دو سبق

سبق یہی ہے جس بھی ادارے کے ساتھ آپ کی وابستگی ہے، وقت پڑنے پر اس کے ساتھ کھڑے ہوں

تاریخ خود کو دہراتی نہیں نشاندہی کرتی ہے۔ ملک کے اداروں کو ہی لیں، یہ ادارے ہمارے سیاسی اور سماجی نظم کو موزوں اور محفوظ بناتے ہیں لیکن یہ ادارے اپنی بقاء کے لیے عوامی شعور کی قوت اور سپورٹ کے محتاج بھی ہوتے ہیں۔

زبانی کلامی' ہمارے ادارے' کہنے کا تردد نہ کریں اگر آپ اپنے عمل سے ان کو سپورٹ نہیں کرتے۔ ادارے تب ہی محفوظ رہتے ہیں اگر ان کی شروع سے حفاظت کی جائے ورنہ یہ ایک کے بعد ایک زمیں بوس ہوتے چلے جاتے ہیں۔

لہٰذا سبق یہی ہے جس بھی ادارے کے ساتھ آپ کی وابستگی ہے، وقت پڑنے پر اس کے ساتھ کھڑے ہوں، یہ ادارہ چاہے عدالت کا ہو یا قانون کا، آزادی اظہار کا ہو یا ٹریڈ یونین کا۔یہ سادہ سا سبق ایک مشہور کتابOn Tyranny سے ماخوذ ہے۔

لفظTyranny کا مفہوم اردو میں جبر، استبداد، ظالمانہ، آمرانہ ہے۔ یہ کتاب ایک معروف امریکی پروفیسر ٹیموتھی سنائڈر (Timothy Snyder) کی تصنیف ہے۔ موصوف امریکا کی مشہور Yale یونیورسٹی میں تاریخ کے پروفیسر اور ویانا میں انسٹیٹیوٹ آف ہیومن سائنسز کے فیلو ہیں۔

نو کتابوں کے مصنف جب کہ دو کتابوں کے شریک مصنف ہیں۔ ان کی تحقیقی اسپیشلائزیشن مشرقی اور سینٹرل یورپ ہے۔ ان کی یہ کتاب مختصر سائز اور مختصر تر حجم پر مشتمل ہے جو2017 میں چھپی اور 2021 تک بیسٹ سیلر رہی۔

اس کتاب کا مرکزی نکتہ یہ ہے کہ کس طرح جمہوریت بطور ایک ادارے کو استبدادی صورت میں ڈھلنے سے بچایا جا سکتا ہے۔ ان کا بنیادی فوکس امریکا کی سیاست ہے جو کہ ان کے خیال میں بیسیویں صدی کے اوائل کی بہت سے یورپی جمہوریتوں کی ڈگر پر رواں ہے۔

ان کے اصل الفاظ یوں ہیں؛American turn towards Authoritarianism یعنی امریکی مطلق العنانی کی ڈگر پر ہیں۔ پروفیسر ٹیموتھی سنائڈر نے پہلی جنگ عظیم سے قبل، پہلی اور دوسری جنگ عظیم کے دوران اور دوسری جنگ عظیم کے بعد یورپی ممالک میں جمہوریتوں کو مطلق العنانی کی شکل اختیار کرنے کی تاریخ کا جائزہ لے کر ' بیسیویں صدی سے بیس سبق ' اخذ کیے ہیں۔

انتہائی سادہ انداز میں دو تین مثالوں کے ساتھ انھوں نے ہر سبق کا تاریخی سیاق و سباق واضح کرتے ہوئے آج کے سیاسی رجحانات کو اس پر پرکھنے کی کوشش کی ہے۔ یوں تو اس کتاب کا ایک ایک سبق قابل غور ہے لیکن کالم کی تنگی اور ملکی سیاسی رجحانات پر منطبق صرف دو اسباق کا ذکر کیے لیتے ہیں۔

بیس اسباق میں سے دوسرا سبق ہے ؛ اداروں کا دفاع، کالم کا پہلا پیراگراف اسی سبق کا خلاصہ ہے کہ ادارے ہمارے سیاسی و سماجی نظم کو محفوظ بناتے ہیں لیکن ان اداروں کی حفاظت بھی ہمارے ذمے ہیں۔


پروفیسر ٹیموتھی نے جرمنی میں نازی اور اٹلی میں فاشسٹ حکومتوں کا حوالہ دیا کہ کس طرح جمہوری ڈھانچے کے ذریعے حکومت سنبھالنے والوں نے جمہوریت کے ڈھانچے پر فاشسٹ نظام بزور نافذ کیا۔ اس کی ایک حالیہ مثال بھارت میں بی جے پی حکومت ہے جس نے دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کو ہندوتوا کے فلسفے کے کھونٹے سے باندھ دیا ہے۔

بہت سے ممالک میں شدت پسند اور انتہاء پسند گروہ جن اداروں کی چھتر چھایا تلے پروان چڑھتے ہیں، بعد ازاں عموماً ان ہی اداروں کو ادھیڑ کر اپنی گرفت مضبوط کرتے ہیں۔

پاکستان میں پچھتر سالوں کے دوران جمہوریت کے ادارے کے ساتھ کیا کیا سلوک نہیں ہوا۔ پارلیمنٹ بطور ادارہ مضبوط نہ ہونے کی تہہ میں ابتدائی سالوں میں متفقہ آئین کا نہ بننا، بر ا بھلا جو آئین بنا اسے روند ڈالنا، چند سال بعد ایک خود ساختہ آئین کو جمہوریت کے نام پر تھوپنا شامل ہیں۔

وقت پڑنے پر عدالت قانون ساز اسمبلی توڑنے کے یکطرفہ اقدام کے خلاف فیصلہ نہ کر سکی، مولوی تمیز الدین کیس آج تک سیاسی اور عدالتی تاریخ میں ایک مایوس کن استعارہ ہے کہ جب اس ادارے کے تحفظ کی ضرورت تھی، اس کی حفاظت نہ ہو سکی۔

ریاست کے ادارے چیک اور بیلنس کے اصول پر وضع ہوتے ہیں لیکن جب چیک اور بیلنس کا یہ توازن کسی ایک یا چند ایک کے حق میں جھکنے لگے تو بگاڑ کا عمل شروع ہوجاتا ہے۔ پاکستان کی تاریخ میں پارلیمنٹ، نظام ِ انصاف، جمہوریت، سیاسی جماعتیں، الیکشن اور احتساب جیسے بنیادی ادارے بکثرت عدم توازن کا شکار ہوئے۔

دور کیا جانا ملک میں اس وقت جمہوریت کے ساتھ بطور ادارہ جو سلوک ہو رہا ہے، اس سے معاملات بہتری کی طرف تو ہرگز رواں نہیں ہیں۔

پنجاب اسمبلی اور کے پی اسمبلی کی تحلیل، پارلیمنٹ سے ایک بڑی پارٹی کی غیر موجودگی، بات بات پر غیبی ہاتھوں کا ذکر اور اسٹیبلشمنٹ کی پکار نے اکونومی اور سیاسی استحکام کی چولیں ہلا دی ہیں لیکن فیصلہ کن سیاسی قوتیں اپنے اپنے مفادات کے لیے تلوار بکف ہیں۔

الیکشن ہی واحد حل ہیں کا منتر بھی جھٹ سے چُھو ہو جاتا ہے جب الیکشن کمیشن کا ادارہ تنقید اور تحقیر کی زد میں آتا ہے۔ الیکشن نتائج پر بے اعتباری اس ادارے سے جڑی تنقید، تحقیر اور کمپرومائزڈ ماضی کے سبب لازمی روایت بن کر رہ گئی ہے۔

اداروں سے اپنی اپنی توقعات تو سب کو ہیں لیکن انھیں ہر زمانے میں مفادات سے بالاتر ہو کر مضبوط کرنے کا فریضہ ادا کرنے کو کوئی تیار نہیں۔پروفیسر ٹیموتھی کا بیسویں صدی کا سولہواں سبق یہ ہے کہ دوسرے ممالک کے اپنے جیسے لوگوں سے سیکھیں، اپنے خول میں بند رہنے کے بجائے دوسروں کے تجربے سے اپنی درستی کریں۔

کہنے کو تو ہم آج تک فخریہ کہتے ہیں کہ جنوبی کوریا نے پنج سالہ ترقی کا سبق ہم سے پڑھا لیکن شاید آج ہمیں یہ سبق کوریا بلکہ تائیوان اور انڈونیشیاء سے سیکھنے کی ضرورت ہے کہ انھوں نے آمرانہ حکومتوں سے جمہوریت کی طرف سفر کیسے کیا، ادارے اور اکونومی کس معجزے سے کایا پلٹ ہوئے؟
Load Next Story