پاکستانی مصنوعات اور تجارت…

اللہ تعالیٰ نے مجھے حج کی سعادت نصیب کی اور میں نے اپنے شوہر کے ساتھ چالیس دن مکہ اور مدینہ میں عبادت الٰہی میں گزارے



پاکستانی مصنوعات اور تجارت کے ضمن میں میرے کافی مشاہدات ہیں۔ میں نے سوچا کہ آج اپنی تحریر میں ان میں سے کچھ مشاہدات پر روشنی ڈالتی ہوں۔

2009 میں اللہ تعالیٰ نے مجھے حج کی سعادت نصیب کی اور میں نے اپنے شوہر کے ساتھ چالیس دن مکہ اور مدینہ میں عبادت الٰہی میں گزارے۔ ایک رات بعد نماز عشا جب ہم مسجد نبویؐ کے ایک گیٹ سے باہر نکلے تو ہم نے دیکھا کہ گیٹ کے بالکل قریب ایک نوجوان آوازیں لگا کر جا نمازیں فروخت کر رہا تھا اور اس کے ٹھیلے کے گرد حاجیوں کا بڑا ہجوم تھا (مسجد نبوی کے باہر گیٹ پر ہر نماز کے بعد مختلف اشیا فروخت کرنے والوں کا ہجوم ہوتا ہے)۔ ہمیں وہ جا نمازیں بڑی خوبصورت نظر آئیں اور ہمارے دیکھتے ہی دیکھتے اس نوجوان کا ٹھیلہ تقریباً خالی ہوچکا تھا۔ جب اس کے پاس صرف چار جا نمازیں رہ گئیں تو میں نے بھی بڑھ کر ایک جا نماز خرید لی جو شنیل کی بنی ہوئی تھی اور اس کی قیمت 10 ریال تھی۔ جانماز خریدنے کے بعد ہم نے اسے الٹ پلٹ کر دیکھا مگر اس پر بنانے والوں کا کوئی اتہ پتہ نہ تھا۔ میرے شوہر نے آگے بڑھ کر اس نوجوان سے پوچھا کہ یہ جا نمازیں جو آپ فروخت کر رہے ہیں کس ملک کی بنی ہوئی ہیں اس نے کہا ''پاکستان کی بنی ہوئی ہیں''۔

میرے دل کے کسی گوشے میں خوشی کی ایک لہر دوڑ گئی۔ مگر اگلے ہی لمحے وہ ماند پڑگئی کیونکہ پاکستان سے اس بیرونی منڈی میں بھیجنے والوں نے اس پر سے ہماری پہچان ہی اڑا دی تھی۔

مکہ اور مدینہ کے بازار دنیا کے مختلف ممالک کی مصنوعات سے بھرے پڑے تھے۔ جن میں انڈونیشیا، ملائیشیا، کوریا، مصر، شام، جاپان، ترکی، ہندوستان، چین اور سعودی عرب شامل ہیں، ان ممالک کی مصنوعات ہم نے ان کے ناموں کے ساتھ فروخت ہوتی دیکھیں حتیٰ کہ تسبیح اور کنگھی کے چھوٹے چھوٹے پیکٹوں پر بھی متعلقہ ممالک اور اداروں کے نام چھوٹے چھوٹے اسٹیکرز پر کندہ تھے۔ مگر اپنے وطن پاکستان کا نام ہمیں کسی چیز پر نظر نہ آیا اگرچہ پاکستانی مصنوعات وہاں بازاروں میں موجود تھیں۔ اسی طرح 1994 میں جب مجھے اپنے شوہر کے ساتھ استنبول جانے کا اتفاق ہوا تو وہاں کے وسیع گرینڈ ٹرنک بازار میں ہم نے پاکستانی قالین اور کمبل دیکھے مگر وہ بھی گمنامی میں فروخت ہو رہے تھے۔ ان کے بارے میں ہمیں متعلقہ دکاندار نے بتایا کہ وہ پاکستانی ہیں۔ البتہ اس بازار میں ہمیں پاکستان کے مردانہ سوٹ کے کپڑے متعلقہ ادارے اور پاکستان کے نام کے ساتھ نظر آئے جس نے ہمیں خوشی اور مسرت بخشی۔

کچھ عرصہ پہلے اپنے شوہر کے ساتھ صدر میں شاپنگ کرتے ہوئے ہمیں خیال آیا کہ اپنے گھر کے لیے ایک ٹیلیفون سیٹ بھی خرید لیں کیونکہ ہمارا ٹیلیفون سیٹ صحیح کام نہیں کر رہا تھا چنانچہ جب ہم صدر کی مارکیٹ میں ٹیلیفون سیٹ خریدنے کے لیے پہنچے تو مختلف دکانوں پر دکانداروں نے ہمارے سامنے ٹیلیفون سیٹ کے ڈھیر لگا دیے جن میں ملائیشیا، انڈونیشیا، کوریا، جاپان اور چین کے ٹیلیفون سیٹ شامل تھے جو ہمیں کسی نظام کے تحت فروخت ہوتے نظر نہیں آتے نہ تو متعلقہ کمپنی کا کوئی پتہ یا نشان تھا۔ نہ وہ کمپنی کا گارنٹی کارڈ دکھاتے تھے اور نہ ہی درآمد کنندگان کا کوئی اتہ پتہ تھا۔ میرے شوہر ڈاکٹر سعید الدین نے ایک دکاندار سے کہا کہ ہمیں ٹپ (TIP) (ٹیلیفون انڈسٹری آف پاکستان) کا بنایا ہوا ٹیلیفون سیٹ دکھائیں۔ اس پر دکاندار نے ہنس کر کہا کہ ''ارے وہ تو کب کے بند ہوگئے''۔ میں نے دریافت کیا کہ کیوں بند ہوگئے؟ اس پر انھوں نے بتایا کہ باہر کے ٹیلیفون سیٹ اتنے سستے مل جاتے ہیں تو ٹپ (TIP) کا مہنگا ٹیلیفون سیٹ کون خریدے گا؟ بہرحال ہمیں کیونکہ اپنی ضرورت پوری کرنی تھی اس لیے ان ہی میں سے ایک ٹیلیفون سیٹ ہم نے خرید لیا۔ مگر ہم اس صورت حال سے مطمئن نہ ہوسکے۔

یہاں سے فارغ ہوکر ہم پردوں کی ایک بڑی دکان میں داخل ہوئے کیونکہ ہمیں گھر کے لیے کچھ پردے خریدنے تھے۔ سیلزمین نے مختلف قیمتوں کے پردوں کے کئی کیٹلاگ ہمارے سامنے لا کر رکھ دیے۔ ہم نے کچھ پردے پسند کیے اور سیلزمین سے پوچھا کہ کیا وہ ہماری ان پردوں کی خریداری پر اس کی پکی رسید ہمیں دیں گے اس پر اس نے کہا کہ جی بالکل ''اس کی پکی رسید آپ کو ملے گی''۔ اس پر ہم نے مزید سوال کیا کہ کیا آپ اپنی اس پکی رسید پر جنرل سیلز ٹیکس (GST) کا اندراج کرتے ہیں۔ اس پر وہ سیلزمین کچھ گھبرا گیا کہنے لگا صاحب لوگ کہاں سے آئے ہیں؟ ہم نے کہا ہم تو گاہک ہیں آپ ہمیں مطمئن کریں گے تو آپ سے ہمارا سودا بنے گا۔ اس پر وہ سیلزمین اپنے مالک کے پاس لے گیا جو اسی دکان کے اندر ایک چھوٹے سے کمرے میں اپنا آفس سجائے بیٹھا تھا۔ ہمارا اس سے کافی دیر بحث و مباحثہ ہوا۔ اس کے بعد اس نے بڑی ڈھٹائی سے یہ تسلیم کرلیا کہ وہ جنرل سیلز ٹیکس (GST) میں رجسٹرڈ نہیں ہے۔ ہم نے اس دکان سے پردے نہیں خریدے۔

اس دن کی شاپنگ سے فارغ ہوکر جب ہم گھر واپس آئے تو کافی دیر تک ہم دونوں اس بات پر تبادلہ خیال کرتے رہے کہ اگر بیرونی مصنوعات متعلقہ درآمدی قوانین اور واجبات کی ادائیگی کے ساتھ ملک میں آئیں اور ہماری مارکیٹ میں فروخت کی جائیں تو نہ وہ اتنی سستی ملیں گی اور نہ ہی ان کے مقابلے میں ہماری کوئی ملکی یا مقامی صنعت بند ہوگی۔ مختلف النوع پاکستانی مصنوعات کی مقامی صنعتوں کی حوصلہ افزائی اور ترقی میں سب سے بڑی رکاوٹ ملک میں غیر ملکی اشیا کی غیر قانونی درآمد ہے۔ اس سے ہمارا سرکاری خزانہ بھی متاثر ہوتا ہے۔ پھر پاکستانی مصنوعات کا بیرون ممالک میں گمنامی کی حالت میں فروخت کیا جانا نہ صرف ملکی ساکھ کو نقصان پہنچاتا ہے بلکہ سرکاری خزانے کو غیر ملکی زر مبادلہ سے بھی محروم کرتا ہے جو اسے باقاعدہ اور باضابطہ برآمدات کی صورت میں ملتا ہے۔

پھر ملک کے اندر تجارت اور کاروبار میں متعلقہ واجبات کی عدم ادائیگی کا بوجھ بھی اس بے چارے ملکی خزانے کو ہی برداشت کرنا پڑتا ہے ، سرکاری واجبات ادا کرتے ہیں اور اپنی رسیدوں پر ان کا اندراج بھی کرتے ہیں اسی طرح مصنوعات کی برآمد اور درآمد میں بھی ایسے بیوپاری بھی ہیں جو قانونی ضابطوں کی پیروی کرتے ہیں اور سرکاری واجبات بھی ادا کرتے ہیں مگر ان کی تعداد بہت کم ہے۔ اور اس کم تعداد میں بھی کتنے سو فیصد درست ہیں اس کا اندازہ لگانا بہت مشکل ہے۔

میں یہ بات پورے اعتماد کے ساتھ کہہ سکتی ہوں کہ اگر پاکستان میں سرکاری واجبات کی ادائیگی ہر سطح پر بالکل درست اور ضابطے کے ساتھ ہو جائے اور ملک کی درآمدات اور برآمدات ملکی قانون اور ضابطے کے تحت ہوں تو ہمارے ملک کا بیرونی قرضوں پر انحصار بڑی حد تک ختم ہوجائے گا اور پاکستانی روپیہ بھی بین الاقوامی منڈی میں مستحکم ہوگا بلکہ اس کی قیمت بھی بڑھ جائے گی دوسری طرف ملکی یا مقامی صنعتوں کو استحکام ہوگا اور ملک میں حقیقی ترقی کے دروازے کھلیں گے۔ اس ضمن میں ہماری متعلقہ وزارتوں، اداروں اور چیمبرز آف کامرس کو خصوصی اقدامات کرنے کی سخت ضرورت ہے۔ اس کے ساتھ ہی قانون نافذ کرنے والے اداروں کو متعلقہ قوانین پر سختی سے عملدرآمد کروانے کی بھی ضرورت ہے۔ پھر جو لوگ ملکی قوانین کو توڑتے ہیں اور سرکاری واجبات ادا نہیں کرتے وہ بھی اسی ملک کے شہری ہیں وہ خود بھی اپنا محاسبہ کرسکتے ہیں کہ یہ سرزمین جس سے وہ اپنی روزی کما رہے ہیں اس کی شادابی اور ترقی میں ہی ان کی بھی بقا ہے۔

آج ہمیں اپنے معاشرے میں پھیلی جو برائیاں اور قانون شکنی نظر آتی ہیں اس سے بلاشبہ مایوسی اور اکتاہٹ تو ہوتی ہے لیکن معاشرے میں امید کی کرن بہرحال قائم ہے اور بہتری کی گنجایش بھی موجود ہے۔ اس ضمن میں آخر میں ایک واقعہ بیان کرتی چلوں۔

کچھ عرصہ قبل ہمارے دو قریبی عزیز (میاں بیوی) راولپنڈی سے کراچی ہمارے گھر پر پہنچے۔ ٹیکسی انھیں اتار کر چلی گئی۔ ہمارے گھر پر تقریباً آدھ گھنٹہ سلام دعا، خیر خیریت اور دیگر باتوں میں نکل گیا۔ اچانک ایک دم دونوں میاں بیوی کو اپنے سوٹ کیس کا خیال آگیا اور وہ اپنا سر پکڑ کر بیٹھ گئے کیونکہ سوٹ کیس تو وہ ٹیکسی میں بھول گئے تھے اور ٹیکسی چلی گئی تھی۔ ان کا کچھ قیمتی سامان اور زیورات بھی تھے۔ ابھی ہم یہ سوچ ہی رہے تھے کہ ٹیکسی کو کیسے ڈھونڈا جائے۔ پولیس میں رپورٹ درج کرائیں۔ کیا کریں اور کیا نہ کریں؟ کہ اتنے میں ہمارے گھر کی کال بیل بجی۔ جب گیٹ کو کھول کر دیکھا تو وہی ٹیکسی والا بمع سوٹ کیس کے موجود تھا۔ گھر میں خوشی کی لہر دوڑ گئی۔ ہم نے اور ہمارے مہمانوں نے اس کا بہت شکریہ ادا کیا ۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں