فضل احمد کریم فضلی مرحوم

اعلیٰ افسر، ادیب، شاعر، فلم ساز اور ہدایت کار ۔۔۔اپنی ہر جہت میں منفرد


اعلیٰ افسر، ادیب، شاعر، فلم ساز اور ہدایت کار ۔۔۔اپنی ہر جہت میں منفرد ۔ فوٹو : فائل

(مضمون نگار پروفیسر سراج الدین قاضی تدریس کے شعبے سے وابستہ رہے اور بہ طور ایسوسی ایٹ پروفیسر اپنی ذمے داریوں سے سبک دوش ہوئے۔

بہ طور اساتذہ راہ نما انھوں نے کالجوں کے اساتذہ کی تنظیم ''سندھ پروفیسرز اور لیکچرز ایسوسی ایشن'' (سپلا) کے پلیٹ فارم سے درس وتدریس سے وابستہ افراد کی فلاح وبہبود اور ان کے حقوق کے لیے فعال کردار ادا کیا۔ انھوں نے قرطاس وقلم سے بھی اپنا رشتہ برقرار رکھا اور وہ کئی کتابوں کے مصنف ہیں، جن میں تذکرۂ احبابِ حیدرآباد، سندھ، سیدریاض احسن (حیات، خدمات، واقعات)، مکاتیب ابوالکلام آزاد پر ایک نظر اور خودنوشت ''آپ/ جاب بیتی'' شامل ہیں)

جناب فضل احمد کریم فضلی 3 جولائی 1906 کو الٰہ آباد بھارت میں پیدا ہوئے۔ آپ اپنے دو بھائیوں سبطین فضلی اور حسنین فضلی سے چھوٹے تھے۔

ان کے یہ دونوں بھائی بھارت کے معروف فلم ساز اور ہدایت کار تھے، جنھوں نے بھارت میں دو کام یاب فلمیں ''شمع'' اور ''مہندی'' کے نام سے بنائیں۔ بعدازآں انھوں نے ہجرت کے بعد پاکستان آ کر بھی دو کام یاب فلمیں ''دوپٹہ'' اور ''گلنار'' بنائیں۔

فضلی صاحب نے ابتدائی تعلیم الٰہ آباد میں حاصل کی۔ آپ نے بی۔اے کی ڈگری ینگ مین کرسچن کالج الٰہ آباد سے حاصل کی۔ آپ نے آئی سی ایس کے امتحان میں شریک ہو کر تیسری پوزیشن کے ساتھ آئی۔سی۔ایس کا امتحان پاس کیا۔

آپ کو مزید اعلیٰ تعلیم کے حصول کے لیے انگلستان بھجوا دیا گیا، جہاں آپ نے آکسفورڈ یونیورسٹی سے اپنا ایم۔فل کا مقالہ لکھا، جس کا عنوان "The Original Development Of Persian Ghazal" (فارسی غزل کی حقیقی ترقی) تھا۔

ایم۔فل کی ڈگری کی تکمیل کے بعد آپ نے دوبارہ ہندوستان پہنچ کر آئی۔سی۔ایس میں شمولیت اختیار کی، جہاں پہلے آپ کو اسسٹنٹ کمشنر کی ذمے داریاں تفویض ہوئیں۔

قحط بنگال کے زمانے میں آپ نے ریلیف کمشنر کی حیثیت سے بھی خدمات انجام دیں۔ آپ نے بنگالی عوام کی ہم دردی کے حصول کے لیے باقاعدہ بنگالی زبان سیکھی۔ آپ نے اپنے حسن اخلاق اور اعلیٰ تدبر کی وجہ سے بنگالی عوام میں بہت مقبولیت حاصل کی۔

تقسیم ہند کے بعد آپ نے سابق مشرقی پاکستان میں مختلف حیثیتوں سے کام کیا۔ قبل از ریٹائرمنٹ سے پیش تر آپ نے مشرقی پاکستان کے سیکریٹری تعلیم کی حیثیت سے بھی خدمات انجام دیں۔ آپ نے 1960 میں ریٹائرمنٹ لی۔

اپنی ریٹائرمنٹ کے بعد آپ نے بنگال کے پس منظر میں دو ناول لکھے جو ''سحر ہونے تک'' اور ''خون جگر ہونے تک'' کے عنوان سے شایع ہوئے۔ آپ کے دوسرے ناول نے عوام میں بہت مقبولیت حاصل کی۔

گو آپ کے ناول کو کوئی ادبی انعام تو نہ مل سکا، لیکن وہ ناول کسی طرح بھی کسی ادبی انعام یافتہ ناول سے کم نہ تھا۔ اب آپ کے اندر کے فن کار نے آپ کو کچھ اور کرنے پر اکسایا، تو آپ نے اپنے بڑے بھائیوں کی طرح فلم سازی اور ہدایت کاری کا رخ کیا۔

آپ نے اپنے ادارے دبستان محدود کے بینر تلے اپنی پہلی فلم ''چراغ جلتا رہا'' شروع کی، جس کے اداکاروں میں تمام نئے چہرے شامل تھے جن میں زیبا، دیبا، محمد علی، کمال ایرانی اور عارف شامل ہیں۔ ان اداکاروں میں سے عارف کو چھوڑ کر دیگر چار اداکاروں نے عظیم الشان کام یابی حاصل کی۔

''چراغ جلتا رہا'' کی نمائش کا افتتاح مادر ملت محترمہ فاطمہ جناح نے کراچی کے نشاط سنیما میں 9 مارچ 1962 کو کیا۔ اس زمانے کے کمشنر کراچی جناب اے۔ٹی نقوی نے فلم کا تفریحی ٹیکس معاف کردیا جس کی وجہ سے فلم کی لاگت نکل آئی۔

آپ نے اپنی دوسری فلم ''ایسا بھی ہوتا ہے'' بنائی جس کے اداکاروں میں زیبا اور کمال شامل تھے۔ اس فلم نے بڑی کام یابی حاصل کی۔ آپ نے اپنی تیسری فلم ''وقت کی پکار'' کے نام سے بنائی جو 65ء کی جنگ کے پس منظر میں تھی۔ سنسر بورڈ کی کانٹ چھانٹ کی وجہ سے فلم کام یاب نہ ہو سکی۔ اب آپ نے اپنی چوتھی فلم ''دور بھی نزدیک بھی'' کی تیاری شروع ہی کی تھی کہ آپ شدید علیل ہوگئے۔

آپ کراچی کی فلمی صنعت کو ترقی دینا چاہتے تھے، جس کے لیے آپ نے ایک وسیع قطعہ اراضی بھی خرید لیا تھا، لیکن اسی دوران دل کے شدید دورے کے نتیجے میں 17 اور18 دسمبر 1981 کی درمیانی شب آپ انتقال کرگئے۔ یوں ایک نابغۂ روزگار شخص اللہ کے حضور پہنچ گیا، جو بیک وقت ایک اعلیٰ افسر، ادیب، شاعر، فلم ساز اور ہدایت کار کے علاوہ ایک اچھا انسان بھی تھا۔ اللہ آپ کی مغفرت فرمائے (آمین)

24 جولائی 2022ء

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں