4 اپریل اور 31 مارچ

پرسوں اپریل کی 4 تاریخ تھی۔ پاکستان کی تاریخ کے چند سیاہ ترین اور اندوہ ناک ترین دنوں میں سے ایک۔


Zahida Hina April 05, 2014
[email protected]

پرسوں اپریل کی 4 تاریخ تھی۔ پاکستان کی تاریخ کے چند سیاہ ترین اور اندوہ ناک ترین دنوں میں سے ایک۔ 35 برس پہلے اس روز پاکستان کے پہلے منتخب وزیراعظم کو دار پر کھینچ دیا گیا تھا۔پھانسی مجرموں کو دی جاتی ہے تو کیا اس سے کوئی نہایت سنگین، کوئی ناقابل معافی جر م سرزد ہوا تھا؟

ہاں! اس سے ایک نہیں کئی ناقابل معافی جرائم سرزد ہوئے۔

پاکستان کے وجود میں آنے کے 25 برس بعد اس شخص نے ملک کو پہلا وفاقی جمہوری آئین دیا جس سے اقتدار اعلیٰ پر عوام کی حاکمیت کا آغاز ہوا۔ اس نے دو ٹکڑے ہوجانے والے ایک شکست خوردہ ملک کی تعمیر نو کو اپنا ایمان بنالیا۔ ہندوستان کی قید سے 90 ہزار فوجی قیدیوں کی رہائی اور پاکستان کی ہزاروں مربع میل زمین واگزار کرانا کیا کوئی کم بڑا جرم تھا؟ شکست خوردہ اور نڈھال فوجی ادارے کو توانائی اور سربلندی کے لیے اس نے ایٹمی پروگرام کی بنیاد رکھی۔ یہ اسی کا خواب تھا جس کی تعبیر ایک دوسرے منتخب وزیر اعظم کے ہاتھوں ممکن ہوئی۔ اس کے ناقابل معافی جرائم کی فہرست اتنی طویل تھی کہ جن کی سزا میں اسے 100 بار دار پر کھینچنا بھی کم تھا۔ اس وقت کے امیر المومنین نے بہت عفو درگزر سے کام لیا کہ اسے صرف ایک بار سولی دی گئی۔

پہلے منتخب وزیراعظم کو ان جرائم کی سزا میں راہ سے ہٹانے والا کون تھا؟ایک ایسا شخص تھا جس نے ایک آئینی اور جمہوری حکومت کا تختہ الٹنے کا سنگین غیر آئینی، غیر قانونی اور غیر اخلاقی اقدام کر کے ایک ''عظیم '' کام کیا تھا۔ ہم اس کی تعریف و توصیف کی بجائے اسے غاصب اور آمر کہتے ہیں۔ آیئے اس پر غور کریں کہ طاقت کے بل پر اقتدار غصب کرنے والے عوام کے دلوں میں بسنے والے رہنماؤں سے خوف زدہ کیوں رہتے ہیں؟ دراصل انھیں اس بات کا دھڑکا لگا رہتا ہے کہ انھوں نے جسے غیر آئینی طور پر اقتدار سے بے دخل کیا ہے، وہ کہیں عوام کی حمایت سے دوبارہ برسراقتدار نہ آجائے۔ یہی سبب ہے کہ تاریخ ان فوجی اور غیر فوجی آمروں کے ناموں سے بھری پڑی ہے جنھوں نے عوام کے مقبول رہنماؤں کو سالہا سال قید رکھا، بدترین تشدد کا نشانہ بنایا اور قتل کیا۔

ہم اگر اپنی تاریخ کے غاصبوں کا جائزہ لیں تو یہ بات ڈھکی چھپی نہیں کہ ذوالفقار علی بھٹو کو شہید کرنے والے غاصب سے پہلے بھی ایک غاصب گزرا تھا جس نے ذاتی اقتدار کے لیے پاکستان کا جغرافیہ قربان کردیا اور اس سے پہلے والے غاصب نے 1958ء میں پہلا مارشل لا لگایا اور اس ملک کی بنیاد میں وہ بارود بچھائی جس کی تباہ کاریوں سے ہم آج تک نجات نہیں پاسکے ہیں۔ یہ وہ زمانہ تھا جب تیسری دنیا کے تقریباً تمام ملکوں پر آمر شان و شکوہ سے راج کرتے تھے۔ جب ایشیا میں جمہوری ملکوں کی گنتی کی جاتی تو ہندوستان اور اسرائیل کے علاوہ کوئی تیسرا نام نہیں ملتا تھا۔ امریکا اور سوویت یونین ایک دوسرے کے مدمقابل تھے اور دونوں سپر طاقتوں کا زور اس بات پر تھا کہ زیادہ سے زیادہ ملک ان کے زیر اثر رہیں۔ جمہوریت کا نظام اور عوام کی رضا ان کے لیے بے معنی باتیں تھیں۔

یہ جنگ جسے سرد جنگ کا نام دیا گیا، یہ اسی کا شاخسانہ تھا کہ تیسری دنیا کے ملکوں کے لاکھوں معصوم اور بے گناہ لوگ قید ہوئے، قتل ہوئے اور تاریک راہوں کے مسافر بنے، لاکھوں سیاسی کارکنوں نے بہیمانہ تشدد جھیلا، قید و بند کی عذاب ناک صعوبتیں ان کا مقدر ٹھہریں۔پاکستان بھی تیسری دنیا کے ایسے ہی ملکوں میں سے ایک تھا جس پر یکے بعد دیگرے فوجی آمر حکومت کرتے رہے۔ اپنے آقا کی تابعد اری میں اور اپنے اقتدار کے دوام کے لیے وہ تمام حدوں سے گزر گئے۔یہ وہ تھے جو نعرہ ملک کا لگاتے تھے اور ترجیح ذاتی اقتدار کو دیتے تھے۔ اسی ترجیح کے سبب انھوں نے پاکستان کو دو لخت کیا، منتخب وزیراعظم کو پھانسی دی، دوسرے منتخب وزیراعظم کو عمر قید کی سزا دی گئی۔ جبری جلاوطنی پر مجبور کیا گیا اور دو مرتبہ عوامی ووٹوں سے منتخب ہونے والی وزیراعظم کو برسر عام قتل کرادیا گیا۔

پرسوں 4 اپریل تھی، ایک منتخب وزیراعظم کو 35 برس پہلے پھانسی دینے کی تاریخ اور آج سے 6 روز پہلے 31 مارچ 2014ء کا دن تھا۔ یہ دونوں تاریخیںناقابل فراموش رہیں گی۔ 35 برس پہلے جس جگہ پاکستان کے پہلے منتخب وزیراعظم کو پھانسی دی گئی، اس سے برسوں پہلے اسی شہر میں ایک اور وزیراعظم قتل ہوا تھا، وہی کمپنی باغ جو اس مقتول وزیراعظم کے نام سے منسوب ہوکر لیاقت باغ ہوا۔ اسی باغ میں دو مرتبہ کی منتخب وزیراعظم بے نظیر بھٹو قتل کی گئیںاور اب اسی شہر میں اور اسی قتل گاہ سے چند کلومیٹر کے فاصلے پر ایک عدالت کی معزز جج نے 31 مارچ 2014 کو ایک سابق فوجی آمر کو ایک فرد جرم پڑھ کر سنائی۔ اس فرد جرم میں یہ کہا گیا تھا کہ ملزم نے 3 نومبر 2007ء کو آئین معطل کیا، ملک میں غیر آئینی اور غیر قانونی ایمرجنسی نافذ کی جو آئین کے آرٹیکل 6 کی شق 2 کے تحت قابل سزا جرم ہے۔ ایک پانچ نکاتی فرد جرم اس ملزم کو سنائی گئی جو چند برس پہلے اسی شہر میں مکے لہرا کر اپنی فتحِ عظیم کا دعویٰ کرتا تھا۔ اسی فرد جرم کے عائد ہونے سے پہلے ایک ہنگامہ بپا تھا۔ یوں محسوس ہوتا تھا جیسے قیامت صغریٰ بپا ہونے والی ہے اور فرد جرم عائد ہونے کے بعد تو قیامت کبریٰ برپا ہوگئی۔

سوچنے کی بات یہ ہے کہ کیا پاکستان کی تاریخ کا یہ کوئی انوکھا واقعہ تھا؟ ملک میں اب تک ہزاروں ملزموں پر فرد جرائم عائد ہوچکی ہے۔ وہ جن پر فرد جرم ثابت ہوئی وہ سزا کو پہنچے اور بے شمار جو بے قصور ثابت ہوئے رہا ہوئے۔ تو پھر کیا یہ واقعہ اس لیے منفرد ہے کہ کسی اعلیٰ سرکاری یا سیاسی شخصیت پر اس سے پہلے کبھی فرد جرم عائد نہیں ہوئی تھی اور چونکہ ایسا پہلی مرتبہ ہوا ہے اس لیے یہ ہنگامہ برپا ہوا؟ نہیں ایسا بھی نہیں ہے۔ اعلیٰ و ادنیٰ سیاسی کارکنوں، وزرائے اعظم، صدر، وزیروں، نامور سیاسی شخصیتوں اور نامی گرامی افراد کی ایک انتہائی طویل فہرست ہے جن پر فرد جرم عائد ہوئی اور جو عدالت کے کٹہرے میں کھڑے ہوئے۔ کون تھا جس کا نام پکارا نہیں گیا اور وہ عدالت میں حاضر نہیں ہوا۔ وہ جن پر فرد جرم عائد ہوئی ان میں ایوب کھوڑو، جی ایم سید، خان عبدالغفار خان، حسین شہید سہروردی، فیض احمد فیض، سبط حسن، حبیب جالب، شیخ مجیب الرحمن، ذوالفقار علی بھٹو، بیگم نصرت بھٹو، بے نظیر بھٹو، عبدالولی خان، غوث بخش بزنجو، سردار عطا اللہ مینگل، خیر بخش مری، نواب بگٹی، نواز شریف، شہباز شریف، یوسف رضا گیلانی، آصف علی زرداری ان گنت نام ہیں، اتنے کہ یہاں لکھے جائیں تو کالم کی سطریں صرف ناموں سے بھرجائیں۔ زیادہ پرانی نہیں چند ہفتوں اور چند مہینوں پہلے کی بات ہے کہ 31 مارچ 2014ء کو جس جگہ قائم عدالت میں ایک آمر پر فرد جرم عائد کی گئی ہے، اسی کے قرب و جوار میں قائم عدالتوں میں پاکستان کے سابق صدر جناب آصف علی زرداری اور دو سابق وزرائے اعظم حاضری دے چکے ہیں لیکن کبھی میڈیا، سیاسی حلقوں اور سول سوسائٹی نے اس ردعمل کا مظاہرہ نہیں کیا جو اس مقدمے کے حوالے سے سامنے آیا ہے۔

دیکھا جائے تو یہ ردعمل اتنا غیر فطری بھی نہیں ہے۔ بات دراصل یہ ہے کہ پاکستان کی 65 سالہ تاریخ کا تقریباً نصف عرصہ براہ راست فوجی آمروں کی حکمرانی کا ذائقہ چکھتا رہا ہے۔ اس دوران جب فوجی آمریت مسلط نہیں ہوتی تھی، تب بھی خفیہ ہاتھ سول حکومتیں برسراقتدار لاتے تھے جن کی پیشانی پر اقتدار کا لفظ تو ضرور چسپاں ہوتا تھا لیکن وہ اختیارات سے کٹھ پتلیوں کی طرح محروم ہوتی تھیں۔ ملک میں قانون یا آئین کی حکمرانی کا کوئی تصور نہیں تھا۔ غاصب کسی قانون کے سامنے جواب دہ نہیں تھا۔ وہ اپنے قانون خود بناتا تھا اور ایک عالمی طاقت اس کی پشت پر ہوتی تھی۔ اس کے احتساب کا تصور تک نہیں کیا جاسکتا تھا۔ سرد جنگ کے بعد دنیا تیزی سے بدل گئی ہے اس وقت کی عالمی طاقتوں کو آمروں اور مطلق العنان حکمرانوں کے ناز نخرے اٹھانے کی ضرورت نہیں رہی ہے۔ بڑی طاقتوں کے لیے اب فوجی نہیں معاشی بلاک اہمیت رکھتے ہیں۔ جمہوریت وقت کی ضرورت ہے۔ جمہوریت آئے گی تو قانون کی حکمرانی قائم ہوگی اور جب ایسا ہوگا تو ان افراد پر بھی جرم عائد ہوگی جو اب سے پہلے اکیسویں بادل پر قیام فرماتے تھے اور ہر احتساب سے بالاترتھے۔

یہ پاکستان کی خوش بختی ہے کہ آخر کار یہاں بھی قانون کی حکمرانی کا آغاز ہوچکا ہے اور تمام اداروں کو یہ اندازہ ہوگیا ہے کہ پاکستان کی بقا اور ترقی صرف جمہوریت میں مضمر ہے۔ ملک رہے گا تو سب رہیں گے، ورنہ کچھ باقی نہیں بچے گا۔ اس اعتبار سے دیکھیے تو 4 اپریل 1979 ء کے بعد 31 مارچ 2014 کی تاریخ پاکستان کا اہم ترین دن ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں