بلدیاتی الیکشن سیاسی عید
کیا ایک گڈریا ریاست سے زیادہ طاقت ور ہے ہم نے بہت ترقی کرلی ہے
قارئین ! اخبارات کے مطابق بلدیاتی الیکشن کے عید کا چاند 14 جنوری کو دیکھا جائے گا مگر سیاسی طور پر کچھ نہیں کہہ سکتے کہ بلدیاتی الیکشن کے چاند پر بادلوں کا سایہ بھی ہو سکتا ہے، مطلع اگر صاف رہا تو بلدیاتی عید15 جنوری کو منائی جائے گی اور 16 جنوری کو کون کون گلے ملے گا اور عیدی کے حوالے سے میئر کس کا ہوگا یہ تو وقت بتائے گا سیاسی بلدیاتی کشتی کے رنگ میں ہر سیاسی پہلوان داؤ پیچ قوم کو بتا رہے ہیں۔
ماضی کے طاقت ور پہلوان اب ساتھیوں کی تلاش میں ہیں کہ دو پہلوان مل کر لڑیں قوم انتظار میں ہے کہ کراچی شہر کا چیمپئن کون بنے گا، میئر کراچی کوئی بھی آئے ہماری حسرتیں تو چیخ چیخ کر کہہ رہی ہیں کہ ماضی میں پہلوان میئر تو تھے مگر مسائل کی ٹرافی جیت نہ سکے اور قوم شایقین بن کر روتے دھوتے تالیاں آنسو پونچھتے ہوئے بجاتے رہے۔
آنے والے میئر سے تو اہل کراچی امید کرتے ہیں کہ کراچی کو ماضی کا کراچی بنا دیں جہاں پانی ٹینکروں سے نہیں نلوں سے ملے، شہر میں چلنے والے چنگ چی رکشاؤں کو اگر یورپین دیکھ لیں تو آپ یقین کریں کہ خودکشیوں میں اضافہ ہو سکتا ہے۔ کراچی والے اس لیے نہیں کرتے کہ مر کر بھی شہری مسائل کے شادیانے آب و تاب سے بجتے رہیں گے اس سے تو بہتر ہے کہ مر مر کر جی لیں اس امید پر کہ کبھی وسائل کے حل کا زیور ہمارے ماتھے پر بھی سجے۔ تجاوزات کا یہ عالم ہے کہ اب تو عام شہری بھی ٹھیلا لگانے کی حسرت دل میں لیے بیٹھا ہے ۔
اس قوم سے زیادہ تو عزت و توقیر اس شہر میں جانوروں کی ہے معروف شاہراہوں پر گائے بھینس روڈ کراس کرتے ہیں اور شہری اس عزت و تکریم کے ناتے اپنی گاڑیاں بچاتے ہیں۔
بھلا بتائیے ایک چرواہا چند جانوروں کے عوض مصروف سڑکوں کی ٹریفک جام کر دیتا ہے کتنا طاقت ور گڈریا ہے کروڑوں کی گاڑیاں روڈ پر لاوارثوں کی طرح جانوروں کے گزرنے کا انتظار کرتی ہیں۔
کیا ایک گڈریا ریاست سے زیادہ طاقت ور ہے ہم نے بہت ترقی کرلی ہے مین روڈ پر گٹر ہماری بے بسی کا مذاق اڑاتے ہیں کوئی شریف شہری اس گٹر پر پتھر کے ساتھ کپڑا لہرا دیتا ہے یہ کپڑا شہریوں کی جانب سے ہوتا ہے کوئی سیاسی جھنڈا نہیں ہوتا،ہمارے ہاں تو الیکشن کے زمانے میں سیاسی حضرات فنڈز کا رونا روتے ہیں، کوئی اختیارات کی بات کرتا ہے۔
کوئی یہ نہیں کہتا کہ میں قوم سے شرمندہ ہوں مگر نظریہ ضرورت نے ہماری سیاسی قیادتوں کو کوتاہیوں سے بری الذمہ قرار دے دیا ہے۔
شہر کا تالا میئر کے پاس ہوتا ہے یہ بات دوسری ہے کہ اسے مسائل کے حوالے سے کبھی کھولا نہیں جاتا۔ بلدیاتی الیکشن کی دوڑ میں جماعت اسلامی، پی ٹی آئی، پی پی پی اور ایم کیو ایم شامل ہیں، لندن کی ایم کیو ایم نے تو بائیکاٹ کردیا ہے اب مقابلہ تین جماعتوں میں ہے اور ہر ایک دعوے کے ساتھ کہہ رہا ہے کہ آنے والا میئر ہمارا ہوگا۔
مسائل کی بات حل کرنے کے لیے اب تک کسی نے بگل نہیں بجایا اب تک کی اطلاع کے مطابق ایم کیو ایم پاکستان سب ایک پلیٹ فارم پر آنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ ادھر یہ بھی خبر ہے کہ شاید پی ٹی آئی اور جماعت اسلامی آپس میں اتحاد کرلیں۔
ووٹ بے یقینی کی صورت اختیار کر گیا ہے جماعت اسلامی برسر اقتدار تو نہیں مگر ووٹ ڈالنے کے حوالے سے شہری سوچ بچار کا شکار ہیں کہ وہ اس لاوارث شہر کے لیے آواز اٹھاتی رہی ہے۔ پی پی پی اس شہر کے حوالے سے اپنی اعلیٰ خدمات پر روشنی ڈالتی رہتی ہے پی ٹی آئی کا اپنا ووٹ بینک ہے ۔
ہمارے گیس کے ذخائر ایشیا میں چھٹے نمبر پر ہیں (یہ بات دوسری ہے کہ گیس قوم کو گھنٹوں کے حساب سے ملتی ہے) یہ دنیا کی ساتویں ایٹمی طاقت ہے۔ جی! اس خوش قسمت ملک کا نام پاکستان ہے۔ اب اس پر تفصیلی لکھنا بے کار ہے کہ ہمارے سیاسی جھگڑے ختم نہیں ہوتے ، کیا خوب اس موقع پر شاعر نے کہا ہے:
کرتے ہیں اہل زر ہی دسمبر پہ شاعری
کٹتی ہے رات کیسے یہ مفلس سے پوچھیے
وسائل ہونے کے باوجود مسائل پہاڑوں کی شکل اختیار کر گئے ہیں۔ اب آنے والا ہاؤس 367 ارکان پر مشتمل ہوگا ماضی میں یہ 367 ایک پلیٹ فارم پر ہوتے تھے اب یہ تقسیم ہوگئے ہیں۔ اب اس کی جگہ پی پی پی، پی ٹی آئی اور جماعت اسلامی نے ووٹ کا پرچم اٹھا لیا ہے۔
اب دیکھنا یہ ہے کہ کس کے سر پر تاج سجے گا سیاسی طور پر عملی کوششیں جماعت اسلامی کراچی کے امیر حافظ نعیم الرحمن کے بیانات جو اس شہر کے حق میں تھے نظر آتے ہیں اس میں کوئی شک نہیں کہ انھوں نے اقتدار نہ ہونے کے باوجود ہر مقام اور ہر لحاظ سے کراچی کے لیے خوبصورت باتیں اور آواز اٹھائی۔
اب دیکھنا یہ ہے کہ ووٹر کے قدم کس طرف جاتے ہیں اس کا فیصلہ 15 جنوری کو ہوگا کہ سب سیاسی جماعتوں نے اپنی خدمات کو کراچی کے لیے لازوال قرار دیا ہے اب 15جنوری کو کس کا زوال ہوتا ہے یہ وقت بتائے گا مگر شہر کراچی والے مسائل کی وجہ سے بہت پریشان ہیں اب وہ اچھے وسائل کے لیے اپنے ووٹ کو استعمال کریں گے اس شہر کو تو میٹرو پولیٹن سٹی ہونا چاہیے تھا۔
پی ٹی آئی اگر کامیاب ہوتی ہے اور اعلیٰ خدمات کا مظاہرہ کرتی ہے تو پھر آنے والے الیکشن میں پی ٹی آئی اکثریت سے آ سکتی ہے پی پی پی کامیابی کی صورت میں کراچی کا ووٹ بینک بڑھا سکتی ہے رہا معاملہ جماعت اسلامی کا اگر وہ آتی ہے تو اچھی خدمات پر وہ کراچی میں الیکشن میں کامیاب ہو سکتی ہے۔
بلدیاتی الیکشن اس دفعہ باقاعدہ امتحان ہیں آنے والے قومی اور صوبائی الیکشن کے لیے اب انٹرنیٹ کا دور ہے مگر سیاسی حضرات نے اسے صرف انجوائے کے طور پر دیکھا ہے جب کہ عوام کے ذہن پر پردوں نے بہت کچھ دیکھ لیا وہ میئر کے ہوتے ہوئے کچروں کے پہاڑ، ٹوٹے ہوئے گٹر، پارکنگ، تجاوزات غرض بلدیہ کے حوالے سے انٹرنیٹ پر ہر چیز کی ویڈیو شیئر اور ریلیز کرتے ہیں کیا۔
اس پر توجہ دی جاتی ہے یا توجہ کے لیے صرف قوم ہی رہ گئی ہے ۔آنے والے میئر کو چاہیے کہ اس شہر کی سڑکیں کشادہ کریں، گٹروں کا سسٹم ٹھیک کرے، ناجائز پارکنگ کا سلسلہ ختم کرے، تجاوزات کا مکمل خاتمہ کریں لوگ اب جوتے اور ہیلمٹ فٹ پاتھوں پر لگائے بیٹھے ہیں جو فٹ پاتھ عوام کے لیے ہے وہ فٹ پاتھ چادر بچھا کر اشیاء بیچنے والوں نے گھیر لی ہے، پنکچر والے فٹ پاتھوں پر بیٹھے ہیں لوگ مصروف سڑکوں پر چل رہے ہوتے ہیں اور حادثے کا شکار ہوتے ہیں کئی لوگ معذوروں کی زندگی گزار رہے ہیں پھر بھی پارٹیاں اپنے میئر کے لیے کوشاں ہیں، قوم بے زار ہو چکی ہے جب کہ میئر کے لیے اتحاد ہو رہے ہیں۔
قوم اس دفعہ بہت سوچ سمجھ کر فیصلہ کرے گی اب چکنی چپڑی باتوں کا زمانہ گیا اس شہر کے لیے جس نے بار بار آواز اٹھائی جس میں جماعت اسلامی قابل ذکر ہے ہر مشکل پر راقم نے کھل کر روشنی ڈال دی ہے لہٰذا سیاسی جماعتیں کسی بھی غلط فہمی کا شکار نہ ہوں لوگ بے زار ہیں اب کی دفعہ ووٹر بہت سوچ سمجھ کر فیصلہ کرے گا اور یہ فیصلہ لوگوں کو حیرت میں ڈال دے گا۔