گر تو برا نہ مانے
جون 2023 کو ختم ہونے والے رواں مالی سال میں پاکستان کی معیشت میں صرف دو فیصد اضافہ متوقع ہے
انگلینڈ میں رہنے والابچہ اسکول سے واپس آیا تو بہت سارے محلے والوں اور رشتے داروں کو گھر میں اداس پایا جب کہ ماں بری طرح رو رہی تھی بچہ پریشان ہوگیا کہ آخر ہوا کیا ہے؟ ماں نے آنسو روکتے ہوئے بمشکل کہا کہ ''بیٹا! تمہارے بابا اب یہاں نہیں رہے۔
وہ ایسی جگہ جا چکے ہیں جہاں نہ پانی ہے، نہ گیس نہ روٹی ، نہ رہنے کو مکان، نہ بجلی ، نہ کوئی سہولت وہاں ویرانی ہے۔''جس پر بچے نے کہا ''امی !کیا بابا پاکستان چلے گئے ہیں۔؟''
صد افسوس مگر جی پاکستان اب ایسی ہی جگہ بن گیا ہے جہاں گیس ،بجلی، پانی اور ہر چیز نا پید ہو چکی ہے ، پاکستان کی معیشت تو آجکل صرف ملک کے لوگوں کی ہی نہیں بلکہ پوری دنیا کے لیے disscission point بن چکی ہے۔
جون 2023 کو ختم ہونے والے رواں مالی سال میں پاکستان کی معیشت میں صرف دو فیصد اضافہ متوقع ہے۔ ورلڈ بینک کی اکتوبر 2022 کی پاکستان ڈویلپمنٹ اپ ڈیٹ کے مطابق افراط زر اور سست شرح نمو نقصانات اور رکاوٹوں کی عکاسی کرے گی۔
تباہ کن سیلاب ایک سخت مالیاتی موقف ، بلند افراط زر اور کم سازگار عالمی ماحول کی وجہ سے بحالی بتدریج ہوگی ،مالی سال 2024 میں حقیقی جی ڈی پی کی شرح نمو 3.2 فیصد تک پہنچنے کا امکان ہے ۔
کمزور معیشتوں میں ایک چھوٹی سی سیاسی ہلچل ملک کے پورے ترقیاتی عمل کو متاثر کر سکتی ہے ، اقتصادی سرگرمیوں کی رفتار کو کم کر سکتی ہے مالیاتی شعبے میں عدم تحفظ کا احساس پیدا کر سکتی ہے اور ملک کی ترقی کو اقتصادی ترقی کی طرف موڑ سکتی ہے ۔پاکستان میں 2022-23 کے وفاقی بجٹ کے اعلان تقریبا تین ماہ قبل یہی ہوا۔
مخلوط حکومت کو پہاڑ جیسے مسائل کا سامنا ہے بڑی عالمی کرنسیوں کے مقابلے میں پاکستانی روپے کی قدر میں کمی ،ایندھن کی بڑھتی ہوئی قیمتیں اور غیر ملکی وسائل کا خشک ہونا، ان تمام چیلنجز کے گرد قرض کے ڈیفالٹ کا ڈر ہے۔معاشی محاذ پر ،سال کے اختتام کے ساتھ ہی پاکستان کا نقطہ نظر بھیانک نظر آتا ہے ۔
تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ ہمارا ملک قرض ادا کرنے سے قاصر ہے ،غیر ملکی ذخائر کی کمی ہے ناقابل برداشت اور آسمان کو چھوتی مہنگائی کچھ ماہ پہلے نومبر میں اس کا کنزیومر پرائس انڈیکس تقریبا 24 فیصد پر بیٹھ گیا جب اس کے مرکزی بینک نے افراط زر کو کم کرنے کے لیے غیر متوقع طور پر شرح سود میں اضافہ کیا۔
پاکستان کو مالی سال 2023 میں 26 ملین ڈالر سے زائد کا بین الاقوامی قرضہ واپس کرنا ہے ۔معاشی حالات پر جب جون 2022 میں اقتصادی سروے کروایا گیا تو McKinsey گلوبل سروے میں جواب دہندگان نے مہنگائی کو عالمی معیشت کے لیے بڑھتے ہوئے خطرے کے طور پر دیکھا جغرافیائی اور سیاسی عدم استحکام اور سپلائی چین رکاوٹوں کو عالمی اور ملکی ترقی کے لیے سب سے بڑے خطرات کے طور پر دیکھتے تھے ۔
2022 کے معاشی بحرانوں کی بات کریں تو پورے ملک نے شدید اقتصادی برے حالات دیکھے ۔خوراک تیل اور گیس کی قیمتوں میں اضافہ ہوا، یوکرین روس جنگ کی وجہ سے پوری دنیا ڈسٹرب ہوئی اور ملک میں توانائی کے مسائل کو اور بھی بڑھا دیا کیونکہ افراط زر بلند رہی۔پاکستان کا معاشی آزادی کا اسکور 48.8 ہے جس سے اس کی معیشت انڈیکس میں 153 ویں نمبر پر ہے۔
پاکستان ایشیا پیسیفک خطے کے 39ممالک میں 34ویں نمبر پر ہے اور اس کا مجمو عی اسکور عالمی اوسط سے کم ہے ۔دل خون کے آنسو روتا ہے جب ہم دوسرے ملکوں کے ساتھ ساتھ اپنے پڑوسی ملک بھارت کی بات کرتے ہیں۔
اس کو دیکھا جائے تو وہ ہر شعبے میں پاکستان سے بہتر پرفارم کر رہا ہے ۔ 1990 میں ہندوستان اور پاکستان کی فی کس جی ڈی پی تقریبا یکساں تھی جو کہ فی شخص 370 امریکی ڈالر سے کچھ کم تھی لیکن 2021 تک ہندوستان کی آمدنی 2,277 ڈالر تک پہنچ گئی ،جوپاکستان کے مقابلے میں 50 فیصد تک زیادہ ہے۔پاکستان 1971 کے بعد سے شاید سب سے سنگین بحران سے دوچار ہے ، سیاسی معیشت خود ساختہ زخموں کے ذریعے ٹکڑے ٹکڑے ہو چکی ہے۔
بین الاقوامی سطح پر اس کا قد ڈھیر ہو چکا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ بحران مواقع کی صورت میں آتے ہیں عذاب اور اندھیروں کو دھکیلا جائے تو حا لات بہتر ہوجاتے ہیں کیونکہ جن معاشروں نے بہت ہنگامہ آرائی اور بحرانوں کا مقابلہ کیا ہے وہ بحال بھی ہوئے ہیں بلکہ عالمی برادری میں طاقتور اور با اثر قومیں بن گئے ہیں ۔
1947میں اپنی آزادی کے وقت ، پاکستان کو غیر منقسم ہندوستان میں 921 میں سے صرف 34 صنعتی یونٹ وراثت میں ملے تھے۔برائے نام جی ڈی پی 1950میں 3 بلین ڈالر سے بڑھ کر 2022 میں 383بلین ڈالر ہوگئی جب کہ جی ڈی پی کی شرح نمو 1950 میں 1.8 فیصد کے مقابلے میں2022 میں 5.97 فیصد ریکارڈ کی گئی، فی کس آمدنی 1950میں 86 ڈالر سے بڑھ کر 2022 میں 1,798 ڈالر ہوگئی۔
ٹیکس ریونیو 1950-202تک 0.31 بلین روپے سے بڑھ کر 6,126.1 بلین روپے تک پہنچ گئی،جب کہ 1949-50 میں زراعت کا کل حصہ جی ڈی پی کا 59.9 فیصد تھا۔
سابق وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل نے کہا تھا کہ آزادی کے بعد مقامی ضرورتوں کو پورا کرنے کے لیے وسائل کی کمی کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں ،کیونکہ بھارت نے اپنی پیدائش کے فورا بعد پاکستان کو اپنی دولت کا حصہ دینے سے صاف انکار کر دیا تھا۔
انھوں نے کہا تھا کہ مہاجروں کی آبادکاری کے ساتھ ملک کا شدید طور پر تباہ حال معاشی نظام نئے پیدا ہونے والے ملک کو درپیش بڑے چیلنجز تھے ،لیکن ان کا کہنا تھا کہ پاکستان کے لوگوں کی محنت کی وجہ سے معیشت بحال ہوئی اور ہم آگے بڑھے۔
ایسے ہی بڑے بڑے بیانات اور مسائل کے تذکرے اول دن سے لیکر آج تک آپ پڑھتے سنتے اور دیکھتے آئے ہوں گے مجھے سمجھ نہیں آتا کہ یہ مسائل اور معیشت کی زبوں حالی کیوں ختم نہیں ہوتی؟ ہر آنے والے حکمراں کو مسائل کے حل کیوں نظر نہیں آتے؟ آج پاکستان کو درپیش چیلنجز کی کثرت کو حل کرنے کے لیے راکٹ سائنس یا اہم ایجادات کی ضرورت نہیں ہے ۔جاری بحران سیاسی ،اقتصادی اور خارجہ پالیسی کے شعبوں میں برسوں سے جاری غیر معقول پالیسیوں کا نتیجہ ہے۔
اس کے بعد حل یہ ہے کہ بنیادی طور پر تین اہم ڈومینز کو تبدیل کیا جائے جن میں خارجہ پالیسی معیشت اور گورننس ۔دیکھا جائے تو مخلص ہو کر جہاں اور جس نے جب بھی کام کیا ، اس کو کامیابی ہی ملی اور یہ کوئی اتنا مشکل کام نہیں ؟ کیا ہمارے ملک کے بڑے لوگ خود تھوڑی سی قربانیاں دیکر ملک کو گرداب سے نہیں بچا سکتے؟ عوام ملک کے وجود میں آنے سے لیکر اب تک صرف بری خبریں سن رہے ہیں اور قربانیاں دے رہی ہے۔
ملک میں کرپشن اور چوری بڑے پیمانوں سے لے کر نیچے تک اب سب کی عادت ثانیہ بن گئی ہے اب کون آئے گا جو ہمارے اقتدار میں بیٹھے لوگوں کوجھنجھوڑ کر کہہ سکے کہ وقت اب نہیں رہا کہ ہم ڈوب چلے ہیں۔ اب افسر شاہی اور مزے اور اللے تللے نہیں چل سکتے۔
خدارا ملک کے لیے ایک ہو کر سوچ لیں اور اس کو بچالیں، اس کی گرتی ساکھ اور معیشت کو سہارا دے دیں کہ پانی اب سر سے اونچا ہوگیا ہے اب کے حالات قابو سے باہر ہوئے تو نہ جانے کیا قیامت آجائے۔ دعا ہے پاکستان ان آزمائشوں سے نکل جائے۔( آمین، ثم آمین۔ )