کراچی میں ممکنہ بلدیاتی انتخابات ایک سوالیہ نشان
کراچی بین الاقوامی یتیم خانے کا روپ دھار چکا ہے۔ غیرملکیوں کی بہتات ہوچکی ہے
بار بار کی بے یقینی کی صورتحال اور التوا در التوا کے بعد اب بھی کراچی میں بلدیاتی انتخابات اتوار 15جنوری کو انعقاد کے حوالے سے بے یقینی کی فضا برقرار ہے، اگر یہ انتخابات ہوتے ہیں تو یہ اہل کراچی کی خوش نصیبی ہوگی اگر نہ ہوئے تو یہ شہریوں کی بدقسمتی ہوگی۔
یقین جانیں جب میں یہ کالم لکھ رہا ہوںاب بھی یہ گمان ہے کہ کہیں رات کی تاریکی میں ایک بار پھر کراچی میں ممکنہ بلدیاتی انتخابات کسی نہ کسی بہانے ملتوی نہ کردیے جائیں۔
یہ وہم خوامخواہ نہیں ہے اس کے پیچھے سیاست کے جھوٹ مکر فریب چھپے ہوئے ہیں جو کھل کر سامنے نہیں آتے اور نہ ہی مکمل چھپ سکتے ہیں جب کہ دیدہ ور یہ کھیل تماشا دیکھتے رہے ہیں اور دیکھ رہے ہیں، جس کی تفصیلات میں اپنے پچھلے کالموں میں بیان کرچکا ہوں اور تازہ صورت حال سے آپ بھی آگاہ ہیں کہ کن کن حیلے بہانوں کا سہارا لے کر کراچی میں ممکنہ بلدیاتی انتخابات سے راہ فرار اختیار کیا جاتا رہا ہے لیکن بھلا ہو الیکشن کمیشن آف پاکستان کا جو آئین و قانون کی پاسداری کاعلمبردار ہے ورنہ دیگر صوبائی سرکار پی پی پی اور کراچی کا دم بھرنے والی جماعت ایم کیو ایم کی آخر دم تک یہ کوشش رہی ہے کہ کسی نہ کسی طرح سے کراچی کے ممکنہ بلدیاتی انتخابات کو ایک مرتبہ پھر التوا کا شکار کیا جاسکے۔
آج اگر کراچی میں بلدیاتی انتخابات کا ہونا ممکن ہوسکا ہے تو اس کا سہرا سپریم کورٹ آف پاکستان ، سندھ ہائی کورٹ ، الیکشن کمیشن آف پاکستان ، جماعت اسلامی کا مرہون منت ہے جو اگر ڈٹ نہ جاتے تو آنے والے وقتوں میں ممکنہ بلدیاتی انتخابات سیاسی طفل تسلیوں کا شکار ہوکر قصہ پارینہ بن جاتے۔
سیاسی طور پر لاوارث شہر کراچی میں دوسری بار بھی کسی سیاسی حکومت میں بلدیاتی انتخابات عدالتی حکم کے تحت منعقد ہورہے ہیں اس میں کسی جمہوری حکومت کا کوئی کارنامہ یاعمل دخل نہیں ہے جو کہ انتہائی شرم ناک سیاسی منظرنامہ ہے جس کے کرداروں میں وہ سیاسی شخصیات شامل ہیں جو صبح و شام کراچی کا دم بھرتے نظر آتے ہیں ، وہ بلدیاتی انتخابات کے حوالے سے دھمکی دیتے ہیں کہ ہم کسی کو کراچی میں بلدیاتی انتخابات نہیں کرانے دیں گے اور کہتے ہیں کہ ایک انسان کیا شریف ہوا کہ پورا شہر بدمعاش بن گیا۔
غور و فکر کا مقام ہے ! جب الیکشن کمیشن آف پاکستان نے پی پی پی کی کراچی میں ممکنہ بلدیاتی انتخابات کو ملتوی کرنے کی درخواستوں کو منظور کرنے کے بعد ایک مرتبہ پھر ان انتخابات کی تاریخ 15جنوری 2023ء مقرر کرنے کا فیصلہ کیا تو اس بار بڑی ہوشیار چالاکی سے ایم کیو ایم کو آگے لایا گیا اور وہ حلقہ بندیوں اور مردم شماری کے عذر لے کر الیکشن کمیشن کے روبرو پیش ہوئی تو وہاں اس کی درخواست مسترد ہوئی جس کے بعد اس نے الیکشن کمیشن کا کورم پورا نہ ہونے کا عذرسندھ ہائی کورٹ میں پیش کیا کہ یہ بلدیاتی انتخابات غیر قانونی ہونگے، وہاں بھی اس کی درخواست مسترد ہوئی تو سیاسی داؤ پیچ کا استعمال کیا گیا اور دھمکی دی گئی کہ اگر اس کے مطالبات پورے نہ کیے گئے تو ایم کیوایم پاکستان، مرکزی حکومت اور صوبہ سندھ کی حکومت سے الگ ہوجائیں گے جس کے فوری بعد سندھ سرکار نے اپنے کیے گئے حلقہ بندیوں کا نوٹیفکیشن واپس لے لیا جسے بعد میں الیکشن کمیشن نے غیر قانونی اور غیرآ ئینی قرار دیا، ایسے میں سندھ حکومت نے 15جنوری کو کراچی میں ممکنہ بلدیاتی انتخابات ملتوی کرنے کا اعلان کیا جس کے بعد الیکشن کمیشن نے اعلان کیا کہ ہر حال میں یہ انتخابات 15جنوری کوہی ہونگے۔
اس اعلان کے بعد ایم کیوایم نے ایک پریس کانفرنس کے ذریعے وفاقی اور صوبائی حکومتوں سے الگ ہونے کا اشارہ دیا جس کے بعد اسلام آباد میں ہلچل مچ گئی، اعلیٰ سطح پر رابطے شروع ہوئے لیکن الیکشن کمیشن آف پاکستان نے سندھ حکومت کی جانب سے الیکشن کمیشن کو دی گئی ممکنہ بلدیاتی انتخابات ملتوی کرنے کی درخواست کو مسترد کرتے ہوئے ایک بار پھر بلدیاتی انتخابات 15جنوری کو ہی کرنے کا اعادہ کیا تو الیکشن کمیشن کو بریفنگ دی گئی کہ ان انتخابات کے موقع پر دہشت گردی کاخدشہ ہے لیکن الیکشن کمیشن نے سندھ حکومت کوہدایت دی کہ وہ بلدیاتی انتخابات کرانے کے انتظامات مکمل کریں جس پر سندھ حکومت نے سر تسلیم خم کرلیا ،لیکن ایم کیو ایم پاکستان اپنے مطالبات منوانے پر بضد رہی اور ہنوز یہ رابطوں کا سلسلہ جاری ہے ۔ اس کالم کو جب آپ پڑھ رہے ہونگے تو صورتحال واضح ہوچکی ہوگی کہ اور کیا کچھ ہوتا رہا ہے۔
کراچی جو کبھی روشنیوں کا شہر کہلاتا تھا یعنی اسے عروس البلاد کے نام سے بھی پکارا جاتا رہا ہے ،جب ہم تاریخ کا مطالعہ کرتے ہیں تو پتہ چلتا ہے کہ ماضی میں کراچی کی سڑکوں کو دھویا جاتا تھا ۔شہر کی پر شکوہ عمارتیں اس بات کی دلیل ہے کہ کراچی کاشمار جنوبی ایشیا کے خوب صورت شہروں میں ہواکرتا تھا۔
پھر ہم انگریز سامراج کے چنگل سے آزاد ہوگئے، شہر کی آبادی میںاضافہ ہونا شروع ہوا، رفتہ رفتہ کراچی منی پاکستان کا روپ دھار گیا ۔ ہونا یہ چاہیے تھا کہ اس وقت سے لے کر تاحال یعنی پچھترسال کے دوران کراچی ایک مثالی شہرکہلاتا مگر ایسا نہیں ہوسکا بلکہ پہلے سے موجود اس کی خوبصورتی کوبھی بگاڑ دیا گیا۔
کراچی کی ترقی و خوشحالی لسانی سیاست کی نذر ہوگئی۔ بھائی ،بھائی کا دشمن ہوگیا ،منی پاکستان کراچی جو مختلف قومیتوں کا گلدستہ تھا اس کے پھول بکھرا دیے گئے ۔ شہر کی ترقی کا پہیہ جام کردیا گیا ، لوگوں کا گھروں سے باہر نکلنا خطرے سے خالی نہیں تھا ، صبح کو گھروں سے نکلنا اور شام کو واپس زندہ سلامت گھروں میں لوٹناکسی معجزے سے کم نہیں تھا ، شہر جل رہا تھااور کوئی آگ پر پانی ڈالنے والا نہیں تھا۔
ہر کوئی کراچی آنے سے گھبرایا کرتا تھا ، سیاسی حالات کہیں یا کہ سیاسی خلیج کے سبب کراچی ملک کے دیگر علاقوں سے کٹ کر رہ گیا تھا البتہ سیاسی توڑ جوڑ کے حوالے سے نامی گرامی سیاست دان کراچی کا رخ کرلیا کرتے تھے اور اپنے مفادات سمیٹ کر پھر مڑ کردیکھنا بھی گوارا نہیں کرتے تھے ۔
سیاسی سودا گروں نے کراچی کے مفادات کا سودا ذاتی مفادات حاصل کرکے کیا ۔ یہی وجہ ہے کہ آج ایک طرف شہر کنکریٹ کا جنگل بن گیا تو دوسری جانب دنیا کا تیسرا گندہ ترین شہر بن چکا ہے ۔ شہر کی تعمیر و ترقی پر توجہ دینے کے بجائے کراچی کے نام پرسیاسی مفادات حاصل کیے گئے اور ہنوز سیاسی سودا گروں کا یہ سلسلہ جاری و ساری ہے۔
کراچی بین الاقوامی یتیم خانے کا روپ دھار چکا ہے۔ غیرملکیوں کی بہتات ہوچکی ہے۔ ایک طرح سے کراچی لاوارث شہر بن چکا ہے، سب اپنے اپنے ذاتی مفادات کے حصول کے لیے سرگرم عمل ہیں ،کراچی باہر سے آنے والوں کے لیے دبئی ہے لیکن اصل مقامی باسیوں کے لیے دیار غیر بن چکا ہے۔
بہر کیف امید ہے کہ اس کالم کے چھپنے کے ساتھ ہی کراچی میں بلدیاتی انتخابات ہورہے ہونگے اور ووٹر شعوری طور پر اپنا ووٹ کا حق استعمال کرتے ہوئے شہرکے وارثوں کو منتخب کرنے میں مصروف ہونگے ، لیکن اگر اب بھی کسی نہ کسی بہانے کراچی میں ممکنہ بلدیاتی انتخابات ملتوی کیے جاتے ہیں تو یہ کراچی کی بڑی بدقسمتی ہونگی جس پر شہریوں کو سوچنا ہوگا کہ کون ان سے مخلص ہے اور کون نہیں ہے۔ خدا کرے، کراچی پھر سے ترقی و تعمیر کی شاہراہ پر گامزن ہو ں ۔ (آمین)
یقین جانیں جب میں یہ کالم لکھ رہا ہوںاب بھی یہ گمان ہے کہ کہیں رات کی تاریکی میں ایک بار پھر کراچی میں ممکنہ بلدیاتی انتخابات کسی نہ کسی بہانے ملتوی نہ کردیے جائیں۔
یہ وہم خوامخواہ نہیں ہے اس کے پیچھے سیاست کے جھوٹ مکر فریب چھپے ہوئے ہیں جو کھل کر سامنے نہیں آتے اور نہ ہی مکمل چھپ سکتے ہیں جب کہ دیدہ ور یہ کھیل تماشا دیکھتے رہے ہیں اور دیکھ رہے ہیں، جس کی تفصیلات میں اپنے پچھلے کالموں میں بیان کرچکا ہوں اور تازہ صورت حال سے آپ بھی آگاہ ہیں کہ کن کن حیلے بہانوں کا سہارا لے کر کراچی میں ممکنہ بلدیاتی انتخابات سے راہ فرار اختیار کیا جاتا رہا ہے لیکن بھلا ہو الیکشن کمیشن آف پاکستان کا جو آئین و قانون کی پاسداری کاعلمبردار ہے ورنہ دیگر صوبائی سرکار پی پی پی اور کراچی کا دم بھرنے والی جماعت ایم کیو ایم کی آخر دم تک یہ کوشش رہی ہے کہ کسی نہ کسی طرح سے کراچی کے ممکنہ بلدیاتی انتخابات کو ایک مرتبہ پھر التوا کا شکار کیا جاسکے۔
آج اگر کراچی میں بلدیاتی انتخابات کا ہونا ممکن ہوسکا ہے تو اس کا سہرا سپریم کورٹ آف پاکستان ، سندھ ہائی کورٹ ، الیکشن کمیشن آف پاکستان ، جماعت اسلامی کا مرہون منت ہے جو اگر ڈٹ نہ جاتے تو آنے والے وقتوں میں ممکنہ بلدیاتی انتخابات سیاسی طفل تسلیوں کا شکار ہوکر قصہ پارینہ بن جاتے۔
سیاسی طور پر لاوارث شہر کراچی میں دوسری بار بھی کسی سیاسی حکومت میں بلدیاتی انتخابات عدالتی حکم کے تحت منعقد ہورہے ہیں اس میں کسی جمہوری حکومت کا کوئی کارنامہ یاعمل دخل نہیں ہے جو کہ انتہائی شرم ناک سیاسی منظرنامہ ہے جس کے کرداروں میں وہ سیاسی شخصیات شامل ہیں جو صبح و شام کراچی کا دم بھرتے نظر آتے ہیں ، وہ بلدیاتی انتخابات کے حوالے سے دھمکی دیتے ہیں کہ ہم کسی کو کراچی میں بلدیاتی انتخابات نہیں کرانے دیں گے اور کہتے ہیں کہ ایک انسان کیا شریف ہوا کہ پورا شہر بدمعاش بن گیا۔
غور و فکر کا مقام ہے ! جب الیکشن کمیشن آف پاکستان نے پی پی پی کی کراچی میں ممکنہ بلدیاتی انتخابات کو ملتوی کرنے کی درخواستوں کو منظور کرنے کے بعد ایک مرتبہ پھر ان انتخابات کی تاریخ 15جنوری 2023ء مقرر کرنے کا فیصلہ کیا تو اس بار بڑی ہوشیار چالاکی سے ایم کیو ایم کو آگے لایا گیا اور وہ حلقہ بندیوں اور مردم شماری کے عذر لے کر الیکشن کمیشن کے روبرو پیش ہوئی تو وہاں اس کی درخواست مسترد ہوئی جس کے بعد اس نے الیکشن کمیشن کا کورم پورا نہ ہونے کا عذرسندھ ہائی کورٹ میں پیش کیا کہ یہ بلدیاتی انتخابات غیر قانونی ہونگے، وہاں بھی اس کی درخواست مسترد ہوئی تو سیاسی داؤ پیچ کا استعمال کیا گیا اور دھمکی دی گئی کہ اگر اس کے مطالبات پورے نہ کیے گئے تو ایم کیوایم پاکستان، مرکزی حکومت اور صوبہ سندھ کی حکومت سے الگ ہوجائیں گے جس کے فوری بعد سندھ سرکار نے اپنے کیے گئے حلقہ بندیوں کا نوٹیفکیشن واپس لے لیا جسے بعد میں الیکشن کمیشن نے غیر قانونی اور غیرآ ئینی قرار دیا، ایسے میں سندھ حکومت نے 15جنوری کو کراچی میں ممکنہ بلدیاتی انتخابات ملتوی کرنے کا اعلان کیا جس کے بعد الیکشن کمیشن نے اعلان کیا کہ ہر حال میں یہ انتخابات 15جنوری کوہی ہونگے۔
اس اعلان کے بعد ایم کیوایم نے ایک پریس کانفرنس کے ذریعے وفاقی اور صوبائی حکومتوں سے الگ ہونے کا اشارہ دیا جس کے بعد اسلام آباد میں ہلچل مچ گئی، اعلیٰ سطح پر رابطے شروع ہوئے لیکن الیکشن کمیشن آف پاکستان نے سندھ حکومت کی جانب سے الیکشن کمیشن کو دی گئی ممکنہ بلدیاتی انتخابات ملتوی کرنے کی درخواست کو مسترد کرتے ہوئے ایک بار پھر بلدیاتی انتخابات 15جنوری کو ہی کرنے کا اعادہ کیا تو الیکشن کمیشن کو بریفنگ دی گئی کہ ان انتخابات کے موقع پر دہشت گردی کاخدشہ ہے لیکن الیکشن کمیشن نے سندھ حکومت کوہدایت دی کہ وہ بلدیاتی انتخابات کرانے کے انتظامات مکمل کریں جس پر سندھ حکومت نے سر تسلیم خم کرلیا ،لیکن ایم کیو ایم پاکستان اپنے مطالبات منوانے پر بضد رہی اور ہنوز یہ رابطوں کا سلسلہ جاری ہے ۔ اس کالم کو جب آپ پڑھ رہے ہونگے تو صورتحال واضح ہوچکی ہوگی کہ اور کیا کچھ ہوتا رہا ہے۔
کراچی جو کبھی روشنیوں کا شہر کہلاتا تھا یعنی اسے عروس البلاد کے نام سے بھی پکارا جاتا رہا ہے ،جب ہم تاریخ کا مطالعہ کرتے ہیں تو پتہ چلتا ہے کہ ماضی میں کراچی کی سڑکوں کو دھویا جاتا تھا ۔شہر کی پر شکوہ عمارتیں اس بات کی دلیل ہے کہ کراچی کاشمار جنوبی ایشیا کے خوب صورت شہروں میں ہواکرتا تھا۔
پھر ہم انگریز سامراج کے چنگل سے آزاد ہوگئے، شہر کی آبادی میںاضافہ ہونا شروع ہوا، رفتہ رفتہ کراچی منی پاکستان کا روپ دھار گیا ۔ ہونا یہ چاہیے تھا کہ اس وقت سے لے کر تاحال یعنی پچھترسال کے دوران کراچی ایک مثالی شہرکہلاتا مگر ایسا نہیں ہوسکا بلکہ پہلے سے موجود اس کی خوبصورتی کوبھی بگاڑ دیا گیا۔
کراچی کی ترقی و خوشحالی لسانی سیاست کی نذر ہوگئی۔ بھائی ،بھائی کا دشمن ہوگیا ،منی پاکستان کراچی جو مختلف قومیتوں کا گلدستہ تھا اس کے پھول بکھرا دیے گئے ۔ شہر کی ترقی کا پہیہ جام کردیا گیا ، لوگوں کا گھروں سے باہر نکلنا خطرے سے خالی نہیں تھا ، صبح کو گھروں سے نکلنا اور شام کو واپس زندہ سلامت گھروں میں لوٹناکسی معجزے سے کم نہیں تھا ، شہر جل رہا تھااور کوئی آگ پر پانی ڈالنے والا نہیں تھا۔
ہر کوئی کراچی آنے سے گھبرایا کرتا تھا ، سیاسی حالات کہیں یا کہ سیاسی خلیج کے سبب کراچی ملک کے دیگر علاقوں سے کٹ کر رہ گیا تھا البتہ سیاسی توڑ جوڑ کے حوالے سے نامی گرامی سیاست دان کراچی کا رخ کرلیا کرتے تھے اور اپنے مفادات سمیٹ کر پھر مڑ کردیکھنا بھی گوارا نہیں کرتے تھے ۔
سیاسی سودا گروں نے کراچی کے مفادات کا سودا ذاتی مفادات حاصل کرکے کیا ۔ یہی وجہ ہے کہ آج ایک طرف شہر کنکریٹ کا جنگل بن گیا تو دوسری جانب دنیا کا تیسرا گندہ ترین شہر بن چکا ہے ۔ شہر کی تعمیر و ترقی پر توجہ دینے کے بجائے کراچی کے نام پرسیاسی مفادات حاصل کیے گئے اور ہنوز سیاسی سودا گروں کا یہ سلسلہ جاری و ساری ہے۔
کراچی بین الاقوامی یتیم خانے کا روپ دھار چکا ہے۔ غیرملکیوں کی بہتات ہوچکی ہے۔ ایک طرح سے کراچی لاوارث شہر بن چکا ہے، سب اپنے اپنے ذاتی مفادات کے حصول کے لیے سرگرم عمل ہیں ،کراچی باہر سے آنے والوں کے لیے دبئی ہے لیکن اصل مقامی باسیوں کے لیے دیار غیر بن چکا ہے۔
بہر کیف امید ہے کہ اس کالم کے چھپنے کے ساتھ ہی کراچی میں بلدیاتی انتخابات ہورہے ہونگے اور ووٹر شعوری طور پر اپنا ووٹ کا حق استعمال کرتے ہوئے شہرکے وارثوں کو منتخب کرنے میں مصروف ہونگے ، لیکن اگر اب بھی کسی نہ کسی بہانے کراچی میں ممکنہ بلدیاتی انتخابات ملتوی کیے جاتے ہیں تو یہ کراچی کی بڑی بدقسمتی ہونگی جس پر شہریوں کو سوچنا ہوگا کہ کون ان سے مخلص ہے اور کون نہیں ہے۔ خدا کرے، کراچی پھر سے ترقی و تعمیر کی شاہراہ پر گامزن ہو ں ۔ (آمین)