وژنری قیادت درکار ہے
تعطل کے شکار آئی ایم ایف پروگرام کا دوبارہ شروع ہونا پاکستان کے لیے بہت اہم ہے
پاکستان نے آج کے دن تک اپنے تمام قرضوں کی قسطیں بروقت ادا کی ہیں۔ یہ صحیح ہے کہ پاکستان کے زرِ مبادلہ کے ذخائر بہت کم ہو چکے ہیں جس کی وجہ سے شدید مشکلات ہیں۔چونکہ اب تک تمام ادائیگیاں بروقت ہوئی ہیں اس لیے ایک بات طے ہے کہ فوری طور پر ڈیفالٹ کا کوئی خطرہ نہیں۔
بلومبرگ نے حال ہی میں کہا ہے کہ پاکستان کے موجودہ زرِ مبادلہ کے ذخائر اگلے چھ ماہ تک اسے ڈیفالٹ سے بچانے کے لیے کافی ہیں۔عالمی معیشت اور تجارت پر گہری نظر رکھنے والے امریکی نشریاتی ادارے بلومبرگ نے اپنی اس تجزیاتی رپورٹ میں کہا ہے کہ پاکستان کے پاس ساڑھے پانچ ارب ڈالر کا زرِ مبادلہ ہے جو اگلے چھ ماہ تک کی ادائیگیوں کے لیے کافی ہے لیکن پاکستان شدید مالی مشکلات سے دوچار ہے۔
تعطل کے شکار آئی ایم ایف پروگرام کا دوبارہ شروع ہونا پاکستان کے لیے بہت اہم ہے۔ مزید بیرونی امداد درکار ہو گی۔رپورٹ میں ماہرین ِ معیشت کے حوالے سے کہا گیا ہے کہ آئی ایم ایف کی فنڈنگ کے لیے ضروری ہے کہ اسے قرض دینے والے ممالک سے متوقع 5ارب ڈالر اور ورلڈ بینک سے 1.7 ارب ڈالر کی امداد مل جائے۔
بلومبرگ کی رپورٹ میں مزید اشارہ دیا گیا ہے کہ پاکستان کو آئی ایم ایف سے اس سال جون تک پیسے مل جائیں گے لیکن پاکستان کو ہر صورت اپنے زرِ مبادلہ کے ذخائر پندرہ ارب ڈالر تک لے جانے ہوں گے تاکہ ادائیگیاں بہت آسانی سے ہو سکیں۔
پاکستان نے رواں سال کے ابتدائی چند ہی دنوں میں اسلامک بانڈز کی ادائیگی کرنی تھی جو عین وقت پر کر دی گئی ہے۔اب ہمیں پوری کوشش کرنی چاہیے کہ ہمارے قرضوں کی ادائیگی چند سالوں کے لیے موئخر ہو جائے تا کہ پاکستانی معیشت کو اپنے پاؤں پر کھڑا ہونے کا موقع مل جائے ورنہ ہم ایک کلا سیکل ڈیٹ ٹریپClassical Debt Trapمیں پھنسے رہیں گے۔
ہم قرضے اتارنے کے لیے قرضے لینے پر مجبور ہیں۔پچھلے سال ہمارے کل سالانہ بجٹ کا 42فی صد قرضوں کی ادائیگی میں چلا گیا۔پاکستان شاید قرضوں کے چنگل سے آسانی سے نہ نکل سکے۔ جناب وزیرِ اعظم نے بھی کہا تھا کہ عوام کو کوئی بھی سہولت دینے کے لیے آئی ایم ایف سے اجازت لینی پڑتی ہے۔
پاکستان کی جغرافیائی لوکیشن اسے ایک اہمیت کا حامل ملک بناتی ہے۔امریکی وزیرِ خارجہ نے ایک بیان میں کہا ہے کہ امریکا کو عالمی تناظر میں تو بھارت کی ضرورت ہے لیکن علاقائی تناظر میں پاکستان اہم ہے۔چین کے وزیرِ خارجہ نے شاید اسی لیے کہا ہے کہ اب تک ہم پاکستان کا خیال رکھتے آئے ہیں لیکن اب امریکا پاکستان کا خیال رکھے گا۔
ایک طرف ہم لوگ اور حکمران اشرافیہ کہتی ہے کہ بیرونی قوتیں پاکستان کو afloat ,کمزور اور غیر مستحکم رکھنا چاہتی ہیں لیکن دوسری طرف ہم نے اپنا گھر ٹھیک کرنے میںکوئی دلچسپی نہیں دکھائی۔
اگر خدا نخواستہ پاکستان کسی وقت پر اپنے قرضے ادا نہیں کر سکتا تو کیا ہو گا۔کچھ سال پہلے ارجنٹائن ڈیفالٹ کر گیا تو نتائج کو دیکھتے ہوئے آئی ایم ایف نے فیصلہ کیا کہ آیندہ کسی ممبر ملک کو ڈیفالٹ نہیں کرنے دینا کیونکہ ڈیفالٹ کی صورت میں قرض دینے والے بینک متعلقہ ملک کے بیرونی اثاثوں کو اپنے قبضے میں لے کر قرقی کرواتے اور اپنی رقم ریکور کرتے ہیں۔
متعلقہ ملک کے سفارتخانوں کی عمارتیں،ہوٹلیں،ہوائی جہاز غرضیکہ ہر اثاثہ قابلِ ضبتگی اور قابلِ فروخت ہوتا ہے۔متعلقہ ملک کے شہریوں کے باہر کے بینکوں میں پڑے پیسے اور ان کی ذاتی جائیدادیں بھی ضبط کر لی جاتی ہیں۔
ڈیفالٹڈ ملک سے کوئی ٹریڈ نہیں کرتا۔ارجنٹائن تو ایک مغربی کلچر کا حامل ملک تھا، اس لیے اس کے ساتھ نسبتاً نرم رویہ رکھا گیا لیکن ہم تو نرم برتاؤ کے کہیں بھی حقدار نہیں اور پھر اس کو بھی ذہن میں رکھنا ہو گا کہ شدید ترین پابندیوں کے باوجود ایران مٹ تو نہیں گیا۔شمالی کوریا ایک لمبے عرصے سے انتہائی ناپسندیدہ ملک ہے لیکن یہ ملک قائم و دائم ہے۔
اس لیے ڈیفالٹ سے بچنے کی تو ہر ممکن کوشش کرنی چاہیے لیکن ڈیفالٹ کی صورت میں کوئی قیامت بھی نہیں آ جاتی۔خدا پاکستان کی حفاظت فرمائے۔پچھلے سال بیرونِ ملک مقیم پاکستانیوں نے 30ارب ڈالر سے زائد رقم بھیجی لیکن حیرت کی بات یہ ہے کہ اسی عرصے میں پاکستان سے 30ارب ڈالر کی رقم سرکاری چینل سے باہر گئی۔آخر ایسا کیوں ہونے دیا گیا۔
ڈالرز کی بہت بڑے پیمانے پر افغانستان منتقلی بھی ہو رہی ہے۔ لگتا ہے پاکستانی سرمایہ کار اپنا سرمایہ باہر منتقل کرنے پر لگ گئے ہیں۔ اس کام کے لیے افغانستان آسان رُوٹ ہے۔ فلائٹ آف ڈالر ہو رہا ہے اور اسٹیٹ بینک بالکل چپ ہے۔
بہت لمبے عرصے سے پاکستان کی کوئی بھی حکومت عوام کی فلاح و بہبود اور امنگوں کی ترجمان نہیں رہی۔ایک حرص و ہوس کی منڈی لگی ہوئی ہے۔ہر کوئی اپنا مفاد حاصل کرنے میں لگا ہوا ہے اور اسی وجہ سے ملک کی معیشت ابتر ہو چکی ہے۔عوام کو اپنے اور پاکستان کے مفادات کی نگرانی کے لیے کمر کسنی ہو گی۔
معیشت کی بہتری کے لیے ماہرین کی ایک کمیٹی بناکر ترجیحات مرتب کریں اور پارلیمنٹ میں سیر حاصل بحث کر کے تمام سیاسی جماعتوں کا Cnsensus ڈویلپ کریں۔ پی ٹی آئی کو پہل کرنی چاہیے۔یہ ملک کا مسئلہ ہے جس کے لیے سیاست نہیں قربانی درکار ہے۔
صاف بات ہے کہ جناب عمران خان کسی کے ساتھ بیٹھنے کو تیار نہیں۔وجوہات جو بھی ہوں لیکن اس وقت پاکستان اپنے ہر شہری ،ہر رہنماء سے قربانی مانگتا ہے۔حکومت میں شامل تمام سیاسی جماعتوں کو بھی پی ٹی آئی کے ساتھ مل بیٹھنے اور ملک کے لیے قربانی دینے کے لیے تیار رہنا چاہیے۔
افسوس کا مقام ہے کہ ابھی تک کسی سیاسی جماعت نے اپنی جماعت کا ایسا کوئی اجلاس نہیں بلایا جس میں ملک کو درپیش مشکلات سے نکلنے کے لیے سوچ بچار اور مشاورت کی گئی ہو۔ آئے روز پارٹیوں کے اجلاس ہو رہے ہیں۔پارٹیوں کی اعلیٰ قیادت ملتی ہے لیکن صرف ذاتی اور پارٹی مفادات کو آگے بڑھانے کے لیے۔پارلیمانی نظام ایک بہترین نظام ہے لیکن ہمارے پارلیمنٹیرینز بغیر کچھ کیے تنخواہوں اور مراعات کی مد میں اتنا لیتے ہیں جو پاکستان جیسے غریب ملک کے خزانے پر بھاری بوجھ بن جاتا ہے۔
کیا وہ اس ملک کی بہتری کی خاطر اگلے پندرہ،بیس سال بغیر تنخواہ اور مراعات کے نہیں رہ سکتے۔کیا وہ سرکاری گاڑیوں کے جلو کو چھوڑ کر اپنی ذاتی گاڑی نہیں استعمال کر سکتے۔اگر پاکستان کو معاشی دلدل سے نکالنا ہے،اگر پاکستان سے محبت ہے،اگر اسے ایک باوقار قوم بنانا ہے تو ہر ایک خاص کر رہنماؤں کو ذاتی مفادسے اوپر اُٹھ کر صرف اور صرف اس ملک کے لیے کام کرنا ہو گا۔ہماری قوم میں حیرت انگیز قوت اور Resilienceہے۔اسے جب بھی مخلص، محنتی،دیانت دار اور وژنری قیادت میسر آگئی،یہ ستاروں پہ کمند ڈالے گی۔ان شاء اﷲ