ذکر ایک گِرتی بستی کا
بھارتی ریاست اتراکھنڈ کے ایک مسلم علاقے کے مکینوں پر گزرتی قیامت کا احوال
ایک بھارتی مسلمان
(مضمون نگار کی درخواستپر ان کا نام شایع نہیں کیا جارہا)
(بھارت کی ریاست اتراکھنڈ کے خوب صورت شہر نینی تال کی ایک مسلم آبادی غفور بستی کے باسیوں کو محکمۂ ریلوے کی جانب سے حکم دیا گیا ہے کہ وہ یہ بستی چھوڑ جائیں، جس کے بعد سے اس بستی کے مکین پریشان اور غم میں ڈوبے ہیں، لیکن کوئی ان کا پوچھنے والا ہے نہ ان کے لیے آواز اٹھانے والے۔ مودی کے بھارت میں مسلمانوں اور دیگر اقلیتوں کے ساتھ جو سلوک ہورہا ہے یہ واقعہ اس کی ایک جھلک ہے۔
لفظ اور قلم سے ناتا جوڑے ایک بھارتی مسلمان نے اس بستی کا دورہ کرکے آنکھوں دیکھا حال تحریر کیا ہے، جو قارئین کے لیے پیش ہے)
ذرا تصور کریں جہاں آپ برسوں سے رہ رہے ہوں، جہاں آپ کا اور آپ کے پرکھوں کا جنم ہوا ہو، جہاں آپ نے اپنی اماں اور دادی سے لوریاں سنی ہو، جہاں آپ نے کھیلا کودا اور موج مستی کی ہو، جہاں آپ نے اپنی زندگی کے شب و روز گزارے ہوں؛ اچانک کوئی آئے اور کہے کہ اب یہ جگہ آپ کی نہیں ہے۔
اتنے دنوں کے اندر آپ یہ گھر خالی کر دیں بصورت دیگر ہم اس پر بلڈوزر چلا دیں گے تو آپ پر کیا گزرے گی۔ آپ جس کرب، جس درد اور جس بے چینی میں مبتلا ہوں گے کیا اس کو لفظوں کا روپ دیا جا سکتا ہے؟ کیا اس دکھ کو لکھا جا سکتا ہے؟ کیا اس کی عکاسی کی جا سکتی ہے؟ شاید نہیں۔
گذشتہ ایک ہفتے سے ہندوستان کی ریاست اتراکھنڈ کے شہر ہلدوانی، ونبھول پورہ واقع غفور بستی کے لوگ اسی کیفیت سے دو چار ہیں، جہاں ایک دو نہیں تقریباً 4365 مکانوں کو انتظامیہ نے خالی کرنے کا حکم دیا ہے۔ یہ کوئی نئی بستی نہیں ہے بلکہ ان کے پاس آزادی سے قبل کے کاغذات ہیں۔
ہم کچھ صحافی دوستوں کو اس کی اطلاع ملی تو گذشتہ روز جب کہ سورج ابھی نکل رہا تھا وہاں کے لیے روانہ ہوئے۔
تقریباً آٹھ گھنٹے کا سفر کر کے وہاں پہنچے تو خواتین کی دعائیہ محفل جاری تھی جس میں ہزاروں خواتین شریک تھیں؛ ایک خاتون زاروقطار رورو کر دعائیں کرا رہی تھی، ''خدایا! تو رحمان ہے، ہم کم زور ہیں، خدایا ان آشیانوں کو ڈوبنے سے بچا لے، یااللہ ان بچوں کو بے گھر ہونے سے بچا لے، یا خدایا جن گھروں کو ہم نے تنکا چن چن کر بنایا ہے ان کی حفاظت فرما۔'' یہ دعائیہ محفل کچھ اس قدر سوزوگداز اور ماتم میں ڈوبی ہوئی تھی کہ ہم بھی اپنے آنسو ضبط نہیں کر سکے۔
یہاں پر ہم نے گلی گلی گھومی، چائے خانوں، مندروں، مسجدوں کا دورہ کیا، ہر جگہ اداسی پھیلی ہوئی تھی، لوگ اپنے اپنے کاموں میں مصروف تو ضرور تھے، لیکن ان سب کے چہروں پر اضطراب دکھائی دیتا تھا۔ بچے جنھیں عموماً بے فکر کہا گیا ہے اور جن کے دن کھیلنے کودنے اور گھومنے پھرنے کے ہوتے ہیں۔
اداس بیٹھے تھے، ایسا معلوم ہوتا تھا جیسے پوری بستی میں اداسی کی دیویوں نے ڈیرا ڈال دیا ہے اور اپنے اپنے جادو سے ساری خوشیوں کو نگل گئی ہیں۔ کالج اور اسکولوں میں پڑھنے والے لڑکے اور لڑکیاں جن کے چہرے خوشیوں سے تمتما رہے ہوتے ہیں ایسا معلوم ہوتا تھا جیسے رات بھر وہ سوئے نہیں ہیں اور پوری رات روتے گزاری ہے۔
کئی گلیوں کو عبور کرتے ہوئے ہم ایک بڑے میاں کے پاس پہنچے جو مسجد کے سامنے ایک چوکی پر بیٹھے ہوئے تھے۔ بتایا کہ ہم دلی سے آئے ہیں اور ہمیں بتائیں کہ قصہ کیا ہے۔
تو ان کے ساتھ کچھ اور لوگ بھی اکٹھا ہوگئے، سب اپنی اپنی کہانیاں سنانے لگے، ہم نے پوچھا کیا آپ لوگوں کے پاس کاغذات ہیں کہ یہ زمینیں آپ ہی کی ہیں تو ان میں سے کئی نوجوان اور بوڑھے لپک کر تیزی سے اپنے گھروں کے جانب دوڑے، کسی کے ہاتھوں میں فائلیں تو کسی کے ہاتھوں میں پلاسٹک کے جھولے تھے وہ سب ایک ایک کر کے دکھانے لگے، یہ دیکھیے یہ ہمارے پردادا نے آزادی سے پہلے خریدا تھا۔
یہ دیکھیے یہ 1920 کی فائل ہے، یہ 1947 سے پہلے کے کاغذات ہیں، یہ اس وقت کے کاغذات ہیں جب ہند و پاک کا بٹوارا ہو گیا تو بہت سے لوگ اپنے گھروں کو چھوڑ کر پاکستان چلے گئے، اس کو فلاں نے خریدا تھا، اس کے بعد فلاں نے خریدا اور اس کے بعد ہمارے فلاں دادا نے یہ زمین نیلامی میں حکومت سے خریدی۔
ایک بڑے میاں سے ہم نے یہاں کے لوگوں کے رہن سہن کے بارے میں پوچھا، حالاںکہ علاقہ کی حالت خود بتا رہی تھی کہ حکومت اس پر کتنی توجہ دیتی ہے، جگہ جگہ گندگی کے ڈھیر، دور تک بدبو پھیلی ہوئی، کھلی نالیاں اور سیورج بدبداتے ہوئے۔
یہیں پر کُھلے میں ہوٹل اور کباب اور بریانی کی دکانیں۔ بڑے میاں نے بتایا کہ یہاں کے زیادہ تر لوگ روزانہ مزدوری کر کے پیٹ پالنے والے لوگ ہیں، اکا دکا لوگ سرکاری نوکریوں میں ہیں۔ پوری بستی مسلمانوں کی ہے لیکن پڑھائی لکھائی کا رجحان کم ہے۔
میڈیکل اسٹور چلانے والے بزرگ محمد نعیم افسردہ لہجہ میں کہتے ہیں، پچانوے فی صد یہاں مسلمانوں کی آبادی ہے لیکن ان میں تعلیم کا فقدان ہے، اپنے حقوق کے بارے میں بھی لوگ باشعور نہیں ہیں۔ حکومت کی طرف سے اس علاقے کو ٹارگٹ کرنے کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ وہ جانتے ہیں یہ لوگ آواز بھی نہیں اٹھا سکیں گے، اس لیے انھیں کچل دو۔
صلاح الدین انصاری گذشتہ پچاس سال سے اس علاقہ کے مکین ہیں، ہم نے ان سے پوچھا کہ کیا قصہ ہے ذرا تفصیل سے بتائیں۔ انھوں نے ایک سرد آہ بھری، اپنی لنگی کو سمیٹتے ہوئے سامنے پڑی کرسی پر بیٹھ گئے اور کہنا شروع کیا؛ ہمارے پاس تو سارے کاغذات ہیں، 1940 سے ہم ٹیکس دے رہے ہیں۔
انھوں نے پرانے کاغذوں کا ایک بنڈل کھولا اور دکھانے لگے، یہ دیکھیے پیڑھی در پیڑھی ایک ایک کاغذات ہم نے رکھا ہوا ہے۔ اب تو حال یہ ہے کہ جن کے پاس کاغذ ہے یا جن کے پاس نہیں ہے سب ایک ہی کٹہرے میں آ گئے ہیں۔
سرکار نے سب کو ایک ہی لاٹھی سے ہانک دیا۔ وہ کہتے ہیں، یہ سوچنے والی بات ہے کہ اگر یہ ریلوے کی زمین ہے جیسا کہ ریلوے والوں کا دعویٰ ہے تو اتنے دنوں تک حکومت کہاں سوئی ہوئی تھی، یہاں حکومت نے اتنا انویسٹ کیوں کیا، حکومت ہم سے ٹیکس کیوں وصول کرتی رہی، یہاں بجلی پانی کا انتظام کیسے ہوا؟ حکومت نے اسکول اور کالج کیسے کھولے؟ ریاستی حکومت کو اس معاملے پر سامنے آنا چاہیے مگر وہاں مکمل خاموشی کا راج ہے۔
ایک اور بڑے میاں سے ہم نے ان کی کتھا جاننا چاہی، یہ پیشے کے لحاظ سے وکیل ہیں اور اس معاملے میں بھی انھوں نے سپریم کورٹ میں مقدمہ دائر کر رکھا ہے۔ ہم نے پوچھا گھروں کے علاوہ اور کیا کیا اس کی زد میں آ رہا ہے؟ تو انھوں نے بتایا؛ اس علاقے میں تقریباً دو انٹر کالج ہیں، دس مساجد ہیں، دو مندر ہیں، پانچ مدرسے ہیں، دو بینک ہیں، چار سرکاری اسکول جب کہ دس سے بارہ پرائیویٹ اسکول ہیں۔
پوری دنیا میں حکومتیں اپنے باشندوں کی خیرخواہی اور ترقی کے بارے میں سوچتی ہیں لیکن ہندوستان کی واحد حکومت ہے جو اپنے ہی قائم کیے اداروں، بستی اور گھروں کو منہدم کرتی ہے۔ یہ یقیناً تشویش ناک بات ہے اور ہم اخیر تک اس کے لیے لڑتے رہیں گے خواہ اس کے لیے ہمیں اپنی جان کیوں نہ گنوانی پڑ جائے۔
ایک اور بزرگ وکیل ایم یوسف سے ہم نے معاملہ کو سمجھنے کی کوشش کی تو انھوں نے بتایا کہ شہر کی 70 فی صد زمینیں نزولی ہیں۔ نزولی وہ زمین ہوتی ہے جو گورنمنٹ کی ہوتی ہے لیکن عام پبلک استعمال کر سکتی ہے، البتہ ضرورت پڑنے پر حکومت اس کو اپنے قبضے میں لینے کی مجاز ہوتی ہے۔ بعض دفعہ حکومت اسکیم کے تحت رجسٹری کی آفر بھی کرتی ہے۔ 2006 میں ریلوے نے چھے ایکڑ زمین کے بارے میں مقدمہ کیا۔
پھر 2016 میں 29 ایکڑ کا دعویٰ کیا اور اب 78 ایکڑ کا دعویٰ کر رہا ہے۔ پہلے دو دفعہ کورٹ سے اسٹے مل چکا ہے، لیکن اب کورٹ نے مخالف فیصلہ کیا ہے اور کچھ بھی سننے کے لیے تیار نہیں ہے، جب کہ زمین کے 900 معاملات کورٹ میں التوا کا شکار ہیں لیکن اس معاملے میں کورٹ کا رویہ افسوس ناک رہا۔ ان کا کہنا تھا کہ اس پورے معاملے میں ابھی تک یہی واضح نہیں کہ ریلوے کی زمین کتنی ہے اور نزولی کتنی ہے۔
وہ بتاتے ہیں کہ یہ معاملہ پورا فرقہ پرستی کا ہے کیوںکہ لال نشان انہیں علاقوں میں لگایا گیا ہے جہاں مسلمان آباد ہیں۔ ہلدوانی سے پہلے بڑا اسٹیشن لال کنواں ہے، وہاں سے اگر صفائی ہو تو سارے ہندوؤں کے علاقے زد میں آئیں گے، اسی طرح ہلدوانی سے 6 کلومیٹر اوپر کاٹھ گودام ہے وہاں ہندو آباد ہیں لیکن کارروائی مسلمانوں کے دو کلومیٹر علاقے میں کی جا رہی ہے۔
ان علاقوں میں 3 گرلز کالج، ایک کالج، دو ٹیوب ویل، دس مساجد اور دو مندر ہیں۔ متعدد پرائیویٹ اسکول اور کالجز الگ سے ہیں۔ پھر ریلوے کوئی ایسا پروجیکٹ بھی نہیں دکھا رہا کہ جس کے لئے وہ اپنی زمینوں کو واگزار کرانا چاہ رہا ہے۔ ریلوے پھاٹک پر مائیک لگا کر ایک ہفتہ میں علاقہ خالی کرنے اعلان مسلسل کیا جا رہا ہے۔
ہم نے اس بارے میں حکومتی عہدے داران سے بھی بات کی، آکاش پانڈے، نگر نگم سے وابستہ افسر سے جب ہم نے صورت حال دریافت کی تو انھوں نے کہا کہ اس پورے معاملے میں اب وہ کوئی بھی رائے دینا نہیں چاہتے کیوںکہ ہائی کورٹ کا فیصلہ آ گیا ہے اور عدالت نے بھی کہہ دیا ہے کہ لوگ اپنے اپنے گھروں کو خالی کر دیں تو ہم تو عدالت کے ماتحت ہیں، اس پر ہم مزید کیا کہہ سکتے ہیں۔
شام ہو چلی تھی، ہم لوگوں کو دلی بھی لوٹنا تھا سو ہم بہت سارے سوالات ذہن میں لیے بوجھل قدموں کے ساتھ گاڑی کی طرف چل دیے۔ گاڑی میں بیٹھنے کے بعد بھی بہت سارے سوالات ہمارا پیچھا کر رہے تھے۔ کیا سچ مچ مسلمان اس ملک میں اجنبی بن گئے ہیں، کیا اتنی قربانیاں دینے کے بعد آج بھی انھیں اسی طرح نشانہ بنایا جاتا رہے گا؟ بہت سے سوالات تھے، مگر ہمارے پاس کسی سوال کا کوئی جواب نہیں تھا۔
(مضمون نگار کی درخواستپر ان کا نام شایع نہیں کیا جارہا)
(بھارت کی ریاست اتراکھنڈ کے خوب صورت شہر نینی تال کی ایک مسلم آبادی غفور بستی کے باسیوں کو محکمۂ ریلوے کی جانب سے حکم دیا گیا ہے کہ وہ یہ بستی چھوڑ جائیں، جس کے بعد سے اس بستی کے مکین پریشان اور غم میں ڈوبے ہیں، لیکن کوئی ان کا پوچھنے والا ہے نہ ان کے لیے آواز اٹھانے والے۔ مودی کے بھارت میں مسلمانوں اور دیگر اقلیتوں کے ساتھ جو سلوک ہورہا ہے یہ واقعہ اس کی ایک جھلک ہے۔
لفظ اور قلم سے ناتا جوڑے ایک بھارتی مسلمان نے اس بستی کا دورہ کرکے آنکھوں دیکھا حال تحریر کیا ہے، جو قارئین کے لیے پیش ہے)
ذرا تصور کریں جہاں آپ برسوں سے رہ رہے ہوں، جہاں آپ کا اور آپ کے پرکھوں کا جنم ہوا ہو، جہاں آپ نے اپنی اماں اور دادی سے لوریاں سنی ہو، جہاں آپ نے کھیلا کودا اور موج مستی کی ہو، جہاں آپ نے اپنی زندگی کے شب و روز گزارے ہوں؛ اچانک کوئی آئے اور کہے کہ اب یہ جگہ آپ کی نہیں ہے۔
اتنے دنوں کے اندر آپ یہ گھر خالی کر دیں بصورت دیگر ہم اس پر بلڈوزر چلا دیں گے تو آپ پر کیا گزرے گی۔ آپ جس کرب، جس درد اور جس بے چینی میں مبتلا ہوں گے کیا اس کو لفظوں کا روپ دیا جا سکتا ہے؟ کیا اس دکھ کو لکھا جا سکتا ہے؟ کیا اس کی عکاسی کی جا سکتی ہے؟ شاید نہیں۔
گذشتہ ایک ہفتے سے ہندوستان کی ریاست اتراکھنڈ کے شہر ہلدوانی، ونبھول پورہ واقع غفور بستی کے لوگ اسی کیفیت سے دو چار ہیں، جہاں ایک دو نہیں تقریباً 4365 مکانوں کو انتظامیہ نے خالی کرنے کا حکم دیا ہے۔ یہ کوئی نئی بستی نہیں ہے بلکہ ان کے پاس آزادی سے قبل کے کاغذات ہیں۔
ہم کچھ صحافی دوستوں کو اس کی اطلاع ملی تو گذشتہ روز جب کہ سورج ابھی نکل رہا تھا وہاں کے لیے روانہ ہوئے۔
تقریباً آٹھ گھنٹے کا سفر کر کے وہاں پہنچے تو خواتین کی دعائیہ محفل جاری تھی جس میں ہزاروں خواتین شریک تھیں؛ ایک خاتون زاروقطار رورو کر دعائیں کرا رہی تھی، ''خدایا! تو رحمان ہے، ہم کم زور ہیں، خدایا ان آشیانوں کو ڈوبنے سے بچا لے، یااللہ ان بچوں کو بے گھر ہونے سے بچا لے، یا خدایا جن گھروں کو ہم نے تنکا چن چن کر بنایا ہے ان کی حفاظت فرما۔'' یہ دعائیہ محفل کچھ اس قدر سوزوگداز اور ماتم میں ڈوبی ہوئی تھی کہ ہم بھی اپنے آنسو ضبط نہیں کر سکے۔
یہاں پر ہم نے گلی گلی گھومی، چائے خانوں، مندروں، مسجدوں کا دورہ کیا، ہر جگہ اداسی پھیلی ہوئی تھی، لوگ اپنے اپنے کاموں میں مصروف تو ضرور تھے، لیکن ان سب کے چہروں پر اضطراب دکھائی دیتا تھا۔ بچے جنھیں عموماً بے فکر کہا گیا ہے اور جن کے دن کھیلنے کودنے اور گھومنے پھرنے کے ہوتے ہیں۔
اداس بیٹھے تھے، ایسا معلوم ہوتا تھا جیسے پوری بستی میں اداسی کی دیویوں نے ڈیرا ڈال دیا ہے اور اپنے اپنے جادو سے ساری خوشیوں کو نگل گئی ہیں۔ کالج اور اسکولوں میں پڑھنے والے لڑکے اور لڑکیاں جن کے چہرے خوشیوں سے تمتما رہے ہوتے ہیں ایسا معلوم ہوتا تھا جیسے رات بھر وہ سوئے نہیں ہیں اور پوری رات روتے گزاری ہے۔
کئی گلیوں کو عبور کرتے ہوئے ہم ایک بڑے میاں کے پاس پہنچے جو مسجد کے سامنے ایک چوکی پر بیٹھے ہوئے تھے۔ بتایا کہ ہم دلی سے آئے ہیں اور ہمیں بتائیں کہ قصہ کیا ہے۔
تو ان کے ساتھ کچھ اور لوگ بھی اکٹھا ہوگئے، سب اپنی اپنی کہانیاں سنانے لگے، ہم نے پوچھا کیا آپ لوگوں کے پاس کاغذات ہیں کہ یہ زمینیں آپ ہی کی ہیں تو ان میں سے کئی نوجوان اور بوڑھے لپک کر تیزی سے اپنے گھروں کے جانب دوڑے، کسی کے ہاتھوں میں فائلیں تو کسی کے ہاتھوں میں پلاسٹک کے جھولے تھے وہ سب ایک ایک کر کے دکھانے لگے، یہ دیکھیے یہ ہمارے پردادا نے آزادی سے پہلے خریدا تھا۔
یہ دیکھیے یہ 1920 کی فائل ہے، یہ 1947 سے پہلے کے کاغذات ہیں، یہ اس وقت کے کاغذات ہیں جب ہند و پاک کا بٹوارا ہو گیا تو بہت سے لوگ اپنے گھروں کو چھوڑ کر پاکستان چلے گئے، اس کو فلاں نے خریدا تھا، اس کے بعد فلاں نے خریدا اور اس کے بعد ہمارے فلاں دادا نے یہ زمین نیلامی میں حکومت سے خریدی۔
ایک بڑے میاں سے ہم نے یہاں کے لوگوں کے رہن سہن کے بارے میں پوچھا، حالاںکہ علاقہ کی حالت خود بتا رہی تھی کہ حکومت اس پر کتنی توجہ دیتی ہے، جگہ جگہ گندگی کے ڈھیر، دور تک بدبو پھیلی ہوئی، کھلی نالیاں اور سیورج بدبداتے ہوئے۔
یہیں پر کُھلے میں ہوٹل اور کباب اور بریانی کی دکانیں۔ بڑے میاں نے بتایا کہ یہاں کے زیادہ تر لوگ روزانہ مزدوری کر کے پیٹ پالنے والے لوگ ہیں، اکا دکا لوگ سرکاری نوکریوں میں ہیں۔ پوری بستی مسلمانوں کی ہے لیکن پڑھائی لکھائی کا رجحان کم ہے۔
میڈیکل اسٹور چلانے والے بزرگ محمد نعیم افسردہ لہجہ میں کہتے ہیں، پچانوے فی صد یہاں مسلمانوں کی آبادی ہے لیکن ان میں تعلیم کا فقدان ہے، اپنے حقوق کے بارے میں بھی لوگ باشعور نہیں ہیں۔ حکومت کی طرف سے اس علاقے کو ٹارگٹ کرنے کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ وہ جانتے ہیں یہ لوگ آواز بھی نہیں اٹھا سکیں گے، اس لیے انھیں کچل دو۔
صلاح الدین انصاری گذشتہ پچاس سال سے اس علاقہ کے مکین ہیں، ہم نے ان سے پوچھا کہ کیا قصہ ہے ذرا تفصیل سے بتائیں۔ انھوں نے ایک سرد آہ بھری، اپنی لنگی کو سمیٹتے ہوئے سامنے پڑی کرسی پر بیٹھ گئے اور کہنا شروع کیا؛ ہمارے پاس تو سارے کاغذات ہیں، 1940 سے ہم ٹیکس دے رہے ہیں۔
انھوں نے پرانے کاغذوں کا ایک بنڈل کھولا اور دکھانے لگے، یہ دیکھیے پیڑھی در پیڑھی ایک ایک کاغذات ہم نے رکھا ہوا ہے۔ اب تو حال یہ ہے کہ جن کے پاس کاغذ ہے یا جن کے پاس نہیں ہے سب ایک ہی کٹہرے میں آ گئے ہیں۔
سرکار نے سب کو ایک ہی لاٹھی سے ہانک دیا۔ وہ کہتے ہیں، یہ سوچنے والی بات ہے کہ اگر یہ ریلوے کی زمین ہے جیسا کہ ریلوے والوں کا دعویٰ ہے تو اتنے دنوں تک حکومت کہاں سوئی ہوئی تھی، یہاں حکومت نے اتنا انویسٹ کیوں کیا، حکومت ہم سے ٹیکس کیوں وصول کرتی رہی، یہاں بجلی پانی کا انتظام کیسے ہوا؟ حکومت نے اسکول اور کالج کیسے کھولے؟ ریاستی حکومت کو اس معاملے پر سامنے آنا چاہیے مگر وہاں مکمل خاموشی کا راج ہے۔
ایک اور بڑے میاں سے ہم نے ان کی کتھا جاننا چاہی، یہ پیشے کے لحاظ سے وکیل ہیں اور اس معاملے میں بھی انھوں نے سپریم کورٹ میں مقدمہ دائر کر رکھا ہے۔ ہم نے پوچھا گھروں کے علاوہ اور کیا کیا اس کی زد میں آ رہا ہے؟ تو انھوں نے بتایا؛ اس علاقے میں تقریباً دو انٹر کالج ہیں، دس مساجد ہیں، دو مندر ہیں، پانچ مدرسے ہیں، دو بینک ہیں، چار سرکاری اسکول جب کہ دس سے بارہ پرائیویٹ اسکول ہیں۔
پوری دنیا میں حکومتیں اپنے باشندوں کی خیرخواہی اور ترقی کے بارے میں سوچتی ہیں لیکن ہندوستان کی واحد حکومت ہے جو اپنے ہی قائم کیے اداروں، بستی اور گھروں کو منہدم کرتی ہے۔ یہ یقیناً تشویش ناک بات ہے اور ہم اخیر تک اس کے لیے لڑتے رہیں گے خواہ اس کے لیے ہمیں اپنی جان کیوں نہ گنوانی پڑ جائے۔
ایک اور بزرگ وکیل ایم یوسف سے ہم نے معاملہ کو سمجھنے کی کوشش کی تو انھوں نے بتایا کہ شہر کی 70 فی صد زمینیں نزولی ہیں۔ نزولی وہ زمین ہوتی ہے جو گورنمنٹ کی ہوتی ہے لیکن عام پبلک استعمال کر سکتی ہے، البتہ ضرورت پڑنے پر حکومت اس کو اپنے قبضے میں لینے کی مجاز ہوتی ہے۔ بعض دفعہ حکومت اسکیم کے تحت رجسٹری کی آفر بھی کرتی ہے۔ 2006 میں ریلوے نے چھے ایکڑ زمین کے بارے میں مقدمہ کیا۔
پھر 2016 میں 29 ایکڑ کا دعویٰ کیا اور اب 78 ایکڑ کا دعویٰ کر رہا ہے۔ پہلے دو دفعہ کورٹ سے اسٹے مل چکا ہے، لیکن اب کورٹ نے مخالف فیصلہ کیا ہے اور کچھ بھی سننے کے لیے تیار نہیں ہے، جب کہ زمین کے 900 معاملات کورٹ میں التوا کا شکار ہیں لیکن اس معاملے میں کورٹ کا رویہ افسوس ناک رہا۔ ان کا کہنا تھا کہ اس پورے معاملے میں ابھی تک یہی واضح نہیں کہ ریلوے کی زمین کتنی ہے اور نزولی کتنی ہے۔
وہ بتاتے ہیں کہ یہ معاملہ پورا فرقہ پرستی کا ہے کیوںکہ لال نشان انہیں علاقوں میں لگایا گیا ہے جہاں مسلمان آباد ہیں۔ ہلدوانی سے پہلے بڑا اسٹیشن لال کنواں ہے، وہاں سے اگر صفائی ہو تو سارے ہندوؤں کے علاقے زد میں آئیں گے، اسی طرح ہلدوانی سے 6 کلومیٹر اوپر کاٹھ گودام ہے وہاں ہندو آباد ہیں لیکن کارروائی مسلمانوں کے دو کلومیٹر علاقے میں کی جا رہی ہے۔
ان علاقوں میں 3 گرلز کالج، ایک کالج، دو ٹیوب ویل، دس مساجد اور دو مندر ہیں۔ متعدد پرائیویٹ اسکول اور کالجز الگ سے ہیں۔ پھر ریلوے کوئی ایسا پروجیکٹ بھی نہیں دکھا رہا کہ جس کے لئے وہ اپنی زمینوں کو واگزار کرانا چاہ رہا ہے۔ ریلوے پھاٹک پر مائیک لگا کر ایک ہفتہ میں علاقہ خالی کرنے اعلان مسلسل کیا جا رہا ہے۔
ہم نے اس بارے میں حکومتی عہدے داران سے بھی بات کی، آکاش پانڈے، نگر نگم سے وابستہ افسر سے جب ہم نے صورت حال دریافت کی تو انھوں نے کہا کہ اس پورے معاملے میں اب وہ کوئی بھی رائے دینا نہیں چاہتے کیوںکہ ہائی کورٹ کا فیصلہ آ گیا ہے اور عدالت نے بھی کہہ دیا ہے کہ لوگ اپنے اپنے گھروں کو خالی کر دیں تو ہم تو عدالت کے ماتحت ہیں، اس پر ہم مزید کیا کہہ سکتے ہیں۔
شام ہو چلی تھی، ہم لوگوں کو دلی بھی لوٹنا تھا سو ہم بہت سارے سوالات ذہن میں لیے بوجھل قدموں کے ساتھ گاڑی کی طرف چل دیے۔ گاڑی میں بیٹھنے کے بعد بھی بہت سارے سوالات ہمارا پیچھا کر رہے تھے۔ کیا سچ مچ مسلمان اس ملک میں اجنبی بن گئے ہیں، کیا اتنی قربانیاں دینے کے بعد آج بھی انھیں اسی طرح نشانہ بنایا جاتا رہے گا؟ بہت سے سوالات تھے، مگر ہمارے پاس کسی سوال کا کوئی جواب نہیں تھا۔