خوشونت سنگھ چند منفرد پہلو
بھارت کے نامور صحافی، ناول نگار، مؤرخ اور مترجم خوشونت سنگھ 20 مارچ 2014ء کو انتقال کر گئے۔
بھارت کے نامور صحافی، ناول نگار، مؤرخ اور مترجم خوشونت سنگھ 20 مارچ 2014ء کو انتقال کر گئے۔ ان کی عمر 99 برس تھی۔ زندگی کے آخری لمحات تک کتاب و قلم سے ان کا رشتہ انتہائی مضبوط اور مستحکم رہا۔ برصغیر میں بہت کم اخبار نویسوں کو اتنی شہرت و محبت ملی ہے جتنی خوشونت سنگھ کو ملی۔ وہ اس کے حقدار تھے یا نہیں، یہ فیصلہ ابھی کیا جانا ہے لیکن اتنا ضرور کہا جائے گا کہ وہ قسمت کے دھنی تھے۔ اکثر دل کی بات مانی۔ قدرت بھی ان پر ہمیشہ مہربان اور فیاض رہی۔ وہ اس کا اعتراف بھی کرتے تھے لیکن محنت سے کبھی جی نہ چُرایا۔ برطانوی اخبار ''دی گارڈین'' میں ریجنا لڈمیسی نے ان کی وفات پر لکھا کہ وہ آزاد خیال اخبار نویس تھے اور زندگی کے بارے میں کبھی سنجیدہ نہ رہے۔
آنجہانی خوشونت سنگھ بھارت کے ان مصنّفین اور صحافیوں میں شمار ہوتے تھے جنھوں نے اپنی صحافیانہ طاقت اور قلم کے زور سے مالی مفادات بھی حاصل کیے، سیاست میں بھی ناک گھسیڑی اور اقتدار کے ایوانوں میں بھی داخل ہونے کی دانستہ کوششیں کیں اور ان میں کامیاب بھی رہے۔ اس کے لیے انھوں نے جانبداری کا مظاہرہ بھی کیا مثلاً: انھوں نے اندرا گاندھی اور نہرو خاندان کو خوش رکھنے اور اسے عظیم ثابت کرنے کے لیے ''السٹریٹِڈ ویکلی آف انڈیا'' کو ایڈیٹر ہونے کی حیثیت میں سنجے گاندھی کی مشہوری کے لیے وقف کیے رکھا چنانچہ بھارت میں یہ بات سرِ عام کہی جانے لگی تھی کہ خوشونت سنگھ نے اپنا صحافتی ضمیر اندرا گاندھی کے پاس رہن رکھ دیا ہے۔ انھیں اس کا انعام بھی ملا اور اقتدار میں حصہ بھی۔ وہ چھ سال بھارتی ایوانِ بالا (راجیہ سبھا) کے رکن رہے۔ یہ خوشونت سنگھ ہی تھے جنھوں نے نہایت ڈھٹائی سے اس وقت بھی اندرا گاندھی کی حمایت اور تعریف جاری رکھی جب 1975ء میں اندرا نے بھارت میں ایمرجنسی نافذ کی۔ معروف بھارتی تجزیہ نگار شوِم وج کا کہنا ہے کہ خوشونت سنگھ درباری قسم کے صحافی تھے اور وہ اس وقت تک اپنی اس عادت پر عمل کرتے رہے جب تک انھوں نے خود اپنے گھر میں دربار سجانا شروع کر دیا۔
یہ درست ہے کہ جناب خوشونت سنگھ دلیر اور منہ پھٹ صحافی تھے۔ دھڑلّے سے لکھتے اور اپنی تحریروں سے پیدا ہونے والا شدید رد عمل بھی خوش دلی اور بہادری سے برداشت کرتے۔ ان کے کئی ناول اور افسانے ان کی رنگین مزاجی بلکہ فحش نگاری اور خوش دلی کا مظہر ہیں مثلاً:The Company of Women لیکن وہ اتنے بھی بہادر نہیں تھے جتنا ہمارے ہاں ان کا قد بلند کرنے کی، بعض اطراف سے، کوششیں کی گئیں مثلاً صحافتی اور ادبی خدمات کے ''صلے'' میں جب انھوں نے پدم شری ایوارڈ وصول کیا، ان دنوں بھارت میں عوام کے سیاسی حقوق غصب کیے جا چکے تھے، سنجے گاندھی نے پورے ہندوستان میں غدر مچا رکھا تھا اور بھارتی صحافت مختلف قسم کی جکڑ بندیوں کا شکار تھی لیکن اس کے باوجود انھوں نے یہ ایوارڈ وصول کیا۔ 1984ء میں جب بھارتی وزیر اعظم اندرا گاندھی ''آپریشن بلیو اسٹار'' کے خفیہ نام سے سکھوں کے مقدس ترین مذہبی مقام ''گولڈن ٹیمپل'' پر ٹینکوں، توپوں اور جنگی جہازوں کے ساتھ چڑھ دوڑیں اور ہزاروں سکھوں کو وحشیانہ انداز میں قتل کر دیا تو خوشونت سنگھ نے ''غیرت میں آ کر'' یہ ایوارڈ حکومتِ ہند کو واپس کر دیا تھا۔ جناب خوشونت سنگھ کو اس پر بڑی شاباش دی جاتی رہی ہے حالانکہ یہ سب محض ڈرامہ تھا اور یہ ڈرامہ اس لیے رچایا گیا تھا کہ سَنت جرنیل سنگھ کے منتقم مزاج ساتھیوں کے غصے سے خود کو محفوظ رکھا جا سکے کیونکہ ''تحریک ِ خالصتان'' کے عروج میں بھارتی اسٹیبلشمنٹ اور اندرا گاندھی کی خوشنودی کے لیے خوشونت سنگھ مسلسل سکھوں اور تحریکِ خالصتان کے خلاف لکھتے رہے۔
بھارت میں کئی کتابیں سرکاری اور عدالتی پابندیوں کا ہدف بنتی رہی ہیں۔ پاکستان میں اگر کوئی شخص یہ سوچتا اور کہتا ہے کہ بھارت میںآزادی اظہار پاکستان کے مقابلے میں کہیں زیادہ ہے تو وہ احمقوں کی جنت میں رہتا ہے۔ ابھی حال ہی میں بھارت میں مصنفہ وینڈی کی لکھی گئی تحقیقی کتابThe Hindus: An Alternative History شائع ہونے کے بعد نہ صرف فروخت ہونے سے روک دی گئی بلکہ نامور مغربی اشاعتی ادارے ''پینگوئن'' سرکاری حکم کے تحت اٹھا کر ضبط کر لی گئی۔ اس پر ساری دنیا میں بھارت کے خلاف احتجاج کیا گیا ہے۔ بھارتی قانون کے 295A سیکشن نے بھارت میں اظہار کی جملہ آزادیوں کا گلا گھونٹ رکھا ہے۔ یہ 295A ہے جس کے تحت بھارتی مصنفہ سونندا دتہ کی لکھی گئی تحقیقی کتابAnnexation of Sikkam کو بھارتی عدالت نے کبھی مارکیٹ میں فروخت کرنے کی اجازت نہ دی۔ اس کتاب کے بارے میں قضیہ گزشتہ تین عشروں سے جاری ہے ہے لیکن ابھی تک اسے دانستہ حل نہیں ہونے دیا گیا۔
جناب خوشونت سنگھ ایسے ہر دلعزیز اور عالمی شہرت یافتہ مصنف کو بھی ان ہی پابندیوں کا کئی برس سامنا کرنا پڑا۔ ان کی مشہور سوانح حیات (Truth, Love and a Little Malice) کو مارکیٹ میں آنے سے قبل ہی عدالتی پابندیوں کا سامنا کرنا پڑا کیونکہ مسز اندرا گاندھی کی بہو مینکا گاندھی کتاب کے خلاف عدالت میں چلی گئی تھیں چنانچہ یہ دلچسپ کتاب چھ سال تک مارکیٹ میں نہ آ سکی۔ خوشونت سنگھ نے اس کتاب میں سونیا گاندھی اور اندرا گاندھی کے مقابلے میں، بعض مفادات کے حصول کی خاطر، جس طرح مینکا گاندھی کی بد تعریفی کی ہے، جس وحشت سے مینکا اور اس کے پیاروں پر حملہ آور ہوئے ہیں، یہ پڑھ کر صاف عیاں ہوتا ہے کہ مینکا گاندھی آخر کیوں خوشونت سنگھ کے خلاف عدالت گئی تھیں۔ دوسرے معنوں میں یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ خوشونت سنگھ نے سکھ نژاد مینکا کے خلاف صحافتی بددیانتی کا مظاہرہ کیا لیکن بھارتی ہندو پھر بھی ان سے خوش نہ ہوئے۔ اندرا گاندھی کے قتل کے بعد سکھوں پر حملے شروع ہوئے تو خوشونت سنگھ نے اپنی جان بچانے کے لیے دہلی میں سویڈن کے سفارتخانے میں پناہ لی تھی۔
بعض لوگوں نے لکھا ہے کہ خوشونت سنگھ لامذہب ادیب اور صحافی تھے۔ انھیں اپنے مذہب سے کوئی رغبت تھی نہ محبت۔ ہمارا خیال ہے کہ ایسا کہنا غلط ہو گا۔ ان کی خود نوشت کے اولین صفحات کا مطالعہ ہی ظاہر کر دیتا ہے کہ انھیں لامذہب کہنا ان کی توہین ہے۔ ہاں یہ کہنا درست ہو گا کہ وہ جرنیل سنگھ بھنڈرا نوالہ کی طرح کٹڑ سکھ تھے نہ ایسے کسی مذہب کو تسلیم کرتے تھے جو تشدد کا درس دیتا ہو۔ خوشونت سنگھ اگر اپنے مذہب کو پسند نہ کرنے والوں میں سے ہوتے تو وہ عمر بھر نہ سکھ طرز کی ڈاڑھی رکھتے اور نہ ہی مخصوص رنگ کی سکھ انداز میں پگڑی زیبِ سر کیے رکھتے۔ ایک زمانے تک وہ لوہے کا کڑا بھی پہن کر سکھ روایت نبھاتے رہے۔ اگر انھیں سکھ مت سے دلی لگاؤ نہ ہوتا تو وہ اتنے خشوع و خضوع سے نئے انداز میں سکھ تاریخ بھی لکھنے کی زحمت نہ کرتے۔ مجھے ان کی تقریباً ساری کتابیں پڑھنے کا موقع ملا ہے۔ یہ سب کی سب ان کی جنسی دلچسپیوں، عورت کی طرف گہرے میلان اور سطحی قسم کی دانشوری سے معمور ہیں۔
خوشونت سنگھ بھارت کے ان چند ممتاز لکھاریوں میں سے ایک تھے جنھوں نے دل میں خواہ مخواہ پاکستان کی مخاصمت کا روگ نہیں پال رکھا تھا۔ ان کے سیاسی و صحافتی مخالفین ان کے بارے میں کہتے: The Last Pakistani Living on Indian Soil وہ پاکستان میں اپنی اور اپنے والدین کی جنم بھومی کی وجہ سے پاکستان کی واضح مخالفت کرنے سے اعراض برتتے تھے مگر جب ہم ان کی تصنیف My Bleeding Punjab کی ورق گردانی کرتے ہیں تو وہ پاکستان سے قدرے ناراض بھی نظر آتے ہیں۔ یہ کتاب دراصل ان مضامین کا مجموعہ ہے جو انھوں نے خالصتان تحریک کے دوران لکھے اور بین السطور یہ بھی کہنے کی کوشش کی کہ اس تحریک کو کسی نہ کسی شکل میں پاکستان کی حمایت حاصل ہے۔ اس کتاب میں خوشونت سنگھ صاحب بھارتی اسٹیبلشمنٹ کی پالیسی کو آگے بڑھاتے واضح طور پر محسوس ہوتے ہیں۔
ان کے کردار کا یہ پہلو ہمیشہ قابل تحسین رہا کہ وہ ہر بات واضح الفاظ میں اور کھل کر لکھتے۔ منافقانہ طرز زندگی گزارنے اور منافقانہ طرزِ تحریر سے ہمیشہ اجتناب کیا۔ کسی کی پروا کیے بغیر وہ علامہ اقبال ؒکو بہت پسند کرتے تھے۔ اپنے کالموں میں اقبال کے اشعار کا بار بار حوالہ دیتے۔ انھوں نے علامہ اقبالؒ کی ایک طویل نظم کا انگریزی میں ترجمہ بھی کیا۔ ''ریڈرز ڈائجسٹ'' کو انٹرویو دیتے ہوئے انھوں نے اقبال کی شاندار الفاظ میں تحسین بھی کی۔ بعد ازاں متشدد بھارتی ہندو تنظیموں نے ان کے اس انٹرویو پر بڑا احتجاج بھی کیا لیکن خوشونت سنگھ کو ان مظاہروں کی کبھی پروا نہ رہی تھی۔ انھوں نے پاکستان کے عالمی شہرت یافتہ شاعر فیض احمد فیضؔ کی بھی کئی نظموں کا انگریزی میں ترجمہ کر کے فیضؔ ایسے ترقی پسند شاعر سے اپنے دلی لگاؤ کا ثبوت دیا۔ فیضؔ صاحب کی اردو شاعری کو انگریزی میں ترجمہ کرنے کی نیومی لیزرڈ، آغا شاہد علی، اکرام حسین، محمود جمالی اور حفظ الکبیر قریشی نے بھی کوششیں کی ہیں لیکن خوشونت سنگھ کے ترجمہ کو بہترین قرار دیا جاتا ہے۔
آنجہانی خوشونت سنگھ بھارت کے ان مصنّفین اور صحافیوں میں شمار ہوتے تھے جنھوں نے اپنی صحافیانہ طاقت اور قلم کے زور سے مالی مفادات بھی حاصل کیے، سیاست میں بھی ناک گھسیڑی اور اقتدار کے ایوانوں میں بھی داخل ہونے کی دانستہ کوششیں کیں اور ان میں کامیاب بھی رہے۔ اس کے لیے انھوں نے جانبداری کا مظاہرہ بھی کیا مثلاً: انھوں نے اندرا گاندھی اور نہرو خاندان کو خوش رکھنے اور اسے عظیم ثابت کرنے کے لیے ''السٹریٹِڈ ویکلی آف انڈیا'' کو ایڈیٹر ہونے کی حیثیت میں سنجے گاندھی کی مشہوری کے لیے وقف کیے رکھا چنانچہ بھارت میں یہ بات سرِ عام کہی جانے لگی تھی کہ خوشونت سنگھ نے اپنا صحافتی ضمیر اندرا گاندھی کے پاس رہن رکھ دیا ہے۔ انھیں اس کا انعام بھی ملا اور اقتدار میں حصہ بھی۔ وہ چھ سال بھارتی ایوانِ بالا (راجیہ سبھا) کے رکن رہے۔ یہ خوشونت سنگھ ہی تھے جنھوں نے نہایت ڈھٹائی سے اس وقت بھی اندرا گاندھی کی حمایت اور تعریف جاری رکھی جب 1975ء میں اندرا نے بھارت میں ایمرجنسی نافذ کی۔ معروف بھارتی تجزیہ نگار شوِم وج کا کہنا ہے کہ خوشونت سنگھ درباری قسم کے صحافی تھے اور وہ اس وقت تک اپنی اس عادت پر عمل کرتے رہے جب تک انھوں نے خود اپنے گھر میں دربار سجانا شروع کر دیا۔
یہ درست ہے کہ جناب خوشونت سنگھ دلیر اور منہ پھٹ صحافی تھے۔ دھڑلّے سے لکھتے اور اپنی تحریروں سے پیدا ہونے والا شدید رد عمل بھی خوش دلی اور بہادری سے برداشت کرتے۔ ان کے کئی ناول اور افسانے ان کی رنگین مزاجی بلکہ فحش نگاری اور خوش دلی کا مظہر ہیں مثلاً:The Company of Women لیکن وہ اتنے بھی بہادر نہیں تھے جتنا ہمارے ہاں ان کا قد بلند کرنے کی، بعض اطراف سے، کوششیں کی گئیں مثلاً صحافتی اور ادبی خدمات کے ''صلے'' میں جب انھوں نے پدم شری ایوارڈ وصول کیا، ان دنوں بھارت میں عوام کے سیاسی حقوق غصب کیے جا چکے تھے، سنجے گاندھی نے پورے ہندوستان میں غدر مچا رکھا تھا اور بھارتی صحافت مختلف قسم کی جکڑ بندیوں کا شکار تھی لیکن اس کے باوجود انھوں نے یہ ایوارڈ وصول کیا۔ 1984ء میں جب بھارتی وزیر اعظم اندرا گاندھی ''آپریشن بلیو اسٹار'' کے خفیہ نام سے سکھوں کے مقدس ترین مذہبی مقام ''گولڈن ٹیمپل'' پر ٹینکوں، توپوں اور جنگی جہازوں کے ساتھ چڑھ دوڑیں اور ہزاروں سکھوں کو وحشیانہ انداز میں قتل کر دیا تو خوشونت سنگھ نے ''غیرت میں آ کر'' یہ ایوارڈ حکومتِ ہند کو واپس کر دیا تھا۔ جناب خوشونت سنگھ کو اس پر بڑی شاباش دی جاتی رہی ہے حالانکہ یہ سب محض ڈرامہ تھا اور یہ ڈرامہ اس لیے رچایا گیا تھا کہ سَنت جرنیل سنگھ کے منتقم مزاج ساتھیوں کے غصے سے خود کو محفوظ رکھا جا سکے کیونکہ ''تحریک ِ خالصتان'' کے عروج میں بھارتی اسٹیبلشمنٹ اور اندرا گاندھی کی خوشنودی کے لیے خوشونت سنگھ مسلسل سکھوں اور تحریکِ خالصتان کے خلاف لکھتے رہے۔
بھارت میں کئی کتابیں سرکاری اور عدالتی پابندیوں کا ہدف بنتی رہی ہیں۔ پاکستان میں اگر کوئی شخص یہ سوچتا اور کہتا ہے کہ بھارت میںآزادی اظہار پاکستان کے مقابلے میں کہیں زیادہ ہے تو وہ احمقوں کی جنت میں رہتا ہے۔ ابھی حال ہی میں بھارت میں مصنفہ وینڈی کی لکھی گئی تحقیقی کتابThe Hindus: An Alternative History شائع ہونے کے بعد نہ صرف فروخت ہونے سے روک دی گئی بلکہ نامور مغربی اشاعتی ادارے ''پینگوئن'' سرکاری حکم کے تحت اٹھا کر ضبط کر لی گئی۔ اس پر ساری دنیا میں بھارت کے خلاف احتجاج کیا گیا ہے۔ بھارتی قانون کے 295A سیکشن نے بھارت میں اظہار کی جملہ آزادیوں کا گلا گھونٹ رکھا ہے۔ یہ 295A ہے جس کے تحت بھارتی مصنفہ سونندا دتہ کی لکھی گئی تحقیقی کتابAnnexation of Sikkam کو بھارتی عدالت نے کبھی مارکیٹ میں فروخت کرنے کی اجازت نہ دی۔ اس کتاب کے بارے میں قضیہ گزشتہ تین عشروں سے جاری ہے ہے لیکن ابھی تک اسے دانستہ حل نہیں ہونے دیا گیا۔
جناب خوشونت سنگھ ایسے ہر دلعزیز اور عالمی شہرت یافتہ مصنف کو بھی ان ہی پابندیوں کا کئی برس سامنا کرنا پڑا۔ ان کی مشہور سوانح حیات (Truth, Love and a Little Malice) کو مارکیٹ میں آنے سے قبل ہی عدالتی پابندیوں کا سامنا کرنا پڑا کیونکہ مسز اندرا گاندھی کی بہو مینکا گاندھی کتاب کے خلاف عدالت میں چلی گئی تھیں چنانچہ یہ دلچسپ کتاب چھ سال تک مارکیٹ میں نہ آ سکی۔ خوشونت سنگھ نے اس کتاب میں سونیا گاندھی اور اندرا گاندھی کے مقابلے میں، بعض مفادات کے حصول کی خاطر، جس طرح مینکا گاندھی کی بد تعریفی کی ہے، جس وحشت سے مینکا اور اس کے پیاروں پر حملہ آور ہوئے ہیں، یہ پڑھ کر صاف عیاں ہوتا ہے کہ مینکا گاندھی آخر کیوں خوشونت سنگھ کے خلاف عدالت گئی تھیں۔ دوسرے معنوں میں یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ خوشونت سنگھ نے سکھ نژاد مینکا کے خلاف صحافتی بددیانتی کا مظاہرہ کیا لیکن بھارتی ہندو پھر بھی ان سے خوش نہ ہوئے۔ اندرا گاندھی کے قتل کے بعد سکھوں پر حملے شروع ہوئے تو خوشونت سنگھ نے اپنی جان بچانے کے لیے دہلی میں سویڈن کے سفارتخانے میں پناہ لی تھی۔
بعض لوگوں نے لکھا ہے کہ خوشونت سنگھ لامذہب ادیب اور صحافی تھے۔ انھیں اپنے مذہب سے کوئی رغبت تھی نہ محبت۔ ہمارا خیال ہے کہ ایسا کہنا غلط ہو گا۔ ان کی خود نوشت کے اولین صفحات کا مطالعہ ہی ظاہر کر دیتا ہے کہ انھیں لامذہب کہنا ان کی توہین ہے۔ ہاں یہ کہنا درست ہو گا کہ وہ جرنیل سنگھ بھنڈرا نوالہ کی طرح کٹڑ سکھ تھے نہ ایسے کسی مذہب کو تسلیم کرتے تھے جو تشدد کا درس دیتا ہو۔ خوشونت سنگھ اگر اپنے مذہب کو پسند نہ کرنے والوں میں سے ہوتے تو وہ عمر بھر نہ سکھ طرز کی ڈاڑھی رکھتے اور نہ ہی مخصوص رنگ کی سکھ انداز میں پگڑی زیبِ سر کیے رکھتے۔ ایک زمانے تک وہ لوہے کا کڑا بھی پہن کر سکھ روایت نبھاتے رہے۔ اگر انھیں سکھ مت سے دلی لگاؤ نہ ہوتا تو وہ اتنے خشوع و خضوع سے نئے انداز میں سکھ تاریخ بھی لکھنے کی زحمت نہ کرتے۔ مجھے ان کی تقریباً ساری کتابیں پڑھنے کا موقع ملا ہے۔ یہ سب کی سب ان کی جنسی دلچسپیوں، عورت کی طرف گہرے میلان اور سطحی قسم کی دانشوری سے معمور ہیں۔
خوشونت سنگھ بھارت کے ان چند ممتاز لکھاریوں میں سے ایک تھے جنھوں نے دل میں خواہ مخواہ پاکستان کی مخاصمت کا روگ نہیں پال رکھا تھا۔ ان کے سیاسی و صحافتی مخالفین ان کے بارے میں کہتے: The Last Pakistani Living on Indian Soil وہ پاکستان میں اپنی اور اپنے والدین کی جنم بھومی کی وجہ سے پاکستان کی واضح مخالفت کرنے سے اعراض برتتے تھے مگر جب ہم ان کی تصنیف My Bleeding Punjab کی ورق گردانی کرتے ہیں تو وہ پاکستان سے قدرے ناراض بھی نظر آتے ہیں۔ یہ کتاب دراصل ان مضامین کا مجموعہ ہے جو انھوں نے خالصتان تحریک کے دوران لکھے اور بین السطور یہ بھی کہنے کی کوشش کی کہ اس تحریک کو کسی نہ کسی شکل میں پاکستان کی حمایت حاصل ہے۔ اس کتاب میں خوشونت سنگھ صاحب بھارتی اسٹیبلشمنٹ کی پالیسی کو آگے بڑھاتے واضح طور پر محسوس ہوتے ہیں۔
ان کے کردار کا یہ پہلو ہمیشہ قابل تحسین رہا کہ وہ ہر بات واضح الفاظ میں اور کھل کر لکھتے۔ منافقانہ طرز زندگی گزارنے اور منافقانہ طرزِ تحریر سے ہمیشہ اجتناب کیا۔ کسی کی پروا کیے بغیر وہ علامہ اقبال ؒکو بہت پسند کرتے تھے۔ اپنے کالموں میں اقبال کے اشعار کا بار بار حوالہ دیتے۔ انھوں نے علامہ اقبالؒ کی ایک طویل نظم کا انگریزی میں ترجمہ بھی کیا۔ ''ریڈرز ڈائجسٹ'' کو انٹرویو دیتے ہوئے انھوں نے اقبال کی شاندار الفاظ میں تحسین بھی کی۔ بعد ازاں متشدد بھارتی ہندو تنظیموں نے ان کے اس انٹرویو پر بڑا احتجاج بھی کیا لیکن خوشونت سنگھ کو ان مظاہروں کی کبھی پروا نہ رہی تھی۔ انھوں نے پاکستان کے عالمی شہرت یافتہ شاعر فیض احمد فیضؔ کی بھی کئی نظموں کا انگریزی میں ترجمہ کر کے فیضؔ ایسے ترقی پسند شاعر سے اپنے دلی لگاؤ کا ثبوت دیا۔ فیضؔ صاحب کی اردو شاعری کو انگریزی میں ترجمہ کرنے کی نیومی لیزرڈ، آغا شاہد علی، اکرام حسین، محمود جمالی اور حفظ الکبیر قریشی نے بھی کوششیں کی ہیں لیکن خوشونت سنگھ کے ترجمہ کو بہترین قرار دیا جاتا ہے۔