شہر قائد کانوحہ
شہروں کی ترقیاتی کاموں کے لیے عوام کے منتخب نمایندوں پر مشتمل یونین کمیٹیوں کے قیام کی ضرورت نا گزیر ہے
جنوبی ایشیا کے اہم خطے پر واقع ریاست پاکستان (سابقہ متحد ہ پاکستان)کا ساحلی میٹروپولیٹن اور معاشی حب ''کراچی '' کی منصوبہ بندی جس ماسٹر پلان کے تحت کی گئی تھی، اس کے مطابق یہاں جدید اور منفرد انداز کی طرز رہائش ، کشادہ پارکس، کھیلوں کے وسع و عریض میدان قائم ہونا تھے۔
آزادی کے وقت پاکستان کے تمام شہروں میں روزگار کے مواقع مدہم تھے۔ واحد ایک شہر کراچی تھا جس نے دوسرے شہروں کے لوگوں کو اپنے دامن میں سمیٹ لیا۔ سقوط ڈھاکا کے بعد عوام کی ایک کثیر تعداد نے ہجرت کی بھی تو ان کی مرکز نگاہ کراچی پر ٹھہری اور یوں وہ بھی مستقل بنیادوں پر یہاں رہائش پذیر ہوئے۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا، اس شہر کی بڑھتی ہوئی آبادی کے تناسب سے یہاں مستقبل کے لیے مستحکم بنیادوں پر ٹائون پلاننگ کی جاتی، جو افسوس نہ ہو سکی اور شہر کا ڈھانچہ جوں کا توں رہا۔سونے پہ سہاگہ کے مصداق اس شہر کی قسمت سند ھ حکومت کے ہاتھ آ گئی۔
سندھ اسمبلی میں اکثریتی جماعت پاکستان پیپلز پارٹی (زرداری گروپ)میں اندرون سندھ سے منتخب ارکان کی تھی۔ کراچی کو کوئی اون کرنے کو تیار نہ تھا۔ ان حالات کے پیش نظر اس شہر میں رہنے والے اکثریتی آبادی ان ناانصافیوں کے خلاف اٹھ کھڑی ہوئی اور یو ں لوگ ایم کیو ایم میں شامل ہوتے چلے گئے۔
کسی بھی شہر کی تعمیر و ترقی شہر کے بلدیاتی اداروں کا کام ہوتا ہے، جو براہ راست صوبائی حکومت کے زمرے میں آتے ہیں۔ کراچی نہ صرف صوبہ سندھ کا سب سے بڑا پیداواری شہر ہے بلکہ بندرگاہ ہونے کی وجہ سے پورے ملک کی معیشت کا صنعتی مرکز بھی ہے۔خاص منصوبہ بندی کے تحت اس شہر کا حلیہ بگاڑا گیا ہے۔
میٹروپولیٹن میگا سٹی کے حوالہ سے اس کی مرکزیت معلوم نہیں ہوتی ہے۔ پہلے پانی اور سیوریج ، براہ راست کراچی بلدیہ عظمیٰ کے ذمے تھا اس کو بلدیہ سے علیحد ہ کرکے ایک خود مختار ادارے کی شکل دی گئی۔ شہر میں صفائی ستھرائی کا کام علاقا ئی یونین کونسلزکی ذمے داری تھی، اس کو بھی نجی کمپنیوں کے سپرد کر دیا گیا ہے۔بلدیہ کا اہم شعبہ باغات کا طویل عرصہ سے قائم ہے۔
آج کل جرائم پیشہ افراد لوہے کے حصول کی جستجو میں مصروف عمل ہیں۔ شہر کی مین شاہراہوں ، گلیوں ، سڑکوں پر تعمیر شدہ سیوریج لائنوںکے سیمنٹ اور لوہے کے ڈھکن چوری ہونے کی شکایات زبان زد عام ہیں مگر کسی کے پاس اس کی سد باب کے لیے وقت نہیں ہے۔شہر میں کچرا چننے والے اپنے کندھوں پر بڑے بڑے تھیلے لٹکائے دن کی روشنی اور شب کی تاریکی میں گھومتے نظر آتے ہیں۔
پڑوسی ملک افغانستان سے کثیر تعداد میں افغان خاندان بلوچستان کے راستے کراچی کا رخ کر چکے ہیں اور مزید نقل مکانی کا یہ سلسلہ برسوں سے بلا مشروط جاری و ساری ہے۔ ان کی آبادیوں کو افغان خیمہ بستی کا نام دیا گیا تھا۔ ان کی پہچان ابھی تک افغان مہاجر ہی ہے ۔ طویل مدت ہوئی افغان جنگ ختم ہوئے مگر یہ لوگ اپنے وطن واپس نہیں گئے ۔ سڑکوں اور شہر کی مصروف ترین شاہراہوں سے گٹر کے ڈھکن تک چرا لیے جاتے ہیں جن سے جان لیوا حادثات رونما ہو رہے ہیں۔ ان ڈھکن کو توڑ کر سریے نکال کر لوہا فروخت کر تے ہیں جو ان کو معقول پیسے فراہم کرتا ہے۔
یہاں تک کہ انھوں نے تو گیس کے میٹرز تک کو نہ چھوڑا۔ آپ اکثر گلی محلوں میں کچھ بچے بغل میں جھاڑو دبائے گھروں کی گھنٹیاں بجا کر آپ کے گھر کے سامنے صفائی کرنے کا کہتے ہیں۔ یہ نو عمر بچے گھر کے کچرے کو بجائے کچراکنڈی کی نٓذر کرتے بلکہ تھوڑے ہی فاصلہ پر جا کر پھینک دیتے ہیں۔
تمام دن صحت مند گداگر اپنا حلق پھاڑتے ہوئے اپنی بے بسی اور غریبی کا رونا رو رہے ہوتے ہیں اور کچھ تو ایسے بھی ہوتے ہیں جو گھروں کی گھنٹیاں بجا بجا کر اہل خانہ کو متوجہ کرتے ہیں۔ گزشتہ دنوں میرا ڈسٹرکٹ سینٹرل کے یونین آفس جانے کا اتفاق ہوا ۔ دیکھا کہ مین گیٹ بند اور چاروں طرف پولیس کازبردست پہرا۔ معلوم کرنے پر یہ عقدہ کھلا کہ یہا ں مفت آٹا تقسیم کیا جا رہا ہے۔
ہجوم میں موجود افراد اس قدر ہٹے کٹے تھے کہ پولیس سے بھی کنٹرول میں نہیں آ رہے تھے۔ ہم نے جب ہمت کرکے اس ہجوم کے قریب جا کر مختصر جائزہ لیا تو معلوم ہوا کہ تمام کے تمام افغانی باشندے تھے، وگرنا پختون یا پٹھان کبھی بھیک مانگتا ہوا شہر میں نظر نہیں آئے گا۔ کھیلوں کے میدانوں میں چار دیواری میں تنصیب لوہے کی گرلیں رات کی تاریکی میں اکھاڑ اکھاڑ کر لے گئے اور ان میدانوں میں جگہ جگہ کچرے کے ڈھیر نظر آئیں گے۔
سونے پر سہاگہ یہ ہوا کہ آپ گھرسے باہر نکلے تو موٹر سا ئیکل پر سوار دو افراد اسلحہ کے زور پر آپ کو لوٹ لیتے ہیں۔ لوگ ایسے افراد کو ڈاکو کہتے ہیں۔گزرے وقتوں کے ڈاکو غریب اور متوسط طبقہ پر ہاتھ ڈالنے کے بجائے بڑی پارٹیوں پر ہاتھ ڈالتے تھے۔ اس قسم کے گلی محلوں میں لوٹنے والے افراد کا تعلق لچے قبیلہ سے ہوتا ہے۔
شہروں کی ترقیاتی کاموں کے لیے عوام کے منتخب نمایندوں پر مشتمل یونین کمیٹیوں کے قیام کی ضرورت نا گزیر ہے۔ بلدیاتی انتخابات کے انعقاد میں تاخیر مزید دوسرے مسائل پیدا کر رہی ہیں۔ ملک میں عوامی خدمات کے اداروں کی نجی لوگوں کے ہاتھوں فروخت کے سلسلہ کو روکنا چاہیے۔ کچرا اٹھانے کا انتظام بھی نجی لوگوں کو ٹھیکے پر دے دیا گیا ہے۔ فارغ مالی گھر بیٹھے ماہانہ تنخواہیں وصول کر رہے ہیں۔ اب وقت آ گیا ہے سرکاری ملازمین کو نہایت دیانت داری کے ساتھ کام کرنا پڑے گا۔
آزادی کے وقت پاکستان کے تمام شہروں میں روزگار کے مواقع مدہم تھے۔ واحد ایک شہر کراچی تھا جس نے دوسرے شہروں کے لوگوں کو اپنے دامن میں سمیٹ لیا۔ سقوط ڈھاکا کے بعد عوام کی ایک کثیر تعداد نے ہجرت کی بھی تو ان کی مرکز نگاہ کراچی پر ٹھہری اور یوں وہ بھی مستقل بنیادوں پر یہاں رہائش پذیر ہوئے۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا، اس شہر کی بڑھتی ہوئی آبادی کے تناسب سے یہاں مستقبل کے لیے مستحکم بنیادوں پر ٹائون پلاننگ کی جاتی، جو افسوس نہ ہو سکی اور شہر کا ڈھانچہ جوں کا توں رہا۔سونے پہ سہاگہ کے مصداق اس شہر کی قسمت سند ھ حکومت کے ہاتھ آ گئی۔
سندھ اسمبلی میں اکثریتی جماعت پاکستان پیپلز پارٹی (زرداری گروپ)میں اندرون سندھ سے منتخب ارکان کی تھی۔ کراچی کو کوئی اون کرنے کو تیار نہ تھا۔ ان حالات کے پیش نظر اس شہر میں رہنے والے اکثریتی آبادی ان ناانصافیوں کے خلاف اٹھ کھڑی ہوئی اور یو ں لوگ ایم کیو ایم میں شامل ہوتے چلے گئے۔
کسی بھی شہر کی تعمیر و ترقی شہر کے بلدیاتی اداروں کا کام ہوتا ہے، جو براہ راست صوبائی حکومت کے زمرے میں آتے ہیں۔ کراچی نہ صرف صوبہ سندھ کا سب سے بڑا پیداواری شہر ہے بلکہ بندرگاہ ہونے کی وجہ سے پورے ملک کی معیشت کا صنعتی مرکز بھی ہے۔خاص منصوبہ بندی کے تحت اس شہر کا حلیہ بگاڑا گیا ہے۔
میٹروپولیٹن میگا سٹی کے حوالہ سے اس کی مرکزیت معلوم نہیں ہوتی ہے۔ پہلے پانی اور سیوریج ، براہ راست کراچی بلدیہ عظمیٰ کے ذمے تھا اس کو بلدیہ سے علیحد ہ کرکے ایک خود مختار ادارے کی شکل دی گئی۔ شہر میں صفائی ستھرائی کا کام علاقا ئی یونین کونسلزکی ذمے داری تھی، اس کو بھی نجی کمپنیوں کے سپرد کر دیا گیا ہے۔بلدیہ کا اہم شعبہ باغات کا طویل عرصہ سے قائم ہے۔
آج کل جرائم پیشہ افراد لوہے کے حصول کی جستجو میں مصروف عمل ہیں۔ شہر کی مین شاہراہوں ، گلیوں ، سڑکوں پر تعمیر شدہ سیوریج لائنوںکے سیمنٹ اور لوہے کے ڈھکن چوری ہونے کی شکایات زبان زد عام ہیں مگر کسی کے پاس اس کی سد باب کے لیے وقت نہیں ہے۔شہر میں کچرا چننے والے اپنے کندھوں پر بڑے بڑے تھیلے لٹکائے دن کی روشنی اور شب کی تاریکی میں گھومتے نظر آتے ہیں۔
پڑوسی ملک افغانستان سے کثیر تعداد میں افغان خاندان بلوچستان کے راستے کراچی کا رخ کر چکے ہیں اور مزید نقل مکانی کا یہ سلسلہ برسوں سے بلا مشروط جاری و ساری ہے۔ ان کی آبادیوں کو افغان خیمہ بستی کا نام دیا گیا تھا۔ ان کی پہچان ابھی تک افغان مہاجر ہی ہے ۔ طویل مدت ہوئی افغان جنگ ختم ہوئے مگر یہ لوگ اپنے وطن واپس نہیں گئے ۔ سڑکوں اور شہر کی مصروف ترین شاہراہوں سے گٹر کے ڈھکن تک چرا لیے جاتے ہیں جن سے جان لیوا حادثات رونما ہو رہے ہیں۔ ان ڈھکن کو توڑ کر سریے نکال کر لوہا فروخت کر تے ہیں جو ان کو معقول پیسے فراہم کرتا ہے۔
یہاں تک کہ انھوں نے تو گیس کے میٹرز تک کو نہ چھوڑا۔ آپ اکثر گلی محلوں میں کچھ بچے بغل میں جھاڑو دبائے گھروں کی گھنٹیاں بجا کر آپ کے گھر کے سامنے صفائی کرنے کا کہتے ہیں۔ یہ نو عمر بچے گھر کے کچرے کو بجائے کچراکنڈی کی نٓذر کرتے بلکہ تھوڑے ہی فاصلہ پر جا کر پھینک دیتے ہیں۔
تمام دن صحت مند گداگر اپنا حلق پھاڑتے ہوئے اپنی بے بسی اور غریبی کا رونا رو رہے ہوتے ہیں اور کچھ تو ایسے بھی ہوتے ہیں جو گھروں کی گھنٹیاں بجا بجا کر اہل خانہ کو متوجہ کرتے ہیں۔ گزشتہ دنوں میرا ڈسٹرکٹ سینٹرل کے یونین آفس جانے کا اتفاق ہوا ۔ دیکھا کہ مین گیٹ بند اور چاروں طرف پولیس کازبردست پہرا۔ معلوم کرنے پر یہ عقدہ کھلا کہ یہا ں مفت آٹا تقسیم کیا جا رہا ہے۔
ہجوم میں موجود افراد اس قدر ہٹے کٹے تھے کہ پولیس سے بھی کنٹرول میں نہیں آ رہے تھے۔ ہم نے جب ہمت کرکے اس ہجوم کے قریب جا کر مختصر جائزہ لیا تو معلوم ہوا کہ تمام کے تمام افغانی باشندے تھے، وگرنا پختون یا پٹھان کبھی بھیک مانگتا ہوا شہر میں نظر نہیں آئے گا۔ کھیلوں کے میدانوں میں چار دیواری میں تنصیب لوہے کی گرلیں رات کی تاریکی میں اکھاڑ اکھاڑ کر لے گئے اور ان میدانوں میں جگہ جگہ کچرے کے ڈھیر نظر آئیں گے۔
سونے پر سہاگہ یہ ہوا کہ آپ گھرسے باہر نکلے تو موٹر سا ئیکل پر سوار دو افراد اسلحہ کے زور پر آپ کو لوٹ لیتے ہیں۔ لوگ ایسے افراد کو ڈاکو کہتے ہیں۔گزرے وقتوں کے ڈاکو غریب اور متوسط طبقہ پر ہاتھ ڈالنے کے بجائے بڑی پارٹیوں پر ہاتھ ڈالتے تھے۔ اس قسم کے گلی محلوں میں لوٹنے والے افراد کا تعلق لچے قبیلہ سے ہوتا ہے۔
شہروں کی ترقیاتی کاموں کے لیے عوام کے منتخب نمایندوں پر مشتمل یونین کمیٹیوں کے قیام کی ضرورت نا گزیر ہے۔ بلدیاتی انتخابات کے انعقاد میں تاخیر مزید دوسرے مسائل پیدا کر رہی ہیں۔ ملک میں عوامی خدمات کے اداروں کی نجی لوگوں کے ہاتھوں فروخت کے سلسلہ کو روکنا چاہیے۔ کچرا اٹھانے کا انتظام بھی نجی لوگوں کو ٹھیکے پر دے دیا گیا ہے۔ فارغ مالی گھر بیٹھے ماہانہ تنخواہیں وصول کر رہے ہیں۔ اب وقت آ گیا ہے سرکاری ملازمین کو نہایت دیانت داری کے ساتھ کام کرنا پڑے گا۔