پاکستان کا سیاسی اور معاشی بحران
سعودی عرب کی پاکستان کی یہ حمایت ایسی ہے جو دنیا کا کوئی اور ملک نہیں دے سکتا
پاکستان پر سیاسی غیریقینی کے بادل چھائے ہوئے ہیں، سیاسی عدم استحکام اپنے عروج پر پہنچ چکا ہے، وفاقی اور صوبائی حکومتیں ہیں بھی اور نہیں بھی ہیں والا منظر پیش کر رہی ہیں۔ سیاسی قیادت باہمی طور پر دریا کے دو کنارے بنی ہوئی ہے، ہر سیاسی قائد پاکستان سے محبت کا دعویٰ کرتا ہے لیکن اس کا عمل پاکستان کے مفادات کے برعکس نظر آتا ہے۔
سیاسی غیریقینی اور عدم استحکام نے معیشت کو بھی اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے۔ وفاقی حکومت نے حال ہی میں خارجہ اور معاشی امور میں کامیابیاں حاصل کی ہیں، وہ بھی ضایع ہونے کے خدشات پیدا ہو گئے ہیں۔ پاکستان بمشکل ایف اے ٹی ایف کی گرے لسٹ سے نکلا ہے۔ عالمی مالیاتی اداروں کے ساتھ تعلقات بھی بہتر ہوئے ہیں۔
دنیا کے بڑے اور ترقی یافتہ ممالک کے ساتھ اعتماد کا رشتہ بھی بہتر ہوا ہے لیکن ملک کے اندر طاقتور سیاسی اسٹیک ہولڈرز کے درمیان جاری چپقلش نے ملک کو درپیش معاشی خطرات کو مزید سنگین بنا دیا ہے۔ اسی دوران عالمی اقتصادی ادارے ورلڈ اکنامک فورم نے 2025 تک پاکستان کو درپیش 10 بڑے خطرات کی نشاندہی کر دی ہے۔
عالمی اقتصادی ادارے ورلڈ اکنامک فورم کی گلوبل رسک رپورٹ کے مطابق پاکستان کو ڈیفالٹ کے خطرے کا سامنا ہے۔ اگلے دو سال تک پاکستان کو خوراک کی کمی، سائبر سیکیورٹی، مہنگائی اور معاشی بحران کے خطرات درپیش ہوں گے۔
رپورٹ کے مطابق پاکستان کو عدم استحکام کے ساتھ خوارک، قرضوں کے بحران کا سامنا ہے، خطے کے ممالک آبی وسائل کو علاقائی تنازعات میں بطور ہتھیار بھی استعمال کرسکتے ہیں۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے پاکستان میں سیلاب سے آٹھ لاکھ ایکڑ سے زائد زرعی زمین تباہ ہوئی، جس سے اجناس کی قیمتوں میں اضافہ ہوا۔
یہ رپورٹ بتا رہی ہے کہ اگر پاکستان کے سیاسی اور کاروباری اسٹیک ہولڈرز نے ہوش کے ناخن نہ لیے تو اس کے نتائج خطرناک ہو سکتے ہیں۔ پاکستان کی سیاسی اور مذہبی جماعتوں کی قیادت تدبر، دوراندیشی اور ذہانت کے معیار سے نیچے رہ کر فیصلے کر رہی ہے۔
یہی وجہ ہے کہ ریاست کو درپیش خطرات کے باوجود سیاسی اور کاروباری قیادت ان خطرات کی پروا کیے بغیر اپنے اپنے مفادات سے ایک انچ پیچھے ہٹنے کے لیے تیار نظر نہیں آتی۔ اس صورت حال کا اگر کسی کو فائدہ ہو رہا ہے تو وہ دہشت گرد اور ان کے سہولت کار ہیں۔ وہ پاکستان میں آزادانہ دہشت گردی کی کارروائیاں کر رہے ہیں اور اپنے ان جرائم کی اعلانیہ ذمے داری بھی قبول کر رہے ہیں۔
پاکستانی سیاسی اور مذہبی قیادت ان خطرات کو سمجھے بغیر اندھی منزل کی طرف دوڑے چلی جا رہی ہے۔ اخباری اطلاعات کے مطابق ملک میں تونائی کے بحران کے مزید بڑھنے کے خدشات پیدا ہوگئے ہیں کیونکہ بینکوں نے پٹرولیم مصنوعات کی درآمدات کے سلسلے میں لیٹر آف کریڈٹ دینے اور اس کی توثیق سے انکار کردیا ہے۔
اس حوالے سے آئل ایڈوائزری کونسل نے سیکریٹری فنانس اور اسٹیٹ بینک آف پاکستان کی توجہ اس گھمیر صورت حال کی جانب مبذول کرائی ہے۔ آئل ایڈوائزی کونسل کی جانب سے لکھے گئے ایک مراسلے میں کہا گیا ہے کہ وہ تیل کمپنیوں کے ممبران اور ریفائنریزکی جانب سے اس امر کی نشاندہی کرنا چاہتی ہے کہ بینک تیل درآمدات کے لیے لیٹر آف کریڈٹ فراہم نہیں کررہے اور ایل سیز وقت پر فراہم نہیں کیے گئے تو ملک میں پٹرولیم مصنوعات کی شدید کمی واقع ہوگی اور اگر طلب اور رسد میں فرق پیدا ہوا تو صورت حال کو قابو کرنے کے لیے چھ سے آٹھ ہفتے مزید لگ سکتے ہیں۔
ایک جانب یہ صورت حال ہے تو دوسری جانب اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے مطابق دسمبر 2022 میں اوورسیز پاکستانیوں کی جانب سے2 ارب ڈالر کی ترسیلات زر پاکستان بھجوائی گئی ہیں جو اس پچھلے مہینے بھجوائی جانے والی ترسیلات زر کے مقابلے3.2 فیصد کم ہیں جب کہ سالانہ بنیادوں پر پچھلے مالی سال کے دوران دسمبر کے مقابلے میں گزشتہ ماہ دسمبر بھجوائی جانے والی ترسیلات زر میں19 فیصد کمی واقع ہوئی ہے۔
اسی طرح رواں مالی سال2022-23 کی پہلی ششماہی جولائی تا دسمبر کے دوران اوورسیز پاکستانیوں کی جانب سے بھجوائی جانے والی ترسیلات زر میں 11.1 فیصد کمی واقع ہوئی ہے اور رواں مالی سال کی پہلی ششماہی جولائی تا دسمبر کے دوران اوورسیز پاکستانیوں کی جانب سے14.1 ارب ڈالر کی ترسیلات زر بھجوائی گئی ہیں۔
اس مشکل صورت حال میں دوست ممالک کی طرف سے پاکستان کے لیے امداد اور قرض کے اعلانات کیے گئے ہیں جو کہ ملکی معیشت کے لیے اچھی خبر ہے۔ وزیر اعظم شہباز شریف کے ابوظہبی کے دو روزہ دورہ کے بعد جمعہ کو جاری مشترکہ اعلامیہ میں کہا گیا ہے کہ متعدد علاقائی اور عالمی امور پر دونوں ملکوں نے خیالات کی یکسانیت پر اطمینان کا اظہار کیا ہے۔
وزیراعظم کے دورہ کے دوران فریقین نے انسانی اسمگلنگ سے نمٹنے، معلومات کے تبادلے اور دونوں ممالک کی سفارتی اکیڈمیوں کے درمیان مفاہمت کی یادداشت پر بھی دستخط کیے ہیں۔وزیراعظم شہبازشریف نے 12اور 13 جنوری کوصدر شیخ محمد بن زید النہیان کی دعوت پر متحدہ عرب امارات کا سرکاری دورہ کیا، وزارت عظمی کا منصب سنبھالنے کے بعد وزیراعظم کا یو اے ای کا یہ تیسرا دورہ تھا۔
وزیر اعظم شہباز شریف نے شیخ محمد بن زید النہیان کوپاکستان کے دورے کی دعوت دی جو انھوں نے قبول کر لی۔جمعہ کو وزیراعظم شہباز شریف سے متحدہ عرب امارات کے وزیر برائے ٹالرنس شیخ نہیان بن مبارک نے ملاقات کی ۔اس موقع پر وزیر اعظم شہبازشریف نے انھیں پاکستان میں توانائی،ایوی ایشن اور سیاحت کے شعبوں میں مزید سرمایہ کاری کی دعوت دی۔
وزیراعظم سے ابوظہبی چیمبر اور پاکستان بزنس کونسل کے وفود نے بھی الگ الگ ملاقاتیں کیں۔ابوظہبی چیمبر کے چیئرمین عبداللہ محمد المزروعی کی قیادت میں ملنے والے وفد سے گفتگوکرتے ہوئے وزیراعظم شہباز شریف نے کہا کہ ہنرمند افرادی قوت کو متحدہ عرب ا مارات بھیجنا حکومت کی اولین ترجیحات میں شامل ہے، پاکستان اور متحدہ عرب امارات کے درمیان دوطرفہ تجارت میں نمایاں اضافہ خوش آیند ہے۔
متحدہ عرب امارات کی جانب سے تین ارب ڈالر کی مالیاتی سہولت ملنے کی خبر کے باوجود پنجاب اسمبلی کے بعد خیبر پختونخوا اسمبلی بھی تحلیل کرنے کی خبروں نے پاکستان اسٹاک ایکس چینج میں جمعے کو منفی اثرات مرتب کیے اور کاروبار کے تمام دورانیے میں مارکیٹ شدید مندی کی لپیٹ میں رہی۔ مندی کے سبب 67.28فیصد حصص کی قیمتیں گرگئیں۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ سست رفتار معیشت اور بڑھتی ہوئی مہنگائی اور سیاسی افق پر غیریقینی صورتحال نے سرمایہ کاروں کو مایوسی سے دوچار کردیا۔ سونے کی قیمتوں میں بھی اضافہ دیکھنے میں آیا جب کہ ڈالر کی قدر میں بھی اضافہ ہوا۔ یہ سارے مسائل اس لیے ہیں کہ ملک کے اندر سیاسی صورت حال مستحکم اور خوشگوار نہیں ہے۔ پاکستان کے لیے دوست ممالک جو کچھ کر رہے ہیں، ملک کے اندرونی حالات اسے زائل کرنے کا سبب بن رہے ہیں۔
سعودی عرب اور پاکستان کے درمیان غیر معمولی تعلقات ہیں جن کی جڑیں دونوں کے عوام کے درمیان پیوستہ ہیں۔ یہ رشتہ گزشتہ کئی دہائیوں میں سیاسی، سلامتی اور اقتصادی شعبوں میں رہا ہے۔ ہمارے تاریخی تعلقات بہت آگے بڑھ چکے ہیں اور جو مستقبل کی مضبوط ترقی کے وسیع راستے کھول رہے ہیں۔ دونوں ممالک کو دوستی کا ایک جذبہ اکٹھا کرتا ہے جس میں یہ حقیقت بھی شامل ہے کہ ہر سال لاکھوں پاکستانی حج اور عمرہ کرنے کے لیے سعودی عرب جاتے ہیں۔
سعودی عرب پاکستان میں مزید سرمایہ کاری بھی کر رہا ہے اور اس میں ایک ارب ڈالرز سے اضافہ کرکے اسے 10 ارب ڈالرز تک پہنچائے گا۔ ساتھ ہی وہ اس بات کے طریقہ کار کو حتمی شکل دے رہا ہے کہ پاکستان کے بینکوں میں اپنے ڈالرز رکھے۔ اس وقت یہ رقم 3 ارب ڈالرز ہے جسے 5 ارب ڈالرز تک پہنچایا جا رہا ہے۔
سعودی عرب کی پاکستان کی یہ حمایت ایسی ہے جو دنیا کا کوئی اور ملک نہیں دے سکتا۔ لیکن کچھ اندرونی اور بیرونی طاقتیں ان تعلقات کو پھلتا پھولتا نہیں دیکھنا چاہتیں۔ جب بھی پاکستان اور سعودی عرب کے تعلقات میں ایک مثبت موڑ آتا ہے، ایسے عناصر منفی پہلوؤں کو ہوا دینا شروع کر دیتے ہیں۔
پاکستان کے پاس وسائل کی کمی نہیں ہے، پاکستان کی سیاسی اور مذہبی قیادت اعلیٰ پائے کی ذہانت اور معاملہ فہمی جیسے اوصاف کی مالک ہوتی تو ایسے حالات رونما نہیں ہو سکتے تھے۔ اس وقت ملک میں انتظامی جمود کی کیفیت ہے۔ شمال مغربی سرحد غیرمحفوظ ہو چکی ہے۔ دہشت گرد کھلے عام خیبرپختونخوا اور سابقہ فاٹا میں کارروائیاں کر رہے ہیں۔ اس کے مقابلے میں ریاست اور اس کی مشینری کی خاموشی معنی خیز اور حیران کن ہے۔
سیاسی غیریقینی اور عدم استحکام نے معیشت کو بھی اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے۔ وفاقی حکومت نے حال ہی میں خارجہ اور معاشی امور میں کامیابیاں حاصل کی ہیں، وہ بھی ضایع ہونے کے خدشات پیدا ہو گئے ہیں۔ پاکستان بمشکل ایف اے ٹی ایف کی گرے لسٹ سے نکلا ہے۔ عالمی مالیاتی اداروں کے ساتھ تعلقات بھی بہتر ہوئے ہیں۔
دنیا کے بڑے اور ترقی یافتہ ممالک کے ساتھ اعتماد کا رشتہ بھی بہتر ہوا ہے لیکن ملک کے اندر طاقتور سیاسی اسٹیک ہولڈرز کے درمیان جاری چپقلش نے ملک کو درپیش معاشی خطرات کو مزید سنگین بنا دیا ہے۔ اسی دوران عالمی اقتصادی ادارے ورلڈ اکنامک فورم نے 2025 تک پاکستان کو درپیش 10 بڑے خطرات کی نشاندہی کر دی ہے۔
عالمی اقتصادی ادارے ورلڈ اکنامک فورم کی گلوبل رسک رپورٹ کے مطابق پاکستان کو ڈیفالٹ کے خطرے کا سامنا ہے۔ اگلے دو سال تک پاکستان کو خوراک کی کمی، سائبر سیکیورٹی، مہنگائی اور معاشی بحران کے خطرات درپیش ہوں گے۔
رپورٹ کے مطابق پاکستان کو عدم استحکام کے ساتھ خوارک، قرضوں کے بحران کا سامنا ہے، خطے کے ممالک آبی وسائل کو علاقائی تنازعات میں بطور ہتھیار بھی استعمال کرسکتے ہیں۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے پاکستان میں سیلاب سے آٹھ لاکھ ایکڑ سے زائد زرعی زمین تباہ ہوئی، جس سے اجناس کی قیمتوں میں اضافہ ہوا۔
یہ رپورٹ بتا رہی ہے کہ اگر پاکستان کے سیاسی اور کاروباری اسٹیک ہولڈرز نے ہوش کے ناخن نہ لیے تو اس کے نتائج خطرناک ہو سکتے ہیں۔ پاکستان کی سیاسی اور مذہبی جماعتوں کی قیادت تدبر، دوراندیشی اور ذہانت کے معیار سے نیچے رہ کر فیصلے کر رہی ہے۔
یہی وجہ ہے کہ ریاست کو درپیش خطرات کے باوجود سیاسی اور کاروباری قیادت ان خطرات کی پروا کیے بغیر اپنے اپنے مفادات سے ایک انچ پیچھے ہٹنے کے لیے تیار نظر نہیں آتی۔ اس صورت حال کا اگر کسی کو فائدہ ہو رہا ہے تو وہ دہشت گرد اور ان کے سہولت کار ہیں۔ وہ پاکستان میں آزادانہ دہشت گردی کی کارروائیاں کر رہے ہیں اور اپنے ان جرائم کی اعلانیہ ذمے داری بھی قبول کر رہے ہیں۔
پاکستانی سیاسی اور مذہبی قیادت ان خطرات کو سمجھے بغیر اندھی منزل کی طرف دوڑے چلی جا رہی ہے۔ اخباری اطلاعات کے مطابق ملک میں تونائی کے بحران کے مزید بڑھنے کے خدشات پیدا ہوگئے ہیں کیونکہ بینکوں نے پٹرولیم مصنوعات کی درآمدات کے سلسلے میں لیٹر آف کریڈٹ دینے اور اس کی توثیق سے انکار کردیا ہے۔
اس حوالے سے آئل ایڈوائزری کونسل نے سیکریٹری فنانس اور اسٹیٹ بینک آف پاکستان کی توجہ اس گھمیر صورت حال کی جانب مبذول کرائی ہے۔ آئل ایڈوائزی کونسل کی جانب سے لکھے گئے ایک مراسلے میں کہا گیا ہے کہ وہ تیل کمپنیوں کے ممبران اور ریفائنریزکی جانب سے اس امر کی نشاندہی کرنا چاہتی ہے کہ بینک تیل درآمدات کے لیے لیٹر آف کریڈٹ فراہم نہیں کررہے اور ایل سیز وقت پر فراہم نہیں کیے گئے تو ملک میں پٹرولیم مصنوعات کی شدید کمی واقع ہوگی اور اگر طلب اور رسد میں فرق پیدا ہوا تو صورت حال کو قابو کرنے کے لیے چھ سے آٹھ ہفتے مزید لگ سکتے ہیں۔
ایک جانب یہ صورت حال ہے تو دوسری جانب اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے مطابق دسمبر 2022 میں اوورسیز پاکستانیوں کی جانب سے2 ارب ڈالر کی ترسیلات زر پاکستان بھجوائی گئی ہیں جو اس پچھلے مہینے بھجوائی جانے والی ترسیلات زر کے مقابلے3.2 فیصد کم ہیں جب کہ سالانہ بنیادوں پر پچھلے مالی سال کے دوران دسمبر کے مقابلے میں گزشتہ ماہ دسمبر بھجوائی جانے والی ترسیلات زر میں19 فیصد کمی واقع ہوئی ہے۔
اسی طرح رواں مالی سال2022-23 کی پہلی ششماہی جولائی تا دسمبر کے دوران اوورسیز پاکستانیوں کی جانب سے بھجوائی جانے والی ترسیلات زر میں 11.1 فیصد کمی واقع ہوئی ہے اور رواں مالی سال کی پہلی ششماہی جولائی تا دسمبر کے دوران اوورسیز پاکستانیوں کی جانب سے14.1 ارب ڈالر کی ترسیلات زر بھجوائی گئی ہیں۔
اس مشکل صورت حال میں دوست ممالک کی طرف سے پاکستان کے لیے امداد اور قرض کے اعلانات کیے گئے ہیں جو کہ ملکی معیشت کے لیے اچھی خبر ہے۔ وزیر اعظم شہباز شریف کے ابوظہبی کے دو روزہ دورہ کے بعد جمعہ کو جاری مشترکہ اعلامیہ میں کہا گیا ہے کہ متعدد علاقائی اور عالمی امور پر دونوں ملکوں نے خیالات کی یکسانیت پر اطمینان کا اظہار کیا ہے۔
وزیراعظم کے دورہ کے دوران فریقین نے انسانی اسمگلنگ سے نمٹنے، معلومات کے تبادلے اور دونوں ممالک کی سفارتی اکیڈمیوں کے درمیان مفاہمت کی یادداشت پر بھی دستخط کیے ہیں۔وزیراعظم شہبازشریف نے 12اور 13 جنوری کوصدر شیخ محمد بن زید النہیان کی دعوت پر متحدہ عرب امارات کا سرکاری دورہ کیا، وزارت عظمی کا منصب سنبھالنے کے بعد وزیراعظم کا یو اے ای کا یہ تیسرا دورہ تھا۔
وزیر اعظم شہباز شریف نے شیخ محمد بن زید النہیان کوپاکستان کے دورے کی دعوت دی جو انھوں نے قبول کر لی۔جمعہ کو وزیراعظم شہباز شریف سے متحدہ عرب امارات کے وزیر برائے ٹالرنس شیخ نہیان بن مبارک نے ملاقات کی ۔اس موقع پر وزیر اعظم شہبازشریف نے انھیں پاکستان میں توانائی،ایوی ایشن اور سیاحت کے شعبوں میں مزید سرمایہ کاری کی دعوت دی۔
وزیراعظم سے ابوظہبی چیمبر اور پاکستان بزنس کونسل کے وفود نے بھی الگ الگ ملاقاتیں کیں۔ابوظہبی چیمبر کے چیئرمین عبداللہ محمد المزروعی کی قیادت میں ملنے والے وفد سے گفتگوکرتے ہوئے وزیراعظم شہباز شریف نے کہا کہ ہنرمند افرادی قوت کو متحدہ عرب ا مارات بھیجنا حکومت کی اولین ترجیحات میں شامل ہے، پاکستان اور متحدہ عرب امارات کے درمیان دوطرفہ تجارت میں نمایاں اضافہ خوش آیند ہے۔
متحدہ عرب امارات کی جانب سے تین ارب ڈالر کی مالیاتی سہولت ملنے کی خبر کے باوجود پنجاب اسمبلی کے بعد خیبر پختونخوا اسمبلی بھی تحلیل کرنے کی خبروں نے پاکستان اسٹاک ایکس چینج میں جمعے کو منفی اثرات مرتب کیے اور کاروبار کے تمام دورانیے میں مارکیٹ شدید مندی کی لپیٹ میں رہی۔ مندی کے سبب 67.28فیصد حصص کی قیمتیں گرگئیں۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ سست رفتار معیشت اور بڑھتی ہوئی مہنگائی اور سیاسی افق پر غیریقینی صورتحال نے سرمایہ کاروں کو مایوسی سے دوچار کردیا۔ سونے کی قیمتوں میں بھی اضافہ دیکھنے میں آیا جب کہ ڈالر کی قدر میں بھی اضافہ ہوا۔ یہ سارے مسائل اس لیے ہیں کہ ملک کے اندر سیاسی صورت حال مستحکم اور خوشگوار نہیں ہے۔ پاکستان کے لیے دوست ممالک جو کچھ کر رہے ہیں، ملک کے اندرونی حالات اسے زائل کرنے کا سبب بن رہے ہیں۔
سعودی عرب اور پاکستان کے درمیان غیر معمولی تعلقات ہیں جن کی جڑیں دونوں کے عوام کے درمیان پیوستہ ہیں۔ یہ رشتہ گزشتہ کئی دہائیوں میں سیاسی، سلامتی اور اقتصادی شعبوں میں رہا ہے۔ ہمارے تاریخی تعلقات بہت آگے بڑھ چکے ہیں اور جو مستقبل کی مضبوط ترقی کے وسیع راستے کھول رہے ہیں۔ دونوں ممالک کو دوستی کا ایک جذبہ اکٹھا کرتا ہے جس میں یہ حقیقت بھی شامل ہے کہ ہر سال لاکھوں پاکستانی حج اور عمرہ کرنے کے لیے سعودی عرب جاتے ہیں۔
سعودی عرب پاکستان میں مزید سرمایہ کاری بھی کر رہا ہے اور اس میں ایک ارب ڈالرز سے اضافہ کرکے اسے 10 ارب ڈالرز تک پہنچائے گا۔ ساتھ ہی وہ اس بات کے طریقہ کار کو حتمی شکل دے رہا ہے کہ پاکستان کے بینکوں میں اپنے ڈالرز رکھے۔ اس وقت یہ رقم 3 ارب ڈالرز ہے جسے 5 ارب ڈالرز تک پہنچایا جا رہا ہے۔
سعودی عرب کی پاکستان کی یہ حمایت ایسی ہے جو دنیا کا کوئی اور ملک نہیں دے سکتا۔ لیکن کچھ اندرونی اور بیرونی طاقتیں ان تعلقات کو پھلتا پھولتا نہیں دیکھنا چاہتیں۔ جب بھی پاکستان اور سعودی عرب کے تعلقات میں ایک مثبت موڑ آتا ہے، ایسے عناصر منفی پہلوؤں کو ہوا دینا شروع کر دیتے ہیں۔
پاکستان کے پاس وسائل کی کمی نہیں ہے، پاکستان کی سیاسی اور مذہبی قیادت اعلیٰ پائے کی ذہانت اور معاملہ فہمی جیسے اوصاف کی مالک ہوتی تو ایسے حالات رونما نہیں ہو سکتے تھے۔ اس وقت ملک میں انتظامی جمود کی کیفیت ہے۔ شمال مغربی سرحد غیرمحفوظ ہو چکی ہے۔ دہشت گرد کھلے عام خیبرپختونخوا اور سابقہ فاٹا میں کارروائیاں کر رہے ہیں۔ اس کے مقابلے میں ریاست اور اس کی مشینری کی خاموشی معنی خیز اور حیران کن ہے۔