اعدادوشمار کی شعبدہ بازیپاکستانی بینک اضافی ٹیکسوں سے بچ نکلے
دسمبر میں حیران کن طور پر پرائیویٹ فنانسنگ میں اضافہ،ڈپازٹس میں کمی ظاہر کردی
پاکستانی بینکوں نے نومبر کے مقابلے میں دسمبر 2022ء میں نجی شعبے کے لیے کی جانیوالی فنانسنگ (جسے ایڈوانسز بھی کہا جاتا ہے) میں حیران کن طور پر 7.4 فیصد کا نمایاں اضافہ ظاہر کیا ہے، جو 11.91 ٹریلین روپے تک جا پہنچی ہے اور یہ ایک ایسے وقت پر ہوا ہے کہ جب ملک میں معاشی مشکلات کی وجہ سے کاروبار دھڑادھڑ بند ہو رہے ہیں۔
تاہم دوسری جانب بینکوں نے نومبر کے 22.73 ٹریلین روپے کے مقابلے میں دسمبر میں 22.46 ٹریلین روپے کے ڈپازٹس ظاہر کرتے ہوئے ان میں 1.2 فیصد کمی دکھائی ہے۔
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ ایڈوانسز کے بڑھنے اور ڈپازٹس میں کمی نے مل کر بینکوں کو 50 فیصد ''ایڈوانس ٹو ڈپازٹ ریشو'' (ADR) کا مقررہ ہدف حاصل کرنے میں مدد دی ہے۔ اگر ''اے ڈی آر'' کا تناسب 50% سے کم ہوجاتا تو بینکوں کو اضافی ٹیکس ادا کرنے پر مجبور ہونا پڑتا، جس سے وہ بظاہر اعداد وشمار کی اس شعبدے بازی کی مدد سے بچنے میں کامیاب ہوگئے ہیں۔
تجزیہ کاروں کے مطابق ماہ دسمبر میں بینکوں کے ڈپازٹس میں کمی دیکھ کر حیرت ہوئی کیونکہ دسمبر بینکوں کے درمیان جنگ کا مہینہ ہوا کرتا تھا، جس کی وجہ یہ تھی کہ ہر بینک سال کے اختتام پر اپنے پاس زیادہ سے زیادہ ڈپازٹس دکھانا چاہتا تھا۔
تاہم اس سال ظاہر کی جانے والی کمی اس جانب اشارہ کرتی ہے کہ بینکوں نے شاید دانستہ طور پر دسمبر میں نئے ڈپازٹ لینے سے گریز کیا تاکہ 50 فیصد کا مقررہ ایڈوانس ٹو ڈپازٹ ریشو حاصل کیا جاسکے۔ اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ نومبر 2022ء میں ''اے ڈی آر'' 48.8 فیصد تھا، جو دسمبر 2022ء میں 4.23 فیصد بڑھ کر 53 فیصد ہو گیا۔
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ بینک ڈپازٹس میں اضافہ ہونے کی صورت میں ''اے ڈی آر'' کا تناسب 50% سے کم ہوجانے کا خطرہ تھا۔ تجزیہ کاروں کے مطابق یہ بات بھی حیران کن ہے کہ بینکوں نے دسمبر کے ایک ہی مہینے میں تقریباً 800 ارب روپے ( 7.4 فیصد) کے نئے قرضے نجی شعبے کو دیے ہیں حالانکہ اس وقت بڑی تعداد میں کاروبار گزشتہ دو مہینوں سے درآمد شدہ خام مال کی عدم دستیابی کی وجہ سے جزوی یا مکمل بندش کی اطلاع دے رہے تھے۔
تاہم دوسری جانب بینکوں نے نومبر کے 22.73 ٹریلین روپے کے مقابلے میں دسمبر میں 22.46 ٹریلین روپے کے ڈپازٹس ظاہر کرتے ہوئے ان میں 1.2 فیصد کمی دکھائی ہے۔
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ ایڈوانسز کے بڑھنے اور ڈپازٹس میں کمی نے مل کر بینکوں کو 50 فیصد ''ایڈوانس ٹو ڈپازٹ ریشو'' (ADR) کا مقررہ ہدف حاصل کرنے میں مدد دی ہے۔ اگر ''اے ڈی آر'' کا تناسب 50% سے کم ہوجاتا تو بینکوں کو اضافی ٹیکس ادا کرنے پر مجبور ہونا پڑتا، جس سے وہ بظاہر اعداد وشمار کی اس شعبدے بازی کی مدد سے بچنے میں کامیاب ہوگئے ہیں۔
تجزیہ کاروں کے مطابق ماہ دسمبر میں بینکوں کے ڈپازٹس میں کمی دیکھ کر حیرت ہوئی کیونکہ دسمبر بینکوں کے درمیان جنگ کا مہینہ ہوا کرتا تھا، جس کی وجہ یہ تھی کہ ہر بینک سال کے اختتام پر اپنے پاس زیادہ سے زیادہ ڈپازٹس دکھانا چاہتا تھا۔
تاہم اس سال ظاہر کی جانے والی کمی اس جانب اشارہ کرتی ہے کہ بینکوں نے شاید دانستہ طور پر دسمبر میں نئے ڈپازٹ لینے سے گریز کیا تاکہ 50 فیصد کا مقررہ ایڈوانس ٹو ڈپازٹ ریشو حاصل کیا جاسکے۔ اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ نومبر 2022ء میں ''اے ڈی آر'' 48.8 فیصد تھا، جو دسمبر 2022ء میں 4.23 فیصد بڑھ کر 53 فیصد ہو گیا۔
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ بینک ڈپازٹس میں اضافہ ہونے کی صورت میں ''اے ڈی آر'' کا تناسب 50% سے کم ہوجانے کا خطرہ تھا۔ تجزیہ کاروں کے مطابق یہ بات بھی حیران کن ہے کہ بینکوں نے دسمبر کے ایک ہی مہینے میں تقریباً 800 ارب روپے ( 7.4 فیصد) کے نئے قرضے نجی شعبے کو دیے ہیں حالانکہ اس وقت بڑی تعداد میں کاروبار گزشتہ دو مہینوں سے درآمد شدہ خام مال کی عدم دستیابی کی وجہ سے جزوی یا مکمل بندش کی اطلاع دے رہے تھے۔