غزل
شکستہ حال کی بن جائے آس تازہ برس
گذشتہ رت کا نہ ہو التباس تازہ برس
کسک، اداسیاں، رنج و ملال جاتے رہیں
دکھی دلوں کو بھی آ جائے راس تازہ برس
یہاں نہ حق سے ہو محروم کوئی بھی حقدار
بروئے کار ہوںجوہر شناس تازہ برس
بنا خلل کے چلیں زندگی کے معمولات
فضا پہ چھائے نہ خوف و ہراس تازہ برس
کوئی جوان بھی بد دِل نہ روزگار سے ہو
نہ مامتا ہو کسی کی اداس تازہ برس
عوام سے نہ کوئی حقِ حکمرانی لے
لکیر سرخ نہ پھر ہو کراس تازہ برس
مریں نہ بھوک سے تھر کے غریب باشندے
رہے نہ بچہ کوئی بے لباس تازہ برس
گھٹائی جائے تفاوت رئیس و مفلس میں
بنائیں عدل کو جاذب ؔ اساس تازہ برس
(اکرم جاذب۔ منڈی بہائُ الدّین)
۔۔۔
غزل
کروں عروج کی کوشش ملے زوال مجھے
سو عیب لگنے لگے اب مرے کمال مجھے
یہ مجھ کو خود ہی پڑا صاف گوئی کا دورہ
وگرنہ ماننے والے تھے سارے لعل مجھے
کسی کے ہجر کو ایسا ہوا میسر میں
ترس گئے ہیں کئی دوسرے وبال مجھے
یہ قہقہے مجھے ممکن ہے پھر نہ مل پائیں
سو زندگی یہ نئی عادتیں نہ ڈال مجھے
نئے خیال کو خود کھوجتا ہوں میں اکثر
تو گاہے ڈھونڈتا پھرتا ہے خود خیال مجھے
کہ جن کے دیر سے عزمی ؔمیں انتظار میں تھا
جواب دے گئے سارے ترے سوال مجھے
(عزم الحسنین عزمی۔ ڈوڈے، گجرات)
۔۔۔
غزل
کرے تو کیسے کوئی اس کا انتخاب کرے
جو بات بات پہ دل وقف ِ اضطراب کرے
وہ ایک نور جو اترے سیاہ راتوں میں
ہمارے گھر کے دریچوں کو آفتاب کرے
سماعتوں میں اتارے وہ اعتبار کا رس
اداسیوں میں پڑے ذہن کو گلاب کرے
میں اس کا ذکر کروں اور لفظ جھرنے بنیں
وہ ایک نام مرے لفظ کو کتاب کرے
میں اس کے خواب کی ٹھنڈک سے باوضو ہولوں
نویدِ صبح مری نیند مت خراب کرے
قریب رہ کے بھی دوری نبھانا جانتا ہے
ہمارا صبر اسے اور کامیاب کرے
ہر اک کلام پہ بھاری ہو ایک چپ اسکی
وہ بات بول کے مجمع کو لاجواب کرے
میں کیسے نیند سمیٹوں میں کیسے صبح کروں
وہ ایک خواب کے اندر اک اور خواب کرے
اگر سفر ہے مقدر تو اس کے ساتھ چلوں
وہ شخص کاش مجھے اپنا ہمرکاب کرے
میں اس خیال میں پہروں اسے بہت سوچوں
کبھی وہ آکے مرے غم کا سدِ باب کرے
بنائے رات کو کاغذ پہ اس کی تصویریں
غریب لڑکی دمِ صبح اپنی جاب کرے
(حنا عنبرین۔کروڑلعل عیسن، لیہ)
۔۔۔
غزل
اِس گہن زاد قبیلے کے مداروں کا نہ پوچھ
پوچھ سورج کا مگر چاند ستاروں کا نہ پوچھ
پوچھ فرعون کے لشکر میں مرے تھے کتنے
اس مؤرخ سے کبھی عشق کے ماروں کا نہ پوچھ
دشت میں آ ہی گیا ہے تو گلابوں کو نہ ڈھونڈ
برگِ صحرا کو ابھی چوم، بہاروں کا نہ پوچھ
بیٹھ، طوفان سے مت ڈر ، ذرا چپّو تو ہِلا
ہاتھ جوڑے ہوئے لہروں سے کناروں کا نہ پوچھ
یار تھا، عشق تھا، دنیا تھی، خوشی تھی، میں تھا
پانچواں تو یہیں موجود ہے، چاروں کا نہ پوچھ
ہم فقیروں کو بھلا بیچ میں لاتا کیوں ہے
ڈھونڈ اللہ کا در، ہم سے مزاروں کا نہ پوچھ
ہاتھ چومے ہیں ابھی اُس کے جنہوں نے یارا
یہ تو دشمن ہیں مرے یار کے، یاروں کا نہ پوچھ
جو بھی گرتا ہے، کچل دیتے ہیں وحشت کے اسیر
عشق گلیوں کا مسافر ہے، سہاروں کا نہ پوچھ
ایک فرہاد تھا، مجنوں تھا، کوئی رانجھا تھا
اور ہزاروں ہیں مرے جیسے بھی،ساروں کا نہ پوچھ
(سردارفہد۔ ایبٹ آباد)
۔۔۔
غزل
حسیں لوگوں کی عادت ہے ذرا پردوں میں رہتے ہیں
زمانہ یہ سمجھتا ہے کہ ہم نخروں میں رہتے ہیں
اگر تو شاہ زادہ ہے میں اپنے گھر کی ملکہ ہوں
یہ تخت و تاج یہ رتبے مرے قدموں میں رہتے ہیں
غلط فہمی ہے روٹھے گا تو روؤں گی پکاروں گی
ترے جیسے تعلق اب مری جیبوں میں رہتے ہیں
ٹھٹھرتی سردیوں میں رات بھر پیڑوں تلے پھرنا
وہ لمحے آج بھی خوشبو بھری شالوں میں رہتے ہیں
محبت کی اداسی منتقل ہوتی ہے نسلوں میں
مرے کتنے ہی غم فوزی مرے بچوں میں رہتے ہیں
(فوزیہ شیخ۔ فیصل آباد)
۔۔۔
غزل
سماعتیں مری سینہ سپر ہیں نغمے باندھ
سنانِ حرفِ ملامت کے اب نشانے باندھ
چڑھا دے چادرِ اشعار چار مصرعے باندھ
مزارِ عشق پہ پھولوں کے چند گجرے باندھ
ہمیں اٹھانا ہے بارِ ثقیل احساں کا
ہمارے شانوں سے جبریل کچھ فرشتے باندھ
زمین زادوں کی فصلیں اجاڑ دے نہ کہیں
بنالے دریا مگر اس پہ بند پہلے باندھ
جبینِ ظرف سے تو ایک ایک آئنہ کھول
زخومِ چشم پہ پٹی کی طرح دھوکے باندھ
بلندیوں سے ہو اندازہ اپنی پستی کا
ہماری آنکھوں سے ممکن ہو تو پرندے باندھ
رسائی پائے گا پیغام تیرا بھی اک دن
ہوا کے پلو میں ابدال کچھ عریضے باندھ
(عامر ابدال۔ لاہور)
۔۔۔
غزل
ہم جو دیوار سے لگے ہوئے ہیں
یونہی بیکار سے لگے ہوئے ہیں
آپ جو بھی کہیں گے، کر لیں گے
ہم اداکار سے، لگے ہوئے ہیں
یہ کہانی عزیز ہے یوں بھی
تیرے کردار سے لگے ہوئے ہیں
چند لوگوں کو زخم آنکھوں میں
میرے معیار سے لگے ہوئے ہیں
یہ جو تالے ہیں میرے ہونٹوں پر
تیرے انکار سے لگے ہوئے ہیں
(زبیر قیصر۔ باہتر،اٹک)
۔۔۔
غزل
اندھیری راتوں میں پھر ساتھ میں اجالا گیا
شجر لگائے، جہاں پر پڑاؤ ڈالا گیا
جو وقت ملتا تو کچھ اور کام کر لیتے
ہمارے جیسوں سے بس عشق روگ پالا گیا
ابھی جو ہاتھ ہیں ملتے، ملول بیٹھے ہیں
نہ اس کو روک ہیں پائے، نہ دل سنبھالا گیا
گلی گلی میں گھٹن، نفرتوں کے ڈیرے بنے
وفا کی رسموں کو جب شہر سے نکالا گیا
ہوا اڑا کے چلی ہے بھرا غبارہ؟ نہیں
غریب شخص کے ہاتھوں سے اک نوالہ گیا
غریبِ شہر کی روزوں نے لاج رکھ لی ہے
اگرچہ فاقوں کا قصہ بہت اچھالا گیا
نہیں تھی اس کی ضرورت کہ کمرہ خالی تھا
سو آگے چابی چلی، پیچھے پیچھے تالا گیا
کبھی تو وقت نے ملنے نہیں دیا ہے ہمیں
کبھی بہانوں سے مجھ کو وصال ٹالا گیا
(احمد وصال ۔شبقدر فورٹ)
۔۔۔
غزل
کچھ دیر اور روکا گیا گر، بیان سے
میں بد زباں چھلکنے لگوں گا زبان سے
میں کس لیے لڑائی کروں آسمان سے
جب کائنات چلتی ہے میرے گمان سے
منظر بدل دیا ہے کسی خوش خصال نے
دل پھینکنے لگے ہیں سپاہی کمان سے
یہ انہدام پہلا قدم ہے نمود کا
پر کاٹنے لگا ہوں رگڑ کر چٹان سے
ممکن ہے خواہشوں کا گلا گھونٹنا پڑے
کچھ خواب سر اٹھا رہے ہیں خواب دان سے
چلمن کی تیلیوں سے سرکتے ہوئے وجود
حماد دیکھ پھول نکلتے، مچان سے
(حماد زیف ۔چکوال)
۔۔۔
غزل
آیا ہے نیا سال تو اقرار کریں گے
اظہار محبت کا سرِ دار کریں گے
اک نور کا دریا جو اُمڈ آئے گا ہر سو
ہر گھر کے منّور در و دیوار کریں گے
ہر راہ سجے گی نئی دلہن کی طرح سے
پُرنور وفاؤں کے چمن زار کریں گے
اِس سال گئے سال کے سب درد بھلا کر
تعمیر نئی خوشیوں کا مینار کریں گے
پھر سازِ محبت پہ نئے نغمے سنا کر
رنگین محبت کا یہ تہوار کریں گے
چاہت کے تصور میں وفا رقص کناں ہے
اس سال شہاب اللہ بہت پیار کریں گے
( شہاب اللہ شہاب ، منڈا، دیر لوئر،خیبر پختون خوا)
۔۔۔
غزل
اگر نفع نہیں نقصان بھی نہیں کرتے
کسی کے درد کا سامان بھی نہیں کرتے
ابھی سے سوچ لو کل کو اگر بچھڑنا ہے
وگرنہ وعدہ و پیمان بھی نہیں کرتے
چرا کے دل کو مرے ہو گئے رفو چکر
کسی کو ایسے پریشان بھی نہیں کرتے
نکال دی ہے تری ہم نے دل سے حسرت ہی
کہ اب تو ہم ترا ارمان بھی نہیں کرتے
اِدھر کہ ہجر کی سُولی پہ جان لٹکی ہے
اُدھر وہ وصل کا فرمان بھی نہیں کرتے
سلوک تُو نے کیا میرے ساتھ جو راحلؔ
کسی کے ساتھ یوں نادان بھی نہیں کرتے
(علی راحلؔ۔پاکستان بورے والا)
سنڈے میگزین کے شاعری کے صفحے پر اشاعت کے لیے آپ اپنا کلام، اپنے شہر کے نام اورتصویر کے ساتھ ہمیں درج ذیل پتے پر ارسال کرسکتے ہیں۔ موزوں اور معیاری تخلیقات اس صفحے کی زینت بنیں گی۔
انچارج صفحہ ''کوچہ سخن ''
روزنامہ ایکسپریس، 5 ایکسپریس وے، کورنگی روڈ ، کراچی