درویشنی کی موت…
مارنے والے بھول گئے تھے کہ وہ اپنے نام پروین رحمن کا استعارہ تھیں
سب ہی مرجاتے ہیں کہ ہر ذی روح کا انجام ہوتا ہے، وہ بھی کہ جو پوری زندگی دولت کی ہوس میں مبتلا رہتے ہیں حتیٰ کہ قبروں تک پہنچ جاتے ہیں اور وہ بھی کہ جو حق اور انصاف کی جنگ لڑتے ہوئے جان وار دیتے ہیں۔ پروین رحمان کا شمار ان ہی لوگوں میں ہوتا ہے جنھوں نے انسانیت کی بقا کی خاطر موت کو گلے لگایا۔ لیکن وہ مری نہیں ماری گئی تھیں اور ان کا قصور یہ تھا کہ وہ کچی آبادی کے غریب مگر عزت دار مکینوں کے حقوق کے لیے نہ صرف مختلف قسم کے مافیا گروپوں کے سامنے سینہ سپر تھیں بلکہ انھیں ''اپنی مدد آپ'' کے اصول کے تحت جینا اور زندگی برتنا سکھا رہی تھیں۔
بالآخر تیرہ مارچ 2013 کو بزدل نقاب پوشوں نے فائرنگ کرکے ان کی جان لے لی۔ پروین نے جان کی بازی تو ہار دی مگر ساتھ ہی ظلم کے خلاف اپنے پیغام کی ہزاروں مشعلیں روشن کردیں۔
پروین رحمن کون؟
پروین رحمن، ملک کی مشہور سماجی ورکر ہونے کے ساتھ ساتھ ہر دلعزیز اور مثالی استاد بھی تھیں۔ وہ پاکستان کے سب سے کامیاب نان پرافٹ (غیر منافع بخش) ادارے ''اورنگی پائیلٹ پروجیکٹ (OPP)'' کی سربراہ تھیں کہ جو کراچی کے شمال مغرب علاقے میں واقع کچی آبادی اورنگی ٹاؤن کے پندرہ لاکھ مکینوں کی معاشی تعمیراتی اور سینٹری منصوبوں میں تعاون کرتا ہے۔ واضح ہو کہ یہ جنوب مغربی ایشیا کی سب سے بڑی کچی آبادی (مسلم علاقہ) ہے۔ اپنی مدد آپ کے اصولوں پر عمل پیرا، ان گھروں کے مکینوں نے او پی پی کے تعاون سے زیر زمین سیوریج لائنیں، گھروں میں لیٹرین (بیت الخلا) بنانے کے علاوہ حکومت اور عوام کے باہمی تعاون سے علاقے میں 650 پرائیویٹ اسکولز، سات سو میڈیکل کلینکس اور چالیس ہزار گھریلو سطح پر ہونے والے کاروبار نے بھی فروغ پایا کہ جس کی وجہ سے اورنگی ٹاؤن کے ساٹھ فیصد افراد اپنی کفالت میں خود پر انحصار کرنے کے قابل ہوئے۔ پروین اپنے تجربے کی بنا پر اورنگی ٹاؤن کے مکینوں کو ''مثالی لوگ'' قرار دیتی تھیں۔ وہ اس ادارے اوپی پی سے 1982 سے وابستہ تھیں۔
1957 میں ڈھاکہ، سابق مشرقی پاکستان (موجودہ بنگلہ دیش) میں پیدا ہونے والی پروین 1970 میں سقوط ڈھاکہ کے سانحے کے وقت اپنے والدین اور بہن بھائیوں کے ہمراہ کراچی منتقل ہوئیں۔ سقوط ڈھاکہ سے منسلک آلام اور ہجرت کے دکھ جھیلنے والی پروین نے کراچی آنے کے بعد مزید تعلیم کا سلسلہ جاری رکھا اور داؤد کالج آف انجینئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی سے گریجویشن کیا۔ یہ سال تھا 1981 کا۔جس کے بعد انھوں نے انسٹیٹیوٹ آف ہاؤسنگ اسٹڈیز ان روٹرڈیم سے ہاؤسنگ، تعمیرات اور شہری منصوبہ بندی میں پوسٹ گریجویٹ کیا اور پھر تعلیم کے بعد ایک بہت بڑی فرم میں نوکری شروع کی۔ تاہم جلد ہی انھیں اندازہ ہوگیا کہ ان کے کام کی ضرورت بڑی فرموں کے بجائے غریب عوام کو ہے کہ جن کی آواز حکومت کے اونچے ایوانوں تک نہیں پہنچتی۔ چند ہی ماہ میں اس نوکری کو چھوڑ کر پروین نے بین الاقوامی شہرت کے حامل مشہور سوشل ورکر ڈاکٹر اختر حمید خان کے ادارے اورنگی پائیلٹ پروجیکٹ میں شمولیت اختیار کرلی۔
نوبل پرائز نامزد اختر حمید خان (1914-1999) کا کام پاکستان کی تاریخ میں دیہی علاقوں کے ترقیاتی منصوبوں کے حوالے سے پوری دنیا میں احترام سے لیا جاتا ہے۔ ان کا اہم حوالہ شہرہ آفاق کو میلا رولر اکیڈمی(بنگلہ دیش کے وجود سے قبل) اور کومیلا پروجیکٹ سے ان کی پیش کی ہوئی مائیکرو کریڈٹ اسکیم نے غربت کے خاتمے کے لیے دنیا بھر میں مقبولیت کی سند حاصل کی۔ بلاشبہ ایسا شخص جس کا دل غریبوں کے لیے دھڑکتا ہے پروین کو اپنے کام میں شریک کیوں نہ کرتا؟ اختر حمید خان کے اوپی پی کے تحت لوگ اپنی مدد آپ کے اصولوں کے تحت اپنی حالت بدلتے ہیں جو آج کل کی نام نہاد بین الاقوامی امداد پر چلنے والی عطیاتی این جی اوز سے مختلف ہے۔ اوپی پی کی حکمت عملی کو استعمال کرتے ہوئے لوگوں نے اپنے علاقوں کی سیوریج لائنیں خود کھودیں، پانی کی لائنیں ڈالیں، اسکول اورکلینک قائم کیے اور بزنس چلائے تاکہ قرضے کے بجائے اپنے پیروں پر کھڑے ہوکر قرضوں سے آزاد ہوں۔
پروین رحمن نے 1982 میں اورنگی پائلٹ پروجیکٹ میں شمولیت اختیارکی۔ اختر حمید خان نے ان کی جانفشانی، دردمندی اور فرض شناسی کو دیکھتے ہوئے ادارے کا جوائنٹ ڈائریکٹر بنایا ان کے سپرد ہاؤسنگ اور سینی ٹیشن کے پروگرامز تھے۔
1988 میں اوپی پی مزید چار آرگنائزیشن میں منقسم ہوگئی جس کے بعد پروین اورنگی پائیلٹ پروجیکٹ ریسرچ اینڈ ٹریننگ انسٹیٹیوٹ کی ڈائریکٹر بنادی گئیں۔ ان کی نگرانی میں تعلیم، نوجوانوں کے تربیتی کورسز، پانی کی سپلائی اور محفوظ گھروں کے منصوبے تھے۔
1999 میں ڈاکٹر اختر حمید خان کے انتقال کے بعد پروین جیسی فرض شناس اور قابل ہستی کو پورے ادارے کی نگرانی سونپ دی گئی۔
ویسے تو اورنگی بستی 1960 میں قائم ہوئی لیکن 1981 اور 1982 میں بنگلہ دیش بننے کے بعد وہاں سے آنے والے مہاجرین کی وجہ سے بستی کے مکینوں کی تعداد میں خاطرخواہ اضافہ ہوا۔ کراچی کے شمال مغربی علاقے میں واقع ایک سو تیرہ محلہ بستیوں پر مشتمل اورنگی ٹاؤن میں مختلف علاقائی گروپس مثلاً پٹھان، بلوچ، مہاجر، بہاری اور پنجابی بستے ہیں۔ تین دہائیوں سے اس علاقے میں ہمہ تن کام کرنے والی پروین رحمن نے ان مختلف لسانی و علاقائی گروپس کے درمیان اختلافات کو کم کرنے میں مدد دی۔
پروین کا قصور کیا تھا؟ کسی بھی ایسے سماج میں جہاں بدعنوانی، لاقانونیت اور حق تلفی کا راج ہو، سماجی انصافی کے حصول اور حق کی علمبرداری کی اجلی صبح کا خواب دیکھنا ہی سب سے بڑا قصور ہے۔ حالیہ پاکستان میں وقت گواہ ہے کہ نجانے کتنے ہی ماہ و خورشید ان خوابوں پر وارے جاچکے ہیں۔پروین رحمن بھی ایسے ہی خوابوں کی صورت گر تھیں۔ پروین کا قصور محض یہی نہ تھا کہ بطور سماجی کارکن وہ جانفشانی سے اورنگی کے مکینوں کے ترقیاتی منصوبوں سے وابستہ تھیں بلکہ یہ بھی تھا کہ بطور مثالی استاد وہ سماج کے افراد کی تعلیمی اور فکری تربیت میں مصروف تھیں کہ کس طرح اعداد و شمار جمع ہوتے ہیں اور دستاویزات تیار ہوتی ہیں۔ کس طرح اپنے جائز حقوق کے لیے شواہد اکٹھے کیے جاتے ہیں۔ یہ حقوق اراضی (زمین) اور پانی جیسی ضروری نعمت کے تھے جو گھروں میں تقسیم کیا جاتا ہے۔ لیکن کس طرح قبضہ گروپ اس حق کو چھینتے ہیں۔
بطور تحقیق دان انھوں نے الزام تراشی کے بجائے تحقیقاتی مطالعہ اور مشاہدہ کیا تاکہ اصل صورتحال سامنے آئے ظاہر ہے کہ یہ کام جرائم پیشہ لینڈ مافیا (زمین چھیننے والوں) اور واٹر مافیا (پانی چوری کرنے والے) کے حق میں نہیں جاتا تھا۔ اس کام کا مقصد کروڑوں روپوں کا نقصان تھا کہ جس میں سیاسی جماعتوں کے آلہ کار، قانونی اداروں کو نافذ کرنے والوں کے ساتھ برابر سے شریک تھے۔ اپنی موت کے وقت وہ پانچ سو گوٹھوں (دیہاتوں) کے متعلق انتہائی محنت سے اعداد و شمار اکٹھے کر رہی تھیں۔ ان کی تحقیق سے وہ چہرے ننگے ہوتے جو زمینوں پر قبضہ کرکے من مانے داموں دوسری کاروباری پارٹیوں کو بیچ دیتے ہیں۔ ان کے ریکارڈ کے مطابق گزشتہ پندرہ سالوں کے عرصے میں پندرہ سو گوٹھ (نواحی بستیاں) جو کراچی کے نواح میں واقع تھیں شہر میں ملحق ہوچکی ہیں۔ لینڈ مافیا ان کو پلاٹوں میں تقسیم کرکے کروڑوں روپے کماتے ہیں۔ یہ اراضی ان کے جائز مالکوں سے جعلی کاغذات بناکر قبضہ کرلی جاتی ہیں۔ پروین نہ صرف اپنے دفتر میں یہ تحقیقی کام کرتی تھیں بلکہ ان علاقوں کا دورہ بھی کرتی تھیں۔
اس کے علاوہ وہ ٹینکر مافیا کی بھی اتنی ہی مخالف تھیں جو ٹیوب ویلز اور پائپ کا پانی کم آمدنی والی بستیوں سے چرا کر ان ہی لوگوں میں واٹر ٹینکر کی صورت بیچ رہے تھے۔ پروین نے اس سے متعلق شواہد جمع کیے اور اس بدعنوانی کی تصدیق کی کہ جس کے سبب سے پانی کی مصنوعی قلت کی جا رہی تھی۔ ان مافیا گروپوں کو مختلف سیاسی جماعتوں کی پشت پناہی حاصل تھی۔
مارنے والے بھول گئے تھے کہ وہ اپنے نام پروین رحمن کا استعارہ تھیں ''ستاروں کے جھرمٹ کا نور'' جو تمام انسانیت پہ یکساں اترا یہ نور اس ''درویشنی'' نے اس طرح بانٹا کہ ان کو چاہنے والے تو ان کی محبت شفقت اور دانائی کے نور کو روئیں گے ہی مگر وہ بھی سر پکڑ کر اپنی شکست پہ نوحہ کناں ہوں گے کہ جنھوں نے بزدلی سے ان کی موت کا سامان کیا۔ کیونکہ خاکی جسم کی موت سے اس کا نور فنا نہیں ہوتا بلکہ اس کی شعاعوں کا اثر مزید پھیل جاتا ہے۔ دور بہت دور تک حق و انصاف کی تلاش میں۔
بالآخر تیرہ مارچ 2013 کو بزدل نقاب پوشوں نے فائرنگ کرکے ان کی جان لے لی۔ پروین نے جان کی بازی تو ہار دی مگر ساتھ ہی ظلم کے خلاف اپنے پیغام کی ہزاروں مشعلیں روشن کردیں۔
پروین رحمن کون؟
پروین رحمن، ملک کی مشہور سماجی ورکر ہونے کے ساتھ ساتھ ہر دلعزیز اور مثالی استاد بھی تھیں۔ وہ پاکستان کے سب سے کامیاب نان پرافٹ (غیر منافع بخش) ادارے ''اورنگی پائیلٹ پروجیکٹ (OPP)'' کی سربراہ تھیں کہ جو کراچی کے شمال مغرب علاقے میں واقع کچی آبادی اورنگی ٹاؤن کے پندرہ لاکھ مکینوں کی معاشی تعمیراتی اور سینٹری منصوبوں میں تعاون کرتا ہے۔ واضح ہو کہ یہ جنوب مغربی ایشیا کی سب سے بڑی کچی آبادی (مسلم علاقہ) ہے۔ اپنی مدد آپ کے اصولوں پر عمل پیرا، ان گھروں کے مکینوں نے او پی پی کے تعاون سے زیر زمین سیوریج لائنیں، گھروں میں لیٹرین (بیت الخلا) بنانے کے علاوہ حکومت اور عوام کے باہمی تعاون سے علاقے میں 650 پرائیویٹ اسکولز، سات سو میڈیکل کلینکس اور چالیس ہزار گھریلو سطح پر ہونے والے کاروبار نے بھی فروغ پایا کہ جس کی وجہ سے اورنگی ٹاؤن کے ساٹھ فیصد افراد اپنی کفالت میں خود پر انحصار کرنے کے قابل ہوئے۔ پروین اپنے تجربے کی بنا پر اورنگی ٹاؤن کے مکینوں کو ''مثالی لوگ'' قرار دیتی تھیں۔ وہ اس ادارے اوپی پی سے 1982 سے وابستہ تھیں۔
1957 میں ڈھاکہ، سابق مشرقی پاکستان (موجودہ بنگلہ دیش) میں پیدا ہونے والی پروین 1970 میں سقوط ڈھاکہ کے سانحے کے وقت اپنے والدین اور بہن بھائیوں کے ہمراہ کراچی منتقل ہوئیں۔ سقوط ڈھاکہ سے منسلک آلام اور ہجرت کے دکھ جھیلنے والی پروین نے کراچی آنے کے بعد مزید تعلیم کا سلسلہ جاری رکھا اور داؤد کالج آف انجینئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی سے گریجویشن کیا۔ یہ سال تھا 1981 کا۔جس کے بعد انھوں نے انسٹیٹیوٹ آف ہاؤسنگ اسٹڈیز ان روٹرڈیم سے ہاؤسنگ، تعمیرات اور شہری منصوبہ بندی میں پوسٹ گریجویٹ کیا اور پھر تعلیم کے بعد ایک بہت بڑی فرم میں نوکری شروع کی۔ تاہم جلد ہی انھیں اندازہ ہوگیا کہ ان کے کام کی ضرورت بڑی فرموں کے بجائے غریب عوام کو ہے کہ جن کی آواز حکومت کے اونچے ایوانوں تک نہیں پہنچتی۔ چند ہی ماہ میں اس نوکری کو چھوڑ کر پروین نے بین الاقوامی شہرت کے حامل مشہور سوشل ورکر ڈاکٹر اختر حمید خان کے ادارے اورنگی پائیلٹ پروجیکٹ میں شمولیت اختیار کرلی۔
نوبل پرائز نامزد اختر حمید خان (1914-1999) کا کام پاکستان کی تاریخ میں دیہی علاقوں کے ترقیاتی منصوبوں کے حوالے سے پوری دنیا میں احترام سے لیا جاتا ہے۔ ان کا اہم حوالہ شہرہ آفاق کو میلا رولر اکیڈمی(بنگلہ دیش کے وجود سے قبل) اور کومیلا پروجیکٹ سے ان کی پیش کی ہوئی مائیکرو کریڈٹ اسکیم نے غربت کے خاتمے کے لیے دنیا بھر میں مقبولیت کی سند حاصل کی۔ بلاشبہ ایسا شخص جس کا دل غریبوں کے لیے دھڑکتا ہے پروین کو اپنے کام میں شریک کیوں نہ کرتا؟ اختر حمید خان کے اوپی پی کے تحت لوگ اپنی مدد آپ کے اصولوں کے تحت اپنی حالت بدلتے ہیں جو آج کل کی نام نہاد بین الاقوامی امداد پر چلنے والی عطیاتی این جی اوز سے مختلف ہے۔ اوپی پی کی حکمت عملی کو استعمال کرتے ہوئے لوگوں نے اپنے علاقوں کی سیوریج لائنیں خود کھودیں، پانی کی لائنیں ڈالیں، اسکول اورکلینک قائم کیے اور بزنس چلائے تاکہ قرضے کے بجائے اپنے پیروں پر کھڑے ہوکر قرضوں سے آزاد ہوں۔
پروین رحمن نے 1982 میں اورنگی پائلٹ پروجیکٹ میں شمولیت اختیارکی۔ اختر حمید خان نے ان کی جانفشانی، دردمندی اور فرض شناسی کو دیکھتے ہوئے ادارے کا جوائنٹ ڈائریکٹر بنایا ان کے سپرد ہاؤسنگ اور سینی ٹیشن کے پروگرامز تھے۔
1988 میں اوپی پی مزید چار آرگنائزیشن میں منقسم ہوگئی جس کے بعد پروین اورنگی پائیلٹ پروجیکٹ ریسرچ اینڈ ٹریننگ انسٹیٹیوٹ کی ڈائریکٹر بنادی گئیں۔ ان کی نگرانی میں تعلیم، نوجوانوں کے تربیتی کورسز، پانی کی سپلائی اور محفوظ گھروں کے منصوبے تھے۔
1999 میں ڈاکٹر اختر حمید خان کے انتقال کے بعد پروین جیسی فرض شناس اور قابل ہستی کو پورے ادارے کی نگرانی سونپ دی گئی۔
ویسے تو اورنگی بستی 1960 میں قائم ہوئی لیکن 1981 اور 1982 میں بنگلہ دیش بننے کے بعد وہاں سے آنے والے مہاجرین کی وجہ سے بستی کے مکینوں کی تعداد میں خاطرخواہ اضافہ ہوا۔ کراچی کے شمال مغربی علاقے میں واقع ایک سو تیرہ محلہ بستیوں پر مشتمل اورنگی ٹاؤن میں مختلف علاقائی گروپس مثلاً پٹھان، بلوچ، مہاجر، بہاری اور پنجابی بستے ہیں۔ تین دہائیوں سے اس علاقے میں ہمہ تن کام کرنے والی پروین رحمن نے ان مختلف لسانی و علاقائی گروپس کے درمیان اختلافات کو کم کرنے میں مدد دی۔
پروین کا قصور کیا تھا؟ کسی بھی ایسے سماج میں جہاں بدعنوانی، لاقانونیت اور حق تلفی کا راج ہو، سماجی انصافی کے حصول اور حق کی علمبرداری کی اجلی صبح کا خواب دیکھنا ہی سب سے بڑا قصور ہے۔ حالیہ پاکستان میں وقت گواہ ہے کہ نجانے کتنے ہی ماہ و خورشید ان خوابوں پر وارے جاچکے ہیں۔پروین رحمن بھی ایسے ہی خوابوں کی صورت گر تھیں۔ پروین کا قصور محض یہی نہ تھا کہ بطور سماجی کارکن وہ جانفشانی سے اورنگی کے مکینوں کے ترقیاتی منصوبوں سے وابستہ تھیں بلکہ یہ بھی تھا کہ بطور مثالی استاد وہ سماج کے افراد کی تعلیمی اور فکری تربیت میں مصروف تھیں کہ کس طرح اعداد و شمار جمع ہوتے ہیں اور دستاویزات تیار ہوتی ہیں۔ کس طرح اپنے جائز حقوق کے لیے شواہد اکٹھے کیے جاتے ہیں۔ یہ حقوق اراضی (زمین) اور پانی جیسی ضروری نعمت کے تھے جو گھروں میں تقسیم کیا جاتا ہے۔ لیکن کس طرح قبضہ گروپ اس حق کو چھینتے ہیں۔
بطور تحقیق دان انھوں نے الزام تراشی کے بجائے تحقیقاتی مطالعہ اور مشاہدہ کیا تاکہ اصل صورتحال سامنے آئے ظاہر ہے کہ یہ کام جرائم پیشہ لینڈ مافیا (زمین چھیننے والوں) اور واٹر مافیا (پانی چوری کرنے والے) کے حق میں نہیں جاتا تھا۔ اس کام کا مقصد کروڑوں روپوں کا نقصان تھا کہ جس میں سیاسی جماعتوں کے آلہ کار، قانونی اداروں کو نافذ کرنے والوں کے ساتھ برابر سے شریک تھے۔ اپنی موت کے وقت وہ پانچ سو گوٹھوں (دیہاتوں) کے متعلق انتہائی محنت سے اعداد و شمار اکٹھے کر رہی تھیں۔ ان کی تحقیق سے وہ چہرے ننگے ہوتے جو زمینوں پر قبضہ کرکے من مانے داموں دوسری کاروباری پارٹیوں کو بیچ دیتے ہیں۔ ان کے ریکارڈ کے مطابق گزشتہ پندرہ سالوں کے عرصے میں پندرہ سو گوٹھ (نواحی بستیاں) جو کراچی کے نواح میں واقع تھیں شہر میں ملحق ہوچکی ہیں۔ لینڈ مافیا ان کو پلاٹوں میں تقسیم کرکے کروڑوں روپے کماتے ہیں۔ یہ اراضی ان کے جائز مالکوں سے جعلی کاغذات بناکر قبضہ کرلی جاتی ہیں۔ پروین نہ صرف اپنے دفتر میں یہ تحقیقی کام کرتی تھیں بلکہ ان علاقوں کا دورہ بھی کرتی تھیں۔
اس کے علاوہ وہ ٹینکر مافیا کی بھی اتنی ہی مخالف تھیں جو ٹیوب ویلز اور پائپ کا پانی کم آمدنی والی بستیوں سے چرا کر ان ہی لوگوں میں واٹر ٹینکر کی صورت بیچ رہے تھے۔ پروین نے اس سے متعلق شواہد جمع کیے اور اس بدعنوانی کی تصدیق کی کہ جس کے سبب سے پانی کی مصنوعی قلت کی جا رہی تھی۔ ان مافیا گروپوں کو مختلف سیاسی جماعتوں کی پشت پناہی حاصل تھی۔
مارنے والے بھول گئے تھے کہ وہ اپنے نام پروین رحمن کا استعارہ تھیں ''ستاروں کے جھرمٹ کا نور'' جو تمام انسانیت پہ یکساں اترا یہ نور اس ''درویشنی'' نے اس طرح بانٹا کہ ان کو چاہنے والے تو ان کی محبت شفقت اور دانائی کے نور کو روئیں گے ہی مگر وہ بھی سر پکڑ کر اپنی شکست پہ نوحہ کناں ہوں گے کہ جنھوں نے بزدلی سے ان کی موت کا سامان کیا۔ کیونکہ خاکی جسم کی موت سے اس کا نور فنا نہیں ہوتا بلکہ اس کی شعاعوں کا اثر مزید پھیل جاتا ہے۔ دور بہت دور تک حق و انصاف کی تلاش میں۔