اور صنعتوں کو جدید بنانے کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے۔
اس بات کو یقینی بنایا جانا ضروری ہے کہ براہ راست غیرملکی سرمایہ کاری طویل مدت میں سب سے زیادہ لوگوں کی زندگیوں کو بہتر بنائے گی۔ ہم بہترین کاروباری ماحول پیدا کرکے براہ راست غیر ملکی سرمایہ کاری کو بڑھا سکتے ہیں، جس سے غیر ملکی سرمایہ کاروں کو یہ محسوس ہوتا ہے کہ گویا ان کا سرمایہ محفوظ ہے۔
کم ٹیکس کی شرح یا دیگر ٹیکس مراعات، نجی املاک کے حقوق کا تحفظ، قرضوں اور فنڈنگ تک رسائی اور بنیادی ڈھانچہ جو سرمایہ کاری کے ثمرات کو مارکیٹ تک پہنچنے کی اجازت دیتا ہے، یہ وہ چند مراعات ہیں جو سرمایہ کاری کے لیے پُرکشش اور بنیادی حیثیت رکھتی ہیں۔
اندرونی اور بیرونی قرضے یوں تو دنیا بھر کی معیشتوں کا معمول ہیں، لیکن جب ان قرضوں کی شرح ایک حد سے تجاوز کر جائے تو معیشت غیرمعمولی دباؤ کا شکار ہو جاتی ہے۔ پاکستان کیا، دنیا کی ہر معیشت میں اندرونی اور بیرونی قرضوں کا تھوڑا یا زیادہ عمل دخل ضرور ہوتا ہے۔
مالیاتی ماہرین نے اس دباؤ کے تعین کے لیے کئی پیمانے بھی طے کر رکھے ہیں کہ معیشت کے لیے کتنا قرض مالیاتی معمول اور اس کے بعد غیر معمولی حیثیت اختیار کر لیتا ہے۔
زرمبادلہ کے ذخائر میں مسلسل کمی کی وجہ سے شرح مبادلہ پر دباؤ روپے کی قدر میں مزید کمی کا باعث بنتا ہے، جس معیشت میں درآمدات برآمدات سے دگنا سے بھی زائد ہوں اور کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ بھی زیادہ ہو تو اس کا لامحالہ نتیجہ روپے کی قدر پر مسلسل دباؤ ہے اور مزید کمی کی تلوار پھر بھی لٹکتی رہتی ہے۔ روپے کی قدر میں کمی سے مہنگائی میں اضافہ اور کاروباری لاگت میں اضافہ ایک نئے مشکل اقتصادی سلسلے کا باعث بنتا ہے۔
بیرونی قرضوں اور سود کی ادائیگیوں کے لیے روپے کی صورت میں درکار وسائل میں بیٹھے بٹھائے مزید اضافہ ہو جاتا ہے۔ روپے کی قدر میں کمی، تجارتی و کرنٹ اکاؤنٹ خسارے میں اضافے کا لامحالہ اثر مارک اپ کی شرح پر پڑتا ہے۔
ماہرین کے مطابق پاکستان کو مستحکم اقتصادی ترقی اور بار بار کے بوم اینڈ برسٹ سائیکل سے چھٹکارہ پانے کے لیے تسلسل کے ساتھ چھ فی صد سے زائد سالانہ شرح نمو کی ضرورت ہے، تاکہ سرمایہ کاری میں تسلسل کے ساتھ اضافہ ہو سکے، انفرااسٹرکچر میں جدت اور مزید بہتری لائی جا سکے، روزگار کے مزید مواقعے پیدا کیے جا سکیں۔
عوام کی فلاح کے لیے ترقیاتی اخراجات اور دیگر حکومتی ترجیحات کے لیے مناسب وسائل فراہم ہو سکیں، معیشت میں یہ گنجائش پیدا کی جاسکے تاکہ نئے بیرونی قرضے اضافی پیداوار کا باعث بنیں اور ادائیگیوں کے لیے خود کفالت کا سبب بنیں۔
پاکستان میں گزشتہ کئی بوم اینڈ برسٹ سائیکل گواہ ہیں کہ زیادہ تر معاشی نمو consumption led یعنی تصرف پر مبنی رہی۔ کچھ سالوں کی ترقی نے درآمدات کو بڑھاوا دیا جب کہ دوسری طرف برآمدات میں خاطر خواہ اضافہ نہ ہونے کے سبب تجارتی خسارہ اور کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ بڑھا اور یوں بیرونی قرضوں میں اضافے کی نئی مجبوری اور مشکل بار بار سامنے آن کھڑی ہوئی۔
اگر ہم معاشی بحران کا تجزیہ کریں تو مسئلہ صرف بیرونی ادائیگیوں کا تھا جس کے لیے ہمیں ڈالر درکار تھے۔ ملک میں ڈالر کی کوئی کمی نہیں۔ دراصل ڈالر کے بڑھنے کو بنیاد بنا کر لوگوں نے اپنی بچت روپے کے بجائے ڈالر میں کرنا شروع کردی ہے۔
آج ملک میں اربوں ڈالر اس طرح خرید کر گھروں اور لاکروں میں رکھے گئے ہیں اگر عوام کو پتا چل جائے کہ ڈالرگرنے والا ہے تو یہ تمام ڈالر مارکیٹ میں آجائیں گے، حکومت اگر ڈالر کا ریٹ فکس کردیتی تو بہت بہتر ہوتا تاکہ کوئی شخص مارکیٹ سے ڈالر خرید نہیں سکتا تو گھروں میں رکھے ہوئے اربوں ڈالر مارکیٹ میں آجاتے جن کو حکومت خرید سکتی تھی۔ عام آدمی کو ڈالر کی کوئی ضرورت نہیں ہوتی۔ چند امیر لوگ ڈالر مارکیٹ سے خرید کر بیرون ملک جائیدادیں خریدتے ہیں جس کا خمیازہ پوری قوم بھگتتی ہے۔
صرف اس طبقے کو بچانے کے لیے ڈالر کو مارکیٹ کے رحم و کرم پر چھوڑنا درست عمل نہیں ہے۔ اب تو یہ بھی کہا جاتا ہے کہ فری ڈالر مارکیٹ دراصل منی لانڈرنگ کا ذریعہ بھی ہے۔ غیر ضروری درآمدات کو بند کر کے اور ڈالر کو فکس کرکے حکومت معاشی بحران پر اب بھی قابو پا سکتی ہے، اگر ہم نے آئی ایم ایف سے قرضہ لے کر ان کی شرائط پر عمل کیا تو اس کا منفی نتیجہ نکلے گا کیونکہ اس سے ملک کی جی ڈی پی مزید گر سکتی ہے۔
سرمایہ کاری ختم ہو جائے گی، قیمتیں بہت بڑھ جائیں گی، اس طرح لوگوں میں بھی بے چینی بڑھے گی۔ ڈالر کی قیمت بڑھنے سے ہمارے بیرونی قرضوں میں کئی گنا اضافہ ہو چکا ہے۔ اب ہمیں ہر سال بجٹ میں بیرونی قرضوں کی ادائیگی کے لیے بہت زیادہ رقم رکھنی پڑتی ہے، اس طرح بجٹ خسارہ مزید بڑھ جائے گا۔ اس کے لیے ہمیں مزید ٹیکس لگانے پڑیں گے۔ یہ ایک Vicious Circle ہے جو کہ ملک کے لیے انتہائی نقصان دہ ہے۔
کرنسی میں کمی سے برآمدات میں اضافہ ضروری نہیں، ملکی کرنسی کی قدر کم کرنے کے باوجود ہماری برآمدات صرف دو فیصد بڑھ سکیں ، اگر درآمدات میں کمی درکار ہے تو ان پر ویسے ہی پابندی لگا دی جائے یا اس پر بہت زیادہ درآمدی ڈیوٹی لگا دی جائے۔ اس طرح ہمارے ٹیکس میں بھی اضافہ ہوتا ہے۔ بنگلہ دیش اور بھارت کی کرنسی ہم سے زیادہ مضبوط ہے لیکن ان کی برآمدات میں ہر سال 10سے 15 فیصد اضافہ ہو رہا ہے۔
دراصل برآمدات بڑھانے کے لیے ضروری ہے کہ آپ پیداوار بڑھائیں اور پیداواری لاگت میں کمی کریں تاکہ یہ بیرون ملک مقابلہ کرسکیں۔ اسی طرح آپ کی مارکیٹنگ صلاحیتیں بھی بہتر ہونی چاہئیں۔ بیرون ملک سفارت کاروں کو برآمدی ٹارگٹ دیے جائیں۔ آج کے دور میں سفارت کاری کاروبار سے منسلک ہے۔
ملک کے اندر صنعتوں کو فروغ دیا جائے اور بہتر حالات پیدا کیے جائیں۔ اسی طرح ملک سست رفتاری سے باہر آسکے گا۔ حالیہ دنوں دہشت گردی کی وارداتوں میں اضافے کی ایک وجہ افغان سر زمین کا پاکستان کی سلامتی کے خلاف استعمال ہونا ہے۔
اس وقت پاکستان نازک سیکیورٹی صورتحال کا سامنا کر رہا ہے۔ معیشت اور سیکیورٹی کے شعبوں پر یکساں دباؤ ہے۔ پہلے مرحلے میں سیاسی غیر یقینی پن کا خاتمہ ہی سرمایہ کاروں کے لیے استحکام کی ضمانت ہو گا۔
موجودہ اتحادی حکومت کے لیے لازم ہے کہ ان مسائل کے طویل مدت حل کے لیے بنیادی اصلاحات اور پیداواری ڈھانچے میں بنیادی تبدیلیاں لا کر معیشت کو کم ویلیو پیداواری ڈھانچے سے نکال کر بہتر ویلیو اور ٹیکنالوجی کے پیداواری سانچے میں ڈھالنے کا بیڑہ اٹھائے تو یقیناً ایک نئے مستحکم معاشی مستقبل کا تصورکیا جا سکتا ہے، ورنہ معیشت کے موجودہ پیداواری ڈھانچے کے ساتھ کسی غیر معمولی تبدیلی کی گنجائش کم ہے۔
وصولی کے اہداف کے حصول کے لیے ٹیکس دہندگان پر مزید بوجھ لادنے کے بجائے مالی شفافیت کو بہتر بنانے اور قومی و صوبائی سطح پر ٹیکسوں کی وصولی میں ربط کو مضبوط بنانا ہوگا۔ یہ اقدامات ملک میں کمزور حکومتوں کے سبب پیدا ہونے والے ان گنت مالی و خسارے کے مسائل پر لمبے عرصے کے لیے قابو پانے میں مدد دیں گے۔
پاکستان کا معاشی بحران ایک رات میں حل نہیں ہوسکتا ہے۔ سرمایہ کاری کے لیے سازگار ماحول، ٹیکس اساس میں وسعت ، جدت کی حوصلہ افزائی اور برآمدات کرنے والی صنعتوں کو جدید بنانا، یہ ان ہنگامی اقدامات میں سے چند ایک ہیں حکومت جنھیں بڑھتے ہوئے مالی اور کرنٹ اکاؤنٹ خسارے کے معاملے سے نمٹنے کے لیے اٹھا سکتی ہے۔ پاکستان کو اس بمشکل ملنے والی مہلت سے فائدہ اٹھاتے ہوئے صحیح معنوں میں مستحکم اور پائیدار معیشت کی تعمیر کرنا ہوگی۔