نکاح کی ضرورت اہمیت اور مقاصد
رسول اﷲ ﷺ نے فرمایا: ’’جو شخص نکاح کرنے کی طاقت ہونے کے باوجود نکاح نہ کرے، وہ مجھ سے نہیں ہے۔‘‘
لڑکا یا لڑکی جب بالغ ہوجائے تو جلد اس کے جوڑ کا رشتہ ڈھونڈ کر اس کا نکاح کردینا چاہیے، بہ شرطے کہ لڑکا اپنی بیوی کا نفقہ دینے پر خود قادر ہو یا اس کا والد اس کا اور اس کی بیوی کا خرچہ اٹھانے کے لیے تیار ہو، ورنہ گناہ میں مبتلا ہونے کا اندیشہ ہے اور پھر بھی والدین بلا کسی عذر کے اس کی شادی کرانے میں غیر ضروری تاخیر کریں تو گناہ میں مبتلا ہونے کی صورت میں والدین پر بھی اس کا وبال آئے گا۔
حدیث کا مفہوم ہے کہ جس کے ہاں بچہ پیدا ہو اس کی ذمے داری ہے کہ اس کا اچھا نام رکھے، بالغ ہونے پر اس کی شادی کرائے، اگر شادی نہیں کی اور اولاد نے کوئی گناہ کرلیا تو باپ اس جرم میں شریک اور گناہ گار ہوگا۔
اس لیے نکاح کو آسان عام بنائیں اور مرد عورت کو زنا سے بچائیں۔ جتنا نکاح آسان عام ہوگا زنا کا دروازہ بند ہوگا، جتنا نکاح سخت مشکل ہوگا اتنا ہی زیادہ زنا کا دروازہ کھلے گا۔ نکاح ''ایجاب و قبول'' کے مخصوص الفاظ کے ذریعے مرد و عورت کے درمیان ایک خاص قسم کا دائمی تعلق اور رشتہ قائم کرنا کہلاتا ہے، جو دو گواہوں کی موجودی میں ایجاب و قبول کے صرف دو لفظوں کی ادائی سے منعقد ہوجاتا ہے۔
نکاح کے بہت زیادہ فضائل و فوائد ہیں۔ نکاح کے دنیوی و اُخروی فضائل:
٭ نکاح سنت ِ انبیائے کرام علیہم السلام ہے:
رسول اﷲ ﷺ نے فرمایا، مفہوم: ''چار چیزیں انبیائے کرام (علیہم السلام) کی سنّت میں سے ہیں: حیائ، خوش بُو لگانا، مسواک کرنا اور نکاح۔'' (ترمذی)
٭ بے نکاح مرد اور بے نکاح عورت محتاج اور مسکین ہے:
رسول اﷲ ﷺ نے فرمایا، مفہوم : ''مسکین ہے، مسکین ہے وہ مرد جس کی بیوی نہ ہو۔ لوگوں نے عرض کیا: اگرچہ وہ بہت مال والا ہو تب بھی وہ مسکین ہے؟ آپؐ نے فرمایا: ہاں! اگرچہ وہ بہت مال والا ہو۔ پھر فرمایا: مسکین ہے، مسکین ہے وہ عورت جس کا خاوند نہ ہو۔ لوگوں نے عرض کیا: اگرچہ بہت مال دار ہو تب بھی وہ مسکین ہے؟ آپؐ نے فرمایا: ہاں! اگرچہ مال والی ہو۔'' (مجمع الزوائد)
٭ نکاح شرم گاہ کے گناہوں سے بچاؤ کا ذریعہ ہے:
رسول اﷲ ﷺ نے فرمایا، مفہوم: ''اے جوانو! تمہیں نکاح کرلینا چاہیے، کیوں کہ یہ نگاہ کو زیادہ جھکانے والا اور شرم گاہ کی زیادہ حفاظت کرنے والا ہے اور جو اس کی طاقت نہ رکھے وہ روزے رکھے۔'' (ترمذی)
بیشتر وہ لوگ جو نکاح کی استطاعت رکھتے ہوئے بھی نکاح نہیں کرتے، ان کے ذہن میں ہمیشہ زنا کاری کا لاوا پکتا رہتا ہے اور زنا انسان کو یقینی طور پر ایمان سے کوسوں دور لے جاتا ہے۔ اب جو مسلمان شادی نہیں کرتا، وہ درحقیقت اپنے دین کو بھی داؤ پر لگانا چاہتا ہے۔ نکاح ان سب مسئلوں سے نجات ہے۔
٭ بے نکاح آدمی شیطان کا آلۂ کار ہے:
رسول اﷲ ﷺ نے عَکَّاف (ایک صحابی کا نام) سے فرمایا: اے عَکَّاف! کیا تیری بیوی ہے؟ انہوں نے عرض کیا: نہیں۔ آپؐ نے فرمایا: اور تُو مال والا، وسعت والا ہے؟ عرض کیا: ہاں! میں مال اور وسعت والا ہوں۔ آپؐ نے فرمایا: تو اس حالت میں تُو شیطان کے بھائیوں میں سے ہے، اگر تو نصاریٰ میں سے ہوتا تو ان کا راہب ہوتا۔ بلاشبہ! نکاح کرنا ہمارا طریقہ ہے، تم میں سب سے بدتر وہ لوگ ہیں جو بے نکاح ہیں اور مرنے والوں میں سب سے بدتر وہ ہیں جو بے نکاح ہیں، کیا تم شیطان سے لگاؤ رکھتے ہو؟ شیطان کے پاس عورتوں سے زیادہ کوئی ہتھیار نہیں، جو صالحین کے لیے کارگر ہو۔ مگر جو لوگ نکاح کیے ہوئے ہیں، یہ لوگ بالکل مطہر ہیں اور فحش سے بَری ہیں اور فرمایا: اے عکاف! تیرا بُرا ہو، نکاح کرلے، ورنہ پیچھے رہ جانے والوں میں سے ہوگا۔'' (مجمع الزوائد)
٭ بے نکاح کا رسول اﷲ ﷺ سے کوئی تعلق نہیں:
تین صحابیوںؓ نے اپنے تئیں ٖارادہ کیا کہ وہ بس اپنا سارا وقت عبادت الہی میں گزاریں گے۔ تینوں میں سے ایک نے کہا: میں تو اب ہمیشہ رات بھر نماز پڑھوں گا۔ دوسرے نے کہا: میں تو ہمیشہ روزہ رکھا کروں گا اور کبھی بھی نہیں چھوڑوں گا۔ تیسرے نے کہا: میں تو کبھی شادی نہیں کروں گا۔ رسول اﷲ ﷺ کو علم ہوا تو آپؐ نے ان سے پوچھا کہ کیا تم نے ایسی بات کہی ہے؟
خدا کی قسم! میں تم سے زیادہ اﷲ سے ڈرنے والا ہوں اور تم سے زیادہ اﷲ تعالیٰ کے حقوق کی نگہداشت کرنے والا ہوں، مگر میں روزہ بھی رکھتا ہوں اور چھوڑتا بھی ہوں اور رات کو نماز بھی پڑھتا ہوں اور سوتا بھی ہوں اور پھر آپؐ نے فرمایا: میں عورتوں سے نکاح بھی کرتا ہوں، جو میری سنّت سے اعراض کرے گا وہ مجھ سے نہیں ہے۔ (بخاری)
غور کیجیے! جب صحابہ کرامؓ نے انسانی فطرت سے ہٹ کر الگ راستہ اختیار کرنا چاہا تو آپ ﷺ نے انہیں بتایا کہ اس عمل سے وہ اسلام سے قریب نہیں، بلکہ دور ہوں گے، شیطان کے وسوسوں میں الجھ کر تکلیف اٹھائیں گے، جنسی شہوت سے جنگ میں خود کو الجھائے رکھیں گے، یہ کنوارا ہونا ان کے لیے بے حد تلخ ہوگا، جس کی شدت اور گناہ سے کم لوگ نجات پاتے ہیں۔
٭ بے نکاح کا مسلمانوں سے کوئی تعلق نہیں:
رسول اﷲ ﷺ نے فرمایا: ''جو شخص نکاح کرنے کی طاقت ہونے کے باوجود نکاح نہ کرے، وہ مجھ سے نہیں ہے۔'' (مجمع الزوائد) نکاح نہ کرنا مسلمانوں کا شعار نہیں، بلکہ نصاریٰ کا طریقہ ہے، کیوں کہ وہ نکاح نہ کرنے کو عبادت سمجھتے ہیں۔ عذر نہ ہونے کے باوجود نکاح نہ کرنا اور اُسے عبادت یا فضیلت سمجھنا رہبانیت کے زمرہ میں آتا ہے، جو اسلام میں جائز نہیں ہے۔
نکاح کے مقاصد و فوائد:
1 : نکاح عبادت ہے: نکاح بہ ذاتِ خود اطاعت اور عبادت ہے، اور نفلی عبادت سے افضل ہے۔
2 : تقویٰ کا حصول: نکاح کا ایک بڑا مقصد پرہیزگاری اور تقویٰ ہے۔
3 : جنسی تسکین کا ذریعہ: فطری طور پر مرد و عورت کے اندر جنسی خواہشات رکھی گئی ہیں، لذت ایک ایسی شے ہے جس کا طالب ناصرف انسان ہے، بلکہ ہر حیوان اس کا طالب ہے۔
وہ بہ ذات خود قابل مذمت چیز نہیں ہے، قابل مذمت وہ اس وقت قرار پاتی ہے جب اس کا غلط استعمال کیا جائے۔ اس فطری جذبے کو پورا کرنے کا حلال راستہ یہی نکاح ہے۔ نکاح چھوڑنے سے کئی فتنوں میں مبتلا ہوجانے کا خطرہ رہتا ہے۔ اگر نکاح نہ ہو تو ناجائز طریقے سے یہ تقاضا پورا کرنے کی طرف میلان ہوگا۔ اﷲ تعالیٰ نے حرام سے بچنے کے لیے یہ حلال راستہ رکھا ہے۔
٭ اولاد کا حصول: اولاد کا طلب کرنا بھی نکاح کے مقاصد میں سے ہے، نسل انسانی کی بقا بھی اسی سے ممکن ہے۔ اس مقصد کے حصول پر حدیث میں بڑی تاکید آئی ہے کہ ایسی عورتوں سے نکاح کرو جو زیادہ بچے جننے والی ہوں۔
٭ امت محمدیہؐ کے افراد میں اضافہ: امت محمدیہؐ کے افراد کا زیادہ ہونا بھی ایک اہم مقصد ہے، جس کی رسول اﷲ ﷺ نے تمنا فرمائی، آپؐ نے فرمایا: میں تمہاری کثرت پر قیامت کے دن فخر کروں گا۔ اسی طرح قومی طاقت اور توانائی کا دار و مدار کثرتِ آبادی اور ان کی مادی اور اندرونی قوت پر منحصر ہے۔
٭ آرام و راحت کا حصول: نکاح کا ایک بڑا مقصد یہ بھی ہے کہ وہ سکون و آرام اور راحت کا ذریعہ ہے۔ جیسا کہ اﷲ تعالیٰ کا ارشادہے، مفہوم: اﷲ تعالیٰ نے تمہارے لیے تم میں سے جوڑے بنائے، تاکہ تم ان سے آرام پکڑو اور تم میں محبت اور نرمی رکھ دی۔'' (الروم)
٭ طبی طور پر جسمانی امراض سے بچاؤ: نکاح کئی بیماریوں اور امراض سے بچاؤ کا بھی ذریعہ ہے۔ نکاح نہ کرنے والے کئی مرض میں مبتلا ہوجاتے ہیں، کیوں کہ انسان کا یہ مادہ جب کافی عرصہ تک بند رہتا ہے تو اس کا زہریلا اثر دماغ تک چڑھ جاتا ہے۔
اعداد و شمار سے پتا چلتا ہے کہ شادی شدہ جوڑوں کی نسبت غیر شادی شدہ کہیں زیادہ خودکشی کے مرتکب ہوتے ہیں، جب کہ اکثر شادی شدہ افراد کی دماغی اور اخلاقی حالت نہایت متوازن اور ٹھوس ہوتی ہے، ان کی زندگی میں ٹھہراؤ ہوتا ہے۔