آئیں صحت مند زندگی کا آغاز کریں
پوری دنیا میں 80 فیصد بالغ افراد مناسب جسمانی سرگرمی کے بغیر ہی زندگی گزارتے ہیں
کیا آپ جانتے ہیں کہ جن لوگوں کی زندگی میں کسی قسم کی جسمانی سرگرمی نہیں ہوتی، تحرک نہیں ہوتا، وہ متحرک لوگوں کی نسبت 20 سے 30 فیصد جلد موت کے گھاٹ اتر جاتے ہیں۔
اس لئے ضروری ہے کہ ہر ہفتے150 سے 300 منٹ یعنی ڈھائی گھنٹے سے تین گھنٹے تک جسم کو متحرک رکھا جائے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ جسمانی سرگرمی سے انسان کے دل ، جسم اور ذہن صحت مند رہتے ہیں۔
اس کے نتیجے میں انسان غیر متعدی امراض مثلا امراض قلب ، کینسر اور ذیابیطس سے محفوظ رہتا ہے ، اگر خدانخواستہ یہ امراض لاحق ہوجائیں تو اپنی جسمانی سرگرمی بڑھا کر ان امراض سے چھٹکارا بھی پاسکتا ہے۔ اب یہ بات بھی ثابت ہوگئی ہے کہ جسمانی سرگرمی بڑھا کر انسان اپنے اندر سے ڈپریشن اور ذہنی تناؤ کی علامات کو کم کرسکتا ہے۔
اہم ترین بات یہ بھی ہے کہ جسمانی سرگرمیاں انسان کے سوچنے ، سیکھنے اور فیصلہ کرنے کی صلاحیت کو بڑھاتی ہیں۔ نوجوان نسل کی نشوونما اور ترقی کے لئے بھی جسمانی سرگرمی نہایت ضروری ہے۔ الغرض اس کے نتیجے میں انسان کی پوری صحت پر مفید اثرات مرتب ہوتے ہیں۔
تاہم افسوس ناک امر ہے کہ پوری دنیا میں ہر چار میں سے ایک فرد عالمی ادارہ صحت کی ہدایت کے مطابق جسمانی سرگرمی سرانجام نہیں دیتا یعنی متحرک نہیں ہوتا۔ خواتین میں یہ شرح ہر تین میں سے ایک اور مردوں میں ہر چار میں سے ایک ہے۔
ایک اندازے کے مطابق پوری دنیا میں 80 فیصد بالغ افراد مناسب طور پر اپنے جسم کو متحرک نہیں رکھتے۔2001ء کے بعد اب تک دنیا بھر میں لوگوں کی فعالیت میں کوئی بہتری نہیں آئی بلکہ اس حوالے سے خرابی بڑھی ہے۔
معاشی طور پر بہتر معاشروں میں 2001ء سے 2016ء کے درمیان فعال لوگوں میں پانچ فیصد کی کمی دیکھنے کو ملی۔دلچسپ بات ہے کہ کم تنخواہوں والے معاشروں کی نسبت زیادہ تنخواہوں والے معاشروں میں لوگ دو گنا کم فعال ہیں۔
جسمانی سرگرمی کیا ہے ؟
سوال یہ ہے کہ جسمانی سرگرمی کا مطلب کیا ہے؟ ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کی طے کردہ تعریف کے مطابق جسمانی ڈھانچے میں موجود پٹھوں کی وہ حرکت جسمانی سرگرمی کہلائے گی جسے انجام دینے کے لئے جسم کی توانائی خرچ کرنا پڑے ۔
جسمانی سرگرمی میں وہ تمام حرکات شامل ہوتی ہیں جو کہیں آنے یا جانے کے لئے ، یا پھر کسی کام میں شرکت کے لئے انجام دی جاتی ہیں۔ اس میں وہ جسمانی سرگرمیاں بھی شامل ہیں جو تفریح کے دوران میں بھی سرانجام دی جاتی ہیں۔ جسمانی سرگرمی یا ورزش ، چاہے زیادہ مشقت بھری ہو یا پھر نسبتاً درمیانے درجے کی مشقت والی ہو، صحت کے لئے مفید ثابت ہوتی ہے۔
عام طور پر جسمانی سرگرمیوں میں پیدل چلنا ، سائیکل چلانا ، وھیلنگ ، کسی چیز کو کھینچنا یا پھر کسی چیز کو دھکا دینا ، ہر قسم کے جسمانی کھیل ، جسمانی سرگرمیوں پر مبنی تفریح کو شامل کیا جاتا ہے۔ یہ سرگرمی روزمرہ کی زندگی میں کسی بھی سطح کی ہوسکتی ہے۔
اگر اپنے جسم کو باقاعدگی کے ساتھ سرگرم رکھا جائے تو اس کے نتیجے میں انسان غیر متعدی بیماریوں مثلاً امراض قلب ، فالج ، ذیابیطس اور مختلف اقسام کے کینسر سے نہ صرف محفوظ رہتا ہے ، اگر اس قسم کی بیماریاں لاحق ہوں تو باقاعدہ جسمانی سرگرمی کے نتیجے میں ان سے نجات بھی ملتی ہے۔ اسی طرح ہائی بلڈپریشر لاحق نہیں ہوتا ، جسمانی وزن متوازن رہتا ہے، بحیثیت مجموعی جسمانی اور دماغی صحت برقرار رہتی ہے۔ الغرض یہ کہ انسان کا معیار زندگی بہتر رہتا ہے۔
جسمانی سرگرمی کس قدر ہونی چاہیے ؟
عالمی ادارہ صحت کے رہنما اصولوں اور ہدایات کے مطابق مختلف عمر کے حامل افراد کو مختلف جسمانی سرگرمیاں تجویز کی جاتی ہیں۔ ان سب سرگرمیوں کی انجام دہی کا ایک ہی مقصد ہوتا ہے کہ ان کی صحت اچھی رہے۔
پانچ سال سے کم بچوں کے لئے
ایک سال سے کم عمر بچوں کے لئے : چوبیس گھنٹوں کے دوران میں ایک سال سے کم عمر شیرخوار بچوں کے لئے ضروری ہے کہ انھیں کم از کم 30 منٹ کے لئے مختلف انداز میں، بستر اور فرش پر حرکت کرنی دی جائے۔ اس عمر میں بچوں کو سکرین کے نشے میں بالکل بھی مبتلا نہ کیا جائے یعنی موبائل ، ٹی وی ، کمپیوٹر اور لیپ ٹاپ پر دھیان نہ لگایا جائے۔
ہمارے ہاں دیکھا گیا ہے کہ مائیں بچوں کو سکرین کے مشغلے میں ڈال کر اپنی دیگر سرگرمیوں میں مصروف رہتی ہیں حالانکہ ماہرین ایک سال کی عمر تک بچوں پر سکرین ٹائم کی مکمل پابندی عائد کرتے ہیں، انھیں ٹی وی دکھایا جائے نہ ہی کوئی ویڈیو وغیرہ اور نہ ہی کمپیوٹر گیمز۔
اگر بیٹھنے کے دوران سرانجام دی جانے والی سرگرمیوں کا معاملہ ہو تو اس عمر میں بچوں کو کہانیاں سنانے یا کہانیاں پڑھنے کی ہدایت کی جاتی ہے۔
پہلے تین ماہ کی عمر میں بچے کی نیند 14 سے 17 گھنٹے ہونی چاہیے اور چار سے گیارہ ماہ کی عمر تک 12 سے 16 ماہ کی نیند ضروری ہے۔
ایک سے دو سال کی عمر تک بچوں کے لئے: اس عمر کے بچوں کے لئے ضروری ہے کہ وہ 24گھنٹوں کے دوران میں کم از کم تین گھنٹے یعنی 180 منٹ سخت یا معتدل قسم کی جسمانی سرگرمیاں سرانجام دیں۔ تین گھنٹے کی جسمانی سرگرمیوںکا مطلب یہ نہیں ہے کہ ایک ہی وقت میں ایسا کیا جائے بلکہ اسے 24گھنٹوں کے دوران میں وقفے وقفے سے سرانجام دیا جائے۔ یہ طرز عمل زیادہ مفید ہے۔ یاد رہے کہ ایک ہی وقت میں ایک گھنٹے سے زیادہ جسمانی سرگرمی سرانجام نہ دی جائے۔
اس عمر کے بچوں کے لئے بھی کہانیاں سننے اور کہانیاں پڑھنے کی سرگرمی نہایت مفید ثابت ہوتی ہے۔ انھیں 11سے 14 گھنٹوں کی نیند کرنی چاہیے۔ ان کے سونے اور جاگنے کا وقت معین ہونا چاہیے۔ دو برس کی عمر تک کے بچوں کو صرف ایک گھنٹہ تک سکرین دیکھنے کی اجازت دی جاسکتی ہے، اگر اس سے کم ہو تو زیادہ بہتر ہے۔
تین سے چارسال عمر کے بچوں کے لئے: اس عمر کے بچوں کے لئے ضروری ہے کہ وہ 24 گھنٹوں کے دوران میں کم از کم تین گھنٹے یعنی 180 منٹ مختلف قسم کی جسمانی سرگرمیاں سرانجام دیں، 60 منٹ تک معتدل جسمانی سرگرمیاں۔ اگر یہ جسمانی سرگرمیاں پورے دن میں پھیلائی جائیں تو بچے کی صحت پر زیادہ مفید اثرات مرتب ہوں گے۔ جسمانی سرگرمیاں جیسی بھی ہو ، ایک وقت میں ایک گھنٹہ سے زائد نہیں ہونی چاہئیں۔
اس عمر کے بچوں کے لئے بھی سکرین ٹائم ایک گھنٹہ سے زیادہ ہرگز نہیں ہونا چاہیے۔ زیادہ بہتر ہے کہ انھیں کہانیاں سنائی جائیں یا کہانیاں پڑھنے کی ترغیب دی جائے۔ ان کی نیند 10سے 13 گھنٹے ہونی چاہیے۔اس عمرکے بچوں کو بھی ایک وقت معین پر سونے اور جاگنے کا عادی بنانا چاہیے۔
پانچ سے سترہ سال کی عمر والوں کے لئے
اس عمر میں روزانہ کم از کم ایک گھنٹہ معتدل سے لے کر سخت ورزشکی عادت اختیار کرنی چاہیے، بالخصوص اس عمر میں ایروبک ایکسرسائز کرنی چاہیے۔ اور پورا ہفتہ ہی کرنی چاہیے۔ ہفتے میں تین دن ایسی ایروبک ایکسر سائز کرنی چاہیے جو پٹھوں اور ہڈیوں کو مضبوط کرے۔ اس عمر کے بچوں ، لڑکوں کو زیادہ وقت بیٹھ کے نہیں گزارنا چاہیے۔ اور سکرین ٹائم کے لئے کم از کم بیٹھنا چاہیے۔
18سے 64 سال کی عمر والوں کے لئے
اس عمر کے لوگوں کو ہر روز 150 سے 300 منٹ تک معتدل سے سخت ایروبک ایکسرسائز کرنی چاہیے۔ یا پھر 75سے 150 منٹ تک سخت ایروبک ایکسرسائز یا پھر اس سطح کی کوئی بھی دوسری جسمانی سرگرمی۔ معتدل اور سخت ایروبک ایکسرسائز کا بھی ایک کمبی نیشن بنایا جاسکتا ہے۔
ان لوگوں کو پٹھے مضبوط کرنے والی ورزشیں کرنی چاہئیں، ایسی ورزشیں جن کے نتیجے میں پورے جسم کے پٹھے مضبوط ہوں۔ اس قسم کی جسمانی سرگرمیاں ہفتے میں دو یا پھر اس سے زیادہ دن تک کرنی چاہئیں۔اس کے نتیجے میں صحت کے مزید فوائد حاصل ہوتے ہیں۔ اگر کم سخت جسمانی ورزش کرنی ہے تو اسے 300 منٹ سے بھی زیادہ کیا جاسکتا ہے۔
اس عمر کے لوگوں کو بھی زیادہ دیر تک نہیں بیٹھے رہنا چاہیے۔اس کے بجائے انھیں کوئی بھی ایسی سرگرمی کرنی چاہیے جس کے نتیجے میں ان کی صحت پر اچھے اثرات مرتب ہوں۔ انھیں زیادہ سے زیادہ ایسی سرگرمیاں سرانجام دینی چاہئیں۔
65 سال یا اس سے زیادہ عمر کے لوگوں کو ایسی مختلف جسمانی سرگرمیاں سرانجام دینی چاہئیں جس کے نتیجے میں ان کا توازن اور مضبوطی قائم رہے۔ انھیں ہفتے میں اس قسم کی ورزشیں تین یا اس سے زیادہ دن تک کرنی چاہئے۔
یاد رہے کہ انھیں اپنی یہ ورزشیں اپنی جسمانی استطاعت کے مطابق کرنی چاہئیں اور دھیان رکھنا چاہیے کہ وہ گرنے سے محفوظ رہیں۔
حمل کے دوران میں یا وضع حمل کے بعد
خواتین کو حمل کے دوران میں یا پھر وضع حمل کے بعد ( اگر انھیں معالج نے منع نہیں کیا تو ) پورا ہفتہ درمیانے درجے کی ایروبک ورزش کرنی چاہیے۔ انھیں مختلف قسم کی ایروبک اور پٹھوں کو مضبوط کرنے والی ورزشیں کرنی چاہئیں۔ انھیں بھی زیادہ وقت بیٹھے رہنے سے پرہیز کرنا چاہیے۔
پیچیدہ مسائل کے شکار لوگ کیا کریں ؟
ہائپر ٹینشن ، ذیابیطس ٹائپ ٹو کے مریضوں ، ایڈز اور کینسر کے بچ جانے والوں کو چاہیے کہ وہ پورا ہفتہ 150سے 300 منٹ درمیانے درجے کی سخت ، یا پھر 75سے 150 منٹ تک نسبتاً زیادہ سخت ورزش کریں۔ ہفتے میں دو یا اس سے زیادہ دن تک اپنے پورے جسم کے پٹھوں کی مضبوطی کے لئے درمیانے درجے یا پھر نسبتاً سخت ورزشیں کریں۔ بزرگوں کے لئے وہی ہدایات ہیں جو سطور بالا میں درج کی جاچکی ہیں۔
درمیانے درجے کی سخت ایروبک ورزشیں 300منٹ سے بھی زیادہ کی جاسکتی ہیں اور سخت ورزشیں 150منٹ سے بڑھائی جاسکتی ہیں۔
ان لوگوں کو بھی کم از کم بیٹھنا چاہیے۔ زیادہ تر متحرک رہنا چاہیے۔سطور بالا میں جو کچھ بتایا گیا ہے، وہ اس گروپ کے لوگوں کے لئے بھی مفید ثابت ہوگا۔ جو لوگ کسی بھی قسم کی ڈس ایبیلٹی میں مبتلا ہیں ، ان کے لئے بھی مذکورہ بالا ہدایات مفید رہیں گی۔ وہ اپنی عمر کی بنیاد پر رہنمائی حاصل کرکے زندگی گزاریں۔
باقاعدہ جسمانی سرگرمیاں مثلاً پیدل چلنے ، سائیکل چلانے ، وھیلنگ ،کسی بھی جسمانی کھیل میں شریک ہونے سے صحت کو بے شمار فوائد نصیب ہوتے ہیں۔ یاد رکھیے کہ تھوڑی سی ورزش کرنا ، بالکل وزرش نہ کرنے سے بہتر ہے۔ پورا دن زیادہ متحرک رہ کر جسمانی سرگرمیوں سے متعلق دیے گئے اہداف حاصل کیے جاسکتے ہیں۔
جو لوگ ورزش نہیں کرتے یا جسمانی طور پر زیادہ متحرک نہیں رہتے ، وہ غیر متعدی امراض مثلا امراض قلب ، کینسر اور ذیابیطس میں مبتلا ہوکر جلد موت کے گھاٹ اتر جاتے ہیں۔ سطور بالا میں بھی بتایا جاچکا ہے کہ غیر متحرک لوگ ، متحرک لوگوں کی نسبت 20سے 30فیصد جلد موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں۔
باقاعدہ جسمانی سرگرمی سے پٹھے مضبوط رہتے ہیں جبکہ دل اور پھیپھڑے بھی صحت مند اور توانا رہتے ہیں۔ ہڈیوںاور جسم کے تمام نظاموں کی صحت میں بہتری آتی ہے۔ ہائپر ٹینشن ، امراض قلب ، فالج ، ذیابیطس ، مختلف قسم کے کینسر ( بشمول چھاتی کا کینسر ، آنت کا کینسر ) اور ڈپریشن کے خطرات کم ہو جائیں گے۔
جسمانی وزن متوازن رہتا ہے اور انسان کا جسمانی توازن بھی برقرار رہتا ہے۔ وہ گرنے سے محفوظ رہتا ہے ۔ بڑی عمر میں لوگ گر جائیں تو عمومی طور پر کولھے یا ریڑھ کی ہڈی کے فریکچر کا خدشہ ہوتا ہے۔
بچوں اور بلوغت کے مرحلے میں داخل ہونے والوں کے لئے جسمانی سرگرمی نہایت مفید ثابت ہوتی ہے۔ ان کے پٹھے مضبوط ، پھیپھڑے اور دل صحت مند رہتے ہیں۔ ان کا میٹابولزم بہتر رہتا ہے۔ بلڈپریشر سے محفوظ رہتے ہیں۔ خون میں چربی اور گلوکوزکی مقدار نہیں بڑھتی۔اس عمر میں ہڈیاں زیادہ مضبوط ہونی چاہئیں۔ ورزش کے نتیجے میں لوگوںکی علمی کارکردگی میں بہتری پیدا ہوتی ہے۔ اسی طرح وہ بہتر طور پر انتظامی صلاحیت کا مظاہرہ کرتے ہیں۔
ڈپریشن کے خطرات کم ہوجاتے ہیں، یوں ان کی ذہنی صحت بہتر رہتی ہے۔ اور سب سے بڑی بات کہ وہ موٹاپے کی طرف نہیں مائل نہیں ہوتے۔ آپ جانتے ہی ہیں کہ موٹاپا بہت سی بیماریوں کی ماں ہے۔ ایک اہم بات یہ بھی ہے کہ ورزش کرنے والے لوگ کم خوابی کے شکار نہیں ہوتے بلکہ مزے کی نیند کرتے ہیں۔
ماہرین کی ہدایت کے مطابق جسمانی ورزش کرنے سے حاملہ خواتین اور وضع حمل سے فارغ ہونے والی مائیں بھی بے شمار فوائد حاصل کرتی ہیں۔
مثلاً حاملہ خواتین بلند فشار خون اور ذیابیطس میں مبتلا نہیں ہوتی ہیں۔ ذیابیطس کے خطرات 30فیصد کم ہوجاتے ہیں۔ ظاہر ہے کہ ورزش موٹاپا بھی نہیں ہونے دیتی۔ ایک اہم ترین بات یہ ہے کہ وضع حمل کے دوران میں پیچیدگیاں درپیش نہیں ہوتیں۔ اسی طرح مائیں وضع حمل کے بعد ڈپریشن سے بھی محفوظ رہتی ہیں۔
آج کے دور میں پہلے کی نسبت زیادہ فعال ہونا ، ورزش کی طرف مائل ہونا ضروری ہوچکا ہے کیونکہ پیچیدہ بیماریاں نوجوانوں کو قابو کر رہی ہیں۔ میڈیکل رپورٹس اور رائے عامہ کے جائزے بتاتے ہیں کہ نوجوانوں میں بھی ایسی بیماریاں تیزی سے پھیل رہی ہیں جو عموماً بڑھاپے میں لاحق ہوتی تھیں۔ ان بیماریوں سے بچنے کا واحد راستہ ہے کہ صحت مند طرز زندگی کے لئے بہتر حکمت عملی اختیار کی جائے۔
اس لئے ضروری ہے کہ ہر ہفتے150 سے 300 منٹ یعنی ڈھائی گھنٹے سے تین گھنٹے تک جسم کو متحرک رکھا جائے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ جسمانی سرگرمی سے انسان کے دل ، جسم اور ذہن صحت مند رہتے ہیں۔
اس کے نتیجے میں انسان غیر متعدی امراض مثلا امراض قلب ، کینسر اور ذیابیطس سے محفوظ رہتا ہے ، اگر خدانخواستہ یہ امراض لاحق ہوجائیں تو اپنی جسمانی سرگرمی بڑھا کر ان امراض سے چھٹکارا بھی پاسکتا ہے۔ اب یہ بات بھی ثابت ہوگئی ہے کہ جسمانی سرگرمی بڑھا کر انسان اپنے اندر سے ڈپریشن اور ذہنی تناؤ کی علامات کو کم کرسکتا ہے۔
اہم ترین بات یہ بھی ہے کہ جسمانی سرگرمیاں انسان کے سوچنے ، سیکھنے اور فیصلہ کرنے کی صلاحیت کو بڑھاتی ہیں۔ نوجوان نسل کی نشوونما اور ترقی کے لئے بھی جسمانی سرگرمی نہایت ضروری ہے۔ الغرض اس کے نتیجے میں انسان کی پوری صحت پر مفید اثرات مرتب ہوتے ہیں۔
تاہم افسوس ناک امر ہے کہ پوری دنیا میں ہر چار میں سے ایک فرد عالمی ادارہ صحت کی ہدایت کے مطابق جسمانی سرگرمی سرانجام نہیں دیتا یعنی متحرک نہیں ہوتا۔ خواتین میں یہ شرح ہر تین میں سے ایک اور مردوں میں ہر چار میں سے ایک ہے۔
ایک اندازے کے مطابق پوری دنیا میں 80 فیصد بالغ افراد مناسب طور پر اپنے جسم کو متحرک نہیں رکھتے۔2001ء کے بعد اب تک دنیا بھر میں لوگوں کی فعالیت میں کوئی بہتری نہیں آئی بلکہ اس حوالے سے خرابی بڑھی ہے۔
معاشی طور پر بہتر معاشروں میں 2001ء سے 2016ء کے درمیان فعال لوگوں میں پانچ فیصد کی کمی دیکھنے کو ملی۔دلچسپ بات ہے کہ کم تنخواہوں والے معاشروں کی نسبت زیادہ تنخواہوں والے معاشروں میں لوگ دو گنا کم فعال ہیں۔
جسمانی سرگرمی کیا ہے ؟
سوال یہ ہے کہ جسمانی سرگرمی کا مطلب کیا ہے؟ ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کی طے کردہ تعریف کے مطابق جسمانی ڈھانچے میں موجود پٹھوں کی وہ حرکت جسمانی سرگرمی کہلائے گی جسے انجام دینے کے لئے جسم کی توانائی خرچ کرنا پڑے ۔
جسمانی سرگرمی میں وہ تمام حرکات شامل ہوتی ہیں جو کہیں آنے یا جانے کے لئے ، یا پھر کسی کام میں شرکت کے لئے انجام دی جاتی ہیں۔ اس میں وہ جسمانی سرگرمیاں بھی شامل ہیں جو تفریح کے دوران میں بھی سرانجام دی جاتی ہیں۔ جسمانی سرگرمی یا ورزش ، چاہے زیادہ مشقت بھری ہو یا پھر نسبتاً درمیانے درجے کی مشقت والی ہو، صحت کے لئے مفید ثابت ہوتی ہے۔
عام طور پر جسمانی سرگرمیوں میں پیدل چلنا ، سائیکل چلانا ، وھیلنگ ، کسی چیز کو کھینچنا یا پھر کسی چیز کو دھکا دینا ، ہر قسم کے جسمانی کھیل ، جسمانی سرگرمیوں پر مبنی تفریح کو شامل کیا جاتا ہے۔ یہ سرگرمی روزمرہ کی زندگی میں کسی بھی سطح کی ہوسکتی ہے۔
اگر اپنے جسم کو باقاعدگی کے ساتھ سرگرم رکھا جائے تو اس کے نتیجے میں انسان غیر متعدی بیماریوں مثلاً امراض قلب ، فالج ، ذیابیطس اور مختلف اقسام کے کینسر سے نہ صرف محفوظ رہتا ہے ، اگر اس قسم کی بیماریاں لاحق ہوں تو باقاعدہ جسمانی سرگرمی کے نتیجے میں ان سے نجات بھی ملتی ہے۔ اسی طرح ہائی بلڈپریشر لاحق نہیں ہوتا ، جسمانی وزن متوازن رہتا ہے، بحیثیت مجموعی جسمانی اور دماغی صحت برقرار رہتی ہے۔ الغرض یہ کہ انسان کا معیار زندگی بہتر رہتا ہے۔
جسمانی سرگرمی کس قدر ہونی چاہیے ؟
عالمی ادارہ صحت کے رہنما اصولوں اور ہدایات کے مطابق مختلف عمر کے حامل افراد کو مختلف جسمانی سرگرمیاں تجویز کی جاتی ہیں۔ ان سب سرگرمیوں کی انجام دہی کا ایک ہی مقصد ہوتا ہے کہ ان کی صحت اچھی رہے۔
پانچ سال سے کم بچوں کے لئے
ایک سال سے کم عمر بچوں کے لئے : چوبیس گھنٹوں کے دوران میں ایک سال سے کم عمر شیرخوار بچوں کے لئے ضروری ہے کہ انھیں کم از کم 30 منٹ کے لئے مختلف انداز میں، بستر اور فرش پر حرکت کرنی دی جائے۔ اس عمر میں بچوں کو سکرین کے نشے میں بالکل بھی مبتلا نہ کیا جائے یعنی موبائل ، ٹی وی ، کمپیوٹر اور لیپ ٹاپ پر دھیان نہ لگایا جائے۔
ہمارے ہاں دیکھا گیا ہے کہ مائیں بچوں کو سکرین کے مشغلے میں ڈال کر اپنی دیگر سرگرمیوں میں مصروف رہتی ہیں حالانکہ ماہرین ایک سال کی عمر تک بچوں پر سکرین ٹائم کی مکمل پابندی عائد کرتے ہیں، انھیں ٹی وی دکھایا جائے نہ ہی کوئی ویڈیو وغیرہ اور نہ ہی کمپیوٹر گیمز۔
اگر بیٹھنے کے دوران سرانجام دی جانے والی سرگرمیوں کا معاملہ ہو تو اس عمر میں بچوں کو کہانیاں سنانے یا کہانیاں پڑھنے کی ہدایت کی جاتی ہے۔
پہلے تین ماہ کی عمر میں بچے کی نیند 14 سے 17 گھنٹے ہونی چاہیے اور چار سے گیارہ ماہ کی عمر تک 12 سے 16 ماہ کی نیند ضروری ہے۔
ایک سے دو سال کی عمر تک بچوں کے لئے: اس عمر کے بچوں کے لئے ضروری ہے کہ وہ 24گھنٹوں کے دوران میں کم از کم تین گھنٹے یعنی 180 منٹ سخت یا معتدل قسم کی جسمانی سرگرمیاں سرانجام دیں۔ تین گھنٹے کی جسمانی سرگرمیوںکا مطلب یہ نہیں ہے کہ ایک ہی وقت میں ایسا کیا جائے بلکہ اسے 24گھنٹوں کے دوران میں وقفے وقفے سے سرانجام دیا جائے۔ یہ طرز عمل زیادہ مفید ہے۔ یاد رہے کہ ایک ہی وقت میں ایک گھنٹے سے زیادہ جسمانی سرگرمی سرانجام نہ دی جائے۔
اس عمر کے بچوں کے لئے بھی کہانیاں سننے اور کہانیاں پڑھنے کی سرگرمی نہایت مفید ثابت ہوتی ہے۔ انھیں 11سے 14 گھنٹوں کی نیند کرنی چاہیے۔ ان کے سونے اور جاگنے کا وقت معین ہونا چاہیے۔ دو برس کی عمر تک کے بچوں کو صرف ایک گھنٹہ تک سکرین دیکھنے کی اجازت دی جاسکتی ہے، اگر اس سے کم ہو تو زیادہ بہتر ہے۔
تین سے چارسال عمر کے بچوں کے لئے: اس عمر کے بچوں کے لئے ضروری ہے کہ وہ 24 گھنٹوں کے دوران میں کم از کم تین گھنٹے یعنی 180 منٹ مختلف قسم کی جسمانی سرگرمیاں سرانجام دیں، 60 منٹ تک معتدل جسمانی سرگرمیاں۔ اگر یہ جسمانی سرگرمیاں پورے دن میں پھیلائی جائیں تو بچے کی صحت پر زیادہ مفید اثرات مرتب ہوں گے۔ جسمانی سرگرمیاں جیسی بھی ہو ، ایک وقت میں ایک گھنٹہ سے زائد نہیں ہونی چاہئیں۔
اس عمر کے بچوں کے لئے بھی سکرین ٹائم ایک گھنٹہ سے زیادہ ہرگز نہیں ہونا چاہیے۔ زیادہ بہتر ہے کہ انھیں کہانیاں سنائی جائیں یا کہانیاں پڑھنے کی ترغیب دی جائے۔ ان کی نیند 10سے 13 گھنٹے ہونی چاہیے۔اس عمرکے بچوں کو بھی ایک وقت معین پر سونے اور جاگنے کا عادی بنانا چاہیے۔
پانچ سے سترہ سال کی عمر والوں کے لئے
اس عمر میں روزانہ کم از کم ایک گھنٹہ معتدل سے لے کر سخت ورزشکی عادت اختیار کرنی چاہیے، بالخصوص اس عمر میں ایروبک ایکسرسائز کرنی چاہیے۔ اور پورا ہفتہ ہی کرنی چاہیے۔ ہفتے میں تین دن ایسی ایروبک ایکسر سائز کرنی چاہیے جو پٹھوں اور ہڈیوں کو مضبوط کرے۔ اس عمر کے بچوں ، لڑکوں کو زیادہ وقت بیٹھ کے نہیں گزارنا چاہیے۔ اور سکرین ٹائم کے لئے کم از کم بیٹھنا چاہیے۔
18سے 64 سال کی عمر والوں کے لئے
اس عمر کے لوگوں کو ہر روز 150 سے 300 منٹ تک معتدل سے سخت ایروبک ایکسرسائز کرنی چاہیے۔ یا پھر 75سے 150 منٹ تک سخت ایروبک ایکسرسائز یا پھر اس سطح کی کوئی بھی دوسری جسمانی سرگرمی۔ معتدل اور سخت ایروبک ایکسرسائز کا بھی ایک کمبی نیشن بنایا جاسکتا ہے۔
ان لوگوں کو پٹھے مضبوط کرنے والی ورزشیں کرنی چاہئیں، ایسی ورزشیں جن کے نتیجے میں پورے جسم کے پٹھے مضبوط ہوں۔ اس قسم کی جسمانی سرگرمیاں ہفتے میں دو یا پھر اس سے زیادہ دن تک کرنی چاہئیں۔اس کے نتیجے میں صحت کے مزید فوائد حاصل ہوتے ہیں۔ اگر کم سخت جسمانی ورزش کرنی ہے تو اسے 300 منٹ سے بھی زیادہ کیا جاسکتا ہے۔
اس عمر کے لوگوں کو بھی زیادہ دیر تک نہیں بیٹھے رہنا چاہیے۔اس کے بجائے انھیں کوئی بھی ایسی سرگرمی کرنی چاہیے جس کے نتیجے میں ان کی صحت پر اچھے اثرات مرتب ہوں۔ انھیں زیادہ سے زیادہ ایسی سرگرمیاں سرانجام دینی چاہئیں۔
65 سال یا اس سے زیادہ عمر کے لوگوں کو ایسی مختلف جسمانی سرگرمیاں سرانجام دینی چاہئیں جس کے نتیجے میں ان کا توازن اور مضبوطی قائم رہے۔ انھیں ہفتے میں اس قسم کی ورزشیں تین یا اس سے زیادہ دن تک کرنی چاہئے۔
یاد رہے کہ انھیں اپنی یہ ورزشیں اپنی جسمانی استطاعت کے مطابق کرنی چاہئیں اور دھیان رکھنا چاہیے کہ وہ گرنے سے محفوظ رہیں۔
حمل کے دوران میں یا وضع حمل کے بعد
خواتین کو حمل کے دوران میں یا پھر وضع حمل کے بعد ( اگر انھیں معالج نے منع نہیں کیا تو ) پورا ہفتہ درمیانے درجے کی ایروبک ورزش کرنی چاہیے۔ انھیں مختلف قسم کی ایروبک اور پٹھوں کو مضبوط کرنے والی ورزشیں کرنی چاہئیں۔ انھیں بھی زیادہ وقت بیٹھے رہنے سے پرہیز کرنا چاہیے۔
پیچیدہ مسائل کے شکار لوگ کیا کریں ؟
ہائپر ٹینشن ، ذیابیطس ٹائپ ٹو کے مریضوں ، ایڈز اور کینسر کے بچ جانے والوں کو چاہیے کہ وہ پورا ہفتہ 150سے 300 منٹ درمیانے درجے کی سخت ، یا پھر 75سے 150 منٹ تک نسبتاً زیادہ سخت ورزش کریں۔ ہفتے میں دو یا اس سے زیادہ دن تک اپنے پورے جسم کے پٹھوں کی مضبوطی کے لئے درمیانے درجے یا پھر نسبتاً سخت ورزشیں کریں۔ بزرگوں کے لئے وہی ہدایات ہیں جو سطور بالا میں درج کی جاچکی ہیں۔
درمیانے درجے کی سخت ایروبک ورزشیں 300منٹ سے بھی زیادہ کی جاسکتی ہیں اور سخت ورزشیں 150منٹ سے بڑھائی جاسکتی ہیں۔
ان لوگوں کو بھی کم از کم بیٹھنا چاہیے۔ زیادہ تر متحرک رہنا چاہیے۔سطور بالا میں جو کچھ بتایا گیا ہے، وہ اس گروپ کے لوگوں کے لئے بھی مفید ثابت ہوگا۔ جو لوگ کسی بھی قسم کی ڈس ایبیلٹی میں مبتلا ہیں ، ان کے لئے بھی مذکورہ بالا ہدایات مفید رہیں گی۔ وہ اپنی عمر کی بنیاد پر رہنمائی حاصل کرکے زندگی گزاریں۔
باقاعدہ جسمانی سرگرمیاں مثلاً پیدل چلنے ، سائیکل چلانے ، وھیلنگ ،کسی بھی جسمانی کھیل میں شریک ہونے سے صحت کو بے شمار فوائد نصیب ہوتے ہیں۔ یاد رکھیے کہ تھوڑی سی ورزش کرنا ، بالکل وزرش نہ کرنے سے بہتر ہے۔ پورا دن زیادہ متحرک رہ کر جسمانی سرگرمیوں سے متعلق دیے گئے اہداف حاصل کیے جاسکتے ہیں۔
جو لوگ ورزش نہیں کرتے یا جسمانی طور پر زیادہ متحرک نہیں رہتے ، وہ غیر متعدی امراض مثلا امراض قلب ، کینسر اور ذیابیطس میں مبتلا ہوکر جلد موت کے گھاٹ اتر جاتے ہیں۔ سطور بالا میں بھی بتایا جاچکا ہے کہ غیر متحرک لوگ ، متحرک لوگوں کی نسبت 20سے 30فیصد جلد موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں۔
باقاعدہ جسمانی سرگرمی سے پٹھے مضبوط رہتے ہیں جبکہ دل اور پھیپھڑے بھی صحت مند اور توانا رہتے ہیں۔ ہڈیوںاور جسم کے تمام نظاموں کی صحت میں بہتری آتی ہے۔ ہائپر ٹینشن ، امراض قلب ، فالج ، ذیابیطس ، مختلف قسم کے کینسر ( بشمول چھاتی کا کینسر ، آنت کا کینسر ) اور ڈپریشن کے خطرات کم ہو جائیں گے۔
جسمانی وزن متوازن رہتا ہے اور انسان کا جسمانی توازن بھی برقرار رہتا ہے۔ وہ گرنے سے محفوظ رہتا ہے ۔ بڑی عمر میں لوگ گر جائیں تو عمومی طور پر کولھے یا ریڑھ کی ہڈی کے فریکچر کا خدشہ ہوتا ہے۔
بچوں اور بلوغت کے مرحلے میں داخل ہونے والوں کے لئے جسمانی سرگرمی نہایت مفید ثابت ہوتی ہے۔ ان کے پٹھے مضبوط ، پھیپھڑے اور دل صحت مند رہتے ہیں۔ ان کا میٹابولزم بہتر رہتا ہے۔ بلڈپریشر سے محفوظ رہتے ہیں۔ خون میں چربی اور گلوکوزکی مقدار نہیں بڑھتی۔اس عمر میں ہڈیاں زیادہ مضبوط ہونی چاہئیں۔ ورزش کے نتیجے میں لوگوںکی علمی کارکردگی میں بہتری پیدا ہوتی ہے۔ اسی طرح وہ بہتر طور پر انتظامی صلاحیت کا مظاہرہ کرتے ہیں۔
ڈپریشن کے خطرات کم ہوجاتے ہیں، یوں ان کی ذہنی صحت بہتر رہتی ہے۔ اور سب سے بڑی بات کہ وہ موٹاپے کی طرف نہیں مائل نہیں ہوتے۔ آپ جانتے ہی ہیں کہ موٹاپا بہت سی بیماریوں کی ماں ہے۔ ایک اہم بات یہ بھی ہے کہ ورزش کرنے والے لوگ کم خوابی کے شکار نہیں ہوتے بلکہ مزے کی نیند کرتے ہیں۔
ماہرین کی ہدایت کے مطابق جسمانی ورزش کرنے سے حاملہ خواتین اور وضع حمل سے فارغ ہونے والی مائیں بھی بے شمار فوائد حاصل کرتی ہیں۔
مثلاً حاملہ خواتین بلند فشار خون اور ذیابیطس میں مبتلا نہیں ہوتی ہیں۔ ذیابیطس کے خطرات 30فیصد کم ہوجاتے ہیں۔ ظاہر ہے کہ ورزش موٹاپا بھی نہیں ہونے دیتی۔ ایک اہم ترین بات یہ ہے کہ وضع حمل کے دوران میں پیچیدگیاں درپیش نہیں ہوتیں۔ اسی طرح مائیں وضع حمل کے بعد ڈپریشن سے بھی محفوظ رہتی ہیں۔
آج کے دور میں پہلے کی نسبت زیادہ فعال ہونا ، ورزش کی طرف مائل ہونا ضروری ہوچکا ہے کیونکہ پیچیدہ بیماریاں نوجوانوں کو قابو کر رہی ہیں۔ میڈیکل رپورٹس اور رائے عامہ کے جائزے بتاتے ہیں کہ نوجوانوں میں بھی ایسی بیماریاں تیزی سے پھیل رہی ہیں جو عموماً بڑھاپے میں لاحق ہوتی تھیں۔ ان بیماریوں سے بچنے کا واحد راستہ ہے کہ صحت مند طرز زندگی کے لئے بہتر حکمت عملی اختیار کی جائے۔