خواجہ آفتاب عالم‘ شخصیت و فن کے آئینے میں

اس کے شعروں میں محبت کے لیے محبت اور نفرت کے لیے نفرت بالکل صاف نظر آتی ہے


صدام ساگر January 13, 2023

انسانی شخصیت کے دو پہلو ہوتے ہیں۔ ایک ظاہر اور دوسرے باطنی۔ ظاہر وہ جسے صرف دیکھ کر لوگ متاثر ہوتے ہیں، لیکن باطنی خوبیاں کسی سے ملاقات کے بعد یا معاملات کے وقت ہی لوگوں کو متاثر کرتی ہیں۔

ظاہری خوبصورتی کا اثر عارضی ہوتا ہے جب کہ باطنی خوبیوں کا اثر پائیدار اور دیرپا ہوتا ہے اور یہی باطنی خوبیاں کسی بھی فرد کو متاثر کن یا مثالی شخصیت کا روپ دیتی ہیں۔

ایسی ہی مثالی شخصیت کا روپ دھارنے والی شخصیات میں عہد حاضر کے جواں فکر شاعر، کالم نگار، صحافی، ہر دلعزیز نظامت کار خواجہ آفتاب عالم بھی شامل ہیں۔

ان کی شخصیت سچائی، محنت و مشقت، توجہ ویکسوئی، مثبت رویہ، انصاف پسندی، فرمانبرداری، صبر و توکل، خوش مزاجی خدمت و محبت، اعتدال و میانہ روی، ایمانداری جیسی کئی خوبیوں سے مزین ہے،وہ اپنی شاعری کی طرح ایک سچا اور کھرا انسان دکھائی دیتا ہے۔

ان کے شعری اسلوب کے حوالے سے وسیم عالم لکھتے ہیں کہ''آفتاب عالم کی شاعری بہت سادہ مگر گہری ہے، وہ جہاں شاعری کے سفر میں سچائی کا ساتھ دیتے ہوئے دو قدم آگے چلتا ہے وہیں جھوٹ کیخلاف اس کی آواز بڑی توانا اور مضبوط ہے۔

اس کے شعروں میں محبت کے لیے محبت اور نفرت کے لیے نفرت بالکل صاف نظر آتی ہے کہیں بھی منافقت کا رنگ دکھائی نہیں دیتا۔'' خواجہ آفتاب عالم نے اپنا پہلا مشاعرہ1995میں محمد علی جناح لاء کالج گوجرانوالہ میں پڑھا۔ اس مشاعرے میں نظیر احمد بے نظیر مرحوم کے توسط سے پنجابی کے نامور شاعر امین خیال مرحوم سے ان کی پہلی ملاقات ہوئی۔

جس کے بعد کئی ملاقاتوں کا سلسلہ جاری رہا۔ نظیر احمد بے نظیر مرحوم کے کہنے پر ہی انھوں نے امین خیال مرحوم کی شاگردی اختیار کی۔ کچھ ہی عرصے کے بعد پنجابی سے اُردو شاعری کا شوق پیدا ہوا تو انھیں خیال صاحب نے گوجرانوالہ کے ادبی اکھاڑے کے پہلوان جان کاشمیری کی صحبت میں دے دیا۔

اس کے باوجود جو فیض وسیم عالم مرحوم کی شفقت، محبت اور صحبت سے ملا شائد کسی اور سے نہ مل سکا۔وسیم عالم ان کے زندگی کے کٹھن راستوں کے ہمراز بھی تھے۔ کوئی ادیب تو صحافی بن سکتا ہے مگر کوئی صحافی ادیب نہیں بن سکتا یقینا خواجہ آفتاب عالم پہلے صحافی بنے اور بعد میں ادیب۔ انھیں شعبہ صحافت میں گوجرانوالہ کے سینئر صحافی اکرم ملک، آصف صدیقی اور منیر قریشی جیسی بے لوث شخصیات کی سرپرستی حاصل رہی۔

خواجہ آفتاب عالم 1991 میں جب سیکنڈایئرکے طالب علم تھے تو اس دوران ہی وہ اپنے شہر کے مقامی اخبار ''سفیر'' سے بطور نمایندہ خصوصی منسلک ہو گئے۔

داؤد تاثیر کے کہنے پر ہی وہ کالم نگاری کی طرف راغب ہوئے ۔خواجہ آفتاب عالم ایک ماہر قانون دان کی حیثیت بھی رکھتے ہیں ،وہ اپنی صلاحیتوں کی بدولت کچھ کر گزرنے کامضبوط ارادہ رکھتے ہیں۔

وہ 1994سے ادبی،سیاسی،فلاحی اور مذہبی پروگرامز میں نظامت کے فرائض سر انجام دے رہے ہیں۔اسی دوران ان کے اندر مخلوقِ خدا کی خدمت کا جذبہ بیدار ہوا تو ان کی شخصیت پر سیاسی رنگ بھی ظاہر ہونے لگا۔ وہ کشمیری گھرانے سے تعلق کی بنا پر مسلم لیگ (ن) سے وابستگی رکھتے ہیں اور میاں نواز شریف کو اپنا محبوب لیڈر تصور کرتے ہیں۔

ان کاجرمِ وفا یہ ہے کہ وہ ابتک اپنی تین عدد کتب''ہر دلعزیز قومی رہنما،قومی سوچ کے حامل قومی رہنما اور ''ایک بہادر شخص''ماضی، حال اور مستقبل کے آئینے میں لکھ کر اپنے محبوب کی بارگاہ میں وفا کے گلدستے پیش کر چکے ہیں۔

ان تینوں نثری کتب میں کئی سالوں سے سیاسی،مذہبی اور ادبی پروگراموں کی کمپیئرنگ کے دوران آنکھوں دیکھے تمام تر حالات و واقعات کا تذکرہ موجود ہے،کیونکہ کمپیئرنگ کے میدان میں ان کا نعم البدل کوئی نہیں، جوشیلا اندازِ بیاں ہے،جاندار جملے بولتے ہیں، سامعین کی طرف توجہ دلانے کے فن پر مہارت رکھتے ہیں۔ ان کے بارے میں برملا یہ کہا جا سکتا ہے کہ وہ کسی بھی پروگرام کو تیاری کے بغیر بھی اسٹیج کو اس کے معیار کیمطابق سنبھال سکتے ہیں۔

خواجہ آفتاب عالم سیاست سے وابستگی رکھتے ہوئے اُن جھوٹے مشیروں کی طرح نہیں جن کا مستقبل داغ دار ہے، وہ اپنے ادبی ،صحافتی اور شعبہ وکالت کی طرح صاف ستھری سیاست پر یقین رکھتے ہیں، وہ دوسروں کے کام آنا اپنی زندگی کا نصب العین سمجھتے ہیں، وہ جسے دل سے اپنا ایک بار مان لیتے ہیں پھر اُسے زندگی کی تاریک راہوں پر تنہا نہیں چھوڑتے۔

ان کی شخصیت خلوص و وفا کا پیکر ہے۔ مجھے یاد ہے کہ عمران خان کے دورِ حکومت میں جب مسلم لیگ(ن) کے قائدین کو کرپٹ قرار دینے پر جیلوں میں بھیجا گیا اور دیگر اراکین کو جیل کی سلاخوں کے پیچھے دھکیلاگیا تو ایسے کڑے حالات میں بھی خواجہ آفتاب عالم ن لیگ کی اعلیٰ قیادت اور دیگر اراکین کی عدالتی پیشیوں پر مکمل طور پر شرکت کرتے رہے جو کارکنان میں کم شخصیات کو یہ اعزاز جاتا ہے جس کا ثبوت ان کی کتاب''ایک بہادر شخص'' کے تصویری البم میں دیکھا جا سکتا ہے۔

وہیں افسوس کا مقام یہ ہے کہ انھی کے محبوب قائد میاں نواز شریف کی کابینہ کی دوبارہ حکومت آنے پربھی ان کی صلاحیتوں اور قلمی کاوشوں کا اعتراف نہ کیا گیا ،جب کہ انھیں پاکستان مسلم لیگ (ن) کے لائرز فورم کے ڈپٹی سیکریٹری جنرل پنجاب ،مرکزی سیکریٹری جنرل نواز یوتھ فورس بھی مقرر کیا گیا ۔

اس کے باوجود بھی وہ موجودہ حکومت سے خفا نظر آنے پر وہ عہدوں سے زیادہ پاکستان کے روشن مستقبل کے ضامن دکھائی دیتے ہیں اور کئی محرومیوں اور ناکامیوں کی عکاسی کرتے ہوئے ان کے چند اشعار ملاحظہ کیجیے:

اک نوالے کی خاطر یہاں

کر رہے خود کشی لوگ ہیں

ان کو عالمؔ سزا کون دے

چور ہی منصفی لوگ ہیں

خواجہ آفتاب عالم حسن گفتار کے غازی اور مثبت کردار کے حامی بھی ہیں۔ایسے میں وہ اپنے ارد گرد کے حالات و واقعات ،سماجی،مذہبی رویوں اور سیاسی سرگرمیوں کو ایک شاعر کی نظر سے دیکھتے اور بیان کرتے ہیں۔

کوئی بھی موضوع ایسا نہیں ہے جو ان کی فکر اور قلم کی بصیرت تک رسائی نہ حاصل کر پایا ہو۔امجد حمید محسنؔ کے مطابق ''خواجہ آفتاب عالم کی شاعری کا مطالعہ کرتے ہوئے یہ محسو س ہوتا ہے کہ وہ قاری کو مشکل پسندی کا شکار نہیں ہونے دیتے۔

سادگی ان کی شاعری کا حُسن ہے ۔ ان کی کتاب ''قطعاتِ آفتاب'' پر نظر ڈالیں تو ایک احساس جاگ اُٹھتا ہے کہ آفتاب عالم جابجا زمانے کے دکھ کو اپنا دکھ تصور کر رہے ہیں، سماجی رویوں میں تبدیلی پر افسردہ وہ اس بات پر زور دے رہے ہیں کہ دعوے داروں کو چھوڑ کر خود اپنی منزل کی طرف نکلنا ہو گا اور غلامی کی زنجیروں کو توڑ کر آزاد فضا میں سانسیں لینے پر نفرت، بغض کو دور کر کے خوبصورت رشتوں کی تعمیر کرنا ہو گی۔'' خواجہ آفتاب عالم مثبت سوچ کے شاعر ہیں اپنی اسی مثبت سوچ کو لے کر اپنی منزل کی طرف رواں دواں ہیں ۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں