سیاسی عدم استحکام معاشی بحران کی بنیادی وجہ
ملک کو اس وقت کسی ’’غیر جمہوری‘‘ نظام کی وجہ سے معاشی پریشانی کا سامنا نہیں ہے
پنجاب اسمبلی کی تحلیل کا باقاعدہ نوٹیفکیشن جاری کردیا گیا ہے۔ قانونی طور پر سمری پر دستخط کرکے گورنر کو بھیجے جانے کے بعد کسی بھی اسمبلی کو تحلیل ہونے میں کم از کم 48 گھنٹے لگتے ہیں۔
گوکہ پنجاب اسمبلی کو آئین کے مطابق تحلیل کیا گیا ہے حالانکہ تقریباً 49 فی صد ارکان صوبائی اسمبلی اس تحلیل کے مخالف تھے اور وہ چاہتے تھے کہ پنجاب اسمبلی اپنی آئینی مدت پوری کرے، لیکن سیاسی مہم جوئی اور پوائنٹ اسکورنگ کے لیے اسمبلی تحلیل کردی گئی ہے۔
اس عمل کے نتیجے میں صوبے کے انتظامی امور بری طرح متاثر ہونگے، بیوروکریسی کام کرنا چھوڑ دے گی، انتظامی اورآئینی بحران جنم لینے سے ملک میں جاری سیاسی بحران مزید گہرا ہوجائے گا۔صوبے میں قبل از وقت انتخابات سے کروڑوں، اربوں کے الیکشن اخراجات بھی ہونگے، جو معیشت کی بنیادیں مزید کمزور کرنے کا سبب بنیں گے۔
ملک کو اس وقت کسی ''غیر جمہوری'' نظام کی وجہ سے معاشی پریشانی کا سامنا نہیں ہے بلکہ سیاسی لیڈروں کے درمیان عدم اعتماد اور شخصیت پرستی کی سیاست سے پیدا ہونے والے عوارض کی وجہ سے بے یقینی اور بحران کی کیفیت پیدا ہوئی ہے۔
اب پنجاب اور خیبر پختون خوا کی اسمبلیاں توڑ کر موجودہ سیاسی بحران اور بے یقینی میں اضافہ کرنے کا اعلان کیا جا رہا ہے۔
ہمیں اس حقیقت کو فراموش نہیں کرنا چاہیے کہ کسی مناسب اور قابل عمل افہام و تفہیم کے بغیر پنجاب اسمبلی کی تحلیل اور تین ماہ کے عبوری سیٹ اپ کے بعد انتخابات کا انعقاد سیاسی عدم استحکام اور معاشی بحران کو مزید گہرا بھی کر سکتا ہے۔
اب یہ تو کہا جاسکتا ہے کہ انتخابات ہو گئے تو حالات ٹھیک ہوجائیں گے لیکن بغیر سوچے سمجھے اور سیاسی مفاہمت کے کسی معاہدہ کے بغیر منعقد ہونے والے انتخابات کے بعد انتشار اور پریشانی کا ایک نیا دور شروع ہونے کا امکان موجود رہے گا اور یہ بھی نہیں کہا جا سکے گا کہ انتخابات ہوجائیں تو مسئلہ حل ہو جائے گا۔
تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان ملک میں انتخابات کا فوری انعقاد چاہتے ہیں، دراصل یہ توقع بے بنیاد اور زمینی حقائق کے برعکس ہے۔
درحقیقت انتخابات، متوازن اور سیاسی بنیاد پر فیصلہ کرنے کی روایت پر عمل کرنے والے معاشروں میں کسی حد تک استحکام لانے کا سبب بنتے ہیں لیکن پاکستان جیسے ملک میں جہاں سیاسی لیڈروں کو صرف اپنی کامیابی والا انتخاب ہی شفاف اور درست دکھائی دیتا ہو تو وہاں سیاسی اور معاشی استحکام کی توقع کیسے کی جا سکتی ہے۔
ملک میں ایسی سیاسی انتشار اور بے یقینی کی فضا پیدا کی گئی ہے کہ جس سے ہر شعبے کی طرح ملک کی معیشت بھی بہت بری طرح متاثر ہو رہی ہے۔آج کل ملک کا ہرباشندہ ملکی معیشت کی تباہ حالی اور سیاسی انتشار اور عدم استحکام کی صورتحال سے پریشان ہے اور ہر محب وطن کو ان خطرات کا ادراک ہے کہ یہ صورتحال ملک کی بقاء اور سلامتی کے لیے حقیقی طور پر سنگین خطرات کا موجب ہے۔
پاکستان میں اقتصادی بحران کی سنگین صورتحال درپیش ہے اور معیشت کی ابتری کی یہ صورتحال ملک کے ہر شعبے کو بری طرح متاثر کر رہی ہے۔
ہر شعبے کے ماہرین اس بات سے اتفاق رکھتے ہیں کہ اقتصادی بہتری کے لیے ملک میں سیاسی استحکام ایک بنیادی شرط ہے جس کے بغیر ملکی معیشت میں بہتری کا خواب بھی نہیں دیکھا جا سکتا۔ یہ کہنا بے جا نہیں ہو گا کہ ملک میں سیاسی عدم استحکام پیدا کرنا، اسے جاری رکھنا ایسی ''سیاسی مفادپرستی'' ہے جو ملک کو اقتصادی طور پر تباہ کرتے ہوئے زمین سے لگانے کے ہولناک خطرات کا موجب ہو سکتی ہے۔
سیاسی عدم استحکام سے ملک میں بیرونی ہی نہیں بلکہ مقامی سرمایہ کاری بھی رک جاتی ہے اور ملکی اقتصادیات کی ریڑھ کی ہڈی یعنی برآمدات کا شعبہ بھی اس سے بری طرح متاثر ہوتا ہے۔سیاسی عدم استحکام اور معیشت کی خراب صورتحال میں ہی چند ماہ قبل ہی ملک میں تاریخ کے بدترین سیلاب سے کروڑوں افراد شدید متاثر ہوئے اور ملک کے کئی صوبوں میں وسیع پیمانے پر تباہی ہوئی۔
تحریک انصاف عدم اعتماد کے ذریعے حکومت سے نکالے جانے کے بعد سے مسلسل جارحانہ اور دھمکی کی سیاست کرتے ہوئے ملک میں قبل از وقت الیکشن کرانے کا مطالبہ کرتے چلی آ رہی ہے۔ایسے معاملات ملک کو درپیش خطرناک صورتحال کو نظر انداز کرتے ہوئے اپنے مطالبات منوانے کے لیے مہم جوئی کی سیاست کرتے ہوئے ملک میں سیاسی عدم استحکام کو قائم رکھتے ہوئے خطرناک اقتصادی صورتحال کو مزید خراب کرنے کے درپے نظر آتے ہیں۔
ملک میں سیاسی استحکام کے لیے سیاسی عناصر کو بات چیت کے ذریعے معاملات، مسائل کو حل کرنا چاہیے، دھمکی اور دھونس کی سیاست سے اصل نقصان صرف اور صرف ملک اور عوام کا ہو رہا ہے اور اب حالات اتنے خراب ہو چکے ہیں کہ ملک اور عوام اس کے ہولناک نتائج کے متحمل نہیں ہو سکتے۔
وفاق میں قائم پی ڈی ایم کی حکومت جس محنت اور تندہی سے ملکی معیشت کی بحالی کے لیے کام کر رہی ہے، اس کی کوششوں کو بھی دو صوبائی اسمبلیوں کی تحلیل سے ناقابل تلافی نقصان پہنچے گا۔
صرف دو دن قبل دس ارب ڈالر کی غیرملکی امداد جنیوا کانفرنس کے ذریعے سیلاب متاثرین کی بحالی کے لیے ملی ہے، سعودی عرب، چین سمیت دیگر دوست ممالک نے بھی اس مشکل کی گھڑی میں پاکستان کا بھرپور ساتھ دیا ہے، ملکی معیشت پر چھائی دھند صاف ہونے کے امکانات روشن نظر آنے لگے تھے کہ اپوزیشن نے سیاسی عدم استحکام کو مزید گہرا کرنے کی غرض سے پنجاب اسمبلی تحلیل کردی ہے ۔
اس عمل سے معاشی بحالی کے اقدامات کو شدید نقصان پہنچے گا، واضح رہے کہ آئی ایم ایف کی قسط ہمیں ابھی تک نہیں ملی ہے۔ موجودہ حکومت کو بھی اسی طرح معاشی مسائل قرضوں کا بوجھ، مہنگائی، بیروزگاری اور خالی خزانہ جیسے مسائل سابقہ حکومت سے ورثے میں ملے ہیں، اس کی وجہ یہ ہے کہ تحریک انصاف کے پاس نہ تو تجربہ کار ٹیم تھی اور نہ ہی مسائل کے حل کے لیے کوئی واضح پالیسی، منصوبہ بندی یا وژن تھا۔
چنانچہ ان کی حکومت ساڑھے تین سال سے زائد عرصہ میں بھی نہ تو معیشت کو درپیش مسائل حل کر سکی اور نہ ہی عوام کو ریلیف مہیا کر سکی بلکہ اپنی ناقص پالیسیوں کی بنا پر پہلے سے موجود مسائل میں بھی اضافہ ہو گیا۔ اشیائے خورونوش کی قیمتیں اس قدر بڑھ گئیں کہ عام آدمی کے لیے ان تک ر سائی قریب قریب ناممکن بنا دی گئی۔
پٹرول، گیس، ڈیزل، بجلی، گھی اور چینی وغیرہ کے ریٹس بھی انتہا کو پہنچ گئے ہیں جس نے عام آدمی کی زندگی اجیرن بنا دی ہے۔پاکستان میں براہِ راست غیرملکی سرمایہ کاری بہت کم ہوگئی ہے۔ غیرملکی سرمایہ کاری کم ہونے کا آسان مطلب یہی ہے کہ سرمایہ کاروں کو یہاں کے حالات کی وجہ سے اپنے سرمائے کے محفوظ رہنے کا یقین نہیں ہے۔
اس ساری صورتحال کا تقاضا ہے کہ داخلی سطح پر حالات بہتر بنانے کی کوشش کی جائے۔ حکومت کو ٹیکس وصولیوں میں بھی ناکامی کا سامنا ہے۔ ٹیکس نیٹ کو بڑھانے کے اقدامات کر کے زیادہ ٹیکس اکٹھا کیا جاسکتا ہے۔ حکومت ان تمام شعبوں پر جو اب تک ٹیکس نیٹ سے باہر ہیں ٹیکس لگا کر آمدنی بڑھا سکتی ہے۔دوست ممالک سے بھی مدد لی جا سکتی ہے۔
زراعت میں بہتری لا کر زرعی آمدنی میں اضافہ کیا جا سکتا ہے۔ عالمی معیشت کا جائزہ لیا جائے تو یہ حقیقت آشکار ہوگی کہ ترقی یافتہ صنعتی ممالک نے بھی یہ معراج زراعت کو ترقی دیکر حاصل کی ہے۔
یہ ممالک آج بھی اپنے زرعی شعبے کو بے تحاشا سبسڈیز فراہم کرتے ہیں جس کی وجہ سے ان کی زرعی پیداوار سستی ہوتی ہے اور ملکی معیشت کے استحکام میں کلیدی کردار ادا کرتی ہے ۔
آنے والے دِنوں میں پاکستان کے حالات امن و امان کے حوالے سے بھی خراب ہو سکتے ہیں کیونکہ لوگوں کو کھانے پینے تک کی سہولیات نہیں ملیں گی تو وہ سڑکوں پر آ سکتے ہیں، مظاہرے بھی ہو سکتے ہیں، یہ خدشات بھی موجود ہیں کہ بے روزگاری اور بھوک بڑھی تو جرائم میں بھی اضافہ ہو گا جو ایک پرامن معاشرے کے لیے زہر قاتل ہے، اب اِن حالات میں فوری الیکشن کا مطالبہ کرنا بھی کسی ستم ظریفی سے کم نہیں۔
پاکستان کا استحکام آئین و قانون کی حقیقی بالا دستی میں ہی پوشیدہ ہے اور اس ضرورت کو یقینی بنانے کے لیے عارضی، ناپائیدار فیصلوں اور اقدامات کے بجائے طویل المدتی اور مستحکم پالیسیاں اختیار کیے جانے کی ضرورت ہے۔ یہاں یہ بتانے کی ضرورت نہیں کہ وہ کون سا ملک ہے جو پاکستان کو اقتصادی طور پر تباہ اور برباد کرتے ہوئے اتنا کمزور اور لاچار کرنا چاہتا ہے کہ وہ پاکستان کو خطے میں اپنی تابعداری اختیار کرنے پر مجبور کر سکے۔
ہمیں اس حقیقت کا ادراک کرنا ہو گا کہ دشمن ایک طرف پاکستان کو دہشت گردی سے نقصان پہنچا رہے ہیں اور دوسری طرف پاکستان کو سیاسی عدم استحکام سے دوچار کرکے اقتصادی طور پر تباہ کرنا چاہتے ہیں۔
ہمیں اپنے مسائل خود حل کرنا ہوں گے، شخصیات یا طبقات کی مفاداتی بالادستی کے بجائے عوامی مفادات کی بالادستی کو یقینی بنانے کے اقدامات اور حکمت عملی اختیار کرنا ہو گی کیونکہ عوام ہی ملک کی اصل طاقت ہیں اور عوامی حقوق کی پاسداری کو یقینی بنانے سے پاکستان حقیقی طور پر اتنا مضبوط ہو سکتا ہے کہ دشمن کے ناپاک منصوبوں اور مذموم عزائم کو ناکام اور نامراد کیا جا سکتا ہے۔
گوکہ پنجاب اسمبلی کو آئین کے مطابق تحلیل کیا گیا ہے حالانکہ تقریباً 49 فی صد ارکان صوبائی اسمبلی اس تحلیل کے مخالف تھے اور وہ چاہتے تھے کہ پنجاب اسمبلی اپنی آئینی مدت پوری کرے، لیکن سیاسی مہم جوئی اور پوائنٹ اسکورنگ کے لیے اسمبلی تحلیل کردی گئی ہے۔
اس عمل کے نتیجے میں صوبے کے انتظامی امور بری طرح متاثر ہونگے، بیوروکریسی کام کرنا چھوڑ دے گی، انتظامی اورآئینی بحران جنم لینے سے ملک میں جاری سیاسی بحران مزید گہرا ہوجائے گا۔صوبے میں قبل از وقت انتخابات سے کروڑوں، اربوں کے الیکشن اخراجات بھی ہونگے، جو معیشت کی بنیادیں مزید کمزور کرنے کا سبب بنیں گے۔
ملک کو اس وقت کسی ''غیر جمہوری'' نظام کی وجہ سے معاشی پریشانی کا سامنا نہیں ہے بلکہ سیاسی لیڈروں کے درمیان عدم اعتماد اور شخصیت پرستی کی سیاست سے پیدا ہونے والے عوارض کی وجہ سے بے یقینی اور بحران کی کیفیت پیدا ہوئی ہے۔
اب پنجاب اور خیبر پختون خوا کی اسمبلیاں توڑ کر موجودہ سیاسی بحران اور بے یقینی میں اضافہ کرنے کا اعلان کیا جا رہا ہے۔
ہمیں اس حقیقت کو فراموش نہیں کرنا چاہیے کہ کسی مناسب اور قابل عمل افہام و تفہیم کے بغیر پنجاب اسمبلی کی تحلیل اور تین ماہ کے عبوری سیٹ اپ کے بعد انتخابات کا انعقاد سیاسی عدم استحکام اور معاشی بحران کو مزید گہرا بھی کر سکتا ہے۔
اب یہ تو کہا جاسکتا ہے کہ انتخابات ہو گئے تو حالات ٹھیک ہوجائیں گے لیکن بغیر سوچے سمجھے اور سیاسی مفاہمت کے کسی معاہدہ کے بغیر منعقد ہونے والے انتخابات کے بعد انتشار اور پریشانی کا ایک نیا دور شروع ہونے کا امکان موجود رہے گا اور یہ بھی نہیں کہا جا سکے گا کہ انتخابات ہوجائیں تو مسئلہ حل ہو جائے گا۔
تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان ملک میں انتخابات کا فوری انعقاد چاہتے ہیں، دراصل یہ توقع بے بنیاد اور زمینی حقائق کے برعکس ہے۔
درحقیقت انتخابات، متوازن اور سیاسی بنیاد پر فیصلہ کرنے کی روایت پر عمل کرنے والے معاشروں میں کسی حد تک استحکام لانے کا سبب بنتے ہیں لیکن پاکستان جیسے ملک میں جہاں سیاسی لیڈروں کو صرف اپنی کامیابی والا انتخاب ہی شفاف اور درست دکھائی دیتا ہو تو وہاں سیاسی اور معاشی استحکام کی توقع کیسے کی جا سکتی ہے۔
ملک میں ایسی سیاسی انتشار اور بے یقینی کی فضا پیدا کی گئی ہے کہ جس سے ہر شعبے کی طرح ملک کی معیشت بھی بہت بری طرح متاثر ہو رہی ہے۔آج کل ملک کا ہرباشندہ ملکی معیشت کی تباہ حالی اور سیاسی انتشار اور عدم استحکام کی صورتحال سے پریشان ہے اور ہر محب وطن کو ان خطرات کا ادراک ہے کہ یہ صورتحال ملک کی بقاء اور سلامتی کے لیے حقیقی طور پر سنگین خطرات کا موجب ہے۔
پاکستان میں اقتصادی بحران کی سنگین صورتحال درپیش ہے اور معیشت کی ابتری کی یہ صورتحال ملک کے ہر شعبے کو بری طرح متاثر کر رہی ہے۔
ہر شعبے کے ماہرین اس بات سے اتفاق رکھتے ہیں کہ اقتصادی بہتری کے لیے ملک میں سیاسی استحکام ایک بنیادی شرط ہے جس کے بغیر ملکی معیشت میں بہتری کا خواب بھی نہیں دیکھا جا سکتا۔ یہ کہنا بے جا نہیں ہو گا کہ ملک میں سیاسی عدم استحکام پیدا کرنا، اسے جاری رکھنا ایسی ''سیاسی مفادپرستی'' ہے جو ملک کو اقتصادی طور پر تباہ کرتے ہوئے زمین سے لگانے کے ہولناک خطرات کا موجب ہو سکتی ہے۔
سیاسی عدم استحکام سے ملک میں بیرونی ہی نہیں بلکہ مقامی سرمایہ کاری بھی رک جاتی ہے اور ملکی اقتصادیات کی ریڑھ کی ہڈی یعنی برآمدات کا شعبہ بھی اس سے بری طرح متاثر ہوتا ہے۔سیاسی عدم استحکام اور معیشت کی خراب صورتحال میں ہی چند ماہ قبل ہی ملک میں تاریخ کے بدترین سیلاب سے کروڑوں افراد شدید متاثر ہوئے اور ملک کے کئی صوبوں میں وسیع پیمانے پر تباہی ہوئی۔
تحریک انصاف عدم اعتماد کے ذریعے حکومت سے نکالے جانے کے بعد سے مسلسل جارحانہ اور دھمکی کی سیاست کرتے ہوئے ملک میں قبل از وقت الیکشن کرانے کا مطالبہ کرتے چلی آ رہی ہے۔ایسے معاملات ملک کو درپیش خطرناک صورتحال کو نظر انداز کرتے ہوئے اپنے مطالبات منوانے کے لیے مہم جوئی کی سیاست کرتے ہوئے ملک میں سیاسی عدم استحکام کو قائم رکھتے ہوئے خطرناک اقتصادی صورتحال کو مزید خراب کرنے کے درپے نظر آتے ہیں۔
ملک میں سیاسی استحکام کے لیے سیاسی عناصر کو بات چیت کے ذریعے معاملات، مسائل کو حل کرنا چاہیے، دھمکی اور دھونس کی سیاست سے اصل نقصان صرف اور صرف ملک اور عوام کا ہو رہا ہے اور اب حالات اتنے خراب ہو چکے ہیں کہ ملک اور عوام اس کے ہولناک نتائج کے متحمل نہیں ہو سکتے۔
وفاق میں قائم پی ڈی ایم کی حکومت جس محنت اور تندہی سے ملکی معیشت کی بحالی کے لیے کام کر رہی ہے، اس کی کوششوں کو بھی دو صوبائی اسمبلیوں کی تحلیل سے ناقابل تلافی نقصان پہنچے گا۔
صرف دو دن قبل دس ارب ڈالر کی غیرملکی امداد جنیوا کانفرنس کے ذریعے سیلاب متاثرین کی بحالی کے لیے ملی ہے، سعودی عرب، چین سمیت دیگر دوست ممالک نے بھی اس مشکل کی گھڑی میں پاکستان کا بھرپور ساتھ دیا ہے، ملکی معیشت پر چھائی دھند صاف ہونے کے امکانات روشن نظر آنے لگے تھے کہ اپوزیشن نے سیاسی عدم استحکام کو مزید گہرا کرنے کی غرض سے پنجاب اسمبلی تحلیل کردی ہے ۔
اس عمل سے معاشی بحالی کے اقدامات کو شدید نقصان پہنچے گا، واضح رہے کہ آئی ایم ایف کی قسط ہمیں ابھی تک نہیں ملی ہے۔ موجودہ حکومت کو بھی اسی طرح معاشی مسائل قرضوں کا بوجھ، مہنگائی، بیروزگاری اور خالی خزانہ جیسے مسائل سابقہ حکومت سے ورثے میں ملے ہیں، اس کی وجہ یہ ہے کہ تحریک انصاف کے پاس نہ تو تجربہ کار ٹیم تھی اور نہ ہی مسائل کے حل کے لیے کوئی واضح پالیسی، منصوبہ بندی یا وژن تھا۔
چنانچہ ان کی حکومت ساڑھے تین سال سے زائد عرصہ میں بھی نہ تو معیشت کو درپیش مسائل حل کر سکی اور نہ ہی عوام کو ریلیف مہیا کر سکی بلکہ اپنی ناقص پالیسیوں کی بنا پر پہلے سے موجود مسائل میں بھی اضافہ ہو گیا۔ اشیائے خورونوش کی قیمتیں اس قدر بڑھ گئیں کہ عام آدمی کے لیے ان تک ر سائی قریب قریب ناممکن بنا دی گئی۔
پٹرول، گیس، ڈیزل، بجلی، گھی اور چینی وغیرہ کے ریٹس بھی انتہا کو پہنچ گئے ہیں جس نے عام آدمی کی زندگی اجیرن بنا دی ہے۔پاکستان میں براہِ راست غیرملکی سرمایہ کاری بہت کم ہوگئی ہے۔ غیرملکی سرمایہ کاری کم ہونے کا آسان مطلب یہی ہے کہ سرمایہ کاروں کو یہاں کے حالات کی وجہ سے اپنے سرمائے کے محفوظ رہنے کا یقین نہیں ہے۔
اس ساری صورتحال کا تقاضا ہے کہ داخلی سطح پر حالات بہتر بنانے کی کوشش کی جائے۔ حکومت کو ٹیکس وصولیوں میں بھی ناکامی کا سامنا ہے۔ ٹیکس نیٹ کو بڑھانے کے اقدامات کر کے زیادہ ٹیکس اکٹھا کیا جاسکتا ہے۔ حکومت ان تمام شعبوں پر جو اب تک ٹیکس نیٹ سے باہر ہیں ٹیکس لگا کر آمدنی بڑھا سکتی ہے۔دوست ممالک سے بھی مدد لی جا سکتی ہے۔
زراعت میں بہتری لا کر زرعی آمدنی میں اضافہ کیا جا سکتا ہے۔ عالمی معیشت کا جائزہ لیا جائے تو یہ حقیقت آشکار ہوگی کہ ترقی یافتہ صنعتی ممالک نے بھی یہ معراج زراعت کو ترقی دیکر حاصل کی ہے۔
یہ ممالک آج بھی اپنے زرعی شعبے کو بے تحاشا سبسڈیز فراہم کرتے ہیں جس کی وجہ سے ان کی زرعی پیداوار سستی ہوتی ہے اور ملکی معیشت کے استحکام میں کلیدی کردار ادا کرتی ہے ۔
آنے والے دِنوں میں پاکستان کے حالات امن و امان کے حوالے سے بھی خراب ہو سکتے ہیں کیونکہ لوگوں کو کھانے پینے تک کی سہولیات نہیں ملیں گی تو وہ سڑکوں پر آ سکتے ہیں، مظاہرے بھی ہو سکتے ہیں، یہ خدشات بھی موجود ہیں کہ بے روزگاری اور بھوک بڑھی تو جرائم میں بھی اضافہ ہو گا جو ایک پرامن معاشرے کے لیے زہر قاتل ہے، اب اِن حالات میں فوری الیکشن کا مطالبہ کرنا بھی کسی ستم ظریفی سے کم نہیں۔
پاکستان کا استحکام آئین و قانون کی حقیقی بالا دستی میں ہی پوشیدہ ہے اور اس ضرورت کو یقینی بنانے کے لیے عارضی، ناپائیدار فیصلوں اور اقدامات کے بجائے طویل المدتی اور مستحکم پالیسیاں اختیار کیے جانے کی ضرورت ہے۔ یہاں یہ بتانے کی ضرورت نہیں کہ وہ کون سا ملک ہے جو پاکستان کو اقتصادی طور پر تباہ اور برباد کرتے ہوئے اتنا کمزور اور لاچار کرنا چاہتا ہے کہ وہ پاکستان کو خطے میں اپنی تابعداری اختیار کرنے پر مجبور کر سکے۔
ہمیں اس حقیقت کا ادراک کرنا ہو گا کہ دشمن ایک طرف پاکستان کو دہشت گردی سے نقصان پہنچا رہے ہیں اور دوسری طرف پاکستان کو سیاسی عدم استحکام سے دوچار کرکے اقتصادی طور پر تباہ کرنا چاہتے ہیں۔
ہمیں اپنے مسائل خود حل کرنا ہوں گے، شخصیات یا طبقات کی مفاداتی بالادستی کے بجائے عوامی مفادات کی بالادستی کو یقینی بنانے کے اقدامات اور حکمت عملی اختیار کرنا ہو گی کیونکہ عوام ہی ملک کی اصل طاقت ہیں اور عوامی حقوق کی پاسداری کو یقینی بنانے سے پاکستان حقیقی طور پر اتنا مضبوط ہو سکتا ہے کہ دشمن کے ناپاک منصوبوں اور مذموم عزائم کو ناکام اور نامراد کیا جا سکتا ہے۔