افغانستان کا المیہ پانچ عشروں کی داستان

اسلام آباد میں عراقی سفارتخانے سے اسلحہ بر آمد ہونے پر بلوچستان میں عطااللہ مینگل کی حکومت بر طرف کر دی گئی


رئیس سلیم چاچڑ January 15, 2023
فوٹو : فائل

پاکستان کی مغربی سرحد پر واقع افغانستان عسکری اور معاشی اعتبار سے کمزور ایک غیر اہم ملک، توسیع پسندی کی خواہشات سے پرے، بحری تجارتی گزر گاہوں سے دور، بین الاقوامی تعلقات کے جھمیلوں سے بے خبر، عالمی ہو کہ علاقائی گروہ بندی ملکوں کی خارجہ پالیسی میں کسی اہم مقام سے محروم، ناقابل توجہ مگر یہی افغانستان بیسویں صدی کے آخری اور اکیسویں کے ابتدائی دو عشروں میں دنیا بھر کی تشویش کا ایک بہت بڑا مرکز رہا ہے۔

روئے زمین پر شاید ہی کوئی خطہ ایسا ہو گا جہاں ہوئی کسی بھی قسم کی دہشت گردی اور قتل و غارت گری کے تانے بانے افغانستان سے نہ جوڑے گئے ہوں گے۔ یہی کہا گیا ، ہمیشہ سنا گیا ، دنیا کا گویا ہر ایک دہشت گرد افغانستان سے کوئی ہدایت لے کر گیا ہو،افغانستان میں عسکری تربیت پائی ہو، وہاں رہتے کسی سے رابطے میں رہا ہو یا پھر افغانستان سے بھڑکی نفرت وتعصب کی کسی چنگاری کے ردعمل میں آگ کے شعلے اگلنے لگا ہو۔

ستر کے عشرے کی بات ہے ، دونوں ہمسایہ ملکوں افغانستان اور پاکستان کے پشاور ، کابل ، کوئٹہ اور قندھار، لگ بھگ یہی کوئی ڈھائی ہزار کلو میٹر طویل سرحدکے آر پار، ہنستے مسکراتے افغان لوگوں کی زندگی کسی لسانی ، نسلی اور مذہبی تعصب کے بغیر باہمی رواداری اور احترام سے گزر رہی تھی۔

پھر عالمی طاقتوں نے عداوت کی ایسی آگ بھڑکائی جو پانچ عشرے گذرنے کے باوجود قابو میں نہیں آ رہی۔ لاکھوں لوگ جان سے گئے یا عمر بھر کے لیے معذور ہو گئے۔

یہ آگ افغانستان اور پاکستان تک محدود نہیں رہی بلکہ پوری دنیا پر اس کے اثرات ہوئے۔ عالمی طاقتوں نے اپنے مفادات کی بساط بچھائی ، طاقت آزمائی ،ظلم ڈھائے ، مغالطے پھیلائے، مفروضے گھڑے ، پرسپیشن مینجمنٹ کے کارندوں نے تاثر کی ایک دنیا آباد کیے رکھی اور ہم وطنوں ، ہم مذہبوں کو ایک دوسرے کا جانی دشمن بنا دیا ، لاتعداد سانحات ہوئے ، اکیسویں صدی کے ابتدائی دو عشروں تک پھیلی افغانستان میں انسانی تاریخ کی طویل اور مہنگی ترین جنگ لڑی گئی، حملہ آور اپنے ملکوں کو پلٹ گئے۔

ان پر جنگ ہارنے کے الزامات لگے ، پارلیمان کی آرمڈ کمیٹی کے سینیٹرز نے ملکی عسکری کمانڈروں کو آڑے ہاتھوں لیا ، پوچھا گیا کیا کرنے گئے تھے اور کیا کر کے واپس لوٹے ہو ، افغانستان سے نکلتے ہی وہی طالبان ایک بار پھر وہاں کے حکمران ہیں۔

امریکی اور اتحادی افواج کے انخلاء کے بعد ایسا لگنے لگا تھا کہ شاید اب اس ملک میں دیرپا امن کا قیام ممکن ہو جائے گا لیکن پاکستان میں بزور حکومت کی تبدیلی کے بعد ایک مرتبہ پھر پاکستان اور افغانستان کو ایک دوسرے کے مقابل لانے کی کوششیں اپنے عروج پر ہیں۔ دہشت گردی ایک مرتبہ پھر پوری شدت کے ساتھ سر اُٹھا رہی ہے اور حالات دن بدن خرابی کی طرف جا رہے ہیں۔

آج اگر اس خطے کے ماضی پر نظر ڈالیں تو سردار داؤد خاں ، افغانستان کے بادشاہ ظاہر شاہ کے کزن اور بہنوئی تھے۔ مارچ 1953ء میں افغان بادشاہ نے انہیں اپنے ذاتی ایلچی کی حیثیت سے سوویت یونین کے صدر مارشل سٹالن کی تدفین کے موقع پرتقریب میں شرکت کے لئے ماسکو بھیجا۔

ماسکو میں سردار داؤد خاں پر سوویت یونین کی خفیہ ایجنسی کے جی بی کی نظر پڑی اور یوں مغربی یورپ کے گریجویٹ ، سینٹ کرائی ملٹری اکیڈیمی کے تربیت یافتہ سردار داؤد خاں کی زندگی میں ایک نیا موڑ آیا اور وہ کیمونسٹ سوویت یونین کے فکری حلیف بن کر واپس کابل لوٹے۔ پشتون قوم پرست رہنما اب کے جی بی کی کیمونسٹ سرپرستی میں تھے۔

افغان بادشاہ نے سردار داؤد کو افغان فوج کا سربراہ بنا دیا پھر وزیر اعظم کے عہدے پر فائز کر دیا مگر زیرک اور دور اندیش افغان بادشاہ ظاہر شاہ کو جلد ہی سردار داؤد کے انتظامی اقدامات پر شبہ ہوا، 1962 میں سردار داؤد خاں سے وزیر اعظم کا عہدہ واپس لے گیا تاہم افغان فوج میں ان کی سربراہی حیثیت برقرار رکھی گئی۔

دوسری جانب افغانستان کے ہمسایہ ملک پاکستان میں 20 دسمبر 1971 کوِ ذوالفقار علی بھٹو کی قیادت میں ملک میں طاقتور سیاسی حکومت نے اقتدار سنبھال لیا تھا۔

بھٹو کے مد مقابل سابق مشرقی پاکستان کی اکثریتی سیاسی جماعت عوامی لیگ بھارت کی عسکری مدد کے ساتھ نیا ملک بنگلہ دیش قائم کرنے میں کامیاب ہو چکی تھی ، مغربی پاکستان میں قومی اسمبلی کی اکثریتی پارٹی کے چئیرمین بھٹو مرکز اور دو صوبوں میں اپنی حکومت بنا چکے تھے مگر پاک افغان سرحد کے ساتھ ملحق دو صوبوں میں قائم مخالف جماعتوں کی صوبائی حکومتوں کی اتحادی سیاست انہیں مستقبل کا خطرہ بن کرنظر آ رہی تھی۔

قوم پرست سیاستدان نواب اکبر خاں بگٹی نے 31 جنوری 1973 کو صوبہ پنجاب کے دارالحکومت لاہورمیں منعقدہ موچی دروازے کے ایک جلسہ عام میں صوبہ بلوچستان میں بغاوت کے ایک " لندن پلان " کا انکشاف کیا ، نواب اکبر بگٹی نے اپنی تقریر میں کہا " عطا اللہ مینگل ، غوث بخش بزنجو اور خیر بخش مری نے سوویت یونین کے ساتھ مل کر ایک سازش تیار کی ہے جس کے نتیجے میں بلوچستان کو پاکستان سے علیحدہ کیا جائے گا۔"

10 فروری 1973کو پاکستان کے وفاقی دارالحکومت میں عراقی سفات خانے میں مشکوک سامان آنے کی اطلاع پر چھاپہ مارا گیا۔

اخبارا ت میں اگلے روز شہ سرخیوں کے ساتھ خبریں شائع ہوئیں ''عراقی سفارت خانے سے بڑی مقدار میں روسی ساختہ اسلحہ برآمد''۔ کچھ لوگ اسے ایرانی اور عراقی خفیہ اداروں کی باہمی مخاصمت کا شاخسانہ قرار دیتے رہے لیکن صدر پاکستان ذوالفقار علی بھٹو نے فوری طورپر اپنا ردعمل دیتے ہوئے اپنے سیاسی مخالف قائد حزب اختلاف خان عبدالولی خاں کی نیشنل عوامی پارٹی پر الزام دھردیا کہ یہ اسلحہ پاکستان میں وفاقی حکومت کے خلاف ممکنہ بغاوت کے لیے لایا گیا تھا۔

اسلحہ برآمدگی کے تیسرے ہی دن پاک افغان بارڈر پر واقع صوبہ بلوچستان میں قائم سردار عطااللہ مینگل کی صوبائی حکومت کو غداری کے الزام میں برطرف کر دیا گیا ، بھٹو نے عطا اللہ مینگل اور صوبائی گورنر غوث بخش بزنجو پر الزام لگایا کہ ماسکو نواز خان عبدالولی خاں کی قیادت میں بلوچستان کی صوبائی حکومت سوویت یونین اور عراق کی ملی بھگت سے پاکستان میں وفاقی حکومت کے خلاف بغاوت کی سازشوں میں مصروف تھی۔

بلوچستان کی صوبائی حکومت کی برطرفی پر احتجاج کرتے ہوئے نیشنل عوامی پارٹی کی حلیف جمیعت العلمائے اسلام نے سرحد (خیبر پختونخوا) میںاپنی حکومت ختم کر دی۔ وفاقی حکومت نے بلوچستان میں نواب اکبر خاں بگٹی کی سربراہی میں صوبائی حکومت قائم کر دی۔ بلوچستان کے طاقتور دو مرکزی قبائل مینگل اور مری وفاق کے خلاف مسلح عسکری مزاحمت پر اتر آئے۔ مری قبائل کے چیف نواب خیر بخش مری کی قیادت میں وفاق مخالف اہم سیاستدان سرحد پار افغانستان منتقل ہو گئے۔

23مارچ 1973 کے روز ر وفاقی دارالحکومت کے جڑواں شہرراولپنڈی کے لیاقت باغ میں پاکستان کی قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر خان عبدالولی خاں اور دیگر اپوزیشن رہنماؤں نے ایک بڑے احتجاجی جلسہ عام کا اہتمام کیا۔ ہزاروں کے مجمع پر اچانک گولیوں کی بوچھاڑ ہوئی ، متعدد سیاسی کارکن مارے گئے۔ نیشنل عوامی پارٹی کے جنرل سیکرٹری اجمل خٹک کے بیٹے بھی ان میں شامل تھے۔

جنابِ اجمل خٹک بھی ہمسایہ ملک افغانستان منتقل ہو گئے اور ظاہر شاہ کی کابل حکومت سے مدد کے طلبگار ہوئے۔ کابل حکومت کو انہوں نے پاکستان پر حملے کی دعوت دینا شروع کر دی۔ مگر ظاہر شاہ نے اپنے جذبات پر قابو رکھا اور پاکستان کے خلاف فوری طور پر کسی اشتعال میں آنے سے انکار کر دیا۔

اسلام آباد میں " روسی اسلحہ کی برآمدگی " کو ماسکو میں برہمی کی نظر سے دیکھا گیا۔ افغان بادشاہ ظاہر شاہ پاکستان کے داخلی معاملات میں کسی بھی مداخلت سے انکار کر چکے تھے۔گرمیوں کے موسم میں ظاہر شاہ جب تفریحی دورے پر یورپ گئے ہوئے تھے تو 19جولائی 1973 کو افغان فوج کے چیف سردار داؤد خاں نے بغاوت کرتے ہوئے کابل کا اقتدار خود سنبھال لیا۔

ادھر پاکستان میں ذوالفقار علی بھٹو کی وفاقی حکومت نے خان عبدالولی خاں سمیت عوامی نیشنل پارٹی کے پچاس سے زائد سیاستدانوں کے خلاف غداری کے مقدمات قائم کر دئیے۔

ردعمل میں پاک افغان سرحد پر واقع آج کے صوبہ خیبر پختونخواہ میں عسکری کارروائیوں کا ایک سلسلہ چل نکلا۔ پشاور یونیورسٹی کی ایک تقریب میں ذوالفقار علی بھٹو کے قریبی ساتھی اور سینئر وزیر حیات محمد خاں شیرپاؤ بم دھماکے میں ہلاک ہو گئے۔

ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت نے بم دھماکے کی سازش کا الزام کابل حکومت پر لگایا اور جواب میں سردار داؤد کے فکری مخالفین پروفیسر برہان الدین ربانی ، احمد شاہ مسعود ،حکمت یار اور ان کے حامیوں کو اپنی سرپرستی میں لے لیا۔ پاکستان کو اُسی وقت یہ خدشہ لاحق ہو گیا تھا کہ روس نواز سردار داود روس کی افغانستان آمد کا ذریعہ بن سکتا ہے۔

یہ مشترک ثقافت و مذہب رکھنے والے پاکستان اور افغانستان کے درمیان مخاصمت کے ایک تکلیف دہ دور کی ابتداء تھی۔ گو کہ پاکستان اور افغانستان میں ستر کی دہائی میں لبرل قیادت حکمران تھی مگر سیاسی مقاصد کے لیے مذہبی اور قومیتی عسکریت پسندی کا بیج بو دیا گیا۔ عسکری کارروائیوں کا سلسلہ شروع کرانے والے دونوں حکمران نہ صرف اقتدار سے محروم ہوئے بلکہ اپنی جانیں بھی گنوا بیٹھے۔

یہ بھی درست ہے کہ ان دونوں حکمرانوں کے درمیان امن کی راہ اپنانے کی کوشش ضرور ہوئی۔ سردار داؤد خاں مذہبی شدت پسندوں کی عسکری کارروائیوں سے گھبرا کر 1976 میں پاکستان کے دورے پر آئے اور بھٹو کی طرف دوستی کا ہاتھ بڑھایا، ڈیورنڈ لائن تسلیم کرنے پر آمادگی بھی ظاہر کر دی۔ لیکنِ ذوالفقار علی بھٹو کو اس مفاہمتی عمل میں اپنا ایک سیاسی نقصان نظر آتا تھا کیونکہ امن معاہدے کی صورت میں دونوں سرحدی صوبوں عبدالولی خاں کی نیشنل عوامی پارٹی غداری کے الزام سے بری ہو جاتی۔

بھٹو کو دونوں صوبوں میں قوم پرست ماسکو نواز سیاستدان آئندہ برس 1978 کے الیکشن میں بڑے پیمانے پر کامیابی سمیٹتے دکھائی دیئے لہذا مفاہمت کی پیش کش کو وقتی طور پر التوا میں ڈال دیا اور ایک سال قبل ہی 7 مارچ 1977 کو عام انتخابات کا اعلان کر دیا گیا تاکہ مخالف نیشنل عوامی پارٹی پر ملک سے غداری کے الزامات کے ماحول میں لگی پابندیوں تلے پہلے دونوں صوبوں میں اکثریت حاصل کر لی جائے یوں پاک افغان مسائل کے مستقل حل کا موقع گنوادیا گیا۔

7 مارچ 1977کے انتخابات میں بھٹو کی جیت کو مخالف اتحاد نے دھاندلی کے الزامات لگا کر ماننے سے انکار کر دیا۔ احتجاجی تحریک چلی اور پانچ جولائی 1977کو اقتدار مسلح افواج نے سنبھال لیا۔ (جاری ہے)

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔