تعلیم نسواں کی اہمیت
’’ان سے پوچھو کیا جاننے والے اور نہ جاننے والے دونوں برابر ہوسکتے ہیں۔‘‘
اسلام سے قبل سرزمین عرب میں ساری برائیاں پائی جاتی تھیں، وہاں پر بداخلاقی، بداعمالی، شراب نوشی، ظلم و جور اور قتل و غارت گری عام تھی، معاشرہ انتہائی پراگندہ ہوچکا تھا، دین اسلام نے اسے زمانۂ جاہلیت سے تعبیر کیا ہے۔
اس کا مطلب ہے کہ تمام برائیوں، بے حیائیوں اور ناانصافیوں کا سرچشمہ جہالت ہے اور جہالت کا خاتمہ تعلیم سے ہی ممکن ہے، اسی لیے تعلیم کو اسلام نے بنیادی سرچشمہ قرار دیا ہے۔
خالق کائنات نے جب حضرت آدمؑ کو پیدا کیا، تو سب سے پہلے تعلیم کا بندوبست کیا، انہیں چیزوں کے نام سکھائے، پھر فرشتوں سے مقابلہ کرایا، کام یاب ہوئے تو خلافت سے بہرہ ور کیا اور مسجود ملائکہ کے شرف سے نوازا، اس کے بعد رہنے سہنے کا انتظام کیا۔
تعلیم، انسان و حیوان میں فرق و امتیاز پیدا کرتی ہے، تعلیم ہی کے ذریعے انسان انسانیت کے آداب و اصول کو سیکھتا ہے، اسے سنوارتا ہے اور سجاتا ہے، تعلیم ہی سے انسان اپنے مقام و مرتبے کو پہچانتا ہے اور جہاں تعلیم نہ ہو دنیا ہاتھ آتی ہے اور نہ دین۔
دنیا ایک تعلیم گاہ ہے، ایک مدرسہ ہے، ایک سیکھنے کی جگہ، تمام انسان طالب علم ہیں، انبیائے کرامؑ خصوصی شاگرد ہیں اور تمام انسانوں کو پیدا کرنے والی ذات ہی معلّم ہے، دنیا کی پیدائش ہی تعلیم کے مقصد سے ہوئی ہے۔
طالب علموں کی سہولت اور کھانے پینے کے لیے زمین بنائی گئی، مطالعے کے لیے روشنی کی ضرورت پڑسکتی تھی تو چاند، سورج اور ستارے پیدا کیے گئے ہیں، تعلیم کے بارے میں سب سے پہلا امتحان قبر میں ہوگا اور فائنل امتحان میدان محشر میں۔
مرد و عورت کی تفریق کیے بغیر تعلیم سب پر ضروری ہے، سب پڑھیں، سب بڑھیں یہی مذہب اسلام کا اولین حکم ہے۔ اﷲ کے رسول صلی اﷲ علیہ وسلم پر جو سب سے پہلی وحی نازل ہوتی ہے پڑھو اور وحی نبوتؐ کی زبان سے یہ فرمان بھی جاری ہوتا ہے: علم کا حاصل کرنا ہر مسلمان پر فرض ہے۔ خود خالق کائنات نے ایک جگہ ارشاد فرمایا ہے: ان سے پوچھو کیا جاننے والے اور نہ جاننے والے دونوں برابر ہوسکتے ہیں۔
مذہب اسلام جس کی بنیاد ہی تعلیم ہے، افسوس! اسی مذہب کے ماننے والے تعلیمی اعتبار سے سب سے پیچھے ہیں۔ آج بھی ایسے خاندان و قبیلے موجود ہیں جو بچوں کو تو تعلیم دیتے ہیں ان پر پیسہ خرچ کرتے ہیں لیکن بچیوں کو تعلیم نہیں دلاتے۔ وہ اس وجہ سے کہ یہ تو کسی اور کے گھر جائیں گی انہیں تعلیم دے کر کیا فائدہ۔
یاد رکھیے! قوموں کی تعلیم ماں کی تعلیم پر موقوف ہے۔ ماں تعلیم یافتہ ہوگی تو بچے کو بھی تعلیم سے آشنا کرے گی، اگر ماں کے دل میں تعلیمی رغبت موجود ہو تو بچے بھی اس رغبت سے فیض یاب ہوں گے، اگر ماں خود رغبت سے خالی ہو تو ظاہر ہے کہ ان کی کوکھ سے پیدا ہونے والے بچوں سے مستقبل کی کیا امید کی جاسکتی ہے ؟ ہر کام یاب شخص کے پیچھے کسی عورت کا ہاتھ ہوتا ہے۔
ایک تعلیم یافتہ عورت ہی بہترین ماں بن کر بہترین کردار ادا کر سکتی ہے تو شریک حیات بن کر اپنے رفیق حیات کی چین و سکون کا باعث بھی بن سکتی ہے، اس کے کئی رنگ و روپ ہوتے ہیں، وہ ماں بھی ہے، بہن بھی ہے، اور بیٹی بھی ہے، اور کسی بھی کردار کے ادا کرنے میں زیور علم سے آراستہ ہونا ضروری ہے۔
انسانی زندگی کی ابتداء ماں کے بطن سے ہوتی ہے، بچہ ماں کے پیٹ سے پیدا ہوکر دنیا میں آتا ہے، اسی لیے ماں کی گود کو انسان کی پہلی درس گاہ کہا جاتا ہے اور ظاہر ہے مدرسہ میں تعلیم بہتر اسی وقت ہوسکتی ہے جب معلم اچھے ہوں، اور جس گھر میں مائیں معلمہ ہوتی ہیں، یعنی وہ پڑھی لکھی تعلیم و تربیت سے معمور ہوتی ہیں۔
وہاں ایک دینی و تعلیمی ماحول دیکھنے کو ملتا ہے اور جہاں پر مائیں تعلیم و تربیت سے عاری، بداخلاق و بدکردار ہوتی ہیں، بچے بھی اس کے اثرات قبول کرتے ہیں۔ ہماری عورتوں کو بھی اکثر یہ خلجان و شبہ رہتا ہے کہ ترقی اور علم و فضل کا میدان صرف مردوں کے لیے ہے، عورتیں گھر میں بیٹھنے والی اور باورچی خانہ سنبھالنے کے لیے ہیں، اسے علم سے کیا واسطہ؟ مگر سچائی اور مذہب اسلام کی تعلیمات اس کے بالکل برعکس ہے۔
اﷲ کے رسول صلی اﷲ علیہ وسلم کی ازواج مطہرات بالخصوص حضرت عائشہ صدیقہ رضی اﷲ عنہا بہت بڑی عالمہ تھیں، کتب حدیث میں دو ہزار دو سو دس روایتیں ان کی طرف سے ہیں۔ مردوں میں حضرت ابوہریرہؓ، حضرت عبد اﷲ بن عمرؓ، حضرت انس بن مالکؓ کے علاوہ کوئی بھی اس تعداد روایت میں حضرت عائشہ رضی اﷲ عنہا سے آگے نہیں بڑھ سکے۔ اسی لیے بڑے بڑے صحابہ کرامؓؓ جب کسی مسئلے میں حل نہیں نکال پاتے تو حضرت عائشہ رضی اﷲ عنہا سے رجوع کرتے۔
آپ ﷺ کے یہاں عورتوں کو تعلیم سکھانے کے لیے ایک مجلس لگتی تھی، جس میں عورتیں آتی تھیں اور انہیں سکھایا جاتا تھا۔
حضرت ابوسعید خدریؓ راوی ہیں فرماتے ہیں کہ عورتیں نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کی بارگاہ میں حاضر ہوئیں اور عرض کیا: یارسول اﷲ ﷺ! مرد ہم سے آگے نکل گئے، ہمارے استفادہ کے لیے بھی ایک دن مقرر فرما دیجیے۔ چناں چہ ان کے لیے بھی ایک دن متعین فرما دیا گیا۔ اس دن آپ ﷺ انہیں نصیحت فرماتے اور انہیں اﷲ کے احکام بتاتے، آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کی ازواج مطہرات اس میں اہم کردار ادا کرتیں۔
نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کی توجہات کا نتیجہ تھا کہ تمام اسلامی علوم و فنون، تفسیر، حدیث، فقہ، فتاوی، خطابت، شاعری اور طب و جراحت میں بے شمار صحابیاتؓ نے کمال حاصل کیا۔ عہد نبویؐ کے بعد خلفائے راشدینؓ کے دور میں بھی تعلیم پر بھرپور توجہ دی گئی، حضرت علی کرم اﷲ وجہہ کو تو خود علم کا باب ہونے کا اعزاز حاصل ہے۔
حضرت عمر بن الخطاب ؓ نے اپنی مملکت کے تمام اطراف میں یہ فرمان جاری کردیا تھا کہ اپنی خواتین کو سورۃ نور ضرور سکھاؤ، اس میں خانگی اور معاشرتی زندگی کے متعلق بے شمار مسائل و احکام موجود ہیں۔
قرآن وسنت کی اتنی تاکید اور نظائر و امثال کے باوجود آج ہم لڑکیوں کی تعلیم سے غافل ہیں۔ بعض لوگ تو کہتے ہیں کہ ہمیں اپنی بچیوں کی ملازمت نہیں کرانا ہے، ہمیں اپنی بیویوں کی کمائی نہیں کھانی ہے، لیکن یہ بھول جاتے ہیں کہ ایک عورت کو تعلیم دلانا پورے خاندان کو تعلیم دلانا ہے، اس لیے کہ ماں، بچوں کی اولین درس گاہ ہے۔
عورتوں کے حقوق اور تعلیم کی آواز آج سب سے زیادہ مغرب کی طرف سے اٹھتی ہوئی سنائی دے رہی ہے، جو کل تک عورتوں کو کمتر درجے کی ایک مخلوق سمجھتی تھی۔
کلیسا کے پارلیمینٹ میں ا س بات پر زور دار بحث ہو رہی تھی کہ عورت انسان بھی ہے یا نہیں ؟ یورپ میں عورت کی اپنی کوئی مرضی نہ تھی، جانوروں کی طرح وہ بازار میں بیچی اور خریدی جاتی تھی۔ آپ اس کی تفصیل دیکھنا چاہیں تو اقوام عالم کی تاریخ ضرور پڑھیے تو آپ کو مغرب میں عورت پر ظلم و ستم کے اندہ ناک مناظر رقم نظر آئیں گے۔
مگر مذہب اسلام آیا، دین رحمت کی بنیاد پڑی، اﷲ کے رسول صلی اﷲ علیہ وسلم کی بعثت ہوئی تو آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے عورتوں کو وہ مقام و مرتبہ دیا جس کی دنیا پیاسی تھی، ان کے حقوق دیے اور صاف طور پر ارشاد فرما دیا: اے لوگو! عورتوں کے بارے میں تم لوگ اﷲ سے ڈرو! عورتیں بھی اپنے حقوق اور فرائض کو پہچانیں اور رب کائنات نے شوہروں کے بارے میں ان پر جو ذمے داریاں عاید کی ہیں اسے پہچانیں، باکردار اور ہم درد ماں، صالح و نیک بیٹی، وفا شعار بہن، اور فرمان بردار بیوی بن کر زندگی گزاریں، اس کے لیے مذہب اسلام نے تعلیم کو عورتوں کے لیے ضروری قراردیا۔ مگر تعلیم کا مطلب یہ نہیں کہ عورتیں شتر بے مہار کی آزاد ی کی دہائی دینے لگیں، پردہ، برقع اور دوپٹہ کی قید سے آزاد ہو جائیں، بن سنور کر عریاں انداز میں اس طرح گھومیں، پھریں اور پڑھنے پڑھانے کے لیے جائیں تو ایسے کہ گویا ابھی کوئی دلہن بیوٹی پارلر سے آرہی ہو۔ سادگی میں ایک وقار ہوتا ہے ہم سب کو اسے اپنانا چاہیے۔
عورتیں معاشرے کا نصف حصہ ہیں، ظاہر ہے کہ ان کی تعلیم کے بغیر قوم اور معاشرے کی ترقی ناگزیر ہے، وہ دنیاوی اور دینی دونوں علوم سے مزین اور آراستہ ہوں، آج معاشرے کو اچھی، ہم درد خواتین ڈاکٹرز کی بھی شدید ضرورت ہے، خواتین اسلام اس میں بہترین کردار ادا کریں ۔ صاحب منصب کو ان کی تربیت کے لیے عمدہ نظام قائم کرنا چاہیے، انہیں حقوق اﷲ اور حقوق العباد، نیکی، بدی میں فرق، سچائی، صفائی، وقت کی پابندی، محبت اور ایثار و ہم درد ی کا سبق پڑھایا جائے تاکہ وہ صاف ستھری اور اسلامی طریقے کے مطابق پاکیزہ زندگی بسر کرسکیں۔ تعلیم کا مقصد صرف رضائے الٰہی ہے، جس تعلیم سے اﷲ کی رضا کا حصول ممکن نہ ہو، اﷲ اور اس کے رسول ﷺ کے پیغامات و ارشادات پر عمل کرنا ممکن نہ ہو وہ تعلیم یقیناً زہر ہلاہل ہے۔
اﷲ تعالیٰ امت مسلمہ کی ماؤں، بہنوں، بیٹیوں کی حفاظت فرمائے اور انہیں کامل مسلمان بنائے۔ (آمین )
اس کا مطلب ہے کہ تمام برائیوں، بے حیائیوں اور ناانصافیوں کا سرچشمہ جہالت ہے اور جہالت کا خاتمہ تعلیم سے ہی ممکن ہے، اسی لیے تعلیم کو اسلام نے بنیادی سرچشمہ قرار دیا ہے۔
خالق کائنات نے جب حضرت آدمؑ کو پیدا کیا، تو سب سے پہلے تعلیم کا بندوبست کیا، انہیں چیزوں کے نام سکھائے، پھر فرشتوں سے مقابلہ کرایا، کام یاب ہوئے تو خلافت سے بہرہ ور کیا اور مسجود ملائکہ کے شرف سے نوازا، اس کے بعد رہنے سہنے کا انتظام کیا۔
تعلیم، انسان و حیوان میں فرق و امتیاز پیدا کرتی ہے، تعلیم ہی کے ذریعے انسان انسانیت کے آداب و اصول کو سیکھتا ہے، اسے سنوارتا ہے اور سجاتا ہے، تعلیم ہی سے انسان اپنے مقام و مرتبے کو پہچانتا ہے اور جہاں تعلیم نہ ہو دنیا ہاتھ آتی ہے اور نہ دین۔
دنیا ایک تعلیم گاہ ہے، ایک مدرسہ ہے، ایک سیکھنے کی جگہ، تمام انسان طالب علم ہیں، انبیائے کرامؑ خصوصی شاگرد ہیں اور تمام انسانوں کو پیدا کرنے والی ذات ہی معلّم ہے، دنیا کی پیدائش ہی تعلیم کے مقصد سے ہوئی ہے۔
طالب علموں کی سہولت اور کھانے پینے کے لیے زمین بنائی گئی، مطالعے کے لیے روشنی کی ضرورت پڑسکتی تھی تو چاند، سورج اور ستارے پیدا کیے گئے ہیں، تعلیم کے بارے میں سب سے پہلا امتحان قبر میں ہوگا اور فائنل امتحان میدان محشر میں۔
مرد و عورت کی تفریق کیے بغیر تعلیم سب پر ضروری ہے، سب پڑھیں، سب بڑھیں یہی مذہب اسلام کا اولین حکم ہے۔ اﷲ کے رسول صلی اﷲ علیہ وسلم پر جو سب سے پہلی وحی نازل ہوتی ہے پڑھو اور وحی نبوتؐ کی زبان سے یہ فرمان بھی جاری ہوتا ہے: علم کا حاصل کرنا ہر مسلمان پر فرض ہے۔ خود خالق کائنات نے ایک جگہ ارشاد فرمایا ہے: ان سے پوچھو کیا جاننے والے اور نہ جاننے والے دونوں برابر ہوسکتے ہیں۔
مذہب اسلام جس کی بنیاد ہی تعلیم ہے، افسوس! اسی مذہب کے ماننے والے تعلیمی اعتبار سے سب سے پیچھے ہیں۔ آج بھی ایسے خاندان و قبیلے موجود ہیں جو بچوں کو تو تعلیم دیتے ہیں ان پر پیسہ خرچ کرتے ہیں لیکن بچیوں کو تعلیم نہیں دلاتے۔ وہ اس وجہ سے کہ یہ تو کسی اور کے گھر جائیں گی انہیں تعلیم دے کر کیا فائدہ۔
یاد رکھیے! قوموں کی تعلیم ماں کی تعلیم پر موقوف ہے۔ ماں تعلیم یافتہ ہوگی تو بچے کو بھی تعلیم سے آشنا کرے گی، اگر ماں کے دل میں تعلیمی رغبت موجود ہو تو بچے بھی اس رغبت سے فیض یاب ہوں گے، اگر ماں خود رغبت سے خالی ہو تو ظاہر ہے کہ ان کی کوکھ سے پیدا ہونے والے بچوں سے مستقبل کی کیا امید کی جاسکتی ہے ؟ ہر کام یاب شخص کے پیچھے کسی عورت کا ہاتھ ہوتا ہے۔
ایک تعلیم یافتہ عورت ہی بہترین ماں بن کر بہترین کردار ادا کر سکتی ہے تو شریک حیات بن کر اپنے رفیق حیات کی چین و سکون کا باعث بھی بن سکتی ہے، اس کے کئی رنگ و روپ ہوتے ہیں، وہ ماں بھی ہے، بہن بھی ہے، اور بیٹی بھی ہے، اور کسی بھی کردار کے ادا کرنے میں زیور علم سے آراستہ ہونا ضروری ہے۔
انسانی زندگی کی ابتداء ماں کے بطن سے ہوتی ہے، بچہ ماں کے پیٹ سے پیدا ہوکر دنیا میں آتا ہے، اسی لیے ماں کی گود کو انسان کی پہلی درس گاہ کہا جاتا ہے اور ظاہر ہے مدرسہ میں تعلیم بہتر اسی وقت ہوسکتی ہے جب معلم اچھے ہوں، اور جس گھر میں مائیں معلمہ ہوتی ہیں، یعنی وہ پڑھی لکھی تعلیم و تربیت سے معمور ہوتی ہیں۔
وہاں ایک دینی و تعلیمی ماحول دیکھنے کو ملتا ہے اور جہاں پر مائیں تعلیم و تربیت سے عاری، بداخلاق و بدکردار ہوتی ہیں، بچے بھی اس کے اثرات قبول کرتے ہیں۔ ہماری عورتوں کو بھی اکثر یہ خلجان و شبہ رہتا ہے کہ ترقی اور علم و فضل کا میدان صرف مردوں کے لیے ہے، عورتیں گھر میں بیٹھنے والی اور باورچی خانہ سنبھالنے کے لیے ہیں، اسے علم سے کیا واسطہ؟ مگر سچائی اور مذہب اسلام کی تعلیمات اس کے بالکل برعکس ہے۔
اﷲ کے رسول صلی اﷲ علیہ وسلم کی ازواج مطہرات بالخصوص حضرت عائشہ صدیقہ رضی اﷲ عنہا بہت بڑی عالمہ تھیں، کتب حدیث میں دو ہزار دو سو دس روایتیں ان کی طرف سے ہیں۔ مردوں میں حضرت ابوہریرہؓ، حضرت عبد اﷲ بن عمرؓ، حضرت انس بن مالکؓ کے علاوہ کوئی بھی اس تعداد روایت میں حضرت عائشہ رضی اﷲ عنہا سے آگے نہیں بڑھ سکے۔ اسی لیے بڑے بڑے صحابہ کرامؓؓ جب کسی مسئلے میں حل نہیں نکال پاتے تو حضرت عائشہ رضی اﷲ عنہا سے رجوع کرتے۔
آپ ﷺ کے یہاں عورتوں کو تعلیم سکھانے کے لیے ایک مجلس لگتی تھی، جس میں عورتیں آتی تھیں اور انہیں سکھایا جاتا تھا۔
حضرت ابوسعید خدریؓ راوی ہیں فرماتے ہیں کہ عورتیں نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کی بارگاہ میں حاضر ہوئیں اور عرض کیا: یارسول اﷲ ﷺ! مرد ہم سے آگے نکل گئے، ہمارے استفادہ کے لیے بھی ایک دن مقرر فرما دیجیے۔ چناں چہ ان کے لیے بھی ایک دن متعین فرما دیا گیا۔ اس دن آپ ﷺ انہیں نصیحت فرماتے اور انہیں اﷲ کے احکام بتاتے، آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کی ازواج مطہرات اس میں اہم کردار ادا کرتیں۔
نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کی توجہات کا نتیجہ تھا کہ تمام اسلامی علوم و فنون، تفسیر، حدیث، فقہ، فتاوی، خطابت، شاعری اور طب و جراحت میں بے شمار صحابیاتؓ نے کمال حاصل کیا۔ عہد نبویؐ کے بعد خلفائے راشدینؓ کے دور میں بھی تعلیم پر بھرپور توجہ دی گئی، حضرت علی کرم اﷲ وجہہ کو تو خود علم کا باب ہونے کا اعزاز حاصل ہے۔
حضرت عمر بن الخطاب ؓ نے اپنی مملکت کے تمام اطراف میں یہ فرمان جاری کردیا تھا کہ اپنی خواتین کو سورۃ نور ضرور سکھاؤ، اس میں خانگی اور معاشرتی زندگی کے متعلق بے شمار مسائل و احکام موجود ہیں۔
قرآن وسنت کی اتنی تاکید اور نظائر و امثال کے باوجود آج ہم لڑکیوں کی تعلیم سے غافل ہیں۔ بعض لوگ تو کہتے ہیں کہ ہمیں اپنی بچیوں کی ملازمت نہیں کرانا ہے، ہمیں اپنی بیویوں کی کمائی نہیں کھانی ہے، لیکن یہ بھول جاتے ہیں کہ ایک عورت کو تعلیم دلانا پورے خاندان کو تعلیم دلانا ہے، اس لیے کہ ماں، بچوں کی اولین درس گاہ ہے۔
عورتوں کے حقوق اور تعلیم کی آواز آج سب سے زیادہ مغرب کی طرف سے اٹھتی ہوئی سنائی دے رہی ہے، جو کل تک عورتوں کو کمتر درجے کی ایک مخلوق سمجھتی تھی۔
کلیسا کے پارلیمینٹ میں ا س بات پر زور دار بحث ہو رہی تھی کہ عورت انسان بھی ہے یا نہیں ؟ یورپ میں عورت کی اپنی کوئی مرضی نہ تھی، جانوروں کی طرح وہ بازار میں بیچی اور خریدی جاتی تھی۔ آپ اس کی تفصیل دیکھنا چاہیں تو اقوام عالم کی تاریخ ضرور پڑھیے تو آپ کو مغرب میں عورت پر ظلم و ستم کے اندہ ناک مناظر رقم نظر آئیں گے۔
مگر مذہب اسلام آیا، دین رحمت کی بنیاد پڑی، اﷲ کے رسول صلی اﷲ علیہ وسلم کی بعثت ہوئی تو آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے عورتوں کو وہ مقام و مرتبہ دیا جس کی دنیا پیاسی تھی، ان کے حقوق دیے اور صاف طور پر ارشاد فرما دیا: اے لوگو! عورتوں کے بارے میں تم لوگ اﷲ سے ڈرو! عورتیں بھی اپنے حقوق اور فرائض کو پہچانیں اور رب کائنات نے شوہروں کے بارے میں ان پر جو ذمے داریاں عاید کی ہیں اسے پہچانیں، باکردار اور ہم درد ماں، صالح و نیک بیٹی، وفا شعار بہن، اور فرمان بردار بیوی بن کر زندگی گزاریں، اس کے لیے مذہب اسلام نے تعلیم کو عورتوں کے لیے ضروری قراردیا۔ مگر تعلیم کا مطلب یہ نہیں کہ عورتیں شتر بے مہار کی آزاد ی کی دہائی دینے لگیں، پردہ، برقع اور دوپٹہ کی قید سے آزاد ہو جائیں، بن سنور کر عریاں انداز میں اس طرح گھومیں، پھریں اور پڑھنے پڑھانے کے لیے جائیں تو ایسے کہ گویا ابھی کوئی دلہن بیوٹی پارلر سے آرہی ہو۔ سادگی میں ایک وقار ہوتا ہے ہم سب کو اسے اپنانا چاہیے۔
عورتیں معاشرے کا نصف حصہ ہیں، ظاہر ہے کہ ان کی تعلیم کے بغیر قوم اور معاشرے کی ترقی ناگزیر ہے، وہ دنیاوی اور دینی دونوں علوم سے مزین اور آراستہ ہوں، آج معاشرے کو اچھی، ہم درد خواتین ڈاکٹرز کی بھی شدید ضرورت ہے، خواتین اسلام اس میں بہترین کردار ادا کریں ۔ صاحب منصب کو ان کی تربیت کے لیے عمدہ نظام قائم کرنا چاہیے، انہیں حقوق اﷲ اور حقوق العباد، نیکی، بدی میں فرق، سچائی، صفائی، وقت کی پابندی، محبت اور ایثار و ہم درد ی کا سبق پڑھایا جائے تاکہ وہ صاف ستھری اور اسلامی طریقے کے مطابق پاکیزہ زندگی بسر کرسکیں۔ تعلیم کا مقصد صرف رضائے الٰہی ہے، جس تعلیم سے اﷲ کی رضا کا حصول ممکن نہ ہو، اﷲ اور اس کے رسول ﷺ کے پیغامات و ارشادات پر عمل کرنا ممکن نہ ہو وہ تعلیم یقیناً زہر ہلاہل ہے۔
اﷲ تعالیٰ امت مسلمہ کی ماؤں، بہنوں، بیٹیوں کی حفاظت فرمائے اور انہیں کامل مسلمان بنائے۔ (آمین )