نظریہ ضرورت بمقابلہ قانون کی حکمرانی
خود شفاف ٹرائل کسی ملزم کا بنیادی حق ہے میں اس بحث میں نہیں الجھوں گا کیونکہ اس صفحے پر پہلے ہی بہت کچھ لکھ چکا ہوں۔
مشرف کے ٹرائل میں کیا ہو رہا ہے، مشرف ملزم تھے۔ جب ملزم ٹھہرے تو Rule of Law کہتا ہے وہ عام آدمی ٹھہرے، ایک ایسا مقام جہاں شہنشاہ و گداگر میں فرق ختم ہوجاتا ہے۔ کیونکہ قانون سب کو ایک آنکھ سے دیکھتا ہے۔ ایک طرف تو یہ انتہا تھی کہ سزا نااہل ہونے کی پانچ سال تک ہے مگر انھیں ساری عمر الیکشن میں کھڑے ہونے سے نااہل قرار دے دیا گیا۔ اور دوسری طرف یہ بھی ہوا کہ وہ ایک ایسے جرم کے ملزم ہیں جس کی سزا ابھی نہیں ملی۔
وہ چاہے آئین سے غداری کا جرم ہو یا بے نظیر بھٹو کے قتل کا یا نواب اکبر بگٹی کے قتل کا مگر سلاخیں ان کو نصیب نہیں ہوئیں، بھٹو کی طرح چار بائی چار کی کوٹھڑی میں رہنا نہیں پڑا۔ رہے اسپتال تو اسپتال کو قلعہ بنادیا گیا۔ رہے محل نما اپنے گھر میں تو گھر کو سب جیل بنا دیا گیا اور اب یہ خبریں ہیں کہ وہ گھر سب اسپتال بن گیا ہے۔ ہاتھی زندہ تو ایک لاکھ کا اور مر جائے تو سوا لاکھ کا۔ مطلب یہ کہ وہ اب بھی کہیں سے اپنی طاقت لے رہے ہیں۔ اور جو اپنی طاقت عوام سے لیتے ہیں وہ بھٹو کی طرح سولی پر لٹک جایا کرتے ہیں۔
بات اتنی سلیس بھی نہیں کہ جو بلیک اینڈ وائٹ کرکے پیش بھی کی جاسکے۔ آئین سے غداری والا ٹرائل بہت ہی غیر منطقی انداز میں ان پر صادر کیا گیا۔ اور یہ تھی مشرف صاحب کے لیے غنیمت، وہ اس پر خوب کھیلے۔ ان کو ایک خاص ٹریبونل 1976 کے قانون کے مطابق، جو قانون اس وقت آرٹیکل چھ کے اطلاق کا طریقہ کار کے لیے بنایا گیا تھا، جس کے تحت اس سے پہلے کسی پر غداری کا مقدمہ نہیں چلایا گیا تھا۔ جب کہ اٹھارویں ترمیم کے بعد آرٹیکل چھ کی پوری ماہیت تبدیل ہوگئی اور آرٹیکل چھ کی شق نمبر تین کہتی ہے کہ پارلیمنٹ آرٹیکل چھ کے اطلاق کے لیے نیا قانون وضع کرے گی، پھر خود بخود 1976 کا قانون اڑ گیا۔
جو دوست یہ کہتے ہیں کہ اٹھارویں ترمیم کے بعد والا آرٹیکل چھ لاگو نہیں ہوگا، اس لیے کہ تین نومبر والا جرم اس سے پہلے ہوا ہے۔ میرے ان دوستوں کے لیے عرض یہ ہے کہ آرٹیکل 270AA بھی پڑھ لیں جو بھی اٹھارویں ترمیم کے بعد آئین کا حصہ بنایا گیا ہے، وہ تو 12 اکتوبر کے آئے ہوئے کو بھی Naked چھوڑ دیتا ہے یعنی سترہویں ترمیم کے تحت جو Immunity اس اقدام کو حاصل تھی وہ ختم کردیتا ہے بلکہ وہ جو ظفر علی شاہ کیس کے تحت مشرف کو Immunity ملی وہ بھی کھلے الفاظ میں ختم کردیتا ہے۔
اور سب سے بڑی بات اٹھارویں ترمیمی آرٹیکل 10A کو آئین کا حصہ بناکر جو کارنامہ انجام دیتی ہے، وہ آزاد و شفاف ٹرائل کو یقینی بنا دیتی ہے۔ اس کے لیے لیکن پارلیمنٹ اب بھی کوئی طریقہ کار ایکٹ کی صورت میں نہیں دے سکی یا دوسرے الفاظ میں یہ کام کوئی بھی حکومت آسانی سے کرسکتی ہے، اس لیے کہ کسی بھی ایکٹ پاس کرنے کے لیے دو تہائی اکثریت کی نہیں بلکہ ایک آرڈنری قرارداد کے ذریعے پاس کرسکتی ہے، اور جب تک یہ ہو تو پریشانی کی کوئی بات نہیں۔
شفاف و آزاد مقدمہ یا ٹرائل آج ایک سائنس بن چکا ہے۔ پوری دنیا Strausberg کورٹ کی Jurisprudence پر نگاہیں ڈال کر بیٹھی ہے۔ خود ہندوستان اس کی Jurisprudence سے سیکھتی ہوئی نظر آرہی ہے۔ اسٹراسبرگ کی ہر کورٹ یورپین کنونشن آف ہیومن رائٹس کے 1950 کے ڈکلیئریشن کے تحت یورپ کے بہت سارے ممالک نے اکٹھے بنائی تھی۔ یعنی ان ممالک کے کورٹ کے فیصلے اگر انسانی حقوق کے پیمانے پورے نہیں کرسکے تو ایسے فیصلے سے متاثر شخص اسے یورپین کورٹ آف ہیومن رائٹس میں یعنی اسٹراسبرگ کورٹ میں چیلنج کرسکتا ہے۔ جس کا فیصلہ خود اس ملک کی سپریم کورٹ پر بھی لاگو ہوتا ہے۔
خود شفاف ٹرائل کسی ملزم کا بنیادی حق ہے۔ میں اس بحث میں یہاں نہیں الجھوں گا کیونکہ میں اس صفحے پر پہلے ہی بہت کچھ لکھ چکا ہوں۔ صرف یہ کہتا چلوں کہ آپ نے ایک بادشاہ قبیلے کے فرد کے انسانی حقوق مجروح کیے تو پھر یاد رکھیں وہ عام آدمی نہیں، وہ آپ کی اس غلطی پر آپ کے گلے پڑ جائے گا اور یہی ہوا ۔ ٹرائل متنازع ہوا۔ کیا ضرورت تھی سپریم کورٹ سے پوچھنے کی، یہ استحقاق حکومت کا تھا وہ آرٹیکل 10-A، آرٹیکل 6(3) و آرٹیکل 270-AA کے تناظر میں ایکٹ پاس کرتی اور اس طرح Rule of Law کے تقاضے پورے کرتے آرڈنری کورٹ میں ٹرائل چلاتی تاکہ ملزم کے دو اپیلوں کے حقوق بھی محفوظ رہتے اور وہ بھی نہ بچ سکتے جو اس جرم میں معاونت کرنے کے حوالے سے ملوث تھے۔
کہنے والے تو یہ بھی کہیں گے کہ جب آپ طالبان کے پکڑے ہوئے لوگوں کو خیرسگالی کا پیغام دینے کے حوالے سے انھیں رہا کر رہے ہیں اور دوسری طرف اس شخص پر غداری کا مقدمہ چلا رہے ہیں جو لال مسجد والوں کو بہت خوش کرتا ہے اور اس شخص کو پراسیکیوٹر کر رہے ہیں جو بھی متنازع ٹھہرا کیونکہ کریمنل پروسیجر کے تحت پراسیکیوٹر پبلک انٹرسٹ کو لے کر چلتا ہے نہ کہ حکومت کی ہر غلط بات کو بھی۔ اس کے برعکس ملزم کے وکیل کو ہر جگہ اپنے Client کے حقوق کا دفاع بھی کرنا ہوتا ہے تو کورٹ کی معاونت بھی۔
اور اب بات آئی ہے ECL کی۔ وہ کہتے ہیں انھوں نے ECL میں نام ڈالا ہے، یہ کہتے ہیں انھوں نے ECL میں نام ڈالا ہے۔ عجب رنگ ہیں اب کے بہار گزری ہے۔
حقانی صاحب کو بہرحال ملک سے جانے دیا گیا۔ لیکن وہ آئے ضرور تھے اپنے اوپر لگی غداری کے چارج کا سامنا کرنے کے لیے۔ میموگیٹ اسکینڈل میں سے نکلا کچھ نہیں۔
حکومت کو مشرف صاحب نے درخواست کیوں بھیجی کہ وہ ان کا نام ECL سے خارج کرے۔ کیونکہ یہ ٹھیک ہے کہ ان کا نام ECL میں حکومت نے ڈالا اور پھر سپریم کورٹ نے اس پر اپنا ٹھپہ لگایا، یعنی ECL میں ان کو نام Executive Order کے تحت بھی تو Judicial Order کے تحت بھی۔ جب حکومت کو درخواست کی تو وہاں زلزلہ آگیا۔ خیر زلزلے سے تو حکومت درخواست رد کرکے اپنے آپ کو بچاسکی۔ اب یہ بال سپریم کورٹ کے پاس ہے۔ اس سے پہلے ٹریبونل کورٹ نے یہ کہا کہ ہم نہیں جانتے کہ وہ ECL میں ہیں یا نہیں، جو یہ جانتے ہیں ان کے پاس جائیے۔ بظاہر یہ عام رواجی سے بات ہے کہ مشرف کا نام ECL میں ہے ۔ ECL میں نام آتے اور جاتے رہتے ہیں، ان پل دو پل کے دھندوں میں۔
اب ہم دوبارہ ایک دوراہے پر کھڑے ہیں، ہم چاہتے ہیں کہ ہم یہ باور کروائیں کہ یہاں قانون کی حکمرانی ہے تو ایک ایسا راستہ اختیار کرنا ہوگا جو درمیانہ ہو۔ جنرل مشرف کو اپنی 93 سالہ ماں جوکہ اسپتال داخل ہوچکی ہے، اس سے ملنے کا حق ہے۔ مگر اس کی گارنٹی دبئی کی حکومت سے مانگی جائے کہ وہ اپنی والدہ سے ملنے کے بعد واپس وطن آسکیں اور مختلف ٹرائل کا سامنا کرسکیں اور اگر قانون کی حکمرانی نہیں رہی تو یہ پھر کسی کے بھی حق میں نہیں ہوگا۔
وہ چاہے آئین سے غداری کا جرم ہو یا بے نظیر بھٹو کے قتل کا یا نواب اکبر بگٹی کے قتل کا مگر سلاخیں ان کو نصیب نہیں ہوئیں، بھٹو کی طرح چار بائی چار کی کوٹھڑی میں رہنا نہیں پڑا۔ رہے اسپتال تو اسپتال کو قلعہ بنادیا گیا۔ رہے محل نما اپنے گھر میں تو گھر کو سب جیل بنا دیا گیا اور اب یہ خبریں ہیں کہ وہ گھر سب اسپتال بن گیا ہے۔ ہاتھی زندہ تو ایک لاکھ کا اور مر جائے تو سوا لاکھ کا۔ مطلب یہ کہ وہ اب بھی کہیں سے اپنی طاقت لے رہے ہیں۔ اور جو اپنی طاقت عوام سے لیتے ہیں وہ بھٹو کی طرح سولی پر لٹک جایا کرتے ہیں۔
بات اتنی سلیس بھی نہیں کہ جو بلیک اینڈ وائٹ کرکے پیش بھی کی جاسکے۔ آئین سے غداری والا ٹرائل بہت ہی غیر منطقی انداز میں ان پر صادر کیا گیا۔ اور یہ تھی مشرف صاحب کے لیے غنیمت، وہ اس پر خوب کھیلے۔ ان کو ایک خاص ٹریبونل 1976 کے قانون کے مطابق، جو قانون اس وقت آرٹیکل چھ کے اطلاق کا طریقہ کار کے لیے بنایا گیا تھا، جس کے تحت اس سے پہلے کسی پر غداری کا مقدمہ نہیں چلایا گیا تھا۔ جب کہ اٹھارویں ترمیم کے بعد آرٹیکل چھ کی پوری ماہیت تبدیل ہوگئی اور آرٹیکل چھ کی شق نمبر تین کہتی ہے کہ پارلیمنٹ آرٹیکل چھ کے اطلاق کے لیے نیا قانون وضع کرے گی، پھر خود بخود 1976 کا قانون اڑ گیا۔
جو دوست یہ کہتے ہیں کہ اٹھارویں ترمیم کے بعد والا آرٹیکل چھ لاگو نہیں ہوگا، اس لیے کہ تین نومبر والا جرم اس سے پہلے ہوا ہے۔ میرے ان دوستوں کے لیے عرض یہ ہے کہ آرٹیکل 270AA بھی پڑھ لیں جو بھی اٹھارویں ترمیم کے بعد آئین کا حصہ بنایا گیا ہے، وہ تو 12 اکتوبر کے آئے ہوئے کو بھی Naked چھوڑ دیتا ہے یعنی سترہویں ترمیم کے تحت جو Immunity اس اقدام کو حاصل تھی وہ ختم کردیتا ہے بلکہ وہ جو ظفر علی شاہ کیس کے تحت مشرف کو Immunity ملی وہ بھی کھلے الفاظ میں ختم کردیتا ہے۔
اور سب سے بڑی بات اٹھارویں ترمیمی آرٹیکل 10A کو آئین کا حصہ بناکر جو کارنامہ انجام دیتی ہے، وہ آزاد و شفاف ٹرائل کو یقینی بنا دیتی ہے۔ اس کے لیے لیکن پارلیمنٹ اب بھی کوئی طریقہ کار ایکٹ کی صورت میں نہیں دے سکی یا دوسرے الفاظ میں یہ کام کوئی بھی حکومت آسانی سے کرسکتی ہے، اس لیے کہ کسی بھی ایکٹ پاس کرنے کے لیے دو تہائی اکثریت کی نہیں بلکہ ایک آرڈنری قرارداد کے ذریعے پاس کرسکتی ہے، اور جب تک یہ ہو تو پریشانی کی کوئی بات نہیں۔
شفاف و آزاد مقدمہ یا ٹرائل آج ایک سائنس بن چکا ہے۔ پوری دنیا Strausberg کورٹ کی Jurisprudence پر نگاہیں ڈال کر بیٹھی ہے۔ خود ہندوستان اس کی Jurisprudence سے سیکھتی ہوئی نظر آرہی ہے۔ اسٹراسبرگ کی ہر کورٹ یورپین کنونشن آف ہیومن رائٹس کے 1950 کے ڈکلیئریشن کے تحت یورپ کے بہت سارے ممالک نے اکٹھے بنائی تھی۔ یعنی ان ممالک کے کورٹ کے فیصلے اگر انسانی حقوق کے پیمانے پورے نہیں کرسکے تو ایسے فیصلے سے متاثر شخص اسے یورپین کورٹ آف ہیومن رائٹس میں یعنی اسٹراسبرگ کورٹ میں چیلنج کرسکتا ہے۔ جس کا فیصلہ خود اس ملک کی سپریم کورٹ پر بھی لاگو ہوتا ہے۔
خود شفاف ٹرائل کسی ملزم کا بنیادی حق ہے۔ میں اس بحث میں یہاں نہیں الجھوں گا کیونکہ میں اس صفحے پر پہلے ہی بہت کچھ لکھ چکا ہوں۔ صرف یہ کہتا چلوں کہ آپ نے ایک بادشاہ قبیلے کے فرد کے انسانی حقوق مجروح کیے تو پھر یاد رکھیں وہ عام آدمی نہیں، وہ آپ کی اس غلطی پر آپ کے گلے پڑ جائے گا اور یہی ہوا ۔ ٹرائل متنازع ہوا۔ کیا ضرورت تھی سپریم کورٹ سے پوچھنے کی، یہ استحقاق حکومت کا تھا وہ آرٹیکل 10-A، آرٹیکل 6(3) و آرٹیکل 270-AA کے تناظر میں ایکٹ پاس کرتی اور اس طرح Rule of Law کے تقاضے پورے کرتے آرڈنری کورٹ میں ٹرائل چلاتی تاکہ ملزم کے دو اپیلوں کے حقوق بھی محفوظ رہتے اور وہ بھی نہ بچ سکتے جو اس جرم میں معاونت کرنے کے حوالے سے ملوث تھے۔
کہنے والے تو یہ بھی کہیں گے کہ جب آپ طالبان کے پکڑے ہوئے لوگوں کو خیرسگالی کا پیغام دینے کے حوالے سے انھیں رہا کر رہے ہیں اور دوسری طرف اس شخص پر غداری کا مقدمہ چلا رہے ہیں جو لال مسجد والوں کو بہت خوش کرتا ہے اور اس شخص کو پراسیکیوٹر کر رہے ہیں جو بھی متنازع ٹھہرا کیونکہ کریمنل پروسیجر کے تحت پراسیکیوٹر پبلک انٹرسٹ کو لے کر چلتا ہے نہ کہ حکومت کی ہر غلط بات کو بھی۔ اس کے برعکس ملزم کے وکیل کو ہر جگہ اپنے Client کے حقوق کا دفاع بھی کرنا ہوتا ہے تو کورٹ کی معاونت بھی۔
اور اب بات آئی ہے ECL کی۔ وہ کہتے ہیں انھوں نے ECL میں نام ڈالا ہے، یہ کہتے ہیں انھوں نے ECL میں نام ڈالا ہے۔ عجب رنگ ہیں اب کے بہار گزری ہے۔
حقانی صاحب کو بہرحال ملک سے جانے دیا گیا۔ لیکن وہ آئے ضرور تھے اپنے اوپر لگی غداری کے چارج کا سامنا کرنے کے لیے۔ میموگیٹ اسکینڈل میں سے نکلا کچھ نہیں۔
حکومت کو مشرف صاحب نے درخواست کیوں بھیجی کہ وہ ان کا نام ECL سے خارج کرے۔ کیونکہ یہ ٹھیک ہے کہ ان کا نام ECL میں حکومت نے ڈالا اور پھر سپریم کورٹ نے اس پر اپنا ٹھپہ لگایا، یعنی ECL میں ان کو نام Executive Order کے تحت بھی تو Judicial Order کے تحت بھی۔ جب حکومت کو درخواست کی تو وہاں زلزلہ آگیا۔ خیر زلزلے سے تو حکومت درخواست رد کرکے اپنے آپ کو بچاسکی۔ اب یہ بال سپریم کورٹ کے پاس ہے۔ اس سے پہلے ٹریبونل کورٹ نے یہ کہا کہ ہم نہیں جانتے کہ وہ ECL میں ہیں یا نہیں، جو یہ جانتے ہیں ان کے پاس جائیے۔ بظاہر یہ عام رواجی سے بات ہے کہ مشرف کا نام ECL میں ہے ۔ ECL میں نام آتے اور جاتے رہتے ہیں، ان پل دو پل کے دھندوں میں۔
اب ہم دوبارہ ایک دوراہے پر کھڑے ہیں، ہم چاہتے ہیں کہ ہم یہ باور کروائیں کہ یہاں قانون کی حکمرانی ہے تو ایک ایسا راستہ اختیار کرنا ہوگا جو درمیانہ ہو۔ جنرل مشرف کو اپنی 93 سالہ ماں جوکہ اسپتال داخل ہوچکی ہے، اس سے ملنے کا حق ہے۔ مگر اس کی گارنٹی دبئی کی حکومت سے مانگی جائے کہ وہ اپنی والدہ سے ملنے کے بعد واپس وطن آسکیں اور مختلف ٹرائل کا سامنا کرسکیں اور اگر قانون کی حکمرانی نہیں رہی تو یہ پھر کسی کے بھی حق میں نہیں ہوگا۔