مداوا
اس وقت یہ تمام رہائشی خواتین بچوں سمیت کھلے آسمان تلے زندگی گزار رہے ہیں
بھارت کے پچاس سے زائد سکھ خاندانوں نے پنجاب کے وزیر اعلیٰ پرویز الٰہی سے درخواست کی ہے کہ انھیں پاکستان کے صوبے پنجاب میں آباد ہونے کی اجازت دے دی جائے۔
یہ سکھ خاندان 1947 میں سیالکوٹ میں آباد تھے اور تقسیم کے ہنگاموں میں اپنا علاقہ چھوڑ کر جالندھر چلے گئے تھے جہاں کے لطیف پورہ علاقے میں آباد ہوگئے تھے لیکن کچھ عرصہ قبل جالندھر امپروومنٹ ٹرسٹ نے اس علاقے میں آباد سکھوں کے گھر مسمار کر دیے ہیں۔
اس وقت یہ تمام رہائشی خواتین بچوں سمیت کھلے آسمان تلے زندگی گزار رہے ہیں۔ ان لوگوں کا کہنا ہے کہ ان کے رہنے کے لیے کوئی جگہ نہیں ہے۔ حکومت کی جانب سے کہا گیا ہے کہ ان کی آبادی غیر قانونی تھی۔ وہ جالندھر امپروومنٹ ٹرسٹ کی زمین قرار دی جا رہی ہے۔
سکھ رہائشیوں کے لاکھ احتجاج کے باوجود بھی زبردستی مکان توڑ دیے گئے۔ اس وقت عام سکھ بھی بھارت سرکار کے عصبیت زدہ رویے سے سخت تنگ آچکے ہیں۔ بی جے پی حکومت ہو یا کانگریس سرکار دونوں ہی سکھوں کی دشمن ہیں وہ سکھوں کو اب بھی شک کی نگاہ سے دیکھتے ہیں اور انھیں پاکستان کا ایجنٹ سمجھتے ہیں۔
دراصل جب سے پاکستان سرکار نے کرتارپور صاحب کو بحال کرکے سکھوں کی زیارت کے لیے راستہ ہموار کیا ہے اور جب سے فائدہ اٹھا کر ہزاروں سکھ اب جوق در جوق وہاں آ رہے ہیں اور واپسی میں وہاں کے انتظام کی تعریف کر رہے ہیں جس کا بھارت سرکار بہت برا منا رہی ہے۔
مگر سکھ کبھی غلط بات نہیں کرتے وہ یہاں پاکستانیوں کا جو فراخ دلانہ رویہ دیکھ رہے ہیں اور یہاں ان کی جو آؤ بھگت ہو رہی ہے وہ اس کی تعریف کیے بغیر نہیں رہتے ہوں گے۔
حقیقت یہ ہے کہ مسلمانوں کی کبھی ان سے کوئی مذہبی رقابت نہیں رہی۔ خود گرونانک صاحب کے قریبی لوگوں میں مسلمان بھی تھے پھر حقیقت یہ ہے کہ گرونانک جی کے بارے میں آج بھی کوئی یقین سے نہیں کہہ سکتا کہ وہ مسلمان تھے یا پھر کسی اور رنگ میں تھے
۔ وہ تو کعبہ تک پہنچ گئے تھے پھر سکھوں کے گرنتھ صاحب میں حضرت بابا فریدؒ کے کلام کا شامل ہونا سکھوں کا گرنتھ اس حقیقت کو واضح کرتا ہے کہ سکھ دھرم ہرگز مسلمانوں کے خلاف نہیں ہے بلکہ مسلمانوں سے بہت قریب ہے۔
سکھوں اور مسلمانوں میں دشمنی کا زہر گھولنے والی کانگریس تھی جس نے صرف ہندوؤں کی بھلائی کے لیے اور بھارت میں پنجاب کو شامل کرنے کے لیے سکھوں کو مسلمانوں سے لڑوایا اور پھر اس میں سراسر سکھوں اور مسلمانوں دونوں کا نقصان ہوا جب کہ ہندوؤں کا بال بھی بیکا نہیں ہوا۔
یہ دراصل گاندھی اور نہرو کی چال تھی جو کامیاب رہی مگر اس میں اس وقت کے سکھ لیڈر بھی قصور وار تھے جو ان کے بہکائے میں آگئے اور سکھوں کو ہندوؤں کا غلام بنا دیا۔
سکھوں کے بھارت کے خلاف رویے سے بھارتی سرکار اچھی طرح واقف ہے اسی لیے ان کی دل جوئی کے لیے ہی کرتارپور کے پاکستانی منصوبے کو ممکن بنانے کے لیے اپنے حصے کا کام مکمل کیا اور انھیں زیارت کی سہولت مہیا کی اور ننکانہ صاحب آنے کے لیے کسی قسم کی کوئی رکاوٹ نہیں ڈالی جا رہی ہے۔
بی جے پی نے سکھ دھرم کو ہندو دھرم سے جوڑنے کے لیے کافی لٹریچر پورے بھارت میں پھیلا دیا ہے۔ اس کے ساتھ ہی مسلمان بادشاہوں کی ان کے بعض مذہبی رہنماؤں سے سیاسی جنگ کو مذہبی جنگ کا رنگ دینے میں لگی ہوئی ہے۔
بھارتی ٹی وی چینلز خاص طور پر اورنگ زیب کی سکھوں کے گرو تیغ بہادر کے ساتھ چپقلش کو کافی ہوا دیتے رہتے ہیں تاکہ سکھوں میں مسلمانوں سے نفرت پیدا کی جائے مگر سکھ اسے بھارتی حکومت کی سیاسی چال خیال کرکے رد کردیتے ہیں۔ سکھ اس لیے بھی اس وقت بھارتی مسلمانوں کے قریب ہیں کیونکہ 1984 میں جب ہندوؤں نے ان کا قتل عام کیا تھا تو انھیں ہندوؤں کے ظلم سے پناہ دینے والے مسلمان ہی تھے۔
سکھ بھی مسلمانوں کا احترام کرتے ہیں چند سال قبل بھارتی مسلمانوں کو غیر ملکی قرار دینے کی جو تحریک بی جے پی نے چلائی تھی اس کے خلاف دہلی میں مسلمان عورتوں نے ایک اہم سڑک پر کئی مہینوں کا دھرنا دیا تھا۔ بی جے پی کے غنڈوں نے اس دھرنے پر کئی مرتبہ حملہ کرنے کی کوشش کی مگر سکھوں نے اپنے والنٹیئرز اس دھرنے کو محفوظ بنانے کے لیے تعینات کر دیے تھے۔
ساتھ ہی دھرنے کے شرکا کے لیے کھانے کا انتظام اپنی طرف سے بھی کیا تھا۔ بی جے پی سرکار نے بھارت کے کئی شہروں میں تجاوزات کے نام پر مسلمانوں کے گھروں کو بھی مسمار کرکے بے گھر کردیا ہے۔ یہاں بڑی بے دردی سے ٹریکٹرز سے مکانات منہدم کیے گئے تھے اور مسلمانوں کے شدید احتجاج کی بھی پرواہ نہیں کی گئی تھی۔
ابھی حال میں اتراکھنڈ کے ہلدوانی شہر کے مسلم اکثریتی علاقے کے تمام مکانوں کو گرانے کا حکم وہاں کی مقامی عدالت نے دیا ہے جس کے جج کا مہاسبھا سے تعلق لگتا ہے۔
سیکڑوں مکانوں کو توڑ دیا گیا ہے مسلمانوں نے دہلی میں سپریم کورٹ میں اسٹے آرڈر کی درخواست دی جو وہاں بڑی مشکل سے منظور کرلی گئی ہے جس سے کافی مکان گرنے سے بچ گئے مگر جو مکان توڑ دیے گئے ہیں۔
ان کے مکین در بہ در پھر رہے ہیں اور ان کا کوئی پرسان حال نہیں ہے۔ اس وقت بھارت میں مسلمانوں کے ساتھ جو ظلم ہو رہا ہے ویسا تو کسی ملک میں بھی نہیں ہو رہا مگر افسوس کہ پاکستانی حکومت ان کی کسی بھی قسم کی مدد کرنے سے قاصر ہے۔
ادھر مقبوضہ کشمیر میں بھی دن بہ دن مسلمانوں پر ظلم و ستم بڑھتا ہی جا رہا ہے۔ نو لاکھ بھارتی فوجی وہاں جمع کر دیے گئے ہیں جو شہروں کی گلی گلی میں پہرہ دے رہے ہیں۔ مسلمانوں کی زبانوں پر پابندی ہے وہ اس ظلم کے خلاف شکایت بھی نہیں کرسکتے۔ پوری وادی میں بھارتی مخبروں کا جال بچھا دیا گیا ہے جو شہریوں کے لیے وبال جان بن گئے ہیں۔
کشمیری آپس میں بھی سیاسی بات نہیں کرسکتے۔ بھارتی فوج وہاں کے نوجوانوں کے خون کی پیاسی بنی ہوئی ہے کتنے ہی نوجوانوں کو ریاست کے خلاف احتجاج کرنے کے الزام میں ہلاک کر چکی ہے۔ حریت کانفرنس کی سرگرمیاں بھی سرد پڑ گئی ہیں ادھر فاروق عبداللہ جیسے بڑے ہند نواز رہنما بھی بھیگی بلی بن چکے ہیں۔
اب تو وہ بھی بھارت سرکار کے خلاف اور آزادی کی بات کرنے لگے ہیں۔ محبوبہ مفتی پہلے ہی بھارتی حکومت کے خلاف مسلسل بیانات دیتی آ رہی ہیں وہ بھارتی حکومت سے ذرا بھی خائف نہیں لگتیں۔
اب وہ بھی کشمیر کی آزادی کی بات کرنے لگی ہیں، کاش کہ ان کے والد مفتی سعید یا فاروق عبداللہ اور ان کے والد شیخ عبداللہ بھارت نوازی نہ کرتے اور کشمیریوں کی آزادی کی تحریک میں شامل ہو جاتے تو آج انھیں یہ برے دن نہ دیکھنے پڑتے۔ بہرحال کشمیریوں کی آزادی کے لیے جو کردار پاکستان کو ادا کرنا ہے وہ کہیں نظر نہیں آ رہا۔ دراصل اس وقت پاکستان خود سخت مشکلات میں پھنسا ہوا ہے۔
یہاں لیڈروں کی آپس کی جنگ نے ملک کو جہنم بنا دیا ہے۔ ہر ایک کو اقتدار کی فکر ہے کسی کو بھی ملک کی پرواہ ہے اور نہ عوام کی۔ ہمارے رہنماؤں کو نہ جانے کب عقل آئے گی، کب وہ اپنے مفاد کے بجائے ملک و قوم کے مفاد پر توجہ دیں گے۔ جب انھیں اپنے عوام کی پرواہ نہیں ہے تو وہ بھلا بھارتی مسلمانوں اور کشمیریوں کی پریشانیوں کا کیا مداوا کریں گے؟