روٹی نامہ
میڈیا نے اپنی بساط بھراس مسئلے کو بھرپور اہمیت دی اور عوام کے حالات اور جذبات کو خود اُن کی زبانی پیش بھی کیا
دیکھا گیا ہے کہ کسی خاص واقعے یا صورتِ حال کی وجہ سے بعض اوقات طویل غنودگی کے عالم میں تقریباً فراموش شدہ نظمیں اچانک جاگ اُٹھتی ہیں اور اُن کی معنویت کے نئے دَر کھلنے لگ جاتے ہیں۔
نظیر اکبر آبادی کی ایک نظم ''روٹی نامہ'' کے ساتھ بھی کچھ ایسا ہی معاملہ ہوا ہے، تاریخ ہمیں بتاتی ہے کہ صدیوں تک برصغیر پاک و ہند میں استعمال ہونے والی گندم کا بیشتر حصہ پنجاب میں پیدا ہوتا تھا اور تقسیم اور قیامِ پاکستان کے بعد یہ فریضہ پاکستانی پنجاب کے نام لگ گیا جہاں تک مجھے یاد پڑتا ہے وطنِ عزیز میں وقتاً فوقتاً مختلف اجناس کی جزوی کمی تو دیکھنے میں آئی مگر گندم اور اُس سے بننے والے آٹے کی فراہمی کسی بھی دور میں مسئلہ نہیں رہے۔
گزشتہ کچھ برسوں سے طلب کی زیادتی اور زرعی شعبے کی غفلت کی وجہ سے کبھی کبھار اس کی درآمدکی نوبت تو آئی مگر ایسا کبھی نہیں ہوا کہ لوگوں کو اس کے لیے پورا پورا دن قطاروں میں کھڑا ہونا پڑے اور آٹے کے لیے خلقت کی زندگی عذاب کی شکل اختیارکر جائے، اس پر مستزاد یہ کہ حکومت ہو یا اپوزیشن دونوں کی ترجیحات میں اُن کے اپنے مسائل کچھ اور ہی تھے کہ دن رات عوام کی فلاح کے نعرے بلند کرنے والوں کے لیے اُن کی دو وقت کی روٹی اور اس سے منسلک آتے کی فراہمی اُن کا مسئلہ تھا ہی نہیں۔
میڈیا نے اپنی بساط بھراس مسئلے کو بھرپور اہمیت دی اور عوام کے حالات اور جذبات کو خود اُن کی زبانی پیش بھی کیا، سرکاری گاڑیوںکے آگے سڑک پر بزرگ لوگوں کو لیٹے اور آٹے کی عدم فراہمی کی صورت میں انھیں اپنے اوپر سے گزارنے کی آوازیں بھی سنیں۔
سنا ہے کہ پچاس کی دہائی میں سڑک کنارے واقع ڈھابا نما ہوٹلوں پر ایک آنے کی روٹی اور دال مفت کے آوازیں بھی لگائے جاتے تھے، مانا کہ دنیا کے ساتھ ساتھ ہمارے جیسے ملکوں میں بھی مہنگائی بہت بڑھی ہے لیکن اس کا یہ مطلب بھی نہیں کہ ایک آنے کی روٹی بیس روپے کی اور دال مفت کے بجائے چار سو روپے کلو ہوجائے، اب جب کہ پنجاب حکومت نے حسبِ وعدہ اسمبلی تحلیل کردی ہے اور سندھ حکومت نے الیکشن کمیشن کے حکم کے باوجود بلدیاتی انتخابات ملتوی کرنے کا متوقع اعلان کردیا ہے اور مبینہ طور پر باہر سے کچھ گندم اور سویا بین بھی منگوا لی گئی ہے، مرغی اور آٹے کی آسمانوں کو چُھوتی ہوئی قیمتوں کو بھی کچھ بریک لگی ہے۔
شاعر خوشنوا اور برادرِ عزیز فاروق طراز کی بھجوائی ہوئی نظیر اکبر آبادی کی نظم بار بار یہ تقاضا کر رہی ہے کہ اُسے اپنے قارئین کے ساتھ شیئر کیا جائے، ظاہر ہے درمیان کی تقریباً تین صدیوں کی وجہ سے اس کی زبان ، ماحول، فکر اور استعاروں کی تفہیم میں کہیں کہیں کچھ مسائل دَر آئے ہیں اور بہت سی چیزوں اور کرداروں کے نام بھی اپنی متعلقہ خصوصیات سمیت قدرے دھندلا سے گئے ہیں مگر روٹی کے ساتھ انسان کے اس اَزلی رشتے کے جو معاشی، اخلاقی، نفسیاتی، روحانی اور فکری پہلو اس نظم میں بیان کیے گئے ہیں، انھیں اگر اپنی مثال آپ کہا جائے تو غلط نہ ہوگا، مجھے یقین ہے کہ میری طرح آپ بھی اس نظم کے ہر بند سے محظوظ ہوں گے۔
جب آدمی کے پیٹ میں آتی ہیں روٹیاں
پُھولی نہیں بدن میں سماتی ہیں روٹیاں
آنکھیں پری رُخوں سے لڑاتی ہیں روٹیاں
سینے اُپر بھی ہاتھ چلاتی ہیں روٹیاں
جتنے مزے ہیں سب یہ دکھاتی ہیں روٹیاں
روٹی سے جس کا ناک تلک پیٹ ہے بھرا
کرتا پڑے ہے کیا وہ اُچھل کُود جا بجا
دیوار پھاند کر کوئی کوٹھا اُچھل گیا
ٹھٹھا، ہنسی، شراب، صنم، ساقی، اس سوا
سوسو طرح کی دھوم مچاتی ہیں روٹیاں
آوے توے تنورکاجس جا زباں پہ نام
یا چکّی چولہے کے جہاں گلزار ہوں تمام
واں سر جھکا کے کیجیے ڈنڈوت اور سلام
اس واسطے کے خاص یہ روٹی کے ہیں مقام
پہلے انھی مکانوں میں آتی ہیں روٹیاں
پوچھا کسی نے یہ کسی کامل فقیر سے
یہ مہروماہ حق نے بنائے ہیں کاہے کے
وہ سُن کے بولا بابا خدا تجھ کو خیر دے
ہم تو نہ چاند سمجھیں نہ سورج ہیں جانتے
بابا ہمیں تو یہ نظر آتی ہیں روٹیاں
پھر پوچھا اُس نے کہیئے یہ ہے دل کا طُور کیا
اس کے مشاہدے میں ہے کھلتا ظہور کیا
وہ بولا سن کے تیرا گیا ہے شعور کیا
کشف القلوب اور یہ کشف القبور کیا
جتنے ہیں کشف سب یہ دکھاتی ہیں روٹیاں
روٹی جب آئی پیٹ میں سو قند گُھل گئے
گلزار پُھولے آنکھوں میں اور عیش تُل گئے
وہ تر نوالے پیٹ میں جب آکے ٹُھل گئے
چودہ طبق کے جتنے تھے سب بھید کُھل گئے
یہ کشف یہ کمال دکھاتی ہیں روٹیاں
روٹی نہ پیٹ میں ہو تو پھر کچھ جتن نہ ہو
میلے کی سیر، خواہشِ باغ و چمن نہ ہو
بُھوکے غریب دل کی خدا سے لگن نہ ہو
سچ ہے کہا کسی نے کہ بھوکے بھجن نہ ہو
اللہ کی بھی یاد دلاتی ہیں روٹیاں
کپڑے کسی کے لال ہیں روٹی کے واسطے
لمبے کسی کے بال ہیں روٹی کے واسطے
باندھے کوئی رومال ہیں روٹی کے واسطے
سب کشف اورکمال ہیں روٹی کے واسطے
جتنے ہیں رُوپ سب یہ دکھاتی ہیں روٹیاں
روٹی کے ناچ تو ہیں سبھی خلق میں پڑے
کچھ بھانڈ بھیگتے یہ نہیں ناچتے پھرے
یہ رنڈیاں جو ناچے ہیں گھونگھٹ کو منہ پہ لے
گھونگھٹ نہ جانو دوستو تم زینہار اُسے
اس پردے میں یہ اپنی کماتی ہیں روٹیاں
روٹی کا اب ازل سے ہمارا تو ہے خمیر
رُوکھی ہی روٹی حق میں ہمارے ہے شہد و شیر
یاپتلی ہووے موٹی خمیری ہو یا فطیر
گیہوں جوار باجرے کی جیسی ہو نظیرؔ
ہم کو تو سب طرح کی خوش آتی ہیں روٹیاں
نظیر اکبر آبادی کی ایک نظم ''روٹی نامہ'' کے ساتھ بھی کچھ ایسا ہی معاملہ ہوا ہے، تاریخ ہمیں بتاتی ہے کہ صدیوں تک برصغیر پاک و ہند میں استعمال ہونے والی گندم کا بیشتر حصہ پنجاب میں پیدا ہوتا تھا اور تقسیم اور قیامِ پاکستان کے بعد یہ فریضہ پاکستانی پنجاب کے نام لگ گیا جہاں تک مجھے یاد پڑتا ہے وطنِ عزیز میں وقتاً فوقتاً مختلف اجناس کی جزوی کمی تو دیکھنے میں آئی مگر گندم اور اُس سے بننے والے آٹے کی فراہمی کسی بھی دور میں مسئلہ نہیں رہے۔
گزشتہ کچھ برسوں سے طلب کی زیادتی اور زرعی شعبے کی غفلت کی وجہ سے کبھی کبھار اس کی درآمدکی نوبت تو آئی مگر ایسا کبھی نہیں ہوا کہ لوگوں کو اس کے لیے پورا پورا دن قطاروں میں کھڑا ہونا پڑے اور آٹے کے لیے خلقت کی زندگی عذاب کی شکل اختیارکر جائے، اس پر مستزاد یہ کہ حکومت ہو یا اپوزیشن دونوں کی ترجیحات میں اُن کے اپنے مسائل کچھ اور ہی تھے کہ دن رات عوام کی فلاح کے نعرے بلند کرنے والوں کے لیے اُن کی دو وقت کی روٹی اور اس سے منسلک آتے کی فراہمی اُن کا مسئلہ تھا ہی نہیں۔
میڈیا نے اپنی بساط بھراس مسئلے کو بھرپور اہمیت دی اور عوام کے حالات اور جذبات کو خود اُن کی زبانی پیش بھی کیا، سرکاری گاڑیوںکے آگے سڑک پر بزرگ لوگوں کو لیٹے اور آٹے کی عدم فراہمی کی صورت میں انھیں اپنے اوپر سے گزارنے کی آوازیں بھی سنیں۔
سنا ہے کہ پچاس کی دہائی میں سڑک کنارے واقع ڈھابا نما ہوٹلوں پر ایک آنے کی روٹی اور دال مفت کے آوازیں بھی لگائے جاتے تھے، مانا کہ دنیا کے ساتھ ساتھ ہمارے جیسے ملکوں میں بھی مہنگائی بہت بڑھی ہے لیکن اس کا یہ مطلب بھی نہیں کہ ایک آنے کی روٹی بیس روپے کی اور دال مفت کے بجائے چار سو روپے کلو ہوجائے، اب جب کہ پنجاب حکومت نے حسبِ وعدہ اسمبلی تحلیل کردی ہے اور سندھ حکومت نے الیکشن کمیشن کے حکم کے باوجود بلدیاتی انتخابات ملتوی کرنے کا متوقع اعلان کردیا ہے اور مبینہ طور پر باہر سے کچھ گندم اور سویا بین بھی منگوا لی گئی ہے، مرغی اور آٹے کی آسمانوں کو چُھوتی ہوئی قیمتوں کو بھی کچھ بریک لگی ہے۔
شاعر خوشنوا اور برادرِ عزیز فاروق طراز کی بھجوائی ہوئی نظیر اکبر آبادی کی نظم بار بار یہ تقاضا کر رہی ہے کہ اُسے اپنے قارئین کے ساتھ شیئر کیا جائے، ظاہر ہے درمیان کی تقریباً تین صدیوں کی وجہ سے اس کی زبان ، ماحول، فکر اور استعاروں کی تفہیم میں کہیں کہیں کچھ مسائل دَر آئے ہیں اور بہت سی چیزوں اور کرداروں کے نام بھی اپنی متعلقہ خصوصیات سمیت قدرے دھندلا سے گئے ہیں مگر روٹی کے ساتھ انسان کے اس اَزلی رشتے کے جو معاشی، اخلاقی، نفسیاتی، روحانی اور فکری پہلو اس نظم میں بیان کیے گئے ہیں، انھیں اگر اپنی مثال آپ کہا جائے تو غلط نہ ہوگا، مجھے یقین ہے کہ میری طرح آپ بھی اس نظم کے ہر بند سے محظوظ ہوں گے۔
جب آدمی کے پیٹ میں آتی ہیں روٹیاں
پُھولی نہیں بدن میں سماتی ہیں روٹیاں
آنکھیں پری رُخوں سے لڑاتی ہیں روٹیاں
سینے اُپر بھی ہاتھ چلاتی ہیں روٹیاں
جتنے مزے ہیں سب یہ دکھاتی ہیں روٹیاں
روٹی سے جس کا ناک تلک پیٹ ہے بھرا
کرتا پڑے ہے کیا وہ اُچھل کُود جا بجا
دیوار پھاند کر کوئی کوٹھا اُچھل گیا
ٹھٹھا، ہنسی، شراب، صنم، ساقی، اس سوا
سوسو طرح کی دھوم مچاتی ہیں روٹیاں
آوے توے تنورکاجس جا زباں پہ نام
یا چکّی چولہے کے جہاں گلزار ہوں تمام
واں سر جھکا کے کیجیے ڈنڈوت اور سلام
اس واسطے کے خاص یہ روٹی کے ہیں مقام
پہلے انھی مکانوں میں آتی ہیں روٹیاں
پوچھا کسی نے یہ کسی کامل فقیر سے
یہ مہروماہ حق نے بنائے ہیں کاہے کے
وہ سُن کے بولا بابا خدا تجھ کو خیر دے
ہم تو نہ چاند سمجھیں نہ سورج ہیں جانتے
بابا ہمیں تو یہ نظر آتی ہیں روٹیاں
پھر پوچھا اُس نے کہیئے یہ ہے دل کا طُور کیا
اس کے مشاہدے میں ہے کھلتا ظہور کیا
وہ بولا سن کے تیرا گیا ہے شعور کیا
کشف القلوب اور یہ کشف القبور کیا
جتنے ہیں کشف سب یہ دکھاتی ہیں روٹیاں
روٹی جب آئی پیٹ میں سو قند گُھل گئے
گلزار پُھولے آنکھوں میں اور عیش تُل گئے
وہ تر نوالے پیٹ میں جب آکے ٹُھل گئے
چودہ طبق کے جتنے تھے سب بھید کُھل گئے
یہ کشف یہ کمال دکھاتی ہیں روٹیاں
روٹی نہ پیٹ میں ہو تو پھر کچھ جتن نہ ہو
میلے کی سیر، خواہشِ باغ و چمن نہ ہو
بُھوکے غریب دل کی خدا سے لگن نہ ہو
سچ ہے کہا کسی نے کہ بھوکے بھجن نہ ہو
اللہ کی بھی یاد دلاتی ہیں روٹیاں
کپڑے کسی کے لال ہیں روٹی کے واسطے
لمبے کسی کے بال ہیں روٹی کے واسطے
باندھے کوئی رومال ہیں روٹی کے واسطے
سب کشف اورکمال ہیں روٹی کے واسطے
جتنے ہیں رُوپ سب یہ دکھاتی ہیں روٹیاں
روٹی کے ناچ تو ہیں سبھی خلق میں پڑے
کچھ بھانڈ بھیگتے یہ نہیں ناچتے پھرے
یہ رنڈیاں جو ناچے ہیں گھونگھٹ کو منہ پہ لے
گھونگھٹ نہ جانو دوستو تم زینہار اُسے
اس پردے میں یہ اپنی کماتی ہیں روٹیاں
روٹی کا اب ازل سے ہمارا تو ہے خمیر
رُوکھی ہی روٹی حق میں ہمارے ہے شہد و شیر
یاپتلی ہووے موٹی خمیری ہو یا فطیر
گیہوں جوار باجرے کی جیسی ہو نظیرؔ
ہم کو تو سب طرح کی خوش آتی ہیں روٹیاں