آٹے کا بحران وجوہات کیا ہیں

کہا جا رہا ہے کہ گندم کی کم پیداوار کے نتیجے میں اس کا بحران پیدا ہوا ہے

پاکستان ایک زرعی ملک ہے۔ یہ جملہ، فقرہ یا بات بچپن سے ہمارے ذہنوں میں محفوظ ہے۔ ہمارے ہاں آبادی کا ایک بڑا حصہ زراعت کے شعبے سے منسلک ہے۔ ہمارے پنجاب کا گیہوں اعلیٰ درجے کا ذائقے میں کچھ میٹھا اور اس کی روٹیاں نرم اور سوندھی خوشبو لیے ہوتی ہیں۔

بچپن میں اچانک روٹیوں میں کچھ بدلاؤ دیکھا اور شکایت کی کہ بھئی! یہ کیسی روٹیاں ہیں؟ تو جواب ملا کہ چکی والے کا کہنا ہے کہ پہلے پنجاب کا گیہوں آ رہا تھا، اب سندھ کا آ رہا ہے۔ ہم سندھ میں رہتے ہیں تو یہیں کا گیہوں بھی استعمال کریں۔

پھر ہمیں اسی گیہوں کی عادت بھی پڑ گئی۔ گیہوں تو دراصل ہوتا ہی ایسا ہے۔ دیکھنے اور کھانے میں سخت اور چکی میں پسنے کے بعد خوشبودار اور کچھ مٹھاس لیے گرما گرم روٹی کی بات ہی کیا ہے۔

ہماری قوم کے ساتھ ایک لفظ کچھ برسوں سے جڑ گیا ہے۔ بدقسمت۔۔۔۔ ہم بدقسمت ہیں کہ ہمارے پاس وسیع زرخیز سونا اگلتی زمینیں ہیں پر افسوس ہم نے ان پر سیمنٹ اور لوہے سے ملے رہائشی پروجیکٹ اگانے شروع کر دیے۔

ہمارے ہاں آموں کی کس قدر ورائٹی ہے لنگڑا، دسہری، سندھڑی اور نجانے کون کون سی قسمیں۔ ہمیں تو کھانے سے غرض تھی، ہم کہاں گٹھلیاں گنتے پھرتے۔ پر ہم بدقسمتوں نے آموں پر پر خزاں گرا دی۔ ہمارے ہاں کس نعمت کی کمی ہے، یہ سونا اگلتی زمینیں ہمارے لیے سوالیہ نشان کیوں بنتی جا رہی ہیں؟ہر پاکستانی اوسطاً ایک سو چوبیس کلو گرام گندم کھاتا ہے۔

کہا جا رہا ہے کہ گندم کی کم پیداوار کے نتیجے میں اس کا بحران پیدا ہوا ہے۔ روس اور یوکرین کی جنگ کے باعث گندم کی درآمد میں رکاوٹیں درپیش ہیں لہٰذا گندم کا بحران سر چڑھ کر بول رہا ہے۔یہ بھی سننے میں آیا ہے کہ پچھلے سال گندم کی امدادی قیمت کے اعلان میں تاخیر کے باعث کسانوں میں گندم کی کاشت کا رجحان کم ہوا تھا۔

یہی نہیں موسم میں تغیر کے باعث بھی گندم کی افزائش میں رکاوٹ ثابت ہوئی۔ ماہرین کے مطابق پاکستان میں گنے اور کپاس کی فصل کو زرعی حوالے سے منافع بخش سمجھتے گندم کی کاشت پر زور نہیں دیا گیا جس سے گندم کی پیداوار میں واضح فرق دیکھنے میں آیا۔

سندھ آبادگار فورم کے وائس چیئرمین محمود نواز شاہ کا اس سلسلے میں کہنا ہے کہ حکومت نے گندم کے لیے کوئی واضح پالیسی نہیں بنائی۔ گندم جو پاکستان کی اہم اجناس میں سے ہے، پاکستان میں غذا کے حوالے سے گندم کی پیداوار میں اضافہ ناگزیر ہے۔

اس کے لیے کوئی باقاعدہ پالیسی مرتب کرنی چاہیے۔ محمود صاحب کے مطابق وہ گزشتہ دو سالوں سے اس ایشو کو اٹھا رہے ہیں، لیکن گندم کی پیداوار کے لیے کوئی پالیسی نہیں بنائی گئی۔کھاد کی انٹرنیشنل مارکیٹوں میں بڑھتی ہوئی قیمتیں اور کھاد میں موجود کیمیائی اجزا کی بڑھتی قیمتیں بھی گندم کی پیداوار پر اثرانداز ہو رہی ہیں۔

مجموعی طور پر دیکھا جائے تو بہت سے عوامل گندم کی پیداوار میں کمی کے رجحان پر اثرانداز ہوئے ہیں۔ ان تمام اہم عوامل کو نظرانداز کیا جاتا رہا اور آج حالات ان تمام عوامل کے باوجود کنٹرول میں رہتے اگر اس کی برآمدگی کے ناجائز طریقوں کو روکا جاتا۔ایسا کیسے ممکن ہے کہ گندم کو یوں کھلے عام ایکسپورٹ کیا جا رہا ہو، اور دیکھنے والے تماشائی بنے ہوں۔


ایک گھر کا گیٹ اگر کھلا رہ جائے تو چور اچکے اور جنگلی جانوروں کے گھس آنے کا خدشہ رہتا ہے پھر ملک میں گندم کی انتہائی قلت کی صورت حال میں ایسا ایک دو مرتبہ نہیں بلکہ کئی بار ہوا ہے۔ گندم کی بوریوں کی منتقلی کی ویڈیوز سوشل میڈیا پر سرگرم رہتی ہیں۔ اس سے آنکھیں بند کرنا اور مسئلے کو نہ سمجھنا کم عقلی ہے۔

آٹے کے بحران پر ایک خاتون صحافی کی رائے حالات کی سنگینی کو ظاہر کرتی ہے۔ایسا کیوں ہو رہا ہے، کیا ایک پڑھا لکھا، عقل مند طبقہ اس امر کو اوکے کا لیبل لگا سکتا ہے؟ پاکستان میں آٹے کے حصول کے لیے مشکلات درپیش ہیں۔ اصل کہانی اس سے کہیں سنگین ہے۔

سرکاری طور پر تقسیم ہونے والے دس کلو آٹے کے تھیلے کی قیمت اور عام دکانوں پر فروخت ہونے والے آٹے کی قیمتوں میںڈبل سے بھی زیادہ تک کا فرق نظر آتا ہے۔

اس فرق کو عبور کرنا ہرگز بھی آسان نہیں ہے کیونکہ ان دنوں کھانے پینے کی دیگر اجناس کی قیمتیں بھی آسمان سے باتیں کر رہی ہیں۔نومبر کے مہینے میں تاریخی کسان پیکیج کی صدائیں تو سنی گئی تھیں جس میں ڈی پی کھاد کی قیمتوں میں نمایاں کمی، ٹیکسوں میں چھوٹ، معیاری بیجوں کی فراہمی اور دیگر ضروری لوازمات کسانوں کے لیے جاری تو کیے گئے تھے۔

خیال تھا کہ سیلاب کی وجہ سے کسانوں کی حالت پہلے ہی خراب ہے۔ اس پیکیج کے باعث ان کے آنسو پونچھنے میں مدد ہو سکے گی لیکن گندم کی کمیابی یا مصنوعی کمی نے آٹے کے بحران کو ایک بڑے کالے جن کی شکل میں بدل دیا ہے۔

بتایا تو گیا تھا کہ آذربائیجان سے ہزاروں میٹرک کھاد درآمد کی جائے گی لیکن آج کی صورت حال میں ماضی کے فسانے صرف سنہرے دکھائی دیتے ہیں۔ حقیقت میں ان پر کوئی کونپلیں پھوٹتی نظر نہیں آ رہیں۔

ہماری دھرتی ہماری بدقسمتی کی نظر ہو رہی ہے، ہم کفران نعمت کی بیماری میں مبتلا ہو گئے ہیں۔وہ کون سی تراکیب ہیں کہ جن پر عمل کرکے پاکستان سے گندم خفیہ نہیں بلکہ کھلے راستوں سے بھجوائی جا رہی ہے، آخر اس میں پاکستانی قوم کے لیے کیا بھلائی پوشیدہ ہے؟ ناقص عقل پر سب کچھ اوپر سے گزرتا چلا جا رہا ہے۔

گلف کے ریگستانوں میں گندم بوائی کے کامیاب تجربات کیے جا رہے ہیں اور یہ زمین جو قدرتی طور پر اس قدر زرخیز ہے کہ سونا اگلتی ہے پر ہم بدقسمت، ناقدرے اپنے رب کی عطا کردہ نعمتوں کا شکر ادا کرنے کے بجائے جان بوجھ کر دکھوں کا سودا کرتے ہیں۔دل جو رب کا گھر ہے، یہ دکھ و اذیت میں ہو تو رب تک ساری رپورٹ ساعتوں میں پہنچ جاتی ہے۔

ہم کیسے عقل نامعقول سے فسانوں میں الجھ رہے ہیں، ڈالروں، یورو کی خوشبو اپنی سانسوں میں اتارنے کے چکر میں ہیں۔ ہم بار بار غلطی کرتی ہیں، الجھتے ہیں اور وہ رحمن ہماری غلطیوں پر پردہ ڈال دیتا ہے۔ ہمیں موقعہ دیتا ہے کہ اب بھی وقت ہے سنبھل جاؤ، پر ہم نے دلوں میں پتھر رکھ لیے ہیں۔ رپورٹیں پھر بھی ساعتوں میں پہنچتی ہیں۔

یہ ہمارا ایمان ہے۔ ہم یاد رکھیں کہ سب کچھ اوپر والے کا عطا کردہ ہے، اس پر بند باندھ کر ہم دراصل اپنے رزق پر بند باندھ رہے ہیں۔

کسی پر اٹھی ہوئی انگلی، دنیا گول ہے کی مانند گھومتی ہوئی ہم پر ہی آ کر اٹھتی ہے۔ بس اپنے مقام کو پہچانیے اور اس زرخیز مٹی کو اس کی قدرتی مہک سے مہکنے دیں کہ یہ ہمارے رب کی حسین نعمت ہے، خدایا ناشکری نہ کریں۔
Load Next Story