ناطقہ سر بہ گریباں۔۔۔۔
ان کے گھر کی ایک کھڑکی گلی میں کھلتی تھی، اس وقت کراچی امن کا گہوارہ تھا
ہماری ایک صحافی دوست تھیں جن کا آدھا چہرہ جھلسا ہوا تھا ، میں نے کبھی نہیں پوچھا کہ ان کے ساتھ کیا ہوا تھا، البتہ یہ بات بہت سے ساتھی جانتے تھے کہ پریکٹیکل کے دوران ان کے چہرے پر تیزاب گر گیا تھا، لیکن مجھے اس بات پر کبھی یقین نہ آیا کہ اگر پریکٹیکل کے دوران تیزاب گرتا تو سینے پر یا دامن پر گرتا چہرے پر کیمیکل گرنا سمجھ میں نہ آیا۔
پھر کچھ عرصے بعد ہمارے ایک فیملی فرینڈ صحافی نے مجھے یہ بات بتائی کہ ان خاتون نے انھیں بھائی بنایا ہوا تھا۔ دونوں میاں بیوی ہماری صحافی دوست کا بہت خیال رکھتے تھے۔ انھوں نے بتایا کہ وہ خاتون اپنی والدہ اور بھائی کے ہمراہ ایک گھر میں رہتی تھیں۔
ان کے گھر کی ایک کھڑکی گلی میں کھلتی تھی، اس وقت کراچی امن کا گہوارہ تھا، گھروں کے باہر لان کی دیواریں بھی پانچ فٹ سے زیادہ اونچی نہ ہوتی تھیں، وہ خاتون جس راستے سے گزر کر جاتی تھیں تو ایک لڑکا مسلسل ان کا پیچھا کرتا تھا، وہ ڈانٹ دیتی تھیں۔
پھر اس نے اپنا رشتہ بھیجا جو منع ہو گیا۔ ایک دن ہماری دوست گھر میں استری کر رہی تھیں گلی میں کھلنے والی کھڑی کھلی ہوئی تھی کہ گرمی کا زمانہ تھا اور راوی اس شہر کے لیے چین ہی چین لکھتا تھا ، لوگوں کے گھر ابھی آہنی سلاخوں کے پنجرے نہیں بنے تھے۔ وہ استری کر رہی تھیں کہ وہ آواز شخص کھڑکی کے قریب آ کر کھڑا ہو گیا، وہ کھڑکی بند کرنے گئیں تو اس بدبخت نے تیزاب چہرے پر پھینک دیا۔
یہ واقعہ مجھے اس لیے یاد آیا کہ چند دن قبل ایک خبر ٹی وی پر سنی کہ کورنگی میں دو بہنوں اور بھائی پر کسی نے تیزاب پھینک دیا، انھیں سول اسپتال میں داخل کردیا گیا ، جب میں یہ کالم لکھ رہی ہوں تو اخبار میں اس سانحے کی تفصیل شایع ہوئی ہے، میرا شک صحیح نکلا کہ رشتہ نہ دینے کی وجہ سے یہ قبیح حرکت کی گئی۔
یہی تفصیل خبر میں ہے کہ ملزم عامر اور سہیل نے یہ حرکت کی اور فرار ہوگئے لیکن پولیس نے انھیں گرفتار کرلیا ہے۔
سوال یہ ہے کہ کھلے عام تیزاب کی فروخت کو ناممکن بنایا جائے۔ پہلے بھی اس قسم کے واقعات رونما ہوتے رہے ہیں، رشتے کے تنازع پر لڑکی کا چہرہ بگاڑ دینا جیسے کوئی بات نہیں، کافی عرصہ قبل ایک سیاستدان کے بیٹے نے بھی ایک خاتون پر تیزاب پھینکا تھا جو کہ ان کی منکوحہ تھی۔
یہ کہاں کا وتیرہ ہے کہ اگر کسی لڑکے کا رشتہ کسی لڑکی کے لیے بھیجا جائے اور وہاں سے انکار ہو جائے تو اسے لڑکا اور اس کے گھر والے اپنی بے عزتی اور توہین سمجھتے ہیں، گویا لڑکی کوئی بکاؤ شے ہے۔
آج سے پہلے جتنی بھی لڑکیوں پر تیزاب پھینکا گیا وہ سب رشتے کے تنازع پر یا خاندانی دشمنی کی بنا پر، جب کوئی الم ناک واقعہ پیش آتا ہے تو کچھ دن شور مچتا ہے اور پھر غبارے میں سے ہوا نکل جاتی ہے۔ تینوں بہن بھائی جھلس گئے ہیں، ان کا مستقبل کیا ہوگا کسی کو معلوم نہیں۔ ایک بار ایسے ہی ایک واقعے کو غیر ملکی میڈیا نے بہت ہائی لائٹ کیا تھا، ساری دنیا میں پاکستان کی بدنامی ہوئی تھی، لیکن کھلے عام تیزاب کی خرید و فروخت بند نہ ہو سکی۔
آج عالم یہ ہے کہ دکانوں پر تیزاب بآسانی مل جاتا ہے۔ واش روم کی صفائی کے لیے اب اس کا چلن عام ہے۔
ایک دوسری المناک خبر ایک کوچنگ سینٹر کے حوالے سے گردش میں ہے کہ ایک نویں جماعت کے طالب علم اور ایک بی اے کے طالب علم کے درمیان کسی بات پر جھگڑا ہوا ، لوگوں نے بیچ بچاؤ کروا دیا ، لیکن نویں جماعت کا طالب علم اگلے دن اپنے ساتھیوں کے ساتھ بوری میں کلاشنکوف لے کر آیا اوربی اے کے طالب علم پر اندھا دھند گولیاں برسا کر بھاگ گیا۔ سوال یہ ہے کہ اس وقت گارڈ کیا کر رہا تھا، اس نے چیک کیوں نہ کیا۔
یہ ذمے داری سیکیورٹی گارڈ کی تھی۔ ملزم معہ خاندان کے فرار ہے، مقتول کا باپ بے چارہ سبزی کا ٹھیلا لگاتا ہے، اس کے کتنے ارمان ہوں گے اپنے بیٹے کو لے کر۔ یقینا وہ سوچتا ہوگا کہ اس کا بیٹا بڑے ہو کر ٹھیلا نہ لگائے بلکہ پڑھ لکھ کر کچھ بن جائے، لیکن اس کے خواب ادھورے رہ گئے۔
تعلیمی اداروں میں دہشت گردی کوئی نئی بات نہیں ہے، ہم نے اکثر ایسی سچویشن فیس کی ہے کہ طلبا کی تنظیموں نے آپس میں جھگڑا کیا اور اسلحے کا استعمال بھی کیا ، اساتذہ کو بھی ڈرایا دھمکایا اور کمروں میں بند کردیا۔ ہر سیاسی جماعت کی الگ الگ طلبا تنظیمیں ہیں جو سیاسی پارٹیوں کے پے رول پر کام کرتی ہیں۔ سیاسی پارٹیاں انھیں ٹشو پیپر کی طرح استعمال کرتی ہیں اور پھینک دیتی ہیں۔ اس طرح طلبا کا مستقبل تاریک ہو جاتا ہے۔
سوال یہ ہے کہ جب پورے ملک میں سرکاری اور غیر سرکاری کالج اور اسکول موجود ہیں تو ان کوچنگ سینٹرز کی کیا ضرورت ہے؟ افسوس اس بات کا ہے کہ جو اساتذہ تعلیمی اداروں میں پڑھاتے ہیں وہی کوچنگ سینٹرز میں بھی پڑھاتے ہیں، پھر کیا وجہ ہے کہ صبح تعلیمی اداروں میں تعلیم حاصل کرنے کے بعد شام کو کوچنگ جانا کیوں ضروری ہے؟ والدین ان ٹیوشن سینٹرز کو لازمی سمجھتے ہوئے اپنے بچوں کو زبردستی کوچنگ سینٹرز میں بھیجتے ہیں۔
اسکول اور کالج میں داخلے سے پہلے کوچنگ میں داخلہ دلواتے ہیں، صبح بیٹا یا بیٹی کالج نہ جائے تو والدین کو پرواہ نہیں، لیکن شام کو جانا بہت ضروری ہے۔ میرے واقف کاروں میں کئی ایسے لوگ ہیں جن کے بچے اے ون اسٹوڈنٹ ہیں، لیکن انھیں بھی کوچنگ میں جانا ضروری ہے۔
1974 کی بات ہے جب میرا اپائنمنٹ جامعہ ملیہ ڈگری کالج ملیر میں ہوا ، میں کلاس لینے گئی تو ہمارے سینئر اساتذہ حسن علی شطاری اور صدر شعبہ اردو پروفیسر اسلم خان باہر ٹہلتے رہے۔ کلاس بھری ہوئی تھی اور کلاس میں صرف لڑکے تھے۔
میرے لیے مجمع کو فیس کرنا کوئی مشکل بات نہیں تھی، کیونکہ زمانہ طالب علمی میں ڈبیٹر رہی تھی، فی البدیہہ مباحثوں میں خوب حصہ لیتی تھی۔ سب سے اگلی صف میں ایک موٹا سا لڑکا بیٹھا تھا بعد میں پتا چلا کہ اس کا نام نوید ہے۔
وہ بہت مودب بیٹھا تھا، کلاس ختم ہوئی، میں باہر نکلی تو اپنے سینئر ساتھیوں سے پوچھا۔ خیر تو ہے آپ لوگ بڑی دیر سے ٹہل رہے تھے۔ وہ بولے ''ہمیں آپ کی خیریت مطلوب تھی، سب سے آگے جو طالب علم موٹا سا بیٹھا تھا وہ ہر وقت ٹی ٹی رکھتا ہے اورکوئی کلاس اٹینڈ نہیں کرتا، البتہ جب کوئی نیا استاد آتا ہے تو یہ کلاس میں ضرور بیٹھتا ہے اور بدتمیزی بھی کرتا ہے۔
اسی لیے ہم باہر ٹہل رہے تھے کہ پری انجینئرنگ کی کلاس میں کئی ایسے لڑکے موجود ہیں جو اسلحہ رکھتے ہیں لیکن آپ نے تو بہت کامیابی سے کلاس لی اور کوئی شور بھی نہ ہوا۔ ورنہ یہ لڑکے پہلے دن لیکچرر کو بہت تنگ کرتے ہیں۔
اسلم صاحب نے اسٹاف روم میں آ کر بتایا تو پرنسپل اخلاق اختر حمیدی بولے '' اگر استاد اپنے مضمون پر قادر ہو تو طلبا مطمئن ہوتے ہیں اور تنگ بھی نہیں کرتے۔'' خیر میں نے طلبا کے ذہنوں پر نفسیاتی حربے استعمال کرنا شروع کر دیے جو بہت کامیاب رہے۔
نوید نے ٹی ٹی لانا بند کر دیا اور کلاس باقاعدگی سے لینے لگا اور بعد میں پائلٹ اور ایک کامیاب انسان بنا۔اس زمانے میں بھی طلبا تنظیموں کا بہت عمل دخل تھا، لیکن جن اساتذہ کو اپنے سبجیکٹ پہ عبور تھا انھیں کوئی مشکل نہیں آتی تھی۔ اب ماحول بہت بدل گیا ہے، کوچنگ سینٹرز سونے کی کان ہیں، کالجوں میں تو اساتذہ پڑھائیں یا نہ پڑھائیں انھیں تنخواہیں وقت پہ ملتی رہیں گی، البتہ پرائیویٹ کالجوں کا معاملہ الگ ہے ، لیکن بیشتر کوچنگ سینٹرز کالج کے اساتذہ ہی کے ہیں، اور بعض کوچنگ سینٹرز کی تو محکمہ تعلیم کے افسران سے ملی بھگت ہوتی ہے کہ ان کی کوچنگ میں پڑھنے والوں کو پوزیشن دی جائے،چنگ سینٹرز ایک مافیا ہے اور اس سے نجات کا کوئی راستہ نہیں ہے کیونکہ والدین خود اپنی محنت کی کمائی ان کوچنگ سینٹرز مافیا میں جھونکتے ہیں۔
پھر کچھ عرصے بعد ہمارے ایک فیملی فرینڈ صحافی نے مجھے یہ بات بتائی کہ ان خاتون نے انھیں بھائی بنایا ہوا تھا۔ دونوں میاں بیوی ہماری صحافی دوست کا بہت خیال رکھتے تھے۔ انھوں نے بتایا کہ وہ خاتون اپنی والدہ اور بھائی کے ہمراہ ایک گھر میں رہتی تھیں۔
ان کے گھر کی ایک کھڑکی گلی میں کھلتی تھی، اس وقت کراچی امن کا گہوارہ تھا، گھروں کے باہر لان کی دیواریں بھی پانچ فٹ سے زیادہ اونچی نہ ہوتی تھیں، وہ خاتون جس راستے سے گزر کر جاتی تھیں تو ایک لڑکا مسلسل ان کا پیچھا کرتا تھا، وہ ڈانٹ دیتی تھیں۔
پھر اس نے اپنا رشتہ بھیجا جو منع ہو گیا۔ ایک دن ہماری دوست گھر میں استری کر رہی تھیں گلی میں کھلنے والی کھڑی کھلی ہوئی تھی کہ گرمی کا زمانہ تھا اور راوی اس شہر کے لیے چین ہی چین لکھتا تھا ، لوگوں کے گھر ابھی آہنی سلاخوں کے پنجرے نہیں بنے تھے۔ وہ استری کر رہی تھیں کہ وہ آواز شخص کھڑکی کے قریب آ کر کھڑا ہو گیا، وہ کھڑکی بند کرنے گئیں تو اس بدبخت نے تیزاب چہرے پر پھینک دیا۔
یہ واقعہ مجھے اس لیے یاد آیا کہ چند دن قبل ایک خبر ٹی وی پر سنی کہ کورنگی میں دو بہنوں اور بھائی پر کسی نے تیزاب پھینک دیا، انھیں سول اسپتال میں داخل کردیا گیا ، جب میں یہ کالم لکھ رہی ہوں تو اخبار میں اس سانحے کی تفصیل شایع ہوئی ہے، میرا شک صحیح نکلا کہ رشتہ نہ دینے کی وجہ سے یہ قبیح حرکت کی گئی۔
یہی تفصیل خبر میں ہے کہ ملزم عامر اور سہیل نے یہ حرکت کی اور فرار ہوگئے لیکن پولیس نے انھیں گرفتار کرلیا ہے۔
سوال یہ ہے کہ کھلے عام تیزاب کی فروخت کو ناممکن بنایا جائے۔ پہلے بھی اس قسم کے واقعات رونما ہوتے رہے ہیں، رشتے کے تنازع پر لڑکی کا چہرہ بگاڑ دینا جیسے کوئی بات نہیں، کافی عرصہ قبل ایک سیاستدان کے بیٹے نے بھی ایک خاتون پر تیزاب پھینکا تھا جو کہ ان کی منکوحہ تھی۔
یہ کہاں کا وتیرہ ہے کہ اگر کسی لڑکے کا رشتہ کسی لڑکی کے لیے بھیجا جائے اور وہاں سے انکار ہو جائے تو اسے لڑکا اور اس کے گھر والے اپنی بے عزتی اور توہین سمجھتے ہیں، گویا لڑکی کوئی بکاؤ شے ہے۔
آج سے پہلے جتنی بھی لڑکیوں پر تیزاب پھینکا گیا وہ سب رشتے کے تنازع پر یا خاندانی دشمنی کی بنا پر، جب کوئی الم ناک واقعہ پیش آتا ہے تو کچھ دن شور مچتا ہے اور پھر غبارے میں سے ہوا نکل جاتی ہے۔ تینوں بہن بھائی جھلس گئے ہیں، ان کا مستقبل کیا ہوگا کسی کو معلوم نہیں۔ ایک بار ایسے ہی ایک واقعے کو غیر ملکی میڈیا نے بہت ہائی لائٹ کیا تھا، ساری دنیا میں پاکستان کی بدنامی ہوئی تھی، لیکن کھلے عام تیزاب کی خرید و فروخت بند نہ ہو سکی۔
آج عالم یہ ہے کہ دکانوں پر تیزاب بآسانی مل جاتا ہے۔ واش روم کی صفائی کے لیے اب اس کا چلن عام ہے۔
ایک دوسری المناک خبر ایک کوچنگ سینٹر کے حوالے سے گردش میں ہے کہ ایک نویں جماعت کے طالب علم اور ایک بی اے کے طالب علم کے درمیان کسی بات پر جھگڑا ہوا ، لوگوں نے بیچ بچاؤ کروا دیا ، لیکن نویں جماعت کا طالب علم اگلے دن اپنے ساتھیوں کے ساتھ بوری میں کلاشنکوف لے کر آیا اوربی اے کے طالب علم پر اندھا دھند گولیاں برسا کر بھاگ گیا۔ سوال یہ ہے کہ اس وقت گارڈ کیا کر رہا تھا، اس نے چیک کیوں نہ کیا۔
یہ ذمے داری سیکیورٹی گارڈ کی تھی۔ ملزم معہ خاندان کے فرار ہے، مقتول کا باپ بے چارہ سبزی کا ٹھیلا لگاتا ہے، اس کے کتنے ارمان ہوں گے اپنے بیٹے کو لے کر۔ یقینا وہ سوچتا ہوگا کہ اس کا بیٹا بڑے ہو کر ٹھیلا نہ لگائے بلکہ پڑھ لکھ کر کچھ بن جائے، لیکن اس کے خواب ادھورے رہ گئے۔
تعلیمی اداروں میں دہشت گردی کوئی نئی بات نہیں ہے، ہم نے اکثر ایسی سچویشن فیس کی ہے کہ طلبا کی تنظیموں نے آپس میں جھگڑا کیا اور اسلحے کا استعمال بھی کیا ، اساتذہ کو بھی ڈرایا دھمکایا اور کمروں میں بند کردیا۔ ہر سیاسی جماعت کی الگ الگ طلبا تنظیمیں ہیں جو سیاسی پارٹیوں کے پے رول پر کام کرتی ہیں۔ سیاسی پارٹیاں انھیں ٹشو پیپر کی طرح استعمال کرتی ہیں اور پھینک دیتی ہیں۔ اس طرح طلبا کا مستقبل تاریک ہو جاتا ہے۔
سوال یہ ہے کہ جب پورے ملک میں سرکاری اور غیر سرکاری کالج اور اسکول موجود ہیں تو ان کوچنگ سینٹرز کی کیا ضرورت ہے؟ افسوس اس بات کا ہے کہ جو اساتذہ تعلیمی اداروں میں پڑھاتے ہیں وہی کوچنگ سینٹرز میں بھی پڑھاتے ہیں، پھر کیا وجہ ہے کہ صبح تعلیمی اداروں میں تعلیم حاصل کرنے کے بعد شام کو کوچنگ جانا کیوں ضروری ہے؟ والدین ان ٹیوشن سینٹرز کو لازمی سمجھتے ہوئے اپنے بچوں کو زبردستی کوچنگ سینٹرز میں بھیجتے ہیں۔
اسکول اور کالج میں داخلے سے پہلے کوچنگ میں داخلہ دلواتے ہیں، صبح بیٹا یا بیٹی کالج نہ جائے تو والدین کو پرواہ نہیں، لیکن شام کو جانا بہت ضروری ہے۔ میرے واقف کاروں میں کئی ایسے لوگ ہیں جن کے بچے اے ون اسٹوڈنٹ ہیں، لیکن انھیں بھی کوچنگ میں جانا ضروری ہے۔
1974 کی بات ہے جب میرا اپائنمنٹ جامعہ ملیہ ڈگری کالج ملیر میں ہوا ، میں کلاس لینے گئی تو ہمارے سینئر اساتذہ حسن علی شطاری اور صدر شعبہ اردو پروفیسر اسلم خان باہر ٹہلتے رہے۔ کلاس بھری ہوئی تھی اور کلاس میں صرف لڑکے تھے۔
میرے لیے مجمع کو فیس کرنا کوئی مشکل بات نہیں تھی، کیونکہ زمانہ طالب علمی میں ڈبیٹر رہی تھی، فی البدیہہ مباحثوں میں خوب حصہ لیتی تھی۔ سب سے اگلی صف میں ایک موٹا سا لڑکا بیٹھا تھا بعد میں پتا چلا کہ اس کا نام نوید ہے۔
وہ بہت مودب بیٹھا تھا، کلاس ختم ہوئی، میں باہر نکلی تو اپنے سینئر ساتھیوں سے پوچھا۔ خیر تو ہے آپ لوگ بڑی دیر سے ٹہل رہے تھے۔ وہ بولے ''ہمیں آپ کی خیریت مطلوب تھی، سب سے آگے جو طالب علم موٹا سا بیٹھا تھا وہ ہر وقت ٹی ٹی رکھتا ہے اورکوئی کلاس اٹینڈ نہیں کرتا، البتہ جب کوئی نیا استاد آتا ہے تو یہ کلاس میں ضرور بیٹھتا ہے اور بدتمیزی بھی کرتا ہے۔
اسی لیے ہم باہر ٹہل رہے تھے کہ پری انجینئرنگ کی کلاس میں کئی ایسے لڑکے موجود ہیں جو اسلحہ رکھتے ہیں لیکن آپ نے تو بہت کامیابی سے کلاس لی اور کوئی شور بھی نہ ہوا۔ ورنہ یہ لڑکے پہلے دن لیکچرر کو بہت تنگ کرتے ہیں۔
اسلم صاحب نے اسٹاف روم میں آ کر بتایا تو پرنسپل اخلاق اختر حمیدی بولے '' اگر استاد اپنے مضمون پر قادر ہو تو طلبا مطمئن ہوتے ہیں اور تنگ بھی نہیں کرتے۔'' خیر میں نے طلبا کے ذہنوں پر نفسیاتی حربے استعمال کرنا شروع کر دیے جو بہت کامیاب رہے۔
نوید نے ٹی ٹی لانا بند کر دیا اور کلاس باقاعدگی سے لینے لگا اور بعد میں پائلٹ اور ایک کامیاب انسان بنا۔اس زمانے میں بھی طلبا تنظیموں کا بہت عمل دخل تھا، لیکن جن اساتذہ کو اپنے سبجیکٹ پہ عبور تھا انھیں کوئی مشکل نہیں آتی تھی۔ اب ماحول بہت بدل گیا ہے، کوچنگ سینٹرز سونے کی کان ہیں، کالجوں میں تو اساتذہ پڑھائیں یا نہ پڑھائیں انھیں تنخواہیں وقت پہ ملتی رہیں گی، البتہ پرائیویٹ کالجوں کا معاملہ الگ ہے ، لیکن بیشتر کوچنگ سینٹرز کالج کے اساتذہ ہی کے ہیں، اور بعض کوچنگ سینٹرز کی تو محکمہ تعلیم کے افسران سے ملی بھگت ہوتی ہے کہ ان کی کوچنگ میں پڑھنے والوں کو پوزیشن دی جائے،چنگ سینٹرز ایک مافیا ہے اور اس سے نجات کا کوئی راستہ نہیں ہے کیونکہ والدین خود اپنی محنت کی کمائی ان کوچنگ سینٹرز مافیا میں جھونکتے ہیں۔